سید جمال الدین افغانی اور ان کی تحریک کے اثرات اور ان کا مکتب فکر! - سید ابوالحسن علی ندوی ؒ

 ؒ سید جمال الدین افغانی 
جمال الدین افغانی(سید جمال الدین افغانی کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو: ’’زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث‘‘ مؤلفہ ڈاکٹر احمد امین۔) عالمِ اسلام میں ایک ممتاز ذہن و دماغ اور طاقتور شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے مغرب کو مطالعہ و سیاحت کے ذریعہ خوب پہچانا، لیکن ان کی شخصیت پر عظیم شہرت و مقبولیت کے باوجود کچھ ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ ان کی شخصیت بھی بعض حیثیتوں سے معمہ بن گئی ہے، اور ان کی طرف متضاد رجحانات اور اقوال منسوب کئے جانے لگے ہیں، ان کی گفتگو، خطبات اور تحریروں کا جتنا حصہ محفوظ ہے، اور ان کے شاگرد و عقیدت مند ان کے حالات و اخلاق اور علم کے متعلق جو واقعات بیان کرتے ہیں، ان سے وضاحت کے ساتھ ان کے قلبی واردات اور حقیقی خیالات کا اور ان کی ذاتی زندگی کا حال نہیں معلوم ہوتا اور نہ اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے افکار و اقدار کے بارے میں ان کی ذاتی رائے اور تاثر کیا تھا، ( پچھلے چند برسوں سے عربی میں ایسے مضامین، خطبات اور کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جنہوں نے سید جمال الدین افغانی اور ان کے تلمیذ رشید مفتی محمد عبدہٗ کی شخصیتوں، عقائد و سیاسی مقاصد اور تعلقات کے بارے میں سنگین شکوک وشبہات پیدا کردئیے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمد محمد حسین (صدر شعبۂ عربی اسکندریہ یونیورسٹی) کے لیکچر جو انہوں نے کویت میں دئیے اور غازی التوبہ کی کتاب ’’الفکر الاسلامی المعاصر‘‘ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے، شیخ محمد عبدہٗ کے خطوط کا جو عکسی مجموعہ حال میں ایران سے شائع ہوا ہے، ان سے ان شبہات کی تقویت ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب اور اس کے مادی فلسفوں کا مقابلہ کرنے، ان پر تنقید کرنے اور مشرق کو مغرب کے فکری اقتدار واثر سے محفوظ رکھنے کی ان میں کتنی صلاحیت تھی، اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، ان کی مختصر کتاب ’’الرد علی الدھریین‘‘ سے اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، لیکن علامہ اقبال کا ان کے متعلق بہت بلند خیال تھا، ان کے نزدیک مغربی تہذیب کے ارتقاء نے عالم اسلام میں جو ذہنی انتشار پیدا کردیا تھا، اس کو دور کرنے اور ایک طرف اسلام کے قدیم اعتقادی، فکری و اخلاقی نظام، دوسری طرف عصرِ جدید کے نظام کے درمیان جو وسیع خلا پیدا ہوگیا تھا، اس کو پر کرنے کے کام کے لئے سید جمال الدین افغانی کی شخصیت بہت مفید اور مؤثر ثابت ہوسکتی تھی، اور ان کا وسیع اور اخاذ ذہن اس کی فطری صلاحیت رکھتا تھا، علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک خطبہ میں غالباً اسی بات کو پیش نظر رکھ کر فرمایا: 




’’ہم مسلمانوں کو ایک بہت بڑا کام درپیش ہے، ہمارا فرض ہے، ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سرنو غور کریں، اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا، تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیاتِ ملی اور حیاتِ ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات وخصائل کو خوب خوب تجربہ رکھتے تھے، ان کا مطمح نظر بڑا وسیع تھا، اور اس لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ ان کی ذاتِ گرامی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک جیتا جاگتا رشتہ بن جاتی، ان کی اَن تھک کوششیں اگر صرف اسی امر پر مرکوز رہتیں کہ اسلام نے نوعِ انسانی کو جس طرح کے عمل اور ایمان کی تلقین کی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے تو آج ہم مسلمان اپنے پاؤں پر کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔‘‘( تشکیل جدید الہٰیاتِ اسلامیہ خطبہ نمبر۴، ص: ۱۴۵، ۱۴۶)

لیکن عام طور پر عالم اسلام کے اور خاص طور پر مصر کے حالات نے (جہاں جمال الدین افغانی نے اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیا اور اس کو اپنی ذہنی و فکری سرگرمیوں کا مرکز بنایا) اور ان کے مخصوص مزاج نے (جس میں ان کی ذہانت غیرمعمولی اسلامی حمیت اور افغانی خودداری اور جوش کو بڑا دخل تھا) عالم اسلام کی سیاسی و تنظیمی ترقی اور اس کی آزادی و خودداری اور وحدت و ہم آہنگی اور غیرملکی اقتدار اور برطانوی حکومت کے خاتمہ کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ کی مہلت نہ دی اور ان کی ساری جدوجہد اور سرگرمیوں پر سیاسی رنگ غالب رہا، ان کی نفسیات کی ترجمانی اور ان کی دعوت اور مشن کا خلاصہ ان کے شاگرد ارشد شیخ محمد عبدہٗ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔

’’جہاں تک ان کے سیاسی مقصد کا تعلق ہے اور جس کی طرف انہوں نے اپنی زمام افکار موڑی تھی، اور اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں صرف کی تھی، اور اس راستہ میں ہرقسم کی مصیبت اور تکلیف برداشت کی تھی، وہ اسلامی حکومت کے ضعف کو دور کرنا اور اس کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کی غالب اور طاقتور اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھ سکے، اور اس طرح اس دین حنیف (اسلام) کو عزت و قوت حاصل ہو سکے، مشرقی ممالک سے برطانیہ کے اقتدار کا خاتمہ اس پروگرام کا اہم جزو تھا۔" ( "زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث" از ڈاکٹر احمد امین (مصری) ص ۱۰۶۔)

مفتی محمد عبدہ

مفتی محمد عبدہ 
جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے تو اس اعتراف کے ساتھ کہ انہوں نے اسلام کی مدافعت ( اس سلسلہ میں ان کی دو قابل قدر کتابیں خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں (۱) رسالۃ التوحید (۲) الاسلام و النصرانیہ فی العلم و المدنیہ۔)، نظام تعلیم کی اصلاح اور جدید نسل کو دین سے مانوس کرنے کے سلسلہ میں بڑی مفید خدامت انجام دی، اس واقعہ کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم عربی میں تجدد کے ابتدائی علمبرداروں میں تھے، انہوں نے اسلام اور بیسویں صدی کی زندگی اور معاشرہ میں مطابقت پیدا کرنے کی پرزور دعوت دی ان کے خیالات اور تحریروں میں مغربی اقدار سے گہرا تاثر پایا جاتا ہے اور وہ اسلام کی ایسی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں، جس سے وہ ان اقدار کے ساتھ میل کھانے لگے، اسی طرح سے وہ فقہ اور احکام شریعت کی ایسی تشریح و تاویل کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں جس سے تمدن جدید کے مطالبات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ہو سکے، اس لحاظ سے ان میں اور سر سید احمد خاں میں بہت کم فرق نظر آتا ہے ( اس فرق کے ساتھ کہ شیخ محمد عبدہ لغت عرب، علوم ادبیہ اور ادبیان اسلامیہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سر سید مرحوم کا مطالعہ بہت محدود اور سطحی ہے۔)۔ مفتی محمد عبدہ کا یہ میلان ان کی تفسیر، فتاویٰ اور ان کی تحریروں میں صاف طریقہ پر دیکھا جا سکتا ہے، ان کے بعد تجدد کے جو داعی پیدا ہوئے انہوں نے عام طور پر انہیں کی کتابوں سے استفادہ کیا اور انہیں کا حوالہ دیا، مصر کے برطانوی ناظم اعلی لارڈ کرومر نے اپنی کتاب (MODERN EGYPT) میں شیخ محمد عبدہ کے اس رجحان اور اس کی افادیت کا صاف طریقہ پر اظہار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
"محمد عبدہ مصر کے جدید ذہنی مکتب خیال کے بانی تھے، یہ مکتب خیال ہندوستان کے اس مکتب خیال سے بہت مشابہت رکھتا ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں نے قائم کیا تھا۔"
آگے چل کر لکھتے ہیں :
"ہمارے نقطہ نظر سے مفتی محمد عبدہ کی سیاسی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے کوشاں ہیں جو مغرب اور مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہے، وہ اور ان کے مکتب خیال کے پیرو اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کو ہر ممکن مدد دی جائے، اور ان کی ہمت افزائی کی جائے، اس لئے کہ وہ یورپین ریفارمر کے قدرتی حلیف اور معاون ہیں۔" (۱۔ MODERN EGYPT, P.P. 179 - 180.)
اسی طرح نیومین اپنی کتاب "برطانیہ عظمیٰ" (GREAT BRITAIN) میں شیخ محمد عبدہ کے تلامذہ اور پیرؤں کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے :
"ان کا پروگرام اس سب کے علاوہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب کو مصر میں داخل کرنے کے کام میں غیر ملکیوں کے ساتھ تعاون کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے، یہی وجہ تھی کہ لارڈ کرومر نے مصری وطن پرستی کے قیام کے بارے میں اپنی ساری امید اسی گروہ پر مرکوز کر دی اور اسی بناء پر انہوں نے (مفتی محمد عبدہ کے معتمد) سعد زغلول پاشا کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔" ( MODERN EGYPT, P 165.)

 سید جمال الدین افغانی کی تحریک کے اثرات اور ان کا مکتب فکر!

اس عظیم مقصد اور مشرق کے مخصوص سیاسی حالات نے جمال الدین افغانی جیسے جذباتی اور حساس شخص کے کئے سرگرمی و جدو جہد اور قوت عمل کا کوئی اور دوسرا میدان باقی نہیں چھوڑا اور وہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں کوئی ایجابی خدمت انجام نہ دے سکے، ان کو مغربی تہذیب کے گہرے اور تفصیلی مطالعہ، آزادانہ تحلیل و تجزیہ کے عمل کو مکمل کرنے اور اس کی روشنی میں ایک ایسا نیا مکتب فکر تیار کرنے کا موقعہ نہیں ملا جو بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ چل سکے اور مشرق کے طاقتور تقلیدی رحجان پر غالب آ سکے۔

لیکن جدید تعلیم یافتہ اور ذہین مسلمان نسل کی نگاہوں میں وہ نہایت بلند مقام رکھتے ہیں، وہ ان چند افراد میں ہیں جنہوں نے جدید اسلامی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، ان کی عظمت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مصر کے تعلیم یافتہ اور زہین طبقہ کو الحاد و لادینیت کے آغوش میں جانے کے کام میں مزاحمت کی۔

تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے ذہنی و علمی اثرات اور اس کی طرف سے اجمالی عقیدت کے باقی رہنے میں ان کی تحریروں اور ان کے اثرات کا ضرور دخل ہے، بروکلیمن (BROCKLEMNN) نے صحیح کہا ہے کہ :

"مصر کی روحانی زندگی پر پہلے بھی اسلام کی حکمرانی تھی، اب تک بھی یہی حال ہے، یہ زیادہ تر ایک ایرانی جمال الدین کے باعث ہے جنہوں نے سیاسی وجوہ سے اس بات کو ترجیح دی کہ اپنے آپ کو اس ملک کی طرف منسوب کر کے جہاں اپنی جوانی گزاری تھی، افغانی بتائیں۔" ( (CARL CROCKLEMANN)
CARL BROCKLEMANN - GESCHICHTE DER ISLAMISCHEN VOELKER UND STAATEN, MUNCHEN, BERLIN 1938.)

------------------------------
( ماخوذ از " مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش"  ص 134-139 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )

------------------------------
یہ بھی پڑھیں !