ؒ علامہ شبلی |
علامہ شبلی نعمانی ؒ کی پیدائش ضلعہ اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی- ابتدائی تعلیم گھر پر مولوی فاروق چڑیاکوٹی سےحاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ یہیں پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم ، مصر اورشام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
علامہ شبلی ؒ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب قومی زوال نے ہر حساس مسلمان کو بے قرار کر رکھا تھا ۔انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و ثقافت جب عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے سب سے زیادہ اس کی مزاحمت کی ۔ اس جد وجہد میں دو گروہ شامل تھے۔ ایک گروہ کا تعلق تحریک دیوبند سے تھا اور دوسرے کا تحریک علی گڑھ سے۔
یہ دونوں گروہ دو انتہاوں پر تھے ۔ایک طرف سر تا پا قدامت پسندی اور دوسری طرف سرتا پا الحاد اور لادین جدت پسندی۔ ان دونوں کے درمیان امتزاج اور مصالحت کے لیے عالم اسلام کو عظیم شخصیات کی ضرورت تھی ۔ اس سلسلہ میں اگر کسی ہستی کا نام سب سے پہلے آتا ہے تو وہ شیخ المشرق سید جمال الدین افغانیؒ ہیں ۔ اس دور میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ فکر پیش کیا ۔ اُنھوں نے مغرب کے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کی سخت مخالفت کی اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے کے لیے "جمعیت العروۃ الوثقٰی" کے نام سے جماعت تشکیل دی ۔ دنیاے اسلام میں بعدکے زمانوں میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں اُٹھیں اُن سب کا تعلق اسی سے جا ملتا ہے۔
اُنھوں نے پہلی مرتبہ اسلامی قومیت کا نظریہ پیش کیا۔ خانقاہی قدامت پسندوں کے طریقہ تعلیم و تربیت پر شدید تنقید کی اور دوسری طرف الحاد اور لادین جدت پسندوں کے نظام تعلیم کی بھی مخالفت کی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو جدید علوم کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا اور اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکی جد وجہد کی ۔ مغربی ادب و صحافت کی یلغار کا جواب اسلامی ادب و صحافت سے دیا ۔
علامہ اقبال نے ان کو گزشتہ صدی کا مجدّ داعظم قرار دیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا"..........زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدّد کہلانے کے مستحق ہیں تو وہ صرف اور صرف جمال الدین افغانی ہیں۔ مصر، ایران، ترکی اور ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اُسے سب سے پہلے عبدالوھّاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخرالذکر ہی اصل میں مجدّد ہیں زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ۔ اگر قوم نے اُن کو عام طور پر مجدّد نہیں کہا یا اُنھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا، تو اس سے اُن کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہلِ بصیرت کے نزدیک نہیں آتا"۔ (ذکر اقبال، صفحہ ۲۶۵)
نیز جاوید نامہ کے روحانی سفر میں افلاک میں کسی مقام پر نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے تو وہ نماز بھی اسی امامِ مشرق کی امامت میں ادا کی جاتی ہے ۔ یہ گویا ایک تمثیل ہے۔نمازِ فجر سے مراد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی صبح ہے اور جمال الدین افغانی کا بحیثیت امام منتخب کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے بانی اوراپنے زمانے کے مجد اور امام سید جمال الدین افغانی ہیں۔
1880ء سے 1882ء تک جمال الدین افغانی ہندوستان میں مقیم تھے۔ اس دوران برصغیر میں سب سے پہلے علامہ شبلی ؒ کو سید جمال الدین افغانی ؒ کی روشن خیال سحر انگیز شخصیت نے متاثر کیا ۔اُن کی ذات سے شبلی کا ابتدائی تعارف اسی زمانے میں ہوا ۔ پیرس سے سید افغانی کا عربی رسالہ ’’ العروۃ الوثقٰی‘‘ علی گڑھ کالج کی لائبریری میں آیا کرتا تھا اور اس میں شائع ہونے والے عربی مضامین کا اُردو ترجمہ ہفت روزہ ’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’مشیرِ قیصر‘‘ لکھنؤ میں شائع ہوتا رہا ۔ العروہ میں شائع ہونے والے فکر انگیز مقالات کے مطالعہ کے بعد شبلی کے لیے علی گڑھ میں رہنا محال ہوگیاتھا ۔ 1892ء میں وہ مصر چلے گئے۔ وہاں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے شاگردِ خاص مفتی محمد عبدہ کی صحبت اختیار کی۔مصر سے آپ 1893ء میں ترکی چلے گئے اور وہاں جیل میں سید جمال الدین افغانی سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا اور واپس ہندوستان آگئے۔ وطن واپسی پر اِس طویل دورہ کے بارے میں اُنھوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’سفر بے شبہ ضروری تھا۔ جو اثر اس سفر سے میرے دل پر ہوا، وہ ہزاروں کتابوں سے نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔ (سفر نامہ مصر و روم و شام۔ شبلی)
برصغیر میں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ علمی و فکر ی تحریک کا آغاز کیا۔دارالعلوم ندوۃ العلما اور دارالمصنفین اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ علامہ شبلی کے زیرِ اثر جن لوگوں نے تربیت پائی ،اُن میں چار نام بہت اہم ہیں۔ سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، حمید الدین فراہی۔علامہ شبلی نے وفات سے تین دن پہلے ان تینوں حضرات کو ایک ہی مضمون کے تار دیے کہ وہ آئیں تو سیرت نبوی اور دار المصنفین کی سکیم کا کچھ انتظام ہوجائے ۔
علامہ شبلی کو خدا نے غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں ۔ ان کے پش نظر بقول سید سلیمان ندویؒ ان کے طائر ہمت کو ایک آشیان بلند کی تلاش تھی ۔ ان کی زندگی اور ان کے کارناموں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصول علم میں بے حد حریص تھے ، اگرچہ ان کی تعلیم پرانے اصولوں پر ہوئی لیکن اس کی تکمیل کے لئے اس زمانے میں جہاں جہاں مشہور اساتذہ تھے وہان گئے اور فیض حاصل کیا ۔ ان کے حصول علم کا یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہا ۔ اس وقت بر صغیر میں ان کے معاصر ین میں ان جیسے جامع الصفات کوئی ہستی نہ تھی ، اگرچہ ابتدائی تعلیم نے انہیں طبقہ علماسے وابستہ کردیا تھا، لیکن حصول علم کے لئے علی گڑھ ، حیدر آباد ، بمبئی ، لکھنو کے قیام میں ان کا قسم قسم کے لوگوں سے رابطہ پڑا اور ان سے خوب فائدہ اٹھایا ۔
علامہ شبلی کو علی گڑھ تحریک کا سب سے بڑا مخالف کہا جا سکتا ہے ۔ علی گڑھ سے وہ مایوس تھے ۔علی گڑھ کا پست علمی معیار انہیں سخت نا پسند تھا ۔ ان کو اندازہ تھا کہ علی گڑھ نے نہ تو کوئی اعلی سکالر اور مصنف پیدا کیا اور نہ ہی کوئی علمی و فکری روایت قائم کی ۔ 1883ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں " معلوم ہوا کہ انگریزی خوان قوم نہایت مہمل فرقہ ہے ، مذہب کو جانے دو ، خیالات کی وسعت، سچی آزادی ، بلند ہمتی ، ترقی کا جوش برائے نام نہیں ۔ یہاں ان چیزوں کا ذکر نہیں آتا ۔ بس خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ ہے"
اسی طرح عمر کے آخری سال 1914 کے ایک خط میں لکھتے ہیں " علمی سطح باکل گرچکی اور انگریزی تعلیم بھی جہل کے برابر بن گئی "
خود سر سید احمد خان کو بھی اس کا احساس تھا ۔ وہ 1890ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں " تعجب یہ ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ شیطان اور بد ترین قوم ہوتے جاتے ہیں " (بحوالہ موج کوثر، شیخ محمد اکرام ص 228)
علامہ شبلی نواب محسن الملک کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں " جدید تعلیم ایک مدت سے جاری ہے اور آج سینکڑوں ، ہزاروں تعلیم یافتہ بڑی بڑی خدمات پر مامور ہیں ، لیکن قومی علم ابھی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، جنھوں نے کالجوں کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مکتب کی چٹائیوں پر تعلیم پائی ہے " اس حقیقت کے اظہار کے باجود وہ تحریک دیوبند سے مطمئن نہیں تھے ۔ انہوں نے اس کا اظہار ندوۃ العلما کے اجلاس منعقدہ 1894 میں ایک تقریر کے دوران کیا ۔
" اے حضرات ! جس زمانے میں یہاں اسلامی حکومت قائم تھی ، اس وقت قوم کی دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات علما کے ہاتھ میں تھے ۔ نماز ، روزہ و غیرہ کے احکام بتانے کے علاوہ ، علما ہی ان کے مقدمے فیصل کرتے تھے ۔ علما ہی جرائم پر حد و تعزیر کی سزا دیتے تھے ۔ علما ہی قتل و قصاص کے احکام صادر کرتے تھے ۔ غرض قوم کی دین و دنیا دونوں کی عنان اختیار علماہی کے ہاتھ میں تھی ۔ اب جبکہ انقلاب ہوگیا اور دنیوی معاملات گورنمنٹ کے قبضہ اختیار میں آگئے تو ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قوم سے علما کا کیا تعلق باقی ہے یعنی گورنمنٹ نے کس قدر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اورکس قدر باقی رہ گئے ہیں جو دراصل علما کا حق ہے اور جس میں دست اندازی کرنی خود گورنمنٹ کو مقصود نہیں ۔ " آگے اسی تقریر میں مزید کہا " علما جب تک قوم کے اخلاق، قوم کے خیالات، قوم کے دل و دماغ، قوم کی معاشرت ،قوم کا تمدن غرض قومی زندگی کے تمام بڑے بڑے حصوں کو اپنے قبضہ اختیار میں نہ لیں قوم کی ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی " (بحوالہ موج کوثر ص 233)
غرض ان کے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس میں ایک طرف یورپ کے تمام جید علوم وفنون کی تعلیم ہو اور دوسری طرف خالص اسلامی علوم کی کی تعلیم اور ساتھ ہی طریقہ تعلیم و تربیت اور درس گاہوں کا ماحول تمام تر مذہبی ہو ، اگر ساری قوم کی تعلیم ک کا یہ بندوبست نہ تو کم از کم عربی درس گاہوں میں ایسی اصلاح کی جائے کہ یونان کے بوسیدہ علوم کا سارا دفتر ہٹ کر اس کی جگہ نئے علوم و فنون کی تعلیم لے لے اور خالص مذہبی علوم اپنی جگہ پر رہیں ۔ اور نصاب میں متاخرین کی شروح و حواشی کے بدلے قدما کی اصلی کتابیں جو فن کی جان ہیں پڑھائی جائیں ، درس گاہیں عالیشان رہے، کمرے صاف ستھرے اور ترتیب ایسی ہو کہ طلبہ میں اولوالعزمی حوصلہ مندی بلند نظری اور خود داری پید ہو یہ چیز ان کو نہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول )میں ملی نہ شام میں اور نہ مصر میں سفرنامہ میں لکھتے ہیں " اس سفر میں جس چیز کا تصور میری تمام مسرتوں اور خوشیوں کو برباد کردیتا تھا وہ اسی قدیم تعلیم کی ابتری تھی ہندوستان میں تو اس خیال سے صبر آجاتا تھا کہ جو چیز گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں نہ ہو اس کی بے سرو سامانی قدرتی بات ہے ۔ لیکن قسطنطنیہ شام اور مصر میں یہ حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا تھا ۔ ( حیات شبلی ص 190 ، سلیمان ندوی )
علامہ شبلی نہ صرف میدان علم وفکر کے شہسوار تھے بلکہ اردو ادب میں بھی ان کو بلند مسند حاصل ہے ۔ اس کا اظہا ر اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر سید عبدالحق نے ان الفاظ میں کیا "شبلی کو اردو ادب میں جو بلند مسند اور مقام حاصل ہے اسکی بنا علمی بھی ہے اور ادبی بھی ۔ مگر جو چیز ان کے لیے بقائے دوام کا باعث ہوگئی وہ ان کا اسلوب بیان ہے ۔ وہ اپنے علمی انکشاف اور تاریخی رازوں کی پردہ کشائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تند و تیز ، زہریلے اور چبھتے ہوئے ، گہرے زخم لگاتے ہوئے ، دماغوں کو مفلوج کرتے ہوئے ، دلوں میں جوش و ہیجان پیدا کرتے ہوئے طرز بیان کی وجہ سے اردو نثرمیں بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں اردو کے باقی صاحب طرز انشابرداز وں سے ممتاز کر تی ہے ۔" (شبلی کا اسلوب بیان ، ڈاکٹر سید عبداللہ )