گناہ ٹیکس اور پی ٹی آئی حکومت

(ویپ ڈیسک) بلومبرگ کے مطابق برطانیہ کی جانب سے 1643 میں شراب پر ایکسائز ٹیکس عائد کیا گیا تھا جسے ’سِن ٹیکس‘ کی سب سے پہلی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی مضمون کے مطابق امریکا میں شراب نوشی، تمباکو نوشی اور جوا کھیلنے کی طویل تاریخ ہے جس کا آغاز 1791 میں کیا گیا تھا۔

سِن ٹیکس 

امریکی آن لائن ڈکشنری 'میریم ویبسٹر' میں سِن ٹیکس کی تعریف کچھ یوں ہے ’یہ ٹیکس ان اشیا یا سرگرمیوں پر عائد کیا جائے جو گناہ یا نقصان دہ سمجھی جاتی ہوں, جیسا کہ تمباکو نوشی، شراب نوشی یا جوا کھیلنا۔'

ڈکشنری کے مطابق ’سِن ٹیکس‘ کی اصطلاح کے استعمال کے شواہد 1957 سے ملے ہیں۔

وہ ممالک جہاں ’گناہ ٹیکس‘ عائد ہے

وزارت قومی صحت سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد حفیظ نے ڈان کو بتایا کہ دنیا کے تقریبا 45 ممالک میں تمباکو اور شکر دار مشروبات پر ٹیکس عائد ہے، جن میں متحدہ عرب امارات اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گناہ ٹیکس ایک بین الاقوامی اصطلاح ہے جسے ان اشیا پر عائد کیا جاتا ہے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں، جیسے تمباکو، کینڈی، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، کافی اور چینی۔



گزشتہ برس اکتوبر میں متحدہ عرب امارات نے سافٹ ڈرنکس اور سگریٹ پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ نقصان دہ اشیا کے استعمال کو کم کیا جائے اور ریاستی آمدن کے نئے ذرائع متعارف کروائے جائیں۔


متحدہ عرب امارات میں کاربونیٹڈ اور میٹھے مشروبات پر 50 فیصد ٹیکس اور انرجی ٹیکس اور تمباکو کی مصنوعات پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔

ڈاکٹر اسد حفیظ کا کہنا تھا کہ ’تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں ہیلتھ کیئر سروسز پر اسی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت میں گٹکا اور پان مصالحہ پر ’گناہ ٹیکس‘ عائد کیے گئے ہیں اور اس سے جمع ہونے والے پیسوں کو صحت کے شعبے میں خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مصنوعات بیماریاں پیدا کرتی ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔

کیا 'گناہ ٹیکس' رویے کو متاثر کرتا ہے؟

بلومبرگ کے مطابق عام طور پر ’گناہ ٹیکسز‘ رویوں میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ’یہ کہا جاتا ہے کہ بعض رویوں سے بیرونی منفی تاثر پیدا ہوتے ہیں، جو معاشرے پر اضافی مالی بوجھ کا باعث بنتے ہیں‘۔

اس نظریے کے مطابق یہ منفی رویے معاشرے میں دیگر رویوں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس عائد کیے جانے کے مستحق ہیں۔

مضمون کے مطابق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن، عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) اور مایو کلینک کے ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکسز رویے تبدیل کرنے اور صحت میں بہتری لانے کے لیے کافی اہم ہیں۔

بزنس انسائیڈر کے آرٹیکل کے مطابق تاہم ابھی کافی ثبوت نہیں ہیں کہ ایسے ٹیکسز ذیابیطس یا موٹاپے میں کمی کا باعث بنتے ہیں، بعض تحقیقات میں لوگوں کی خوراک میں چینی کی زیادہ مقدار اور ذیابیطس کے درمیان تعلق ہے۔

اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں 2013 میں کی گئی تحقیق میں گزشتہ ایک دہائی میں 175 ممالک کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق عوام کی خوراک میں چینی کی زیادہ سطح کا تعلق ٹائپ 2 ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہے۔


دیگر تحقیقات میں بتایا گیا کہ موٹاپا بھی ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھادیتا ہے۔

2017 میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی تحقیق میں بتایا گیا کہ میٹھے مشروبات پر عائد کیے گئے 20 فیصد ٹیکس کی وجہ سے چین میں موٹاپا اور وزن کی زیادتی میں 3 فیصد کمی آئی، اس کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں نوجوان افراد پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔

دی گارجین نے 2017 میں رپورٹ کیا کہ میکسیکو اور امریکا میں میٹھے مشروبات کی خریداری سے متعلق کیے گئے تجزیے کے مطابق ٹیکس متعارف کرنے کے پہلے سال میں ان مشروبات کی خریداری میں 5.5 فیصد کمی جبکہ دوسرے سال میں 9.7 فیصد کمی آئی، یعنی دو سال کے عرصے میں اوسطاً 7.6 فیصد کمی آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ میکسیکو کی 70 فیصد سے زائد آبادی موٹاپے کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ خوراک میں شامل چینی کا 70 فیصد حصہ میٹھے مشروبات پر مشتمل ہونا ہے۔

---------------

روزنامہ ایکسپریس ،  13 دسمبر 2018 کے کالم میں معروف کالم نگار  جاوید چوہدری نے اس ٹیکس کے تاریخی عوامل پر روشنی ڈالی ہے ----- یہ تصور بھی اسپین کے شہر سیویا(Seville) نے دیا‘ رائل ٹوبیکو کے نام سے فیکٹری بنی اور فیکٹری نے 1758ء میں سگریٹ کی پروڈکشن شروع کر دی‘ مالکان نے سگریٹ بنانے کے لیے بارہ سو خواتین بھرتی کیں‘ خواتین ہاتھ سے سگریٹ بناتی تھیں‘ وہ کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر اس پر تمباکو رکھتی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے رول کر کے سگریٹ بنا دیتی تھیں‘سگریٹ بنانے کا یہ طریقہ امریکا سے اسپین آیا تھا‘ امریکا میں سگار خواتین بناتی تھیں۔

نئی دنیا کا خیال تھا سگار کو اگر مرد کا ہاتھ لگ جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے لہٰذا سگار بنانا خالصتاً خواتین کا کام تھا‘ یہ تصور سگار سے سگریٹ میں آ گیا چنانچہ دنیا کی تمام ابتدائی سگریٹ فیکٹریوں میں سگریٹ بنانے کے لیے خواتین بھرتی کی جاتی تھیں۔

بھرتی کا یہ سسٹم بھی سیویا سے شروع ہوا‘ سگریٹ سازی کے اس عمل کے دوران تین بیماریاں سامنے آئیں‘ پہلی بیماری جلدی تھی‘ تمباکو رگڑنے سے خواتین کے ہاتھوں پر پھوڑے نکل آتے تھے‘ یہ پھوڑے آہستہ آہستہ بازو اور پھر جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جاتے تھے یوں وہ کام کے قابل نہیں رہتی تھیں‘ دوسرا ان کے جسم سے تمباکو کی بو آتی تھی جس سے ان کی گھریلو زندگی متاثر ہوجاتی تھی اور تیسرا سگریٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین دمے اور ٹی بی کا شکار ہو جاتی تھیں۔


مالکان نے شروع میں ان ایشوز پر توجہ نہ دی لیکن جب زیادہ تر خواتین بیمار ہونے لگیںتو فیکٹری مالکان اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے افسراکٹھے بیٹھے اورحکومت نے سگریٹ پر تین ٹیکس لگا دیے‘ پہلا ٹیکس جلدی امراض سے متعلق تھا‘ حکومت سگریٹ کی ہر ڈبی پر تھوڑی سی رقم لیتی تھی اور یہ رقم جلدی امراض پر کام کرنے والے اداروں کو دے دی جاتی تھی ‘ وہ ادارے اس رقم سے سگریٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کریمیں اور پاؤڈر ایجاد کرتے تھے۔

دوسرا ٹیکس سگریٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کی بہبود کے لیے تھا‘ حکومت اس فنڈ سے سگریٹ ساز خواتین اور ان کے بچوں کی پرورش کا بندوبست کرتی تھی اور تیسرے ٹیکس سے دمے اور ٹی بی کا علاج ہوتا تھا‘ حکومت نے سیویا میں سینی ٹوریم بنائے اور یہ اس فنڈ سے دمے اور ٹی بی کی شکار خواتین کا علاج کرنے لگی‘ یہ تینوں ٹیکس شروع میں مالکان پر لگائے گئے لیکن پھر یہ سگریٹ نوشوں پر شفٹ کر دیے گئے۔

سگریٹ کی انڈسٹری اٹھارہویں صدی میں سیویا (اسپین) سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گئی‘ یہ وہاں سے یورپی کالونیوں میں آئی اور پھر وہاں سے پوری دنیا میں پہنچ گئی یہاں تک کہ بیسیویں صدی میں دنیا کا کوئی ملک اور کوئی ایسا خطہ نہ بچا جہاں سگریٹ ‘ سگریٹ نوش‘ سگریٹ کی فیکٹریاں اور سگریٹ کا کاروبار نہ ہو‘ ہندوستان میں انگریز سگریٹ لے کر آیا‘1910ء میں امپیریل ٹوبیکو کمپنی بنی اور اس نے 1913ء میں کلکتہمیں پہلی سگریٹ فیکٹری لگائی‘ یہ فیکٹری فوج کو سگریٹ فراہم کرتی تھی‘ فوج میں شامل ہر جوان کو راشن میں سگریٹ دیا جاتا تھا۔

سرکاری افسروں کو بھی فری سگریٹ دیے جاتے تھے‘ سگریٹ کی سرکاری کھپت میں اضافہ ہوا تو حکومت نے یہ علت عوام کے لیے بھی کھول دی‘ عوام کو سگریٹ مہنگا دیا جاتا تھا‘ منافع کا ایک حصہ مالکان کی جیب میں چلا جاتا تھا اور دوسرا حصہ حکومت سے ہوتا ہوا فیکٹریوں میں واپس آجاتا تھا اور اس سے فوج اور بیورو کریسی کے لیے مفت سگریٹ بنائے جاتے تھے‘ یہ سگریٹ محاذ پر لڑنے والے جوانوں کا واحد نفسیاتی سہارا ہوتے تھے‘ فوجی ان کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے۔دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے روز مرہ کی زیادہ تر اشیاء پر ٹیکس لگنا شروع ہوگئے ‘ سگریٹ کی صنعت ٹیکس کا سب سے بڑا سورس بن گئی‘ حکومتیں اس انڈسٹری سے اربوں روپے سالانہ ٹیکس وصول کرتی تھیں۔

یہ اس ٹیکس پر خوش تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ سگریٹ نوشی کے نقصانات سامنے آنے لگے‘ یورپ میں لاکھوں لوگ ٹی بی‘ کینسر‘ دمہ‘ اعصابی کمزوری‘ ڈپریشن اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوگئے‘ سگریٹ کی وجہ سے دل کے امراض میں بھی اضافہ ہو گیا چنانچہ ایک ایسا وقت آ گیا جب حکومتوں کو پتہ چلا ہم سگریٹ کی صنعت سے جتنا ٹیکس وصول کر رہے ہیں ہم اس سے دگنا اور تین گنا رقم امراض قلب اور کینسر پر خرچ کر دیتے ہیں‘ یہ بھی پتہ چلا سگریٹ کی وجہ سے معذور بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ بھی معلوم ہوا تمباکو سے سگریٹ نوش اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنے ان کے اردگرد موجود نان اسموکر ہوتے ہیں اور یہ بھی پتہ چلا سگریٹ نوشوں کی عادت بد کے اثرات تیسری نسل تک جاتے ہیں۔

یہ تمام اعدادوشمار اور انکشافات ہولناک تھے چنانچہ پوری دنیا میں تمباکو‘سگریٹ اور اسموکنگ کے خلاف مہم شروع ہو گئی‘ یورپ کے تمام ملکوں نے سگریٹ پر ہیوی ٹیکس اور ڈیوٹیز لگا دیں‘ سگریٹ نوشی کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بھی بن گئے‘ شروع میں دفتروں اور عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا ئی گئی اور پھر ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ گلیوں‘ کافی شاپس‘ بسوں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں پابندی لگائی گئی اور اب تقریباً تمام عمارتوں کے اندر سگریٹ نوشی منع ہے‘ دنیا کے اسی فیصد ملکوں میں بچوں کو سگریٹ فروخت نہیں کیے جاتے‘ پوری دنیا میں سگریٹ کی ڈبی پر کینسر کی وارننگ بھی لازم قرار پا چکی ہے‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں وارننگ کا سائز بڑھتے بڑھتے 80 فیصد ہو چکا ہے۔

آپ کو ڈبی کے 80 فیصد حصے پر کینسر کے کسی مریض کی خوفناک تصویر دکھائی دیتی ہے تاہم پاکستان میں یہ وارننگ ابھی تک 50فیصد ہے‘ حکومت کو اسے بھی بڑا کرنا چاہیے‘ تمام سینما گھروں میں فلم سے قبل سگریٹ نوشی کے خلاف اعلان بھی دکھایا جاتا ہے اور پوری دنیا میں سگریٹ کے اشتہارات پر بھی پابندی ہے‘ یہ تمام انتظامات اپنی جگہ لیکن سگریٹ نوشی اور اس کے اثرات کنٹرول نہیں ہو رہے‘ ہمارے ملک میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ سگریٹ کے ہاتھوں تباہ ہو رہے ہیں‘ خاندان کے خاندان اجڑ گئے‘ آپ کسی اسپتال میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ہر دوسرا شخص سگریٹ کا شکار ملے گا‘ ترقی یافتہ دنیا اس مسئلے کے تدارک کے لیے دھڑا دھڑ قوانین بنا رہی ہے‘ ہمارے ملک میں 20سگریٹ کی جو ڈبی 160 روپے میں ملتی ہے وہ آسٹریلیا میں 20 ڈالر‘ نیوزی لینڈ میں18ڈالر‘ آئر لینڈمیں 13ڈالر اوربرطانیہ میں12 ڈالر میں بکتی ہے‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں بالترتیب 2780روپے‘2502روپے‘ 1807روپے اور1668روپے بنتے ہیں گویاآسٹریلیا میں سگریٹ ہمارے مقابلے میں16گنا‘ نیوزی لینڈ میں15گنا‘آئر لینڈ میں10 گنااور برطانیہ میں9 گنا مہنگا ہے۔

ترقی یافتہ قومیں سگریٹ سے حاصل ہونے والی یہ اضافی آمدنی محکمہ صحت کو بھجوا دیتی ہیں اور محکمہ صحت یہ رقم سگریٹ نوشی کے اثرات پر تحقیق ‘ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں اور کینسر کے مریضوں کے علاج پر خرچ کرتا ہے یوں سگریٹ نوشوں کی رقم سے تمباکو کے برے اثرات کے شکار لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے‘ قاتل کی بندوق اور قاتل کی گولی سے قاتل کو قتل کی سزا دی جاتی ہے‘ ذمے داروں پر ذمے داری کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔یہ ایک بہت اچھا تصور ہے‘ سگریٹ کی صنعت اور سگریٹ نوش اگر دوسروں کی جان اور صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں تو پھر انھیں اس ظلم کا تاوان بھی ادا کرنا چاہیے‘ان لوگوں کو عام لوگوں کی بیماری کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے۔

حکومت پاکستان بھی اب یورپین پیٹرن پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ کے نام سے ایک نیا ٹیکس متعارف کرا رہی ہے‘ حکومت سگریٹ کی ہر ڈبی پر دس روپے اور مشروبات کی ہر بوتل پر ایک روپیہ ٹیکس وصول کر یگی اور یہ رقم بعد ازاں ہیلتھ انشورنس اسکیم اورمہلک بیماریوں کے خاتمے پر خرچ کی جائے گی‘ یہ حکومت کا پہلا ایسا اینی شیٹو ہے میں جس کی کھل کر حمایت کروں گا‘ سگریٹ نوشی کی وجہ سے محکمہ صحت اور اسپتال دونوں دباؤ میں ہیں‘ تمباکو نوش جہاں خود بیمار ہوتے ہیں یہ وہاں پورے معاشرے کو بھی بیمار کر رہے ہیں‘ ہم سگریٹ نہ پینے والے لوگ ان سگریٹ نوشوں اور ان کی پھیلائی بیماریوں کا بوجھ اٹھارہے ہیں‘ یہ بوجھ بھی ان لوگوں کو اٹھانا چاہیے چنانچہ حکومت کو چاہیے یہ دس کے بجائے تیس بلکہ پچاس روپے گناہ ٹیکس لگائے اور یہ رقم سیدھی امراض قلب‘ ٹی بی اور کینسر کے اسپتالوں کو دے دی جائے‘ مشروبات بھی معدے‘ قلب اور دماغ کے امراض پیدا کر رہے ہیں‘ مشروبات ساز کمپنیاں ہر سال لاکھوں لوگوں کو بیمار کر کے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے حوالے کر دیتی ہیں۔

حکومت کو مشروبات سے لطف لینے اور مشروبات بنانے والی کمپنیوں دونوں سے اس گناہ کا تاوان وصول کرنا چاہیے‘ پٹرول بیچنے والی کمپنیاں بھی ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں‘ ہماری ہوا میں اب آکسیجن کم اور دھاتیں اور کینسر پیدا کرنے والے مادے زیادہ ہیں‘ حکومت پٹرول پر بھی ماحولیات ٹیکس لگائے اور یہ ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر وصول کر کے ماحولیات کی وزارت کو منتقل کیا جائے اور آپ اسی طرح بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل بنانے والی کمپنیوں پر بھی ’’ہیلتھ اویئرنیس ٹیکس‘‘ لگائیں اور یہ ٹیکس بھی محکمہ صحت کو روزانہ کی بنیاد پر منتقل کر دیا جائے اور ساتھ ہی ان اداروں کو سال کا روڈ میپ بھی دے دیا جائے اور ان سے ہر ماہ پوچھا جائے آپ نے پچھلے تیس دنوں میںکیا کیا؟ ان محکموں کے جن لوگوں کی کارکردگی ٹھیک نہ ہو‘ ان لوگوں کو نکما ڈکلیئر کر کے وزارت خزانہ میں اسد عمر کے حوالے کر دیا جائے اور یہ انھیں اپنے پرسنل اسٹاف میں شامل کر لیں۔

یہ گناہ ٹیکس ملک میں واقعی تبدیلی لے آئے گا چنانچہ میں گناہ ٹیکس پر حکومت کو خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں‘ حمایت کا اعلان بھی کرتا ہوں اور ان سے گناہ ٹیکس کے جلد سے جلد نفاذ کی درخواست بھی کرتا ہوں‘ میری حکومت سے اپیل ہے آپ یہ اعلان بھی کر دیں ہم فلاں سال تک پاکستان کو سگریٹ نوشی سے پاک کر دیں گے‘ہم اگر یہ کر گئے‘ہم نے اگر پاکستان کو دنیا کا پہلا اسموکنگ فری ملک بنا دیا تو یہ واقعی کمال ہو گا‘ ہم دنیا کو حیران کر دیں گے‘ میرا خیال ہے عمران خان کم از کم یہ کام ضرور کر سکتے ہیں۔ 

---------------------
روزنامہ ایکسپریں ، 13دسمبر 2018 کے کالم میں معروف شاعر امجد اسلام امجد   اس ٹیکس کے نام پر نا پسندی کا اظہار کیا  ، لکھتے ہیں " نیکی اور گناہ اور عذاب و ثواب ایسے موضوعات ہیں جن کا تعلق ان دنیاؤں سے بھی ہے جو ابھی پردہ ٔ غیب میں ہیں اور دنیا کی تقریباً نصف آبادی جن پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتی لیکن اس کے باوجود یہ الفاظ اور تصورات ہمہ وقت اپنے ہونے کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ نہ صرف بیشتر دل و دماغ کو چھونے والی باتوں کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں انھیں سے جا نکلتا ہے بلکہ مزاح‘ بذلہ سنجی witاور پیروڈی کے حوالے سے بھی یہ موضوع ہر معاشرے میں ہٹ چلا آ رہا ہے، اب اس پس منظر میں حال ہی میں سگریٹ پر لگائے جانے والے ’’گناہ ٹیکس‘‘ کو دیکھا جائے تو یہ سب کچھ آپس میں خط ملط ہو جاتا ہے۔

مذہبی اصطلاحات کے حوالے سے ’’گناہ‘‘ کے کئی روپ بیان کیے گئے ہیں جب کہ ان کی شدت کو واضح کرنے کے لیے ’’گناہ کبیرہ‘‘ اور ’’گناہ صغیرہ‘‘ سے کام چلایا جاتا ہے، اب تک تو یہی سنا تھا کہ حشر کے روز آدم سے لے کر قیامت کے لمحے تک زندگی پانے والی تمام خلق خدا کے اعمال کو گناہ و ثواب کے پیمانے پر تولا جائے گا اور اسی کے حوالے سے اس کے لیے اگلی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا میں جزا اور سزا کا تعین ہو گا لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر مذہب اور عقیدے کے کچھ ٹھیکے داروں نے اس صورت حال سے کھلواڑ کرنے کی ایک سے بڑھ کر ایک کوششیں کی ہیں مثال کے طور پر بارہویں، تیرہویں صدی عیسوی میں یورپ میں رومن کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہبی سسٹم میں جنت اور اگلی دنیا میں اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے لیے چرچ کی طرف سے کچھ ’’شارٹ کٹ‘‘ نکالے گئے تھے۔ (اگرچہ مارٹن لوتھر کی اس ضمن میں احتجاجی تحریک کے باعث ’’پروٹسٹنٹ فرقہ ظہور میں آیا لیکن یہ روش اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔

ہندوؤں کے رشی منی ہوں یا ہم مسلمانوں کے پیر فقیر اب بھی اس دنیا میں کیے جانے والے گناہوں کی معافی یا ان کی سزا میں کمی ان لوگوں کو مختلف طرح کے عجیب و غریب ٹیکس ادا کرنے سے مل جاتی ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ تر کاروبار میں گڑ بڑ کرنے والوں کا مذہبی حوالے سے کھل کر خرچ کرنے کے پیچھے بھی اصل میں یہی تسلسل کار فرما ہے۔ سگریٹ سازی اس وقت دنیا کی ایک بڑی صنعت اور سگریٹ نوشی ایک محبوب مشغلہ اور عادت ہے۔ تمباکو نوشی کے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ضمن میں بعض بہت عجیب و غریب اور مضحکہ خیر باتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ یہ غالباً دنیا کی واحد پراڈکٹ ہے جس کی تشہیر میں یہ بھی لکھنا لازم ہے کہ اس کی وجہ سے آپ مختلف طرح کی موزی بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ براہ راست فوت بھی ہو سکتے ہیں اور یہ کہ اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔ لیکن حال ہی میں اس کے حوالے سے جو ’’گناہ ٹیکس‘‘ کا تصور سامنے آیا ہے۔ اس نے تو حد ہی کر دی ہے۔ کسی فلسفی کا قول ہے کہ
’’ضمیر کی آواز انسان کو گناہ سے روکتی تو نہیں البتہ اس کا مزا خراب کر دیتی ہے‘‘۔ اب اس’’گناہ ٹیکس‘‘ پر آج اور مستقبل کا فلسفی کیا کیا کہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس نے بھی سگریٹ نوشی کے ساتھ ’’گناہ‘‘ اور پھر اس کے بعد ’’ٹیکس‘‘ کا ٹانکا لگایا ہے اس کی حس مزاح داد کے قابل ہے اور اگر اس کا سلسلہ اس سوچ سے ہے جس میں ٹیکس ادا کر کے گناہ کو بخشوا لیا جاتا تھا تب بھی یہ اپنی جگہ پر ایک ’’جہاں معنی‘‘ رکھتا ہے کہ اس کی مدد سے اکیسویں صدی میں بھی کسی برائی کو گناہ ٹیکس کا گنگا اشنان دے کر اس کی حفاظت اور فروغ کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ انور مسعود نے اس صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے کہ

سرکار کی بے ساختہ رفتار و روش سے

جو سلسلۂ ٹیکس نمودار ہوا ہے

کیا جانیے اس ضمن میں کیا ہوؤے گا آگے

فی الحال تو سگریٹ ہی گنہگار ہوا ہے

پی ٹی آئی حکومت کی سو روزہ کارکردگی پر اس کے حق میں کم اور مخالفت میں زیادہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ میں سیاسی معاملات بالخصوص سیاستدانوں کے غیر ذمے دارانہ بیانات اور حکومتوں کے بعض عجیب الخلقت منصوبوں اور اس کے بلا یا کم سوچے سمجھے اقدامات پر بات کرنے کی تضیع اوقات سمجھتا ہوں اور حتیٰ الممکن اس سے پرہیز بھی کرتا ہوں کہ یہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کروانے کا سا کاروبار ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس تنقید سے خیر کا عملی پہلو نکلنے کی توقع یا گنجائش ہو وہاں کبھی کبھی اس امید پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں کہ ’’شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات‘‘۔

ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کی ترقی اور بھلائی کے لیے جو بھی اچھا سوچنے یا کرنے کی کوشش کرے اس کی مدد اور رہنمائی ہم سب کا فرض ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد بھی اصل میں طریقہ کار ہی کا اختلاف ہے کہ ایک جماعت ایک راستے کو بہتر سمجھتی ہے اور دوسری کسی اور کو مگر مقصد تو سب کا قوم کی فلاح اور بہتری میں ہے اور ہونا چاہیے۔

میں ذاتی طور پر ایک امید پرست اور خوش گمان انسان ہوں اور اس حوالے سے اس بات  پر یقین رکھنا ہوں کہ عمران خان اپنی عقل و فہم اور استعداد کے مطابق پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے اور اس کے بعض متنازعہ بیانات اور اقدامات کو بھی اس اسپرٹ کے ساتھ دیکھنا چاہیے البتہ اس بات کا خیال ضرور رہنا چاہیے کہ الفاظ اور اصطلاحات کی حرمت اور ان کے استعاراتی مطالب کی نوعیت کو سمجھ کر بات کی جائے اور اگر اس عمل میں کہیں کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اسے مان کر درست کر لیا جائے اور’’گناہ ٹیکس‘‘ قسم کے شوشوں اور ان کو ہوا دینے والوں سے بچا جائے کہ سگریٹ نوشی ایک عجیب یا بری بات تو ہو سکتی ہے مگر اسے گناہ کہنا اور پھر اس پر ٹیکس لگا کر اسے ’’جائز‘‘ یا دوسرے لفظوں میں نقصان سے پاک قرار دے دینا ایک بچگانہ اور فضول سی بات ہے کہ ہر باپ اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے چلتے چلتے ’’گناہ‘‘ کے حوالے سے یگانہ کا ایک بے نظیر شعر سنتے جایئے کہ اس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں۔

گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری

کسی پہ ہنس لیے اتنے کہ پھر ہنسا نہ گیا


-------------------------