مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ

مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی
کشمکش - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی 
( مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب "مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش"  کے  حرف آغاز میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا )

اس وقت تقریباً تمام مسلمان ممالک میں ایک ذہنی کشمکش اور شاید زیادہ صحیح الفاظ میں ایک ذہنی معرکہ برپا ہے، جس کو ہم اسلامی افکار و اقدار اور مغربی افکار و اقدار کی کشمکش یا معرکہ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں کی قدیم تاریخ، مسلم اقوام کی اسلام سےگہری وابستگی اور محبت اور جس نام پر جنگ آزادی لڑی اور جیتی گئی یا جس طاقت کے سہارے ان ملکوں کی آزادی کی حفاظت کی گئی، سب کا دعویٰ ہے کہ اس سرزمین پر صرف اسلامی افکار و اقدار کا حق ہے اور یہاں صرف اس مسلک زندگی کی پیروی جائز ہے جس کی اسلام نے دعوت دی ہے۔

لیکن اس کے برعکس جس طبقہ کے ہاتھ میں اس وقت ان ممالک کی زمام کار ہے، اس کو ذہنی ساخت، اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی ذاتی و سیاسی مصالح کا تقاضا ہے کہ ان ممالک میں مغربی افکار و اقدار کو فروغ دی جائے اور ان ممالک کو مغربی ممالک کے نقش قدم پر چلایا جائے اور جو دینی تصورات، قومی عادات، ضوابط حیات اور قوانین و روایات اس مقصد میں مزاحم ہوں، ان میں ترمیم و تنسیخ کی جائے اور بالاختصار یہ کہ ملک و معاشرہ کو تدریجی طور پر (لیکن عزم و فیصلہ کے ساتھ) "مغربیت" کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔

اس سلسلہ میں بعض ممالک اس سفر کی متعدد منزلیں طے کر چکے ہیں، اور اپنی منزل مقصود پر  یا تو پہنچ گئے ہیں یا اس کے قریب ہیں، اور بعض ممالک ابھی "دوراہے" پر ہیں، لیکن آثار و شواہد صاف بتا رہے ہیں کہ:

دل کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا


 میرے نزدیک یہی اس وقت مسلم ممالک کا سب سے بڑا اور حقیقی مسئلہ نہ فرضی ہے نہ خیالی، مسلم ممالک کی اندرونی کمزوریوں اور مغربی تہذیب کے نفوذ و استیلاء کی کیفیت نے (جس کی نظیر تہذیب انسانی کی تاریخ میں مشکل سے ملے گی) ممالک کے مادی و سیاسی اقتدار نے سارے مسلم ممالک کے سامنے اس مسئلہ کو نہایت روشن سوالیہ نشان بنا کر کھڑا کر دیا ہے، جس کا جواب سب کو دینا ہے، اور اس سگنل کے بغیر کسی ملک کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مغربی تہذیب کے بارے میں یہ ممالک کیا رویہ اختیار کرتے ہیں، اور اپنے معاشرہ کو موجودہ زندگی سے ہم آہنگ بنانے اور زمانہ کے قاہر تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کون سی راہ اختیار کرتے ہیں، اور اس میں کسی حد تک ذہانت و جرات کا ثبوت دیتے ہیں؟ اسی سوال کے جواب پر اس بات کا انحصار ہے کہ دنیا کے نقشہ میں ان قوموں کی نوعیت کیا قرار پاتی ہے، ان ملکوں میں اسلام کا کیا مستقبل ہے اور وہ اس زمانہ میں اسلام کے عالمگیر و ابدی پیغام کے لئے کہاں تک مفید ہو سکتے ہیں؟

اس بات کی عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس مسئلہ کا علمی و تاریخی جائزہ لیا جائے، اس سلسلہ میں جتنا کام ہوا ہے، اس پر ایک بے لاگ مؤرخ اور ایک حقیقت پسند مفکر کی حیثیت سے نظر ڈالی جائے اور افراط و تفریط سے بچ کر اس کا تجزیہ کیا جائے، اسی کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ اسلامی معاشرہ کے لئے (جس کے لئے نہ صرف اسلام کے عقائد و اخلاق اور نظریہ حیات کی پابندی ضروری ہے بلکہ اپنے منصب کے لحاظ سے دعوت و امامت اور احتساب کائنات بھی اس کا فریضہ ہے) ترقی کرنے اور زندگی کے رواں دواں قافلہ   کے ساتھ جانے کے لیے صحیح اور معتدل راہ کیا ہے؟ آج تمام مسلم ممالک کو بالخصوص نئے آزاد ہونے والے اسلامی ممالک کو سب سے زیادہ اسی مخلصانہ مشورہ کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں ذرا سی غلطی اور تھوڑی سی بے اعتدالی ان کو کہیں سے کہیں لے جاسکتی ہے ۔ 

یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دور شدراقم سطور نے اسی جذبے کے ماتحت گزشتہ سال عربی میں ایک بسیط مقالہ کا آغاز کیا جس نے جلد ایک کتاب کی شکل اختیار کر لی، یہ کتاب شعبان سن 1382ھ (فروری سن 1963ء)میں " موقف العالم الاسلامی ، تجاۃ الحضارۃ الغریبۃ " (مغربی تہذیب کے بارے میں عالم اسلام کا رویہ ) کے نام سے شائع ہو گئی اور ممالک عربیہ کے علمی و دینی حلقوں میں توجہ اور دلچسپی سے پڑھی گئی، متعدد اہلِ فکر و نظر نے ناچیز مصنف کی ہمت افزائی کی مصنف کی خواہش و فرمائش پر عزیزی مولوی محمد الحسنی مدیر " البعث الاسلامی" نے ( جن کو اللہ تعالیٰ ترجمہ و تحریر کا اچھا سلیقہ عطا فرمایا ہے، اور مصنف کتاب کے اسلوب تحریر و طرز فکر سے ان کو خاص مناسبت ہے) اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے، میں نے جب اس ترجمہ پر نظر ثانی شروع کی تو اس میں متعدد جگہ اضافہ و تفصیل کی ضرورت محسوس ہوئی، اس عرصہ میں مسئلہ کے کچھ نئے پہلو سامنے آئے اور کچھ جدید مواد و معلومات مہیا ہوئے، اس لیے جابجا اضافے کیے گئے اور کہیں کہیں تبدیلی و ترمیم بھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتاب ترجمہ کے بعد تقریباً دو چند ہو گئی اور اس کی علمی قیمت و افادیت میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا۔ 

اس عرصہ میں یورپ کا سفر پیش آگیا اور اس تہذیب کو اس کے اصل مرکزوں میں دیکھنے کا موقع ملا جس پر اس کتاب میں بہت کچھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے، نیز ان جدید علمی مرکزوں میں بعض نئی مطبوعات و مآخذ دستیاب ہوئے جن سے استفادہ کیا گیا، اب ان تمام اضافات و اصلاحات کے ساتھ یہ کتاب " مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش" کے نام سے شائع کی جارہی ہے، امید ہے کہ جس طرح عربی ایڈیشن عرب ممالک میں توجہ و دلچسپی سے پڑھا گیا یہ کتاب ان ممالک میں جہاں اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھی جائے گی، انشاء اللہ اس کا انگریزی ایڈیشن بھی شائع ہوگا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اسلامی ممالک کے قائدین اور ارباب اختیار کو اپنی نازک و عظیم ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور وہ اس سے صحیح طور پر عہدہ بر آ ہوں۔

آخر میں ڈاکٹر محمد آصف قدوائی اور حکیم عبد القوی صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جن سے بعض طویل اقتباسات کے ترجمہ میں بیش قیمت مدد ملی۔



ابو الحسن علی ندوی 
نمبر ۱۰ کوئس وے، لندن
۲۴ اکتوبر ۱۹۶۳ ء