قرآن، سنت اور روایت: ڈاکٹر خضر یاسین کی فکر کا تنقیدی جائزہ

قرآنِ کریم صرف ایک کتابِ مقدس ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اس کتاب کی فہم، تعبیر اور تطبیق کی ایک علمی روایت ہے جو چودہ سو سال پر محیط ہے۔ لیکن جدید دور میں بعض مفکرین اس روایت کو رد کرتے ہوئے ایک نیا زاویۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر خضر یاسین کا ہے، جو قرآنی متن اور اسلامی روایت کے باہمی تعلق کو فلسفیانہ اسلوب میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کا مدعا اگرچہ "براہِ راست فہمِ قرآن" پر زور دینا ہے، لیکن ان کی تعبیرات کئی علمی، تاریخی اور عملی ابہامات سے بھرپور ہیں۔

یہ مضمون ڈاکٹر خضر کے چار بنیادی مقدمات کا جائزہ لیتا ہے اور ہر مقدمے پر ایک علمی تنقید پیش کرتا ہے۔

مقدمہ اول: متن اور فہمِ متن میں فرق

ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:

قرآن کا اصل متن (Text) ایک مستقل وجود رکھتا ہے، جبکہ اس کا فہم (Understanding) ایک الگ وجودی مظہر ہے۔ فہمِ متن، متن سے خارج ہوتا ہے، اس لیے فہم کو متن کا جزو یا عین قرار دینا علمی خیانت ہے۔

جواب: 

  1. یہ بات درست ہے کہ متن اور فہم دو الگ سطحیں ہیں، لیکن جب فہم درست اور علمی ہو تو وہ متن سے جدا نہیں ہوتا بلکہ متن ہی کی شرح بن جاتا ہے۔

  2. اگر فہمِ قرآن کو ہمیشہ متن سے الگ اور مشکوک مانا جائے، تو ہدایت کا تصور ناممکن بن جائے گا۔

  3. قرآن خود تدبر، تفکر، تعقل کی دعوت دیتا ہے، جو فہمِ متن کے بغیر ممکن نہیں۔

’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا‘‘ (محمد:24)


مقدمہ دوم: فہمِ قرآن کو "قرآن" نہ سمجھا جائے

ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:

ہمارا فہمِ قرآن، قرآن نہیں ہے۔ اس لیے فہمِ قرآن کو قرآن پر نافذ یا دوسروں پر لازم نہیں کیا جا سکتا۔

جواب : 

  1. یہ بات اصولی لحاظ سے درست ہے کہ ہر فہم قرآن نہیں ہوتا، لیکن ہر فہم غلط بھی نہیں ہوتا۔

  2. اگر فہمِ قرآن کو ہمیشہ قابلِ شک یا اضافی قرار دیا جائے، تو قرآن کا عملی اطلاق رک جائے گا۔

  3. یہی اصول اگر قرآن پر لاگو ہو تو ہر دینی علم، ہر فقہی ضابطہ، حتیٰ کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ بھی محض فہم بن جاتے ہیں، نہ کہ شریعت۔


مقدمہ سوم: سنت اور حدیث میں فرق

ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:

سنت وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کا جاری کردہ عملی نظام تھا، جو امت کو بالفعل منتقل ہوا۔ احادیث اس سنت پر ایک فکری و بیانی اضافہ ہیں۔

جواب:

  1. سنت اور حدیث میں فرق جدید علماء نے (مثلاً غامدی صاحب) بھی کیا ہے، لیکن حدیث کو "سنت پر اضافہ" کہنا علمی طور پر مبہم اور ناقابلِ اثبات دعویٰ ہے۔

  2. احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے وہ اقوال و اعمال محفوظ ہیں جن سے سنت کے اصول اخذ کیے گئے۔

  3. اگر حدیث کو اضافی و غیر معتبر مانا جائے تو سنت کی اصل بنیاد ہی مشتبہ ہو جاتی ہے۔


مقدمہ چہارم: اسلامی روایت کا انکار

ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:

تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تصوف، کلام، لسانیات… یہ سب صرف تاریخی تعبیری روایتیں ہیں۔ اصل دین قرآن اور سنت کے متن میں ہے، باقی سب محض علمی اضافہ ہیں۔

جواب: 

  1. یہ روایتیں صديوں کی اجتماعی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے قرآن کو سمجھنے، سکھانے اور نافذ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  2. اسلامی علوم، قرآن کا فہم پیدا کرنے والی فکری زمین ہیں، نہ کہ اس پر اضافے۔

  3. ان تمام علوم کا انکار، امت کی علمی روایت کا انکار ہے اور اس سے فکری انارکی پیدا ہوتی ہے۔

 روایت کا انکار، دین کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے

ڈاکٹر خضر یاسین کی فکر ایک طرف فلسفیانہ ابہام سے بھرپور ہے، دوسری طرف روایت بیزاری کی انتہا کو چھوتی ہے۔ وہ جدید لسانیاتی مفروضات کو دین پر منطبق کر کے نہ صرف اسلامی روایت بلکہ قرآنی فہم کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم، امتِ مسلمہ کا علمی ورثہ ایک زنده، تجربہ شدہ اور متنوع خزانہ ہے، جو ہمیں قرآن سے جڑنے اور اس کی ہدایت کو اپنی زندگی میں لانے کے لیے ناگزیر ہے۔

نہ روایت حجیت سے خالی ہے، نہ فہمِ قرآن شک سے۔
دین صرف متن نہیں، متن کے زندہ فہم کا نام ہے۔