کھانسی کا اولین علاج شہد اور کھانسی کے شربت ہونے چاہییں!! (نئی تحقیق)

برطانیہ میں صحت کے حکام نے کہا ہے کہ کھانسی کا اولین علاج شہد اور کھانسی کے شربت ہونے چاہییں نہ کہ اینٹی بایوٹکس، جو اس کے علاج میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔
شہد

عام طور پر کھانسی دو تین ہفتے میں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔


ڈاکٹروں کو دی جانے والی سفارشات کا مقصد اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم کی مزاحمت کے خطرے کو کم کرنا ہے کیوں کہ ان ادویات کے بےدریغ استعمال سے ان کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور جان لیوا بیماریوں کے علاج میں مشکل پیش آتی ہے۔

گرم مشروب اور شہد، جس میں لیموں اور ادرک ملے ہوں، کھانسی اور خراب گلے کے لیے عرصۂ دراز سے استعمال ہوتے چلے آئے ہیں۔

اب برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلینس اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے کہا ہے کہ کچھ محدود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کھانسی کی علامات میں بہتری لاتے ہیں۔

اس کے علاوہ کھانسی کے شربت جن میں pelargonium، guaifenesin یا dextromethorphan جیسی ادویات شامل ہوں، وہ کھانسی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

مریضوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ان ادویات کا استعمال کریں اور ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے کھانسی از خود ختم ہونے کا انتظار کریں۔

زیادہ تر کھانسیوں کا باعث وائرس ہوتے ہیں، جن پر اینٹی بایوٹکس اثر نہیں کرتیں۔

اینٹی بایوٹکس کے بےدریغ استعمال سے جراثیم کی مدافعت میں اضافہ ہو رہا ہے

اس کے باوجود تحقیق کے مطابق برطانیہ میں 48 فیصد ڈاکٹر کھانسی یا برونکائٹس کے لیے اینٹی بایوٹکس لکھ کر دیتے ہیں۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سوزن ہاپکنز نے کہا: 'اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بہت بڑا مسئلہ ہے اور ہمیں اینٹی بایوٹکس کا استعمال کم کرنے کے لیے فوری طور پر عملی قدم اٹھانا ہوں گے۔

'ان نئی سفارشات کی روشنی میں ڈاکٹروں کی طرف سے اینٹی بایوٹکس کے نسخے کم کرنے میں مدد ملے گی اور ہم مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنا خیال خود رکھیں۔'

تاہم سفارشات میں درج ہے کہ اس وقت اینٹی بایوٹکس لینا ضروری ہو جاتا ہے جب کھانسی کسی سنگین بیماری کا نتیجہ ہو، یا جب مریض کا مدافعتی نظام کمزور پڑ چکا ہو۔

شہد ایک سال سے کم عمر کے بچوں کو نہیں دینا چاہیے کیوں کہ اس سے بوٹولزم نامی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر ٹیسا لیوس نے کہا: 'اگر کھانسی بجائے ٹھیک ہونے کے مزید بگڑ رہی ہے یا مریض کو سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی ہے تب آپ کو ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔'

----------------------------------

بی بی سی اردو ، 23 اگست 2018ء