امام غزالی نے خود وہ روداد بیان کیا ہے جس کی وجہ سے وہ یقینی علم کی تلاش میں نکل گئے تھے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر پلٹے وہ اپنی کتاب " المنقذ من الضلال " میں لکھتے ہیں :-
"عنفوانِ شباب سے میری طبیعت تحقیقات و معلومات کی طرف مائل تھی۔ ہر فرقہ اور جماعت سے ملتا اور اس کے عقائد و خیالات معلوم کرتا۔ رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقلید کی بندش ٹوٹ گئی، جو عقائد بچپن سے ذہن میں جمے ہوئے تھے، وہ متزلزل ہو گئے۔میں نے خیال کیا کہ عیسائی اور یہودی بچے بھی اپنے عقائد پر پرورش پاتے ہیں۔ حقیقی علم تو یہ ہے کہ کسی قسم کے شبہ کا احتمال تک نہ رہ جائے۔ مثلاً مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دس کا عدد تین سے زائد ہوتا ہے اگر کوئی شخص کہے نہیں بلکہ تین زائد ہے، اور میرے دعویٰ کی دلیل ہے کہ لاٹھی کو سانپ بنا سکتا ہوں اور وہ بنا کر دکھا بھی دے، تب بھی مجھے اپنے علم میں کوئی شک نہیں ہو گا۔مجھے اس پر تعجب ضرور ہو گا لیکن پھر بھی میرا یقین باقی رہے گا کہ دس تین سے زائد ہے۔ میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کا یقینی علم صرف حسیات اور بدیہیات کے دائرہ میں ہے۔لیکن جب زیادہ کد و کاوش سے کام لیا تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی شک کی گنجائش ہے۔ میں نے دیکھا کہ حواس میں سب سے زیادہ قوی حاسہ بصارتی کا ہے لیکن اس میں غلطی ہوتی ہے۔ میرا یہ شک یہاں تک بڑھا کہ مجھے محسوسات کے یقینی ہونے کا اطمینان نہیں رہا۔ پھرمیں نے عقلیات پر غور کیا تو وہ مجھے حسیات سے بھی زیادہ مشکوک اور کمزور نظر آئے۔ تقریباً دو مہینہ تک میری یہ ارتیابی کیفیت رہی اور مجھ پر سوفسطائیت کا غلبہ رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے شفا دی اور طبیعت صحت و اعتدال پر آ گئی۔ اور بدیہیاتِ عقلی پر اطمینان پیدا ہو گیا۔ لیکن یہ کسی استدلال اور ترتیب کی بنا پر نہ تھا بلکہ ایک وجدانی اور وہبی بات تھی۔ اس مرض سے شفا پانے کے بعد اب میرے سامنے چار گروہ تھے جو طالبِ حق معلوم ہوتے تھے۔ متکلمین جو اہل عقل و نظر ہونے کے مدعی تھے۔
باطنیہ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس خاص تعلیمات و اسرار ہیں اور انہوں نے براہ راست امام معصوم سے علم حقائق حاصل کیا ہے۔ فلاسفہ جن کا کہنا ہے کہ وہی اہلِ منطق و اہل استدلال ہیں، صوفیہ جو اپنے کو صاحب کشف و شہود کہتے ہیں، میں نے ہر ایک گروہ کی کتابوں اور خیالات کا مطالعہ کیا تو کسی سے بھی مطمئن نہیں ہوا۔ علمِ کلام کے متعلق اس فن کے محققین کی تصنیفات پڑھیں اور خود بھی اس موضوع پر تصنیفات کیں، میں نے دیکھا کہ اگرچہ یہ فن اپنے مقصود کو پورا کرتا ہے، لیکن میری تسلی کےلئے وہ کافی نہیں، کیونکہ اس میں ایسے مقدمات پر بِنا رکھی گئی ہے، جو فریق مقابل کے پیش کئے ہوئے ہیں اور متکلمین نے ان کو محض تقلیداً تسلیم کر لیا ہے۔ یا اجماع یا قرآن و حدیث کے نصوص ہیں، اور یہ چیزیں اس شخص کے مقابلہ میں کچھ زیادہ کارآمد نہیں۔ جو بدیہیات کے سوا کچھ اور تسلیم نہ کرتا ہو۔ فلسفہ کے متعلق رائے قائم کرنے کے لئے پہلے میں نے اس کا تحقیقی مطالعہ ضروری سمجھا۔ اگرچہ مجھے تصنیف و تدریس کے مشاغل سے بہت کم فرصت ملتی تھی، میرے حلقہ درس میں بغداد کے تین تین سو طالب علم ہوتے تھے، پھر بھی میں نے اس کے لئے وقت نکالا۔ اور دو سال کے اندر اندر میں نے ان کے تمام علوم کا مطالعہ کر ڈالا پھر تقریباً ایک سال تک ان پر غور و فکر کرتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے علوم چھ قسم کے ہیں۔ ریاضیات، منطقیات، طبیعیات، سیاسیات، اخلاقیات اور الہٰیات۔ ابتدائی پانچ علوم کا مذہب سے نفیاً و اثباتاً کچھ تعلق نہیں، اور مذہب کے اثبات کے لئے ان کے انکار کی ضرورت ہے۔ طبیعیات میں ان کے بعض نظریات کا کہیں کہیں مذہب سے تصادم ہوتا ہے، مگر وہ چند چیزیں ہیں۔ اس سلسلہ میں اصولاً یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ طبیعت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ خود مختار نہیں۔ البتہ جو لوگ ان علوم و مضامین میں فلاسفہ کی ذہانت باریک بینی دیکھتے ہیں وہ عمومی طور پر ان سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام علوم میں ان کا یہی حال ہو گا، حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ جو شخص ایک فن میں ماہر وہ ہر فن میں ماہر ہو، پھر جب ان کے بےدینی اور ان کے انکار کو دیکھتے ہیں تو محض تقلیداً وہ بھی دین کا انکار و استخفاف کرنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف اسلام کے بعض نادان دوست فلاسفہ کے ہر نظریہ اور ہر دعویٰ کی تردید اپنا فرض اور اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ طبیعیات کے سلسلہ میں ان کی تمام تحقیقات کا بھی انکار کرنے لگتے ہیں۔ اس کا ایک مضر اثر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان علمی نظریات و تحقیقات کی صداقت کے قائل ہیں، اور ان کے نزدیک وہ چیزیں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہیں، ان کا اعتقاد خود اسلام کے بارے میں متزلزل ہو جاتا ہے اور بجائے فلسفہ کے انکار کرنےکے وہ اسلام سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ لے دے کر جو فن مذہب سے متصادم ہوتا ہے، وہ الہٰیات ہے۔ اسی میں انہوں نے زیادہ تر ٹھوکریں کھائی ہیں۔ درحقیقت انہوں نے منطق میں جو شرطیں رکھی تھیں، ان کو وہ الہٰیات میں نباہ نہیں سکے۔ اسی لئے اس میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔
غرض میں اس نتیجہ پر پہنچ کر کہ فلسفہ سے میری تشفی نہیں ہو گی، اور عقل تنہا تمام مقاصد کا احاطہ نہیں کر سکتی، اور نہ تمام مشکلات کی نقاب کشائی کر سکتی ہے، رہے باطنیہ تو مجھے اپنی کتاب "مستظہری" کی تالیف کے سلسلہ میں ان کے مذہب کے مطالعہ کرنے کا اچھی طرح موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے عقائد کا دار و مدار امامِ وقت کی تعلیم پر ہے۔ لیکن امامِ وقت کا وجود اور اس کی صداقت خود محتاج دلیل ہے۔ اور یہ دونوں حد درجہ مشتبہ ہیں۔
اب صرف تصوف باقی رہ گیا۔ میں ہمہ تن تصوف کی طرف متوجہ ہوا۔ تصوف علمی بھی ہے عملی بھی ہے۔ میرے لئے علم کا مطالعہ آسان تھا۔ میں نے ابو طالب مکی کی "قوت القلوب" اور حارث محاسبی کی تصنیفات اور حضرت جنید شبلی و بایزید بسطامی وغیرہ کے ملفوظات پڑھےاور علم کے راستے سے جو کچھ حاصل کیا جاتا تھا، وہ میں نے حاصل کر لیا، لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اصلی حقائق تک تعلیم کے ذریعہ سے نہیں، بلکہ ذوق و حال اور حالات کی تبدیلی سے پہنچا جا سکتا ہے، جو علوم میرا سرمایہ تھے، خواہ وہ شرعی ہوں یا عقلی، ان سے مجھے وجود باری، نبوت اور معاد پر ایمان راسخ حاصل ہو چکا تھا، لیکن یہ بھی کسی دلیل محض سے نہیں، بلکہ ان اسباب و قرائن اور تجربوں کی بنا پر جن کی تفصیل مشکل ہے۔ مجھ پر یہ اچھی طرح سے واضح ہو چکا تھا کہ سعادتِ اُخروی کی صورت صرف یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکا جائے اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ دار فانی سے بے رغبتی ، آخرت کی طرف میلان و کشش اور پوری یکسوئی کے ساتھ توجہ الی اللہ کے ذریعہ قلب کا علاقہ دنیا سے ٹوٹ جائے ، لیکن یہ جاہ و مال سے اعراض اور موانع و علائق سے فرار کے بغیر ممکن نہیں ، میں نے اپنے حالات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں سر تا پا علائق دنیوی میں غرق ہوں ، میرا سب سے افضل عمل تدریس و تعلیم کا معلوم ہوتا تھا، لیکن ٹٹولنے سے معلوم ہوا کہ میری تمام تر توجہ ان علوم پر ہے ، جو نہ تو اہم ہیں اور نہ آخرت کے سلسلہ میں کچھ فائدہ پہنچانے والے ہیں ، میں نے اپنی تدریس کی نیت کو دیکھا تو وہ بھی خالص لوجہ اللہ نہ تھی، بلکہ اس کا باعث و محرک بھی محض طلب جاہ و حصول شہرت تھا، جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں ہلاکت کے غار کے کنارے کھڑا ہوا ہوں ، اگر میں نے اصلاح حال کی کوشش نہ کی تو میرے لئے سخت خطرہ ہے ، میں ایک عرصہ تک اس سب کو چھوڑ دینے اور بغداد سے نکل جانے کا ارادہ کرتا رہا لیکن اس کا فیصلہ نہ کر سکا ، چھ مہینے اسی کشمکش میں گذر گئے کہ کبھی تو دنیاوی خواہشات کشش کرتیں اور کبھی ایمان کا منادی پکارتا ، کہ کوچ قریب ہے، تھوڑی عمر باقی ہے طویل سفر درپیش ہے اور یہ سب علم و عمل محض ریا و تخیلات ہیں کبھی نفس کہتا کہ عارضی حالت ہے، اللہ نے جو کچھ جاہ و عزت دے رکھی ہے چھوڑنے کے بعد اگر پھر واپس آنے کا خیال ہو تو اس کا دوبارہ حصول مشکل ہے۔
غرض اسی لیت و لعل میں چھ مہینے گذر گئے، یہاں تک کہ اب معاملہ بس سے باہر ہو گیا، زبان بھی رک گئی جیسے اس میں تالا پڑ گیا ہو، میں کوشش کرتا تھا کہ آنے جانے والوں کی خوشی کے لئے ایک ہی دن پڑھاؤں لیکن زبان بالکل ساتھ نہیں دیتی تھی، اور ایک لفظ بھی نہیں نکلتا تھا، زبان کی بندش سے قلب میں ایک رنج و غم کی کیفیت پیدا ہوئی جس کے اثر سے قوت ہاضمہ نے بالکل جواب دے دیا ، کھانے پینے کی خواہش بالکل جاتی رہی یہاں تک کہ ایک گھونٹ پانی کھانے کے ایک لقمہ کا ہضم کرنا بھی میرے لئے دشوار ہو گیا، رفتہ رفتہ تمام قوائے جسمانی پر ضعف کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ اطبا نے علاج سے ہاتھ اٹھا لیا اور کہا کہ قلب پرکوئی اثر ہے اور اس سے مزاج متاثر ہوگیا ہے ، جب تک قلب سے یہ اثر نہ جائے اس وقت تک علاج کچھ سود مند نہیں ، جو میں نے دیکھا تو میں اس معاملہ میں بالکل بے بس ہوں ، تو میں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور اضطراری کیفیت کے ساتھ اس سے دعا کی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس جاہ و مال اور اہل و عیال کا چھوڑ دینا مجھے آسان معلوم ہونے لگا ، میں نے مکہ کا قصد ظاہر کیا اور میرے دل میں یہ تھا کہ میں شام کا سفر کروں گا اور بڑے لطائف ایحل سے میں نے بغداد سے نکلنے کا سامان کیا ، اہل عراق کو جب میرا قصد معلوم ہوا تو انہوں نے چاروں طرف سے مجھے ملامت کرنی شروع کی ، اس لئے کہ کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اس ترک و انقطاع کا کوئی دینی سبب بھی ہو سکتا ہے ، اس لئے کہ ان کے خیال میں مجھے دین کا بلند ترین منصب حاصل تھا، "ذالک مبلغہم من العلم" پھر لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع کیں ، جو مرکز حکومت سے دور تھے انہوں نے خیال کیا کہ اس میں کچھ حکام کا اشارہ ہے اور ان کے ایماء سے یہ خدمت ترک کی جارہی ہے ، لیکن جن لوگوں کا حکومتی حلقوں سے تعلق تھا وہ دیکھتے تھے کہ اہل حکومت کو کس قدر میرے قیام پر اصرار ہے ، اور ان کی کیسی شدید خواہش ہے کہ میں اپنے کام میں مشغول رہوں ، وہ یہ کہتے تھے کہ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی اس رونق اور علمی چہل پہل کو کسی کی نظر لگ گئی ہے کہ یہ شخص سب چھوڑ چھاڑ کر جارہا ہے ۔
غرض میں نے بغداد کو الوداع کہا اور جو کچھ میرے پاس مال و متاع تھا ، اس مِیں سے بقدر کفاف رکھ کر سب بانٹ دیا ، بغداد سے میں شام آیا ، اور وہاں دو سال کے قریب رہا ، وہاں میرا کام عزلت و خلوت اور مجاہدے کے سوا کچھ نہ تھا میں نے علم تصوف سے جو کچھ حاصل کیا تھا اس کے مطابق نفس کے تزکیہ ، اخلاق کی درستگی و تہذیب اور ذکر اللہ کے لئے اپنے قلب کو مصفا کرنے میں مشغول رہا ، میں مدت تک دمشق کی جامع مسجد میں معتکف رہا ، مسجد کے منارے پر چڑھ جاتا اور تمام دن دروازہ بند کئے وہیں بیٹھا رہتا ، دمشق سے میں بیت المقدس آیا وہاں بھی روزانہ صخرہ کے اندر چلا جاتا اور دروازہ بند کرلیتا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زیارت کے بعد میری طبیعت میں حج و زیارت کا شوق اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے برکات سے استفادہ کا خیال ہوا، چنانچہ میں حجاز گیا، حج کرنے کے بعد اہل و عیال کی کشش اور بچوں کی دعاؤں نے مجھے وطن پہنچایا، حالانکہ میں وطن کے نام سے کوسوں بھاگتا تھا۔ وہاں بھی میں نے تنہائی کا اہتمام رکھا اور قلب کی صفائی سے غافل نہیں ہوا، لیکن حوادث و واقعات، اہل و عیال کے افکار اور معاشی ضرورتیں طبیعت میں انتشار پیدا کرتی رہتی تھیں اور دلجمعی اور سکونِ قلب مسلسل نہیں رہتا تھا، لیکن میں اس سے مایوس نہیں ہوتا تھا، اور وقتاً فوقتاً اس سے لذت یاب ہوتا رہتا تھا۔ دس برس اسی حالت میں گزر گئے۔
ان تنہائیوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا، اس کی تفصیل اور اس کا استقصاء تو ممکن نہیں، لیکن ناظرین کے نفع کے لئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ صوفیاء ہی اللہ کے راستے کے سالک ہیں۔ ان کی سیرت بہترین سیرت، ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں۔ اگر عقلاء کی عقل، حکماء کی حکمت، اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں۔ ان کے تمام ظاہری و باطنی حرکات و سکنات مشکوٰۃِ نبوت سے ماخوذ ہیں، اور نور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں۔ جس سے روشنی حاصل کی جائے۔" (1)
----------------
(1) تاریخ دعوت و عزیمت حصہ اول ص 132-137 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
----------------
(1) تاریخ دعوت و عزیمت حصہ اول ص 132-137 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ