( اس میں خطوط کے خاص حصے شامل ہیں )
(1)
یک عیسائی نے مکتوب الیہ سے سور کی وجہ حرمت پوچھی تھی ، مکتوب الیہ نے مولانا سے دریافت کیا۔
علامہ شبلی نے جواب میں لکھا :
" سور کے چند خصائل بد ہیں ، قرآن مجید میں تو صاف حرمت کی تصریح ہے ، " حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ (1) توریت (2) و انجیل کا حال مجھ کو معلوم نہیں ، عوام کو رام کرنا تو بہت آسان ہے ، آنحضرت ﷺ کے صحیح اخلاق ، تواضع، فیاضی ، عفو وغیرہ کا بیان مؤثر طرح کیا جائے تو عوام پر بھی نہایت قوی اثر ہوتا ہے "
( شبلی ، 6 جنوری 1912ء)
(2)
" سور نہایت بے عزت جانور ہے ، کوئی جانور ایسا نہیں ہے کہ اپنی جفت کی نسبت اس کی عزت نہ ہو اور دوسرے سے اس کا تعلق پسند کرے ، لیکن سور اس سے مستثنی ہے ، اس کے علاوہ طبعََا اس کی غذا فضلہ ہے ، اور وہ نہایت ذوق سے کھاتا ہے ، مجھ کو خود مشاہدہ گزرا ہے۔
حضرت عیسی ؑ نے شادی نہیں کی تو یہ ان کی رہبانیت تھی ، ان کی یہ عام تعلیم تھی ، ان کا مقولہ ہے کہ " سوئی کے ناکے سے اونٹ نکل سکتا ہے ، لیکن صاحب دولت خدا کی سلطنت میں داخل نہیں ہوسکتا " شادی نہ کرنا تمدن کے خلاف ہے ، اس لیے وہ کسی خاذص آدمی کے لیے جائز ہو سکتا ہے ، لیکن سوسائٹی کے لیے مضر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے 53 برس تک خدیجہ (رض) کے سوا جو شادی کے دن 40 برس کی تھیں ، کسی سے شادی نہیں کی ، یہ شباب کا بلکہ انحطاط کا زمانہ ہے ، اس لیے اگر مقصود ہوس نفس ہوتی تو اس زمانہ میں اور شادیاں کی ہوتیں ، جو شادیاں کیں اکثر پولیٹکل تھیں ، یعنی ان کے ذریعہ سے بڑے بڑے عرب کے قبائل سے اتحاد پیداہوا ، اور ان میں اسلام پھیلا،
ازواج مطہرات (رض ) کے تفصیلی حالات دیکھو تو صاف معلوم ہوجائےگا ، اس بحث پر سر سید و مولوی امیر علی نے اچھا لکھا ہے ، کم ازکم مولوی امیر علی اور سر سید کی تصنیفات پڑھنی چاہیے "
(شبلی ، 23 جنوری 1912)
(3)
" ابن خلدون سے ابن خلکان زیادہ معتبر ہے ، گو ابن خلدون فلاسفر ہے ، خطیب بغدادی چوتھی صدی میں تھا "
( شبلی ، 11 جنوری 1912ء )
(4)
"1- ہندوستان نہ دارالحرب ہے (3) ، نہ دارالاسلام بلکہ دارالامن ہے ، کسی کا مال غصب کرنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔
2- بنک کا سود میرے نزدیک جائز ہے ، شاہ عبدالعزیز صاحب کا فتوی اس کے متعلق چھپ گیا ہے ، "
( شبلی، 12 فروری 1912ء)
(5)
" دارالامن کے احکام میں تنوع ہے ، یعنی وہاں سے ہجرت واجب نہیں اور نہ جہاد جائزہے ، لیکن ربا جائز ہے(4) جس طرح " لا ربوا بین الحربی و المسلم "
( شبلی ،10 مارچ 1912ء)
(ماخوز از " مکاتیبِ شبلی ، حصہ دوم، ص 160-164، مرتبہ : سید سلیمان ندوی، مطبوعہ ، نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد ، 1989ء )
----------------
حواشی :
1- (المائدہ : 3)
2- "توراۃ نے بھی سور کو حرام بتایا ہے ، انجیل کو حرام و حلال سے تعلق نہیں "۔ سید سلیمان ندویؒ
3- مولانائے مرحوم نے فقہ حنفی کی رو سے ہندوستان کے دار الحرب اور منافع بنک کے سود نہ ہونے پر ایک پورا رسالہ لکھا ہے---- " سید سلیمان ندوی
4- " فتہائے احناف کے نزدیک "، سید سلیمان ندوی
3- مولانائے مرحوم نے فقہ حنفی کی رو سے ہندوستان کے دار الحرب اور منافع بنک کے سود نہ ہونے پر ایک پورا رسالہ لکھا ہے---- " سید سلیمان ندوی
4- " فتہائے احناف کے نزدیک "، سید سلیمان ندوی