اعلی تعلیم میں تحقیق کا طریقہ |
اسلام کے متعلق تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ مسلم دانشور ، مصنفین ، اسلامی کتب اور اسلام کے بارے میں جن متفرق تحقیقات کے بارے میں کم معلوم ہے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں، اسلام کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے اس کی جانچ پڑتال کرکے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کردی جائے تاکہ غلط مواد کی بناپر غلط معلومات عام نہ کردی جائے ۔
تحقیق کے مقاصد :
اساتذہ کے نزدیک یونیورسٹیوں میں تحقیق کے چار اہم مقاصد ہیں : 1- غیر موجود حقائق کی دریافت 2- موجود حقائق کا دوبارہ جائزہ 3- حدود علم کی توسیع 4- مناسب اسلوب 5- مواد کی تنقیح 6- فکر کی مدد سے اصول تلاش کرنا 7- منتشر معلومات اور مواد کو مرتب کرنا ۔
یونیورسٹیوں میں تحقیق کے مختلف شعبے ہیں ، سائنس ، تاریخ ، سماجی سائنس کے علاوہ ادب اور مذاھب کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے ، سائنس کی تحقیق تجزیاتی ہوتی ہے ، سماجی اور انسانی علوم کی تاریخی، تجزیاتی یا عملی ہوتی ہے جبکہ ادب کی تاریخی، تحلیلی اور تنقیدی ۔
سائنسی علوم میں زیادہ تر اشیاء سے سروکار ہوتا ہے۔ انسانی علوم اور ادبیات میں انسانوں سے ۔
تحقیق کی دوقسمیں ہیں ، خالص(pure Research) یا نظریاتی اور اطلاقی تحقیق۔ یہ فرق قدرتی سائنسوں میں زیادہ نظر آتا ہے ۔ طبیعات میں کچھ محض نظریاتی اور کچھ اطلاقی ، سماجی علوم کی تحقیق میں علاقائی جائزہ بہت اہم ہوتا ہے ، تاریخ کی اطلاقی تحقیق کا بہترین مظہر آثار قدیمہ کی کھوج ہے ، جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ سائنس سے بھی کسی قدر مددلی جاتی ہے ۔
غرض تحقیق کے تمام شعبوں کو پیش نظر رکھ کر یوں کہ سکتے ہیں کہ تحقیق کی دو اہم پہلو ہیں ۔ تجزیاتی اور تاریخی ۔ مذھب کی تحقیق غیر اطلاقی یا تصوری ہوتی ہے ۔ اس کا طریقہ بیشتر تاریخی اور کمتر تجزیاتی ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ دونوں طریقے مل جاتے ہیں، تاریخی عنصر قدرے زیادہ اور تجزیاتی کم ہوتا ہے ۔
مثلا اگر علامہ ابن تیمیہ کے اجتہادات کے بارے میں تحقیق کرنی ہو تو سب سے پہلے ہم تاریخ میں ان کے دور کا مطالعہ کریں گے ان کی تصنیفات کا جائزہ لیا جائے گا ، ان کا تجزیہ کرکے معلوم کریں گے کہ ان کے اجتہادات دیگر مجتہدین سے کیسے مختلف ہیں ۔
تحقیق اور تنقید
درحقیقت ایک محقق کی اپنی تحقیق کے سلسلے میں محنت شاقہ کا بڑا حصہ تنقیدی محنت کا ہوتا ہے ، یعنی چھاننے ، جوڑنے ، تعمیر کرنے ، خارج کرنے ، صحیح کرنے ، جانچنے کی محنت ، یہ محنت جتنی تنقیدی ہوتی ہے اتنی ہی تحقیق تخلیقی ہوتی ہے ۔ کوئی محقق تنقیدی مہارت کے بغیر کام نہیں چلاسکتا ، محقق کو نقاد ہوئے بغیر چارہ نہیں ورنہ تحقیق کا سارا عمل تاثراتی یا عبارت آرا ہوکر رہ جائے گا ۔ دوسری طرف تحقیق بغیر تنقید خیالی بات بن کر رہ جائےگی ، تحقیق کا مقصد علم میں اضافہ ہے اور تنقید کا مقصد علم سے واقف کرانا ہے ۔
تحقیق میں دریافت پر زیادہ زور اور تنقید میں پرکھ پر ۔ تحقیق کا عمل سائنس کی طرح ہوتا ہے اور اس میں سائنسی معروضیت ہوتی ہے ، تنقید میں ان کی اہمیت ضمنی ہے ۔ اعلی تحقیق ، اعلی تنقید سے مختلف نہیں ، محض حقائق پر مبنی تحقیق ، تحقیق کی ابتدائی شکل ہے اس لئے پست سطح کی ہے ، نقاد موضوعی رہ کر لکھ سکتا ہے ۔ محقق کو معروضی رہنا ضروری ہے ۔
محقق ایک مسئلہ پیش کرتا ہے اور اس کا ذہنی حل فراہم کرتا ہے ۔ نقاد محض حقیقت کے انکشاف پر قانع ہوسکتا ہے اس کے لیے حل پیش کرنا ضروری نہیں ۔ محقق جملہ حقائق جمع کرکے ان کا تجزیہ کرتا ہے ، نقاد کو جملہ حقائق پیش نظر رکھنا ضروری نہیں ۔ نقاد کا اصلی کام تشریح اور تاویل ہے ، محقق حقائق کی عملی طریقے سے تنظیم و گروہ بندی کرتا ہے ۔ نقاد کا مقصود تخلیق کے تخلیقی عمل اور اظہار کی جمالیات کو پرکھنا ہے ۔
محقق کا مقصود اب تک کے علم میں اضافہ کرنا ہے ۔ تحقیق محض ایک تفریحی مشغلہ نہیں یہ ایک مسلک ، ایک ذہنی رویہ ایک طرز زندگی ہے ، یہ سچ کا کاروبار ہے ۔ محقق کو تحریر میں، نیز روزانہ کی زندگی میں سچ کو اپنا شعار بنانا چاہئیے ۔ فریب ، ریاکاری ، تصنع ، تحقیقی مزاج کے منافی ہیں ۔ مثلا کسی دوسرے کی دریافت کو بغیر حوالے کے اپنالینا ، بالفاظ دیگر سرقہ کرلینا ایک غیر محققانہ کردار کا غماز ہے ۔
محقق کا مقصود اب تک کے علم میں اضافہ کرنا ہے ۔ تحقیق محض ایک تفریحی مشغلہ نہیں یہ ایک مسلک ، ایک ذہنی رویہ ایک طرز زندگی ہے ، یہ سچ کا کاروبار ہے ۔ محقق کو تحریر میں، نیز روزانہ کی زندگی میں سچ کو اپنا شعار بنانا چاہئیے ۔ فریب ، ریاکاری ، تصنع ، تحقیقی مزاج کے منافی ہیں ۔ مثلا کسی دوسرے کی دریافت کو بغیر حوالے کے اپنالینا ، بالفاظ دیگر سرقہ کرلینا ایک غیر محققانہ کردار کا غماز ہے ۔
اپنے مذہب ، قوم ، زبان ، علاقے ، فرقے ، ادبی گروہ کسی کے لئے جنبہ داری نہیں ہونی چاہئے۔ تحقیق کی ابتدا میں جو مفروضہ قائم کیا ہے بعد میں اس کے خلاف دلائل ملیں تو اپنا موقف بدلنے میں ہچکچاہٹ نہ ہو ۔ اگر محقق مبالغہ پسند ہو تو یہ اس کی تحقیق کی راہ میں حارج ہوگا ۔ یہ نہ ہو کہ جسے پسند کریں اسے آسمان پر چڑھا دیں ، جسے ناپسند کریں اسے باکل کمزور قرار دے دیں ۔ کسی مسئلہ کو بڑھا چڑھا کربیان کرنے کے بجائے اسے غیر جذباتی انداز میں لکھنا چاہئے۔
دین میں ایمان بالغیب اور بیعت جائز ہے ۔ تحقیق میں نہیں ۔ ہر ایک محقق کو تحقیق لازم ہے اور اس پر تقلید حرام ہے۔ محقق ضعیف الاعتقاد نہ ہو ، اساطیر، توہمات ، خرافات ، غیر یقینی تصورات کے حلقے سے باہر نکلنے کی ہمت رکھتا ہو۔
محقق کو تاریخ کا شعور ہونا چاہیئے ، خاص کر سماجیات اور نفسیات کا ۔
تحقیق کا موضوع
تحقیقی کا موضوع خاص ہوتا ہے ، کتاب کسی بھی موضوع پر لکھی جاسکتی ہے لیکن وہ لازما تحقیقی موضوع نہیں ہوتا ۔ مثلا کوئی یہ موضوع لے ۔" جوش کی مناظر فطرت کی شاعری "یا " نظیر اکبر آبادی کے کلام کی سماجی معنویت" ۔ ان موضوعات پر کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن وہ تحقیق نہیں ہوگی ۔
تحقیق کا موضوع ایسا ہونا چاہیے جس سے اس علم میں اضافہ ہو ۔ اگر اب تک کے موجود مواد ہی کو ترتیب دیکر لکھ مارا اور کوئی مزید معلومات فراہم نہ کیں تو یہ تحقیق نہ ہوئی ، مثلا کوئی شعراء کے معرکوں پر کام کرے اور آب حیات میں دئے ہوئے واقعات ہی کو مجتمع کردے تو اس سے علم میں کوئی اضافہ نہ ہوگا ۔ اگر کوئی غالب یا اقبال کو موضوع بنائے تو خفیف احتمال ہے کہ اس میں کچھ اضافہ کرے ۔ بلکہ بہت سے بے ترتیب مواد کو منظم کرسکے اور منطقی اور فلسفی کی طرح شہادت کو پرکھ کر نتائج نکال سکے۔ یعنی اس میں فکری وضاحت ہونی چاہیے ۔
موضوع کے متعلقہ زبان سے واقف ہونا ضروری ہے اس کے بغیر اس زبان کے اصل ماخذ کو نہ دیکھ سکیں تو ترجموں سے یا دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔
خاکہ
خاکہ بنانا تحقیقی مقالے کی تیاری کی طرح ایک مسلسل عمل ہے ۔ مطالعہ شروع کرنے سے پہلے ذہن میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ ہونا چاہئے ۔ اگر نہیں ہے تو بیٹھ کر اپنے خلّاق اور فعاّل تخیل کو سرگرم عمل کرنے سے کوئی نہ کوئی دھندلی سی شکل متعین ہوجائے گى ۔ اس کے بعد مواد اکٹھا کرنا چاہیئے، مطالعہ کیجئے اور اسے ترتیب دیجئے، بہت ممکن ہے کہ سامنے موجود مواد کی روشنی میں بنائے ہوئے عارضی خاکے میں رد بدل کرنی پڑے ۔ اس کے بعد تسوید سے معلوم ہوگا کہ بعض عنوانات پر بہت لکھا گیا ، بعض پر بہت کم ، پھر سے ابواب کی گروہ بندی اور ترتیب کی ضرورت پڑسکتی ہے ۔ ابواب کے اندرونی حصوں کی ترتیب بدلی جا سکتی ہے ۔
خیالات میں ترتیب اہم کام ہے لیکن اس کی صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے ۔ خاکہ مواد کی ترتیب کی مکمل نشادہی کرتا ہے ۔ اگر مقالہ میں زمان اہم ہے تو مقالہ کی ترتیب تاریخی اور زمان کے اعتبار سے ہونی چاہئے ، معلوم سے نامعلوم کا انکشاف کیجئیے ، سادہ سے پیچیدہ کی طرف بڑھیئے، دو یا زیادہ چیزوں کا تقابل و تخالف کیجئے ، عام سے خاص کی طرف بڑھیے ، مسئلہ دے کر اس کا حل نکالیئے یعنی سوال پیش کر کے اس کا جواب دیجئے ۔ سبب سے نتیجہ نکالے ، یا نتیجہ پہلے لکھ اس کے اسباب درج کیجئے ۔
اس طرح زیادہ تر سماجی علوم میں ضروری ہے ،مشہور دانشور لنڈا نے لکھا رپورٹ تیار کرنے کے دو طریقے ہیں : پہلے اپنے جائزے کا برآمد شدہ نتیجہ لکھیئے اور اس کے بعد اس کی تائید میں دلیلیں دیجئے، پہلے مسئلہ پیش کیجئے، پھر متعلقہ مواد دیجئے، اور ان کی صراحت کے لے ایک یا زیادہ مفروضے پیش کرے ، اس عمل کا تعلق سائنسی یا سماجی علوم دونوں سے ہے ۔
مطالعہ اور نوٹ لینا
کتابوں سے نوٹ لیتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ محقق نے ایک نیا مقالہ نئی کتاب لکھنی ہے ، موجود کتاب کی تلخیص نہیں کرنی ہے ۔ موجود کتاب سے ہٹ کر اپنی طرف سے اس طرح لکھنا چاہیے کہ طبع زاد اور نیا معلوم ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی نے نو کتابیں پڑھیں تو وہ دسویں کتاب تصنیف کرسکتا ہے ، لیکن اتنے کم مواد میں تحقیقی مقالہ لکھا جائے تو وہ طبع زا د نہیں ہوگا وہ نئی کتاب کے بجائے چند کتابوں کا عطر مجموعہ معلوم ہوگا ۔ سیمویل جانسن کا قول ہے کہ ایک آدمی ایک کتاب لکھنے کے لے آدھی سے زیادہ لائبریری الٹ دے گا ۔ اتنے زیادہ ماخذ کو دیکھا جائے تو کام واقعی قابل قدر ہوگا ۔
دیکھ اور سونگھ کر مواد ڈھونڈ لینے کی مشق کرنی چاہہے ۔ کتابوں میں ابواب کے عنوان سے اندازہ ہوجاتاہے کہ کس باب کو دیکھنا چاہیے۔ اور کس باب کو نہیں دیکھنا چا ہیے۔ موضوع پر سسب سے اچھی کتاب سے مطالعہ کا آغاز کیا جائے ۔ نوٹ لیتے وقت بعض باتوں کے بارے میں یہ طے نہیں کیا جاسکتا کون سی بات اہم ہے اور کون سی کم، اس لئے احتیاط سے کام لینا چاہیے جو بات زیادہ اہم ہے صرف اسی بات کو اہمیت دینی چاہے، زندگی بہت کم ہے ۔
ماخذ کارڈ ، نوٹ کارڈ
ماخذ کارڈ ابتدائی کتابیات تیار کرنے کے لیے ہوتا ہے ، شروع میں جو کتاب یا مفیدرسالہ لائبریری میں ملے اس کی تفصیل ایک ایک کارڈ پر لکھ دی جاتی ہے کتاب یا مضمون کا نام ، مصنف کا نام اور اوپر ایک کونے میں لائبریری کی کتاب نمبر دوسرے کونے میں اس کا موضوع یا عنوان۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الگ الگ کے بجائے ایک دو صفحات پر تمام کتابوں کے نام اور مضامین کی تفصیل ۔ ناشر کانام۔ سنہ اشاعت ، شمارہ لائبریری ، نمبر وغیر ہ لکھ سکتے ہیں ۔جہاں سینکڑوں کتابیں پڑھ کر سو دوسو صفحات کے نوٹ لینے پر تے ہیں وہاں اس طرح موضوعی گروہ بندی نہ ہو تو آدمی جنگل میں کھو کر رہ جاتا ہے ۔
نوٹوں کی زمرہ بندی جتنی زیادہ مفصل اور جزئیاتی ہوگی نوٹوں سے استفادہ اتنا سہل ہوگا ۔
نوٹ لینا باکل شخصی عمل ہے نوٹ صرف اپنے لیے ہوتے ہیں ۔ ان میں جو مخففات استعمال کرنا چاہیں کیجئے ، کیونکہ نوٹ تو ایک اشارہ ہیں جنہیں دیکھ کر پوری بات یاد آجانی چاہیے ۔
نوٹ کے لئے سب سے اہم بات کہ صاف لکھنا چاہے اور ماخذ کی صحیح املاء اور اقتباس وغیرہ درست ہو تاکہ لائبریری میں باربار چکر نہ لگے۔ جیسے جیسے مطالعہ ہو، نوٹ بھی ساتھ ساتھ لکھ لیا جائے۔ پہلے مطالعہ ہی میں ضروری نکات سپرد کاغذ کرلینا چاہیے۔
لفظ بلفظ نقل نہیں کرنا ، ماخذ کے مطالب یا نکات کو اپنے الفاظ میں مختصر لکھا جائے ۔ لفظ بلفظ اقتباس بہت کم استعال کیا جائے ۔ حقائق اور رائے میں فرق ہوتا ہے ، حقائق کا نوٹ لینا لازمی ہے ، رائے ضروری نہیں ۔ رائی خود بھی قائم کرسکتا ہے ، حقائق کی بنا پر اگر کسی نے کچھ نتائج نکالا ہو وہ لکھ لینا چاہے ۔ اگر کوئی عبارت لفظ بلفظ ہو تو قوسین میں کر دینا لازمی ہے ۔
اقتباس :
کسی متن کا نمونہ ، جب کسی کی تحریر یا خیالات زیر بحث ہے ، یا کوئی عبارت اتنی اہم ہو اس سے بہتر نہیں ہوسکتی ، اس صورت میں اسی کے الفاظ میں لکھ دینا چاہے ۔
کسی نے کوئی واقعہ مختصر بیان کیا ہے وہ نقل کردینا بہتر ہے، حوالہ کافی ہے ، اپنی رائی کی تائید میں کسی کی رائی وزن کے لے نقل کرنا درست ہے ۔
مواد کی پرکھ اور احتیاط
ہر تحقیق سے پہلے کچھ تحقیق موجود ہوتی ہے ۔ اس لیے پہلے سے موجود مواد کو پرکھنا ، پھٹکنا ، چھاننا ہوتا ہے ۔
مواد کا جائزہ لینا اور تصحیح کرنا یہی تحقیق کا مرکزی کام ہے ، تحقیق کا ر کا علمی سرمایہ جتنا کثیر اور اس کی نظر جتنی تیز وسیع عمیق ہوتی ہے اسی اعتبار سے وہ اپنے حاصل مطالعہ کا بہتر تجزیہ کرسکتا ہے ۔ ماضی کے مواد میں دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا مواد کتنا معتبر ہے ۔ اسلام میں حدیث کی جانچ کے لیے جو اصول بنائے گئے تھے وہ تحقیقی صحت طے کرنے کے لیے بھی ایک مثالی کسوٹی ہے ۔
خیال رہے کہ مبالغہ اور استعارہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ مثلا کسی چپراسی کو کسی کام میں دیر ہوجائے تو ہم جھلا کر کہتے ہیں کہاں "مرگئےتھے"۔ "دو گھنٹے لگادیے" ، یہ تمام جملے مبالغہ ہیں۔
" آپ نے بڑی گہری بات کہی"
" اس نے بڑی کڑى بات کہ دی"
" سچی بات کڑوی ہوتی ہے "
صرف مادی شے ہی گہری، کڑی یا کڑوی ہوسکتی ہے ، یہ سب استعارے ہیں ۔ ہم عبارت آرائی پر قطعیت و صحت کو قربان کردیتے ہیں ۔
ماضی کے مواد میں مبالغہ اور عبارت آرائی کی وجہ سے بات کچھ کی کچھ ہوئی، ہوتی ہے ، دس پندرہ نقل کاروں سے گزر کر وہ دو تہائی جھوٹ بن جاتاہے ۔ لیکن ایسے تمام مواد اور بیانات سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرنا ہوتا ہے ۔
نقل کی طرح بعض دفعہ طباعت میں بھی غلطی ہوجاتی ہے ۔
معتبر ماخذ طے کرنے کے کچھ اصول یہ ہیں :
1- جس ماخذ سے سب سے زیادہ معلومات ملتی ہیں وہ بہتر ہے۔
2- جو مواد کئی کتابوں میں ملتا ہے وہ زیادہ اہم ہے ۔
3- دھیان دیجئے کہ آپ کے موضوع کے میدان میں کون سا مصنف بہترہے ۔
جس کتاب سے آپ مواد لے رہے ہیں اس کے بارے میں طے کیجیے کہ یہ کتنی معتبر ہے ، ماضی کے اہل قلم کو کتابوں اور ان کے مصنفوں کے ناموں میں التباس ہو سکتا ہے۔
راتھ نے بڑی مناسب ہدایت کی ہے (Wen in dout Cite the source ) جب شک ہو تو اپنے ماخذ کا حوالہ دے دیجے اگر ماخذ میں کوئی تسامح ہے تو اس کا حوالہ دینے کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔
فیصلہ ہوا کہ مقالے کے ضمنی اور غیر اہم بیانا ت کے لیے غیر معمولی حتمی تحقیق کو اپنا مقصود نہ بنائے ورنہ آپ اپنا کام کبھی پورا نہ کرسکیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسپلر نے کہا ہے اگر اصل ماخذ دیکھنا ممکن نہ ہو تو معتبر ثانوی ماخذ سے کام چلائے ۔
اپنے مادی ذہنی علمی وسائل کے ساتھ تحقیق کو جتنا بے سقم بنایا جا سکے کیجے مکمل پن ممکن نہیں ، اس سے کچھ کم پر قناعت کیجے آپ کے بعد آنے والے محقق آپ کے موضوع کو اور نکھار سکیں گے ۔
راہ تحقیق میں کیا کیا نشیب و فراز ہیں ہفت خواں منھ کھولے کھڑے ہیں ، محقق کو پھونک پھونک کرقدم رکھنا ہوتا ہے ۔ اغلاط اور آلائش کو دور کرکے کسی طرح حقیقت تک پہنچ جائے یہ اس کے مطالعے تجربے اور ذہنی پختگی پر منحصر ہے ۔
تسوید
ماخذی مواد کا مطالعہ ، نوٹ لینا ، مواد کی پرکھ اور ترتیب سب وسیلہ ہیں ، جب تسوید کی منزل آتی ہے تو محقق کے سامنے بہت سے نوٹ بہت سے حقائق ہوتے ہیں انہیں ذہن میں سمیٹ کر اس طرح ترتیب دینا ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں گویا لکھنے سے پہلے آپ نے چار کام کیے :
1- آپ نے اپنے موضوع سے پوری واقفیت حاصل کرلی ۔
2- آپ نے غور وفکر کے بعد اپنا نقطہ نظر متعین کرلیا ہے
3- آپ نے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے حوالے جمع ومرتب کرلیے ۔
4- اور آپ نے اس موضوع میں اتنے منہمک ہوگئے کہ آپ کے وجود میں اس کے اظہار کی بے چینی پیدا ہوگئی ، لکھنے کا وقت اور مقام متعین ہونا چاہیے ، پہلے ذہنی ترتیب کر لیجے تب لکھئے۔
کہا جاتا ہے کہ محض مطالعہ نہیں کسی موضوع پر نگارش کسی کے علم کو مکمل کرتا ہے۔ جب ہم مبہم موضوع کے بکھرے ہوئے مواد کو ترتیب دیکر سپرد قلم کر تے ہیں تو گویا صورت گری کا عمل کرتے ہیں ، کسی بت تراش نے کہاتھا کہ مورتی پتھر میں ڈھلی دھلائی موجود ہوتی ہے میں اس کے چاروں طرف سے فالتوں پتھر چھیل کر اسے بر آمد کرلیتا ہوں کسی موضوع پر تصنیف و تالیف میں بھی یہی صورت ہوتی ہے ۔ اس کی تسوید سے پہلے ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم اس موضوع کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات اس ترتیب اور سلیقے سے پیش کرسکتے ہیں ۔
زبان اور بیان
تحقیقی تحریر کے الفاظ کو بے کم و کاست بیان کرنا چاہیے، محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے استعارہ اور تشبیہ کا استعمال توضیح کے لیے کرنا چاہیے، آرائش گفتار کی غرض سے نہیں، مبالغہ کو تحقیق کے لیے سم قاتل سمجھنا چاہیے، اسماء کے ساتھ صفت بھی اسی وقت لانے چاہئیں جب کوئی صفت لکھنے والے کی اصل رائی کو ظاہر کرتی ہو، بہت ، بڑا ، بے شمار وغیر ہ جیسے صفات کے استعمال میں احتیاط کرنا چاہے ۔ تناقض ، تضاد اور ضعف استدلال سے بچنا چاہئے ۔ تحقیق کا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کم سے اکم الفاظ میں پڑھنے والے پر اپنا مافی الضمیر ظاہر کردے ۔
تحقیق میں زبان کی صحت اور قطعیت پر خصوصی توجہ کرنی چاہیے ۔ اجنبی الفاظ اور تعقید سے کلام میں خشکی پيدا ہو تى ہے اور پڑھنےوالا پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
ہر تحقیق سے پہلے کچھ تحقیق موجود ہوتی ہے ۔ اس لیے پہلے سے موجود مواد کو پرکھنا ، پھٹکنا ، چھاننا ہوتا ہے ۔
مواد کا جائزہ لینا اور تصحیح کرنا یہی تحقیق کا مرکزی کام ہے ، تحقیق کا ر کا علمی سرمایہ جتنا کثیر اور اس کی نظر جتنی تیز وسیع عمیق ہوتی ہے اسی اعتبار سے وہ اپنے حاصل مطالعہ کا بہتر تجزیہ کرسکتا ہے ۔ ماضی کے مواد میں دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا مواد کتنا معتبر ہے ۔ اسلام میں حدیث کی جانچ کے لیے جو اصول بنائے گئے تھے وہ تحقیقی صحت طے کرنے کے لیے بھی ایک مثالی کسوٹی ہے ۔
خیال رہے کہ مبالغہ اور استعارہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ مثلا کسی چپراسی کو کسی کام میں دیر ہوجائے تو ہم جھلا کر کہتے ہیں کہاں "مرگئےتھے"۔ "دو گھنٹے لگادیے" ، یہ تمام جملے مبالغہ ہیں۔
" آپ نے بڑی گہری بات کہی"
" اس نے بڑی کڑى بات کہ دی"
" سچی بات کڑوی ہوتی ہے "
صرف مادی شے ہی گہری، کڑی یا کڑوی ہوسکتی ہے ، یہ سب استعارے ہیں ۔ ہم عبارت آرائی پر قطعیت و صحت کو قربان کردیتے ہیں ۔
ماضی کے مواد میں مبالغہ اور عبارت آرائی کی وجہ سے بات کچھ کی کچھ ہوئی، ہوتی ہے ، دس پندرہ نقل کاروں سے گزر کر وہ دو تہائی جھوٹ بن جاتاہے ۔ لیکن ایسے تمام مواد اور بیانات سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرنا ہوتا ہے ۔
نقل کی طرح بعض دفعہ طباعت میں بھی غلطی ہوجاتی ہے ۔
معتبر ماخذ طے کرنے کے کچھ اصول یہ ہیں :
1- جس ماخذ سے سب سے زیادہ معلومات ملتی ہیں وہ بہتر ہے۔
2- جو مواد کئی کتابوں میں ملتا ہے وہ زیادہ اہم ہے ۔
3- دھیان دیجئے کہ آپ کے موضوع کے میدان میں کون سا مصنف بہترہے ۔
جس کتاب سے آپ مواد لے رہے ہیں اس کے بارے میں طے کیجیے کہ یہ کتنی معتبر ہے ، ماضی کے اہل قلم کو کتابوں اور ان کے مصنفوں کے ناموں میں التباس ہو سکتا ہے۔
راتھ نے بڑی مناسب ہدایت کی ہے (Wen in dout Cite the source ) جب شک ہو تو اپنے ماخذ کا حوالہ دے دیجے اگر ماخذ میں کوئی تسامح ہے تو اس کا حوالہ دینے کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔
فیصلہ ہوا کہ مقالے کے ضمنی اور غیر اہم بیانا ت کے لیے غیر معمولی حتمی تحقیق کو اپنا مقصود نہ بنائے ورنہ آپ اپنا کام کبھی پورا نہ کرسکیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسپلر نے کہا ہے اگر اصل ماخذ دیکھنا ممکن نہ ہو تو معتبر ثانوی ماخذ سے کام چلائے ۔
اپنے مادی ذہنی علمی وسائل کے ساتھ تحقیق کو جتنا بے سقم بنایا جا سکے کیجے مکمل پن ممکن نہیں ، اس سے کچھ کم پر قناعت کیجے آپ کے بعد آنے والے محقق آپ کے موضوع کو اور نکھار سکیں گے ۔
راہ تحقیق میں کیا کیا نشیب و فراز ہیں ہفت خواں منھ کھولے کھڑے ہیں ، محقق کو پھونک پھونک کرقدم رکھنا ہوتا ہے ۔ اغلاط اور آلائش کو دور کرکے کسی طرح حقیقت تک پہنچ جائے یہ اس کے مطالعے تجربے اور ذہنی پختگی پر منحصر ہے ۔
تسوید
ماخذی مواد کا مطالعہ ، نوٹ لینا ، مواد کی پرکھ اور ترتیب سب وسیلہ ہیں ، جب تسوید کی منزل آتی ہے تو محقق کے سامنے بہت سے نوٹ بہت سے حقائق ہوتے ہیں انہیں ذہن میں سمیٹ کر اس طرح ترتیب دینا ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں گویا لکھنے سے پہلے آپ نے چار کام کیے :
1- آپ نے اپنے موضوع سے پوری واقفیت حاصل کرلی ۔
2- آپ نے غور وفکر کے بعد اپنا نقطہ نظر متعین کرلیا ہے
3- آپ نے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے حوالے جمع ومرتب کرلیے ۔
4- اور آپ نے اس موضوع میں اتنے منہمک ہوگئے کہ آپ کے وجود میں اس کے اظہار کی بے چینی پیدا ہوگئی ، لکھنے کا وقت اور مقام متعین ہونا چاہیے ، پہلے ذہنی ترتیب کر لیجے تب لکھئے۔
کہا جاتا ہے کہ محض مطالعہ نہیں کسی موضوع پر نگارش کسی کے علم کو مکمل کرتا ہے۔ جب ہم مبہم موضوع کے بکھرے ہوئے مواد کو ترتیب دیکر سپرد قلم کر تے ہیں تو گویا صورت گری کا عمل کرتے ہیں ، کسی بت تراش نے کہاتھا کہ مورتی پتھر میں ڈھلی دھلائی موجود ہوتی ہے میں اس کے چاروں طرف سے فالتوں پتھر چھیل کر اسے بر آمد کرلیتا ہوں کسی موضوع پر تصنیف و تالیف میں بھی یہی صورت ہوتی ہے ۔ اس کی تسوید سے پہلے ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم اس موضوع کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات اس ترتیب اور سلیقے سے پیش کرسکتے ہیں ۔
زبان اور بیان
تحقیقی تحریر کے الفاظ کو بے کم و کاست بیان کرنا چاہیے، محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے استعارہ اور تشبیہ کا استعمال توضیح کے لیے کرنا چاہیے، آرائش گفتار کی غرض سے نہیں، مبالغہ کو تحقیق کے لیے سم قاتل سمجھنا چاہیے، اسماء کے ساتھ صفت بھی اسی وقت لانے چاہئیں جب کوئی صفت لکھنے والے کی اصل رائی کو ظاہر کرتی ہو، بہت ، بڑا ، بے شمار وغیر ہ جیسے صفات کے استعمال میں احتیاط کرنا چاہے ۔ تناقض ، تضاد اور ضعف استدلال سے بچنا چاہئے ۔ تحقیق کا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کم سے اکم الفاظ میں پڑھنے والے پر اپنا مافی الضمیر ظاہر کردے ۔
تحقیق میں زبان کی صحت اور قطعیت پر خصوصی توجہ کرنی چاہیے ۔ اجنبی الفاظ اور تعقید سے کلام میں خشکی پيدا ہو تى ہے اور پڑھنےوالا پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
آخری بات کہ تحقیق آسان نہیں ، ضمنی اورغیر اہم کے لے اپنی زندگی برباد نہیں کرنی چاہے ، تحقیق کو سقم سے پاک کرنے کی ہر طرح کوشش کرنی چاہے ، سو فیصد کامیابی ممکن نہیں ۔
------------------
یہ بھی پڑھیں !
اسلامیات میں تحقیق ۔ کیوں اور کیسے ؟
------------------
یہ بھی پڑھیں !
اسلامیات میں تحقیق ۔ کیوں اور کیسے ؟