زاہدہ حنا
روزنامہ ایکسپریس، 12 ، دسمبر 2018ء
------------------------------------------
2 دن پہلے انسانی حقوق کے میثاق کی 70 ویں سالگرہ گزری ہے، یہ ایک ایسا دن تھا جو دنیا کے بہت سے ملکوں میں بہت دھوم دھام سے منایا گیا۔ یہ ایک ایسا دن بھی تھا جب مختلف ملکوں میں بے گناہ انسان قتل کیے جارہے تھے، بستیاں بمباری سے مسمار کی جارہی تھیں، بچے اپنے بستروں سے گھسیٹ کر نامہربان زمینوں کی طرف دھکیلے جا رہے تھے، عورتیں اور بچیاں بے حرمت کی جارہی تھیں ۔ ان ملکوں اور علاقوں میں اقوام متحدہ کی دہائی دی جا رہی تھی۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ کا مرثیہ میں چند ہفتوں پہلے اپنے ایک کالم میں لکھ چکی ہوں۔ بات اتنی سی ہے کہ انسانی حقوق کا معاملہ نیا نہیں ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور اس کا انسانی حقوق کا میثاق انسانوں کی بہتری اور ان کے حقوق کے تحفظ کا سب سے نیا ادارہ اور نئی دستاویز ہے ، ورنہ یہ معاملہ ہزاروں برس سے کسی نہ کسی طور چل رہا ہے۔ ہم جب قدیم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں 2050 ق م میں’’ اُرنمو ‘‘ ملتا ہے اور اس کے بعد سب سے مشہور حمورابی کے قوانین کا مجموعہ ہوا جو 1780 ق م میں جاری کیا گیا۔ اس مجموعۂ قوانین میں عورتوں، مردوں، بچوں، حد تو یہ ہے کہ غلاموں کے حقوق کی بھی بات کی گئی تھی ان قوانین سے سرتابی کی سزائیں بھی رکھی گئی تھیں۔
اسی طرح قدیم ایران میں ہمیں سائرس اعظم کا وہ کھوکھلا بیلن ملتا ہے جس پر 539 قبل مسیح میں اس نے اپنے احکامات کندہ کرائے، اسی میں اس نے قید کرکے لائے جانے والے یہودیوں کو ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دی تھی۔ اشوک اعظم نے 273 قبل مسیح میں پتھر کی چٹانوں پر جو احکامات کندہ کرائے ان میں جنگ کی ممانعت تھی، قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم تھا اور ہر قسم کے شکار پر بھی پابندی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اشوک اعظم کی افواج نے جب کالنگھا کے میدان میں فتح پائی اور اشوک گھوڑے پر سوار ہوکر اپنی فتح کا مظاہرہ کرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ وہ میدان میں بکھری ہوئی لاشوں کو دیکھ کر لرزگیا۔ وہ گھوڑے سے اتر گیا، اس نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور گریہ کیا۔ اس کا یہ نوحہ تاریخ میں محفوظ ہوگیا۔ ’’یہ میں نے کیا کردیا؟‘‘
اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں؟
یہ فتح ہے یا شکست؟یہ انصاف ہے یا نا انصافی؟
یہ بہادری ہے یا بزدلی؟
کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟
کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا؟
یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے؟
کسی نے اپنا شوہر کھودیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔
لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں؟
یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے؟
جنگ سے نفرت اور قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا تصور پروان چڑھتا رہا۔ تاریخ کے اس سفر میں ساتویں صدی عیسوی میں ہمیں میثاق مدینہ ملتا ہے۔ اس کے بعد 1215 میں میگنا کارٹر تحریر ہوا۔ یہ تمام تحریریں اور میثاق براہ راست حقوق انسانی کی بات کرتے ہیں۔ حقوق انسانی کی پہلی شق انسانی جان کا احترام ہے۔ برتھافان سٹر نے 1905 میں کہا تھا کہ ’’تمام ابدی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ خوشحالی، حالت امن میں ہی پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے اور تمام ابدی انسانی حقوق میں سے ایک حق ایک انسان کے زندہ رہنے کا حق ہے۔‘‘
پہلی جنگ عظیم اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے یورپ اور امریکا کو دہلاکر رکھ دیا۔ ان ملکوں اور قوموں کے دانشوروں اور مدبروں نے طے کیا کہ انھیں امن کے لیے مشترکہ طور پر سوچنا اور کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ دوسری جنگ عظیم سے ذرا پہلے آرچ بشپ سوئیدر بلوم نے کہا تھا ’’دنیا نے ابھی تک پورا خون نہیں دیکھا ہے جو انسانی ہوش و حواس میں گناہ، رشک اور ظلم کی خاطر بہایا گیا تھا۔‘‘
اس دن جنگ بندی کے ہمراہ بگل، جھنڈے اور خوشیاں نہیں تھیں بلکہ اس دن تو وہ ایک قبرسے دوسری قبر، ایک میدان سے دوسرے میدان تک لنگڑاتی پھر رہی تھی۔
ہمارے کانوں کو اب بھی اپنے زخمی دوستوں کی موت کی کراہیں سنائی دیتی ہیں۔
اسلحوں کی چمچماہٹ ختم ہوگئی ہے، انسانی دیوالیہ ہوچکا ہے، لوگ تھک کر خستہ ہوچکے ہیں، باسی اسی بات پر خوش ہیں کہ موت سے بچ نکلے ہیں۔
انسان نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
اس کو فتح کیسے کہا جائے، یہ تو تمام حریفوں کی شکست ہے۔
چیتھڑوں میں لپٹے بیمار، بھوکے اور بد حواس لوگ بے مقصد تباہ شدہ میدانوں میں پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عارضی جنگ بندی کی بھیانک خاموشی میں وہ اپنے راستے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
ان گھروں کی یادیں جو کہیں تھے، کبھی تھے۔
امن کی تلاش میں دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد کہیں زیادہ تیزی آئی۔ لیگ آف نیشنز کا خاتمہ بالخیر ہوچکا تھا، کچھ مدبرین نے طے کیا کہ اس کی جگہ یونائیٹڈ نیشنز قائم ہونی چاہیے اور اس کا بنیادی مقصد وسیع تناظر میں انسانی حقوق کا تحفظ اور امن کی تلاش ہونا چاہیے۔ یہ کام 1947 سے شروع ہوا۔ ڈرافٹنگ کمیٹی نے ڈیڑھ دو برس کی عرق ریزی کے بعد عالمی انسانی حقوق کا فرمان تیار کیا جو 10 دسمبر 1948کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا اور جسے 48 اراکین نے منظور کرلیا۔ یوں وہ کہانی شروع ہوئی جو 2 دن پہلے 70 برس کی ہوگئی ہے۔
انسانی حقوق کے فرمان کی ڈرافٹنگ کمیٹی کی صدارت ایلینرروزویلٹ کررہی تھیں جو امریکی صدر فرینکن روزویلٹ کی بیوہ تھیں اور ان کا اصل وصف ان کی روشن خیالی، روا داری اور امن کے لیے ان کے ٹھوس خیالات تھے،اس کمیٹی میں ان کے ساتھ ری پبلک آف چائنا کے پن چن چانگ لبنان کے چارلس حبیب مالک، چلی کے ہیمان سانتا کروز، فرانس کے ریلے کاسن ، سوویت یونین کے الیکزنڈر بوگومولود، برطانیہ سے چارلس ڈیوک اور کینیڈا کے جون پیٹر ہمفری شامل تھے۔
انسانی حقوق کے تعین کے دوران بعض بنیادی اختلافات بھی پیدا ہوئے، اس پر بحث ہوئی کہ کچھ فطری حقوق ہیں جو خدا یا فطرت نے انسان کو ودیعت کیے ہیں اور کچھ وہ حقوق ہیں جو انسانوں نے اپنی دانش سے منطقی بنیادوں پر طے کیے ہیں۔ لمبی بحث تکرار کے بعد اپنی اصل شکل میں یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا، کسی اختلاف رائے کے بغیر منظور ہوا اور گزشتہ 70 برسوں کے دوران اس کے دائرہ کار اور اس کی ذیلی تنظیموں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آج اقوام متحدہ سے افراد اور اقوام کو بہت سی شکایتیں ہیں، اس کے باوجود اس ادارے نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تحت بہت کچھ کیا ہے اور وہ لوگ جو اس دنیا میں امن چاہتے ہیں ایک ایسی انسانی برادری چاہتے ہیں جس میں تمام اقوام اور تمام انسان مساوی ہوں۔
اس کی طرف اقوام متحدہ کے مختلف ادارے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ 70 برس ایک طویل مدت ہے لیکن دنیا میں استحصالی طاقتوں کے مفادات نے انسانی حقوق کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ ایسے میں مثبت انداز میں اور درست سمت میں جد وجہد کرتے رہنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ’’امن‘‘ کو ایک غیر مرئی شے نہ سمجھیں۔ امن ایک ٹھوس حقیقت ہے اور اس کے ایک ہزار ایک مفہوم ہیں۔
لہلہاتی کھیتیاں، ہرے بھرے پیڑوں کے درمیان سرسراتی ہوئی ہوائیں فضا میں تیر جاتے ہوئے پرندے، اپنے آشیانے کے لیے تنکے چنتی ہوئی ننھی سی چڑیا، چولہے پر چڑھی ہوئی کھد بد کرتی ہنڈیا، توے یا تنور سے آتی ہوئی گرم نان کی سوندھی خوشبو، ڈگمگاتے قدموں سے اپنی ماں کی طرف چلتا ہوا بچہ اور اس کے لبوں سے نکلتی ہوئی کلکاری، اپنی گڑیا کو سینے سے لگاکر ماں، نانی یا دادی سے جل پریوں کی کہانی سنتی ہوئی بچی، پریم کہانی بیان کرتا ہوا کوئی گیت، شادی کی محفل میں ڈھولک کی تھاپ، رقاصہ کی پنڈلیوں سے لپٹے ہوئے گھنگھروؤں کی چھنک، اپنی تختی کو ملتانی مٹی سے لیپتی ہوئی کوئی لڑکی اس خیال میں گم کہ وہ آج اس پر کون سا نیا لفظ لکھے گی۔ ہرگلی، ہرگھر اور ہر چوبارے کے یہ پر سکون مناظر ’’امن‘‘ کے موقلم کی مصوری ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور ایسی ہی تصویروں کے لیے رنگ فراہم کرتا ہے۔
-------------------------------
زاہدہ حنا ، روزنامہ ایکسپریس 12 دسمبر 2018ء