اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے نکتۂ نظر کا جائزہ- مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  ۷، ۸، ۹ فروری ۲۰۱۵ء

جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں جو تحریکیں نفاذ اسلام یا دنیا میں اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں وہ اسلام کی روح کے مطابق نہیں ہیں۔ بہت سے اصحاب علم نے اس پر اظہار خیال کیا ہے اور میں بھی کچھ معروضات پیش کرنا مناسب خیال کر رہا ہوں۔ لیکن اب تک جن احباب کے مضامین اس حوالہ سے میری نظر سے گزرے ہیں وہ اپنے موقف کی وضاحت کی حد تک تو بالکل ٹھیک ہیں لیکن ان میں اس پہلو سے کسی حد تک خلاء محسوس ہو رہا ہے کہ غامدی صاحب کے افکار اور استدلال کے جواب کے لیے ہم اپنے مسلمات کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں۔ جبکہ جن اصولوں اور حوالوں سے غامدی صاحب پر نقد کیا جا رہا ہے وہ سرے سے ان کے مسلمات میں شامل ہی نہیں ہیں۔


چونکہ غامدی صاحب نے مسلمات اور استدلالات کے باب میں امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور جمہور اہل علم کے موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ اصول اور اصطلاحات از سر نو خود وضع کر لی ہیں، اور استدلال و استنباط کے زاویے بھی از سر نو طے کیے ہیں۔ اس لیے میرے خیال سے غامدی صاحب اور ان کے حلقہ سے مباحثہ و مکالمہ کرنے کے لیے مسائل و احکام سے پہلے ان کے اصول و مسلمات کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ واضح کرنا زیادہ ضروری ہے کہ امت کے اجماعی تعامل اور جمہور اہل علم کے مسلمات کو کراس کر کے اصول و مسلمات کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ وقت کا ضیاع اور بے جا تکلف ہونے کے ساتھ ساتھ استشراق کے عنوان سے مغرب کی اس علمی و فکری تحریک کی آبیاری کا باعث بھی بنتی ہے جو وہ گزشتہ تین صدیوں سے اسلام کے ساتھ امت مسلمہ کے اجتماعی اور معاشرتی تعلق کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔

مثال کے طور پر ’’سنت‘‘ کا وہ مفہوم جو صحابہ کرامؓ سے لے کر اب تک پوری امت میں عام طور پر سمجھا جا رہا ہے اور اس پر معاشرتی طور پر عمل بھی ہو رہا ہے، اس پر غامدی صاحب کو اطمینان نہیں ہے۔ اس لیے انہیں سنت کا مفہوم اور دائرہ از سر نو طے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سنت در اصل دین ابراہیمیؑ کی روایت کے تسلسل کا نام ہے۔ اس پر اور اس نوعیت کے بعض دیگر مسائل پر غامدی صاحب اور ان کے حلقہ کے ساتھ کچھ عرصہ قبل میرا تفصیلی مکالمہ ہوا تھا جو کتابی صورت (پی ڈی ایف فائل) میں الشریعہ اکادمی (پوسٹ بکس ۳۳۱ جی پی او) گوجرانوالہ کی طرف سے شائع بھی ہو چکا ہے۔ مگر اس وقت اس ساری بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے غامدی صاحب کے اس موقف کا کہ ’’اسلام کا مخاطب صرف فرد ہے اور اسلام کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ ہم انہی کے طے کردہ اس اصول و منہج کی روشنی میں جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ ’’سنت‘‘ دین ابراہیمیؑ کی روایت کے تسلسل کا نام ہے۔

مگر اس موقع پر پہلے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ دین ابراہیمیؑ کا سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آغاز ہوا تھا، یا وہ بھی ماضی کے کسی تسلسل کا حصہ ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر اس تسلسل سے مراد وحی الٰہی اور سلسلہ نبوت ہے تو اس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے جنت پر اترنے سے قبل ہی ہوگیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے فرمایا تھا کہ اب تم زمین پر اتر جاؤ۔ وہاں تمہارے پاس میری طرف سے ہدایات آئیں گی جن کی پیروی پر تمہاری فلاح و نجات کا مدار ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانی سوسائٹی کی آبادی کے آغاز پر ہی واضح فرما دیا تھا کہ زمین پر انسانی سوسائٹی کی بنیاد وحی الٰہی پر ہوگی اور آسمانی تعلیمات ہی انسانی سوسائٹی کی فلاح و نجات کی واحد اساس ہوں گی (البقرہ ۳۸)۔

جبکہ نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک جتنے پیغمبر بھی آئے ہیں انہوں نے فرد کو خطاب کرنے کی بجائے ’’یا قوم‘‘ کہہ کر خطاب کیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور آسمانی تعلیمات کا خطاب ہمیشہ فرد کی بجائے قوم اور سوسائٹی سے رہا ہے، اور ان کی تعلیمات فرد، خاندان، سوسائٹی اور قوم کے تمام دائروں کا احاطہ کرتی آرہی ہیں۔

لیکن اگر ماضی کے تسلسل سے خدانخواستہ قطع نظر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی سے بات شروع کرنی ہے تو اس دائرہ میں بھی بات کو دیکھا جا سکتا ہے اور قرآن کریم سے ہی اس کی چند جھلکیاں انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے حضرت یوسف علیہ السلام نے جو ظاہر ہے کہ دین ابراہیمی پر ہی تھے، مصر پر ایک عرصہ حکومت کی ہے۔ یہ اقتدار انہوں نے اپنی اہلیت و امانت کا حوالہ دے کر خود طلب کیا تھا، وہ نبوت بھی کرتے تھے اور ان پر وحی بھی نازل ہوتی تھی۔ بلکہ اپنے بھائی حضرت بنیامین علیہ السلام کو اپنے پاس رکھنے کے لیے انہوں نے جو تدبیر اختیار کی تھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ کذلک کدنا لیوسف کہ یہ تدبیر ہم نے انہیں سکھائی تھی۔ اس لیے یہ کہنا آخر کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے کہ وحی الٰہی کا اجتماعی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو جب کوہ طور پر نبوت ملی تو ان کے منصب میں صرف افراد کی اصلاح شامل نہیں تھی بلکہ ان ارسل معنا بنی اسرائیل کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم اور غلامی سے نجات دلانا بھی ان کے فرائض میں شامل کر دیا تھا۔ اور وہ بنی اسرائیل کی دینی راہ نمائی کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد آزادی کے قائد بھی بن گئے تھے۔

وادی تیہہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں داخل ہونے کا جو حکم دیا تھا وہ محض سیر و سیاست کے لیے نہیں تھا بلکہ جہاد کا حکم تھا جس کا مقصد ’’بیت المقدس‘‘ پر دشمنوں کا قبضہ ختم کرا کے وہاں اپنی ریاست قائم کرنا تھا۔ اس کی تفصیلات قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اور بعد میں حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کے ذریعہ یہ سلطنت قائم بھی ہو گئی تھی۔

حضرت طالوتؒ اور جالوت کی جنگ کا قصہ قرآن کریم نے خود بیان کیا ہے کہ جالوت بادشاہ کے جبر و ظلم سے نجات کے لیے جب بنی اسرائیل کے نوجوانوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنا بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست وقت کے پیغمبر علیہ السلام سے کی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طالوت کو بادشاہ بنانے کا اعلان کیا جس کا مطلب واضح ہے کہ ابراہیمی روایت کے تسلسل میں بادشاہ کا تقرر اللہ تعالیٰ کرتے تھے اور وہ وحی کے ذریعہ ہوتا تھا۔
سورۃ المائدہ کی آیت ۴۴ تا ۵۰ میں اللہ رب العزت نے دین ابراہیمؑ میں نازل ہونے والی وحی کا ذکر کیا ہے۔ پہلے توراۃ کا تذکرہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور بنی اسرائیل کے علماء کرام توراۃ کے مطابق لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور لفظ یحکم کا ارشاد فرمایا ہے جس میں فیصلہ اور حکومت دونوں شامل ہیں۔ اس کے بعد انجیل کا ذکر کیا ہے اور اہل انجیل کے لیے اپنے اس حکم کو بیان کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے انجیل کے مطابق کیا کریں۔ پھر ان کے ساتھ قرآن کریم کو جوڑا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے کہ آپ کی طرف ہم نے کتاب نازل کی ہے اور اس لیے نازل کی ہے کہ ان احکم بینہم بما انزل اللہ آپ بھی وحی الٰہی کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کیا کریں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ توراۃ، انجیل اور قرآن کریم تینوں کا نزول ’’حکم‘‘ کے لیے ہوا ہے۔ اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ (درجہ بدرجہ) کافر، فاسق اور ظالم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وحی الٰہی کے مطابق فیصلے نہ کرنے کو حکم الجاہلیۃ سے تعبیر فرمایا ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم نے خلافت کے عنوان سے کیا ہے اور اس کا مقصد بیان کیا ہے کہ فاحکم بین الناس بالحق لوگوں کے درمیان حق کے مطابق حکم و فیصلہ کریں۔ حتیٰ کہ ایک مرحلہ پر کسی مقدمہ میں ان کے فیصلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس مقدمہ میں ان کی بجائے حضرت سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ زیادہ صائب تھا، اور ففھمناھا سلیمان وہ ہم نے انہیں سمجھایا تھا، جو واضح کرتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت و ریاست کی بنیاد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات تھیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق حکومت کرتے تھے۔

یہ بات کہ وحی الٰہی کا خطاب صرف فرد سے نہیں بلکہ خاندان، سوسائٹی اور قوم سے بھی ہوتا ہے اور ریاست و حکومت کا صحیح معیار ہمیشہ آسمانی تعلیمات رہی ہیں، قرآن کریم میں اس کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں۔ مگر صرف چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہوئے یہ عرض کریں گے کہ اگر ’’سنت‘‘ کو صرف دین ابراہیمیؑ کی روایت تک ہی بالفرض محدود سمجھ لیا جائے تو اس دائرہ میں بھی سوسائٹی کے اجتماعی مسائل کو آسمانی تعلیمات کے دائرہ سے خارج قرار دینا اور ریاست کو وحی الٰہی کی پابندی سے آزاد سمجھنا قطعی طور پر غیر واقعی اور غیر منطقی بات ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس تسلسل کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ ایک نبی کے چلے جانے کے بعد دوسرا نبی آجاتا تھا۔ میرے بعد چونکہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اس لیے میرے بعد خلفاء ہوں گے جو اس تسلسل کو جاری رکھیں گے۔

اس پس منظر میں ہماری گزارش ہے کہ اسلام کی بنیاد پر ریاست کا قیام اور حکومت کی تشکیل، نیز سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں آسمانی تعلیمات کا نفاذ اسلام کی اصل روح اور اس کے مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے اسے لفظی موشگافیوں اور فکری تانوں بانوں کے ذریعے دھندلکوں میں گم کرنے کی کوشش کو اسلام کی صحیح تعبیر یا امت مسلمہ کی خدمت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

آسمانی تعلیمات کا مخاطب صرف فرد ہے یا سوسائٹی اور قوم بھی ہے، نیزاسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ ان دو سوالوں کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی کے ایک حالیہ مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے انہی کے فلسفہ کے مطابق دین ابراہیمیؑ کی روایت سے کچھ جھلکیاں پیش کی تھیں، اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مزید مناظر قارئین کے سامنے لانے کو جی چاہتا ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور ان کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کے بعد انہی کے حکم پر اردن کے علاقہ کی طرف بطور نبی تشریف لے گئے تھے۔ انہیں جس قوم سے واسطہ پڑا وہ کافر و مشرک ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کی لعنت میں بھی مبتلا تھی، جس کی بہت سی تفصیلات قرآن کریم نے بیان کی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اس علاقہ کے لوگوں کو فردًا فردًا توحید و عبادت کی دعوت دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’ہم جنس پرستی‘‘ کے معاشرتی جرم کے خاتمہ کے لیے بھی جدوجہد کی۔ اس سلسلہ میں قوم سے جو باتیں انہوں نے فرمائیں اور آزمائش کے جن مراحل سے گزرے وہ اگر آج کے دور میں ہوتا تو انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر میڈیا اور لابنگ کی قوتیں اپنا سب سے بڑا ہدف قرار بنا لیتیں۔ اور مغربی ملکوں کے بہت سے شہروں میں انہیں مخالفانہ مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کا کام صرف فرد کی اصلاح نہیں بلکہ معاشرہ کی مجموعی اصلاح اور معاشرتی خرابیوں کا سد باب بھی انبیاء کرامؑ کے فرائض منصبی میں شامل رہا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاصر بلکہ خسر بزرگوار تھے۔ اقبالؒ نے ان کے باہمی تعلق کو اس لہجے میں بیان کیا ہے کہ

اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
وہ مدین کے علاقہ کی طرف مبعوث ہوئے اور اس قوم کا سامنا کیا جو ’’تجارتی کرپشن‘‘ میں مبتلا تھی اور سودا کاری میں بد دیانتی اس کے گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی جدوجہد کو صرف فرد کی اصلاح تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس معاشرتی جرم کے خلاف بھی آواز بلند کی اور تجارتی بد دیانتی کو دنیا و آخرت کا خسارہ قرار دے کر قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ تجارتی بد دیانتی سے باز آجانے کی بھی تلقین کی۔ حتیٰ کہ ان کی اس دعوت پر قوم کے لوگوں نے جو تبصرہ کیا وہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ

’’اے شعیبؑ ! کیا تمہاری نماز تمہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ تم ہمیں اس حق سے محروم کر دو کہ ’’ہم اپنے مال و دولت میں اپنی خواہش کے مطابق تصرف کر سکیں۔‘‘

یہ حلال و حرام کے تصور سے بے نیاز اسی ’’فری اکانومی‘‘ کی صدائے اولین تھی جو آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور جسے جواز فراہم کرنے کے لیے ہمارے بہت سے دانش وروں کو مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کرنا پڑ رہی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت دنیا کی مسلمہ بادشاہتوں میں سے ہے اور اسی سلطنت کی یاد ابھی تک مٹھی بھر یہودیوں کو بے چین رکھے ہوئے ہے۔ اس بادشاہت کے متعدد مناظر قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں، جن میں ایک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کو ’’ہد ہد‘‘ نے آکر خبر دی کہ آپ کے پڑوس میں ایک سلطنت ہے جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔ میں وہاں سے ہو کر آیا ہوں، ایک خاتون وہاں حکمران ہے اس کا تخت بڑا عظیم ہے اور وہ قوم اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتی ہے۔ یہ خبر سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو پہلا پیغام اس قوم کی ملکہ کی طرف بھیجا وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد صرف دو جملوں پر مشتمل تھا:

’’مجھ پر سرکشی نہ کرو اور اطاعت قبول کر کے میرے پاس آجاؤ۔‘‘

ایک اجنبی قوم جس کے ساتھ اس سے قبل کسی قسم کے مثبت یا منفی تعلقات نہیں تھے، اچانک اس طرح کا پیغام بھیجنے کا مطلب اس کے سوا کیا بنتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول اور خلیفہ حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین تھے۔ اور ’’خلیفہ‘‘ ہونے کی حیثیت سے اپنی قوم کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کی اصلاح بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ اس لیے انہوں نے یہ معلوم ہوتے ہی کہ وہ قوم کفر و شرک میں مبتلا ہے، اس کی آزادانہ حیثیت کو سرکشی سے تعبیر کرتے ہوئے پہلا پیغام ہی اطاعت قبول کرنے کا بھجوا دیا۔ قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے مطابق قوم سبا کی ملکہ بلقیس نے اس کے جواب میں صلح و مفاہمت کا پیغام بھجوایا۔ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے مسترد کرتے ہوئے اس ملک کے خلاف ’’فوج کشی‘‘ کی دھمکی اور ذلیل کر کے ملک سے باہر نکال دینے کا الارم دیا جس پر ملکہ سبا نے اسلام قبول کر کے غیر مشروط اطاعت کا اظہار کیا اور قوم کے نمائندوں کے ہمراہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئی۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ واقعہ اگر آج کے دور میں ہوتا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا باقاعدہ اجلاس ہوتا اور مختلف ملکوں کی مشترکہ فوج تشکیل دے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملک پر چڑھائی کر دی جاتی کہ آپ کو دوسری قوموں کی اصلاح و ایمان کی کیا فکر پڑی ہوئی ہے؟

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

اس سلسلہ میں ایک دلچسپ مکالمے کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں چند سال قبل امریکہ کی ریاست ورجینیا کے ایک تعلیمی ادارے میں ٹھہرا ہوا تھا کہ کچھ حضرات ملنے کے لیے آئے اور مختلف مسائل پر گفتگو کی۔ دوران گفتگو انہوں نے فرمایا کہ مغربی معاشروں میں مذہب کی طرف واپسی کے رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں اور اب واضح محسوس ہونے لگے ہیں، جس سے یہاں کے بعض ارباب حل و عقد کو پریشانی ہے کہ نفس مذہب کی واپسی تو کوئی ایسی بات نہیں ہے لیکن کیا مذہب سوسائٹی میں واپس آکر اجتماعی اور معاشرتی مسائل میں پھر سے دخل دینا تو شروع نہیں کر دے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ مغرب بالخصوص امریکہ کی دانش گاہوں میں اس نکتہ پر ریسرچ ہو رہی ہے اور مختلف لوگوں کا نقطہ نظر معلوم کیا جا رہا ہے۔

یہ پس منظر بتا کر انہوں نے میری رائے دریافت کرنا چاہی تو میں نے عرض کیا کہ دوستو! اگر تو واپس آنے والا مذہب ’’فی الواقع مذہب‘‘ ہوا تو وہ ضرور مداخلت کرے گا۔ اس لیے کہ نبی اور مذہب صرف فرد کی اصلاح کے لیے نہیں آتے بلکہ سوسائٹی کی اصلاح بھی ان کے مقاصد میں شامل رہی ہے۔ اب قرآن ہی کو لے لیجیے، وہ صرف فرد کی بات نہیں کرتا، خاندان کی بات بھی کرتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ احکام و قوانین دیتا ہے۔ جبکہ خاندان کے دائرہ سے نکل کر تجارت، عدالت، معیشت، سیاست اور دیگر قومی شعبوں کے لیے بھی اس کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ یہ سب ہدایات قرآن کریم نے ایک ہی لہجہ میں دی ہیں۔ انہیں لازمی اور اختیاری مضامین میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے قرآن کریم نے یہ بات پوری صراحت کے ساتھ کہہ دی ہے کہ

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔‘‘