ڈاکٹر خضر یاسین صاحب سے ایک مکالمہ

"حاکمیتِ قرآن" کے بل پر عامۃ المسلمین کی تکفیر و تضلیل

کاشف علی خان شیروانی-طارق محمود ہاشمی

مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور وحی پر مبنی ہے۔ نبی ﷺ کے امتی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے کلام کو اللہ تعالی کے کلام کے برابر یا اس سے افضل سمجھیں۔ اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ ہے،جس کو مسلمان ضروریات دین میں سے سمجھتے ہیں، اس میں کسی تاویل کو قبول نہیں کرتے، اور اس کا انکار کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خضر یاسین صاحب نے "حرفِ نیم گفتہ" پر تشریف لا کر ایک گفتگو شروع کی، جس کی پہلی قسط میں لکھا: 

"آپ فقہ اور اصولِ فقہ سے باخبر ہیں تو اس سے انکار نہیں کر سکتےکہ منزّل حکم اور مستنبط حکم کے فرق کو متعین کیے بغیرفقہ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔نتیجہ ظاہر ہے کہ کنز، قدوری، ہدایہ، اور قاضیخان کے مندرجات حکم اللہ سے کچھ کم نہیں ہیں۔"

اس کا مطلب واضح ہے۔ "فقہ اور اصول فقہ" سے مراد تمام علم فقہ ہے، کسی خاص فرقے کا نہیں۔ انہوں نے مثال کے طور پر اگر کتبِ فقہ حنفیہ کاذکر فرمایا، وہ اپنے فوری مخاطبین کی رعایت سے ہے۔ "فقہ اور اصول فقہ" عام ہیں، جس سے تمام مسلمانوں کی "فقہ اور اصول فقہ" مراد ہیں۔ خضر یاسین صاحب کے نزدیک منزّل حکم فقط قرآن مجید میں پایا جاتا ہے، جب کہ فقہ کی کتابوں میں مستنبط حکم پایا جاتا ہے۔ سو ان کے خیال میں مسلمانوں کے نزدیک "قدوری وغیرہ کے مندرجات حکم اللہ سے کچھ کم نہیں ہیں"، یعنی مسلمان فقہ کی کتابوں کو یا قرآن مجید کے برابر ، یا اس سے افضل سمجھتے ہیں۔ "حرفِ نیم گفتہ" نے حسنِ ظن کی بنا پر،ان کی عبارت کا شنیع تر مفہوم لینے کی بجائے اول الذکر مفہوم لیا، یعنی خضر یاسین صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے نزدیک قدوری وغیرہ کے مندرجات "حکم اللہ" ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے نزدیک، قدوری وغیرہ کے مندرجات اگر قرآن مجید سے افضل نہیں، تو کم از کم قرآن مجید کے برابر ہیں۔ ورنہ ان کے جملے سے افضلیت کا معنی لینا بھی بالکل جائز تھا۔ 

"حرف نیم گفتہ" کی جانب سے اُن سے عرض کیا کہ اس کا حوالہ پیش فرما دیں کہ مسلمان علماء و فقہاء نے کہیں یہ بات لکھی ہو کہ قدوری وغیرہ قرآن مجید کے برابر ہیں۔ اس پر خضر یاسین صاحب نے ایک طویل بحث کی لیکن ایسا کوئی حوالہ پیش نہ کیا۔ 

اس کے بعد ہونے والے تبادلے میں انہوں نے مزید فرمایا: "پورا فقہی ادب غیر وحی ہے"، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کی تردید کر رہے ہیں؟ کون دعویٰ کر رہا ہے کہ "فقہی ادب وحی ہے"؟ "حرف نیم گفتہ" کو خطاب کر کے فرماتے ہیں: "آپ جسے شریعت سمجھتے ہیں وہ تمام منزل من اللہ نہیں ہے"۔ بظاہر یہ خطاب مسلمانوں سے تھا۔ اس کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا کہ مسلمان کس "غیر منزّل" کو شریعت قرار دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں "میں امت کو کافر نہیں سمجھتا"، لیکن جب جلال میں آتے ہیں تو فرماتے ہیں: "ما انزلہ علی نبیہ کے سوا کو دین ماننا کفر اور الحاد ہے"۔ یہاں بھی یہ نہیں بتاتے کہ یہ کس کا دعویٰ ہے، اور تکفیر کس کی ہو رہی ہے؟ پھر فرماتے ہیں: "اجماع اور اجتہاد کو دین محمدی میں شامل کرنا ختم نبوت پر شب خون ہے"۔اور "علماء کے سارے خانہ زاد فتوے ختم نبوت کا انکار ہیں"۔ یعنی فقہائے اسلام اجماع اور اجتہاد کو دینِ محمدی میں شامل کرتے ہیں، "خانہ زاد فتوے دیتے ہیں"، اور اس طرح ختم نبوت پر شب خون مارتے ہیں، اس کا انکار کرتے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ "انکارِ حدیث کے ڈھنڈورتے میں ختم نبوت کا انکار اب بالکل عیاں ہو چکا ہے" اور "احادیث کو محتویاتِ نبوت میں شامل کرنا ختم نبوت پر نقب زنی ہے"۔ بلکہ خود محدثین کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ "نبوت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں"۔ یعنی جو لوگ حدیث کو واجب العمل مانتے ہیں، اور نہ ماننے والوں پر "انکارِ حدیث" کا حکم لگاتے ہیں، وہ دراصل ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں، بلکہ احادیث روایت کرنا بھی "نبوت میں اپنا حصہ ڈالنے" کے مترادف ہے۔ اس طرح تقریباً تمام امت کے محدثین و فقہاء پر حکم لگایا، اور انہیں ختم نبوت کا منکر قرار دے دیا۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ احادیث "غیر نبی سے اسناد یافتہ" ہوتی ہیں، لہذا انہیں محتویاتِ نبوت میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مسلمان انہیں محتویاتِ نبوت میں شامل کرتے ہیں، لہذا ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ خضر یاسین صاحب کا استدلال ایک طرف انکارِ حدیث کا علمی مقدمہ ہے، اور دوسری جانب امت مسلمہ کو کافر قرار دیتا ہے، اور اس کے لیے کچھ نامعلوم لوگوں کی رائے کو بنیاد بناتا ہے، جس کا کوئی حوالہ دینے سے وہ قاصر رہتے ہیں۔ 

خضر یاسین صاحب نے اپنے نئے اصولِ فقہ، یا احکام اگر مرتب فرمائے ہیں تو ہمیں اس کا علم نہیں۔ یہ ان کے ارشادات ہیں، جن سے ہم نے ان کی بات سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم فہم کی غلطی کر سکتے ہیں، اُنہیں ہماری غلطی کی تصحیح کا حق ہے۔ لیکن اب تک جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے، اس سے واضح ہے کہ خضر یاسین صاحب کے نزدیک:

۱۔ مسلمانوں کے نزدیک فقہ کی کتابیں قرآن مجید کے برابر ہیں۔
۲۔ مسلمان بالعموم ختم نبوت کے منکر ہیں، اس پر نقب زنی کرتے ہیں اور شب خون مارتے ہیں۔ 

ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں سنسنی خیز افواہوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ یہ تمام گفتگو ایک موہوم حریف کی باتوں پر مبنی ہے جس کا کوئی مصدقہ بیان وہ پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اپنی تمام تقاریر میں فقط تردید کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اُس عبارت کو کبھی نقل نہیں فرماتے جس کی تردید مطلوب ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ ان قابل مذمت الفاظ کو تمام امت کے سر منڈھ دیا جائے۔ خضر یاسین صاحب بالعموم اپنے فہم کو تمام امت کی طرف منسوب کر کے، اندازے اور اٹکل سے ان کا موقف خود بتاتے ہیں، اُنہیں بولنے کی اجازت نہیں دیتے نہ ان کا کوئی حوالہ دیتے ہیں، اور اس کمزور استدلال کی بنا پرپر ساری امت پر یک طرفہ سخت حکم لگا دیتے ہیں۔ پھر اپنی اس ڈھیلی ڈھالی "علمی طرز تحقیق" سے بڑے بڑے نتائج نکالتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ خود خضر یاسین اور ان کے چندمتبعین کے سوا، پوری مسلمان امت گمراہ اور کافر ہو گئی ہے۔ 

ایسے قبیح اور دور رس نتائج کے حامل دعووں کو بلا نہایت دہرانے کی بجائے، خضر یاسین صاحب کو مسلمان فقہاء کی عبارتوں کو پیش کرنا چاہیے تھا، اور ان کے تجزیے کے بعد ان کی صحت و خطا واضح کرنی چاہیے تھی۔ اس کی بجائے یک طرفہ طور پر مسلمانوں کے بعض نامعلوم مصنفوں کی جانب منسوب کر کے، نامعلوم عبارتوں سے کچھ مطالب اخذ فرمائے ہیں، اور ان پر یہ فتاویٰ جارے فرمائے ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں دعوے غلط ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے فقہاء و متکلمین اپنی کتابوں کو قرآن مجید کے برابر نہیں سمجھتے۔ نہ ہی وہ علی الاطلاق ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اگر ان کی یہ دونوں باتیں درست ہوں – اور ان کے اصرار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان دعووں کی صحت پر قطعیت کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں – تو اس کا نتیجہ جمیع امت کی تکفیر و تضلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متشددانہ دعویٰ ہے، جو خضر یاسین صاحب سے قبل خوارج، قادیانیوں، داعش، اور جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز جیسے منکرین حدیث ہی نے کیا ہے۔ 

اگر ہمارا فہم درست ہے، تو اِس اعتبار سے خضر یاسین صاحب عہد جدید کے اس رجحان کے نمائندے ہیں، جو استعمار کے بعد ظاہر ہوا، اور جس کا نتیجہ دو مراحل میں ظاہر ہوتا ہے: پہلا یہ کہ تمام مسلمان دین کا غلط، گمراہ کن، بلکہ کافرانہ تصور رکھتے ہیں۔ چنانچہ قادیانی جو خود منکرین ختم نبوت ہیں، جب ان پر نکیر کی جائے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم نہیں، ساری امت منکر ختم نبوت ہے، کہ نزولِ مسیح بن مریم علیہما السلام کی قائل ہے۔ وہ صراحتاً تمام امت کو کافر سمجھتے ہیں۔ منکرین حدیث پر نکیر کریں، تو فوراً جواب دیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ و مالک و شافعی رحمہم اللہ بھی منکر حدیث تھے، سو ہم نہیں ساری امت منکر حدیث ہے، اور "فتنہ عجم" کا شکار ہو کر دین کو ترک کر چکی ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب امت کے ان تمام عظماء کو جو تصوف کے قائل ہیں، دین کے دائرے سے خارج کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسلام سے مختلف اور متقابل، اس کے متوازی دین کو مانتے ہیں جس کی قرآن مجید کے مقابل اپنی کتب ہیں، اور جو ایک عالمگیر ضلالت میں مبتلا ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ لوگ کئی نوعیتوں کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں،جن میں سے ایک "حاکمیتِ قرآن" کا نومولود عقیدہ ہے، جس کے نتیجے میں حرفیت کے بل پر بدترین قسم کا "Minimalism" برآمد کیا گیا ہے۔ اسی کے زور پر یہ حضرات خود پوری امت کے کفر کے مقابل حق کے واحد اور مستند نمائندے ہیں، اور اب شریعت وہی ہو گی جسے یہ شریعت قرار دیں گے، اور اگر ان سے کسی بھی بات کا حوالہ مانگا جائے تو تکفیر کا فتویٰ دہرانے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔ ان کی طبیعت تحقیق و فتوی کی جانب بے تحاشہ مائل ہے، اور ادعاء سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حق اپنے ظہور و بیان کے لیے ان کا محتاج ہے۔ خضر یاسین صاحب کا کیا مذکور، عہد جدید میں بے شمار "مجتہدین مطلق" عہد جدید میں ہر گلی کے نکڑ پر کھڑے ہیں، اور اپنا اپنا موقف امت کے علی الرغم بیان کر رہے ہیں، اور بزعم خود امام ابوحنیفہ و شافعی، امام بخاری و مسلم، امام غزالی و ابن تیمیہ، اور امام اشعری و ماتریدی رحمہم اللہ کوبے دریغ ڈانٹ رہے ہیں، تمام امت کی تکفیر و تضلیل کر رہے ہیں- 

خضر یاسین صاحب کے بیانات سے ظاہر ہے کہ انہوں نے تمام یا اکثر امت کی تضلیل و تکفیر کی ہے۔ جب پوچھا جائے تو اس کی تاویل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو تکفیر کا اختیار نہیں ہے، اور ہم نے کسی کی تکفیر نہیں کی۔ یہی جواب دیگر ، منکرین حدیث، جاوید غامدی، اور پرویز وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں، ان کے واضح دعووں کے بعد یہ تاویل بے معنی ہونے کے سبب غیر مسموع و غیر مقبول ہے۔ 
ان لوگوں کے موقف کی رکاکت واضح ہے۔ تاہم اگر کوئی وضاحت قارئین کو درکار ہے، تو گفتگو دو مسائل پر مرکوز رہے گی:
ایک: کیا مسلمان فقہاء واقعی اپنے فتووں کو، اور محدثین اپنی روایات کو "قرآن مجید کے برابر" قرار دیتے ہیں؟
دوسرے: کیا تمام امت کافر ہے؟

خضر یاسین صاحب کا موقف ہم ان کی تحریروں ہی سے سمجھے ہیں، جس میں ہم غلطی کر سکتےہیں۔ اللہ کرے کہ ہم غلط ہی سمجھے ہوں، اور وہ امت کو علی الاطلاق ضروریات دین کا منکر نہ سمجھتے ہوں۔ اگر خضر یاسین صاحب کا موقف ہم درست نہیں سمجھے، یا وہ اپنے موقف سے رجوع فرما چکے ہیں، تو اس کے بیان کے لیے بھی "حرف نیم گفتہ "کے صفحات حاضر ہیں۔ 

ھذا ما عندنا واللہ اعلم بالصواب۔


ڈاؤن لوڈ کے لئے پی ڈی ایف لنک پیش خدمت ہے


-----------------------------