اِسلامی سپین کا علمی و فنی اِرتقاء

سپین کی سرزمین اِسلام کی علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اُس کا مقام مردم خیزی میں کسی طرح بھی بغداد (Baghdad) اور دِمشق (Damascus) کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ 
جامع مسجد قرطبہ ، اسلامی اندلس 

اندلس کی کوکھ سے جن عظیم سائنسدانوں نے جنم لیا یہ اُنہی کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ (Cordoba) جیسا عظیم شہر قرونِ وُسطیٰ میں رشکِ فلک بنا۔ اندلس کی تمدّنی زندگی کے پیچھے اُس کے جلیل القدر سائنسدانوں ہی کا ہاتھ تھا۔ 

قرونِ وُسطیٰ کی بہت سی نامور شخصیات اندلس ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ عظیم مفسرِ قرآن اِمام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ، مشہورِ عالم سیاح اِبنِ بطوطہ اور اِبنِ جبیر، موجدِ سرجری و ماہرِاَمراضِ چشم ابوالقاسم الزہراوِی، معروف فلسفی و طبیب اِبنِ باجّہ، خالق فلسفۂ وحدتُ الوُجود اِبنِ عربی، عظیم فلسفی و طبیب اِبنِ رُشد، بطلی موسی نظریۂ کواکب کا دلائل کے ساتھ ردّ کرنے والے عظیم اِسلامی ماہرینِ فلکیات اَبواِسحاق الزّرقالی اور اَبواِسحاق البطرُوجی، تاریخ و عمرانیات کے اِمام اِبنِ خلدون، نامور طبیب یونس الحرانی، معروف جغرافیہ نگار و ماہرِ فلکیات شریف اِدریسی، ہوائی جہاز کا موجد عباس بن فرناس، نامور طبیب اِبنِ الہیثم، ماہرِ فلکیات و الجبراء نصیر الدین طوسی اور دِیگر بے شمار علمی و ادبی شخصیات کا تعلق سپین ہی کی عظیم سرزمین سے تھا۔


اِن مسلمان سائنسدانوں نے علم کو صرف اِسلام ہی کی دولت سمجھتے ہوئے محدُود کرنے کی بجائے اپنے دروازے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے کھلے رکھے اور علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ وِرثہ قرار دیا۔ چنانچہ سپین کی یونیورسٹیوں میں مسیحی اور یہودی طلبہ بھی بڑی تِعداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمان سائنسدانوں کے یہودی و مسیحی شاگرد بعد میں نامور سائنس دان ہوئے اور اپنی قوم میں سائنسی تعلیم کی تروِیج کا باعث بنے۔ یہیں سے سپین کا علمی سرمایہ مغربی اور وسطی یورپ منتقل ہونا شروع ہوا۔
مدینۃ الزھراء 

معروف مستشرق ’منٹگمری واٹ‘ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے :

Already when the fortunes of the Muslims were in the ascendant, their learning had attracted scholars of all faiths. Spanish Jews in particular were—including the great Maimonides (1135-1204) -- sat at the feet of Arabic-speaking teachers and wrote their books in Arabic.

(W. Montgomery Watt A History of Islamic Spain P.157)

ترجمہ :

جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی تو اُن کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ سپین کے یہودی بطورِ خاص عرب فکر سے متاثر ہوئے اور (عظیم میمونائیڈز سمیت) اُن میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمّذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں۔


اسلامی سپین کے آٹھ سو سالہ دَور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی اِرتقاء کے عمل سے گزرے۔ سپین میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر تروِیج کا باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمن الناصر‘ کے دَور (912ء تا 961ء) میں ہوا، جو سپین کی اُموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اِسلامی سپین کے اِبتدائی 200 سالہ دَور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے اِنعقاد اور دُنیا کے تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا مگر اُس کام کی رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اُس دو سوسالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ کا دَور جہاں تمدّنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہاں سیاسی اِستحکام کی بدولت علوم و فنون کی تروِیج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ دَور تھا جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادئ اَفکار نصیب ہوئی اور اُنہوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علمِ ہیئت (astronomy)، علمِ ریاضی (mathematics)، علمِ طب (medical science)، علمِ نجوم (astrology)، علمِ کیمیا (chemistry)، علمِ نباتات (botany)، علمِ جغرافیہ (geography) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔

تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جاپہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے اٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصوّر بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادِر کیا گیا تھا۔ دُوسری طرف اِسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمن سوم‘ کے جانشیں ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (961ء تا 976ء) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دُنیا بھر میں شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ وہاں کتب فروشوں کی دُکانیں 20 ہزار تک جاپہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اِہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے ذرِیعے اُن کی نقول بھی تیار کرواتے تھے۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں 170 کے قریب خواتین قرآنِ مجید کو خط کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔

قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، مالقہ (Malaga)، سرقسطہ (Zaragoza)، اشبیلیہ (Seville) اور جیان (Jaen) میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ صرف قرطبہ شہر میں حکم ثانی نے بالکل مفت تعلیم کے لیے 27 سکول قائم کر رکھے تھے۔ پرائیویٹ تعلیمی اِدارے اُن کے علاوہ تھے۔ نہ صرف تمام اَساتذہ بلکہ مستحق طلبہ کو بھی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے اور دورانِ تعلیم اُن کی کفالت کی مکمل ذِمہ داری حکومت پر تھی۔ اندلس تعلیمی میدان میں دورِ حاضر کی جدید تہذیب کی کسی بھی فلاحی ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہ تھا۔ لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔

اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (961ء تا 976ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ ہیئت (astronomy)، ریاضی (mathematics)، طب (medical sciences)، نجوم (astrology)، کیمیا (chemistry)، طبیعیات (physics)، فلسفہ (philosophy)، منطق (logic)، تاریخ (history) اور جغرافیہ (geography) سمیت تمام علومِ عقلیہ پر مشتمل 4 لاکھ سے زیادہ (ایک رِوایت کے مطابق 6 لاکھ) کتب موجود تھیں۔ اُس لائبریری کی کیٹلاگ 44 بڑی جلدوں پر مشمل تھی۔ خلیفہ چونکہ خود بہت بڑا عالم تھا اور سائنس سے گہری دِلچسپی رکھتا تھا اِس لیے اُس نے اُن میں سے بیشتر کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اُن پر جابجا حواشی بھی چڑھا رکھے تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جاہل پادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلادیں، جن میں ’الحکم‘ کی عظیم الشان لائبریری بھی شامل تھی۔

بنواُمیہ کے بعد اندلس پر چھانے والی ’طوائف الملوکی‘ اور بعد ازاں ’مرابطون‘ کے دَور میں علمی اِرتقاء کا کام کسی حد تک زیرِ زمین چلا گیا مگر جونہی مؤحّدون کا دَور شروع ہوا پہلے کی سی تیزی پھر سے لوٹ آئی اور علمی و فکری میدانوں میں اِرتقاء کی رفتار روز اَفزوں ہو گئی۔ ملک بھر میں جا بجا سینکڑوں تعلیمی اِدارے قائم ہوئے۔ عہدِ مؤحّدون میں صرف قرطبہ (Cordoba) میں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے 800 سے زائد تعلیمی اِدارے قائم تھے، جہاں 10,000 سے زیادہ طلبہ مذہبی و سائنسی ہر دو قبیل کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

سقوطِ قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ (Granada) کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی۔ اُنہوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و اَدب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوں سکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی تروِیج میں مصروف تھے۔ شہر میں 70 بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔

اِسلامی سپین کے چند اہم علوم

جیسا کہ ہم پہلے ذِکر کر چکے ہیں کہ سپین کا علمی اِرتقاء بغداد اور دِمشق کی نسبت کافی تاخیر سے شروع ہوا، جس کی وجہ ریاست کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن الناصر‘ کی تخت نشینی کے بعد جہاں ملک میں اَعلیٰ تہذیب و ثقافت پروان چڑھی وہاں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ بھی اُس دَور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سائنسی علوم کی حقیقی بنیاد اُسی دَور میں پڑی۔ عبدالرحمن سوم کا دَور کاملاً آزادئ اَفکار کا دَور تھا، جس کے نتیجے میں فقہائے مالکیہ کی گرفت خاصی کمزور پڑ گئی اور لوگ آزادانہ طور پر سائنس و فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سائنس کی بہت سی شاخوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ اور اُس کے جانشین ’حکم ثانی‘ نے یونانی علوم کی وہ کتابیں جنہیں پہلے سے بغداد میں عربی میں ترجمہ کر لیا گیا تھا وہ اندلس منگوائیں اور اُنہیں سائنسی علوم کی بنیاد قرار دے کر مزید تحقیقات کے دَر وَا کیے۔

یونانی علما کا اندازِ فکر فلسفیانہ مُوشگافیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے اپنی تحقیقات میں تجربہ کو کسوٹی قرار دیا اور علم کے باب میں ایک نئے فکر ’’سائنسی طریقِ کار‘‘ کو فروغ دیا۔ سائنسی طریقِ کار کا حقیقی بانی بغداد کا مسلمان سائنس دان ’ابو البرات البغدادی‘ (1065ء تا 1155ء) ہے جس نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور وخوض کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ مسلمانوں نے اِس فکر کو فروغ دیا کہ تجربہ ہی وہ کسوٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذرِیعہ ہے۔

بغداد سے نشر ہونے والے اِس نئے فکر کو۔ ۔ ۔ جو اِسلام ہی کی دی گئی تعلیمات پر مشتمل تھا۔ ۔ ۔ جلد ہی تمام مسلمانانِ عالم نے دِل و جان سے قبول کر لیا۔ چنانچہ سپین میں بھی تجربہ علومِ سائنس کے حصول کے لیے حتمی کسوٹی قرار پایا۔

یوں تو سپین میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا جن میں سے بیشتر کا ذِکر ’’قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کے فروغ‘‘ کے تحت گزر چکا ہے۔ تاہم علمُ الطب (medical sciences)، علمُ الہیئت (astronomy) اور علمِ نباتات (botany) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔

علمُ الطب (Medical Sciences)

اَوائل دَورِ اِسلام میں دُوسرے بہت سے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ علمُ الطب (Medical sciences) کی کتب کو بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اُس دَور میں طبی تحقیقات کا سارا دار و مدار مسیحیوں بالخصوص یونانیوں کی مترجمہ (translated) کتب پر تھا۔ بغداد کی طرح سپین میں بھی پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمان اَطباء نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔

سپین میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے ذرِیعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔ علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لیے سپین کے نوجوان حصولِ علم کے لیے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اِسحاق بن عمران، اِسحاق بن سلیمان اور ابنُ الجزّار اُس دَور میں سپین میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی ممالک سے ترکِ سکونت کر کے سپین میں آئے تھے۔

سپین میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ اَمراض، اَمراضِ نسواں، اَمراضِ اَطفال، امراضِ چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے۔ ابوالعلا زہر صرف نبض اور قارُورہ دیکھ کر مرض کی کامل تشخیص کر لیتا تھا، جبکہ ابنُ الاصم تشخیصِ اَمراض میں اِس قدر ماہر تھا کہ محض نبض دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ مریض کیا کھا کر آیا ہے۔

سرجری میں اَبوالقاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علمِ جراحت (surgery) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ ایسا ماہر سرجن تھا کہ ایک بار اُس نے ایک ایسے آدمی کا کامیاب آپریشن کیا جس کا پیٹ چاک ہوئے 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ زہراوی نے کمال مہارت سے اُس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی انتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کی مدد سے اُس کا پیٹ سی دیا۔ نہ صرف اُس شخص کی زندگی بچ گئی بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہو گیا۔

ابوالقاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں رازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کا مالک تھا۔ اُس نے آپریشن کے لیے خاص مہارت کے ساتھ خود ایسے بہترین آلات تیار کر رکھے تھے، جن کی مدد سے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا جن میں 100 فیصد کامیابی کی توقع دورِ حاضر کے ماہر سرجن بھی نہیں کر پاتے۔ وہ آنتوں کے آپریشن کے لیے بلی کی آنتوں سے تیار کردہ دھاگہ اِستعمال کرتا۔ زخم کی سلائی یوں کرتا کہ باہر کی سمت اُس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ وہ آپریشن سے قبل بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصۂ بدن کے آپریشن کے دَوران میں پاؤں کو سر سے اُونچا رکھنے کی تاکید کرتا۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederich کی طرف غلط منسوب کیے جاتے ہیں۔ وہ تکلیف دِہ سرجری کی صورت میں مریض کو بے ہوشی کی دوا (anaesthesia) دینے سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ آنکھوں کے آپریشن کا بھی ماہر تھا۔

لَوزَتین (tonsils) کے آپریشن کا طریقہ اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ پیٹ، جگر، پیشاب کی نالی، ناک، کان، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔

الزہراوی نے علمُ الطب پر ایک ضخیم کتاب ’’التصریف لمن عجز عن التالیف‘‘ بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علمُ العلاج اور علمُ الدّواء کے ساتھ ساتھ جراحت (surgery) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ الزہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے۔ اُس کے اِیجاد کردہ بعض آلاتِ جراحی اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ اُن کا اِستعمال آج تک جاری ہے۔

ابوالقاسم الزہراوی کے علاوہ ابنِ زہر بن مروان کا شمار بھی اِسلامی سپین کے ماہر سرجنوں میں ہوتا ہے۔

آنکھوں کے اَمراض میں احمدالحرانی اور عمرالحرانی اندلس کے ماہر اَطباء میں سے تھے۔ یہ دونوں معروف اندلسی طبیب یونس الحرانی کے بیٹے تھے جو حصولِ علم کے لیے بغداد میں 10 سال رہ چکے تھے۔ اندلس واپس آ کر اُنہوں نے آنکھوں کے اَمراض کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور اِس فیلڈ میں خاصے مشّاق (expert) ہو گئے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں اُن کی تحقیقات سے اِستفادہ کیا۔ علاوہ ازیں ابنِ رُشد اور ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر بھی آنکھوں کے اَمراض کے ماہر (ophthalmologist) تھے۔

عورتوں کے اَمراض بالخصوص ایامِ حمل اور جنین کی پرورش کے بارے میں اندلس میں عریب بن سعد الکاتب کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کے اَمراض کا ماہر معالج ہونے کے ناطے اُس نے اِس موضوع پر ’’خلق الجنین و تدبیر الحبالیٰ والمولود‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اُس نے جنین کی نشو و نما، حاملہ عورتوں کی بیماریوں، اُن کے بارے میں حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اِس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اسکوریال (سپین) میں محفوظ ہے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی ایک ماہر سرجن ہوتے ہوئے اپنی کتاب ’’التصریف لمن عجز عن التالیف‘‘ میں خواتین کے اَمراضِ مخصوصہ اور اُن کے علاج کے ساتھ ساتھ جنین کی مختلف حالتوں، وضعِ حمل اور غیر طبعی وِلادت کی صورت میں آپریشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔

اندلس کے اَطباء کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ اُن کے کارناموں کا اِحاطہ کرنے کے لیے الگ کتاب درکار ہو گی۔

علمُ الہیئت (Astronomy)

عبدالرحمن سوم کے دَور (912ء تا 961ء) سے قبل سپین میں علم ہیئت کے مطالعہ و تحقیقات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اُس سے پہلے فقط اِسی قدر مطالعۂ اَفلاک کو مشروع اور رَوَا رکھا جاتا تھا جس سے اُمورِ شرعیہ میں مدد ملتی ہو۔ نمازوں کے اَوقاتِ اِبتداء و اِختتام اور روزے میں سحری و اِفطاری کے اَوقات پر ہونے والی تحقیقات سے علمُ المیقات (time keeping) کی بنیاد پڑی۔ سمتِ قبلہ کے تعین میں ستاروں کی پوزیشن کا فائدہ اُٹھانے کے لیے علمُ الہیئت کا سہارا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اِبتدائے رمضان اور عیدین کے ہلال کی رؤیت کے لیے بھی مطالعۂ اَفلاک ناگزیر تھا۔ چنانچہ اِن اُمورِ شرعیہ کی بہتر بجاآوری کے لیے ضروری حد تک علمُ الہیئت (astronomy) حاصل کیا جاتا تھا۔

عبدالرحمن سوم کے عہد تک یہ حالت برقرار رہی اور فقہائے مالکیہ کے اَثر و رُسوخ کے باعث فلسفے کی طرح علمِ ہیئت (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کو بھی ناجائز تصوّر کیا جاتا رہا۔ اُس دور کے اکثر سائنس دان اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کو صیغۂ راز میں رکھتے اور کسی صورت ظاہر نہ ہونے دیتے، کیونکہ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ و منطق یا ہیئت و نجوم کا ماہر ہے تو اُسے زِندیق مشہور کر دیا جاتا اور لوگ اُس سے ملنا جلنا ترک کر دیتے۔

عبدالرحمن سوم (الناصر لدین اﷲ) نے اپنے دورِ خلافت میں باضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علمُ الطب (medical sciences) کی طرح علمُ الہیئت (astronomy) کے حصول کے لیے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دِمشق کا رُخ کرنے لگے۔

اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا۔ اُس نے حصولِ علم کے لیے مشرقی اِسلامی ممالک کا سفر کیا اور حساب (mathematics)، نجوم (astrology)، ہیئت (astronomy) اور طب (medical science) کے علوم حاصل کیے۔ اُس کے علاوہ اُس دَور میں علمِ فلکیات و نجوم میں ’مسلمہ بن قاسم‘ اور ’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کے نام بھی قابلِ ذِکر ہیں۔

اِسلامی سپین کے ماہرینِ ہیئت نے مشرقی علوم کو اپنے ملک میں محض متعارف ہی نہ کرایا بلکہ مشرقی تحقیقات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر اُن میں بہت کچھ اِضافہ جات بھی کیے۔ اندلسی سائنسدانوں نے بہت سے آلاتِ رصد اِیجاد کیے جن کی بدولت آج کی جدید ہیئت کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو سکیں۔ اندلس کی سب سے بڑی رصدگاہ اشبیلیہ (Seville) میں تھی، جہاں مشہورِ عالم مسلمان سائنسدانوں نے اپنی سماوِی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ ’ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی‘ (Arzachel) نے صدیوں سے مسلّمہ ’بطلیموسی نظریۂ اَفلاک‘ ردّ کرتے ہوئے زمین کی بجائے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا اور یہ ثابت کیا کہ تمام سیارے بیضوِی مداروں (elliptic orbits) میں سورج کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تمام سیاروں کی بیضوِی مداروں میں سورج کے گرد گردِش ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جسے کوپرنیکس جیسا عالی دِماغ جس پر پورے عالمِ مغرب کو فخر ہے 1514ء میں نظامِ شمسی سے متعلق دیے جانے والے اپنے نظریے میں بھی پیش نہ کر سکا۔ زرقالی ہی وہ عظیم سائنس دان ہے جس نے اندلس میں سب سے معیاری اُسطُرلاب بنایا اور اُس کا نام ’’الصحیفہ‘‘ رکھا۔ اُس کے بنائے ہوئے اُسطُرلاب کے ذرِیعے اَجرامِ سماوِی کا مُشاہدہ اِس قدر درُست ہوتا تھا کہ بغداد کے رہنے والے اِس فن کے بانی مسلمان سائنس دان بھی اُس کی عمدگی پر حیران تھے۔ ہوائی جہاز کے موجد ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک فلکیاتی کمرہ (planetarium) بنا رکھا تھا جس میں اُس نے سیارگانِ فلکی کی گردِش، بادلوں کی حرکات اور آسمانی بجلی کی مصنوعی گرج چمک کا اِنتظام بھی کر رکھا تھا۔

’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کا نامور شاگرد ’مسلمہ المجریطی‘ بڑا ماہر سائنس دان تھا۔ اُس نے سورج، چاند اور دِیگر سیاروں کی حرکات کو عددی اُصول پر منظم کرتے ہوئے ’الخوارزمی‘ سے بھی بہتر ’زیج‘ (astronomical table) ترتیب دی اور اُسے عربی تاریخوں میں ظاہر کیا۔ اُس کے علاوہ بھی اندلس کے بہت سے سائنسدانوں نے اَزیاج (astronomical tables) بنائے، جن کی رُو سے مشاہدۂ اَفلاک میں خاصی مدد ملتی تھی۔

زرقالی کے علاوہ اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے ماہرینِ فلکیات بھی اپنے دَور کا مسلّمہ نظریۂ بطلیموس ردّ کر چکے تھے۔ ابو اسحاق بطروجی نے بطلیموسی نظریۂ کواکب کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا۔ اُس سے قبل ابنِ باجا نے بھی اپنے طور پر اِس نظریہ کا بطلان کر دیا تھا۔ ’بطروجی‘ کا شمار جدید علمِ ہیئت کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ ’جابر بن اَفلح‘ کا ذِکر بھی اُنہی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بطلیموس کے نظریہ کے ردّ میں ’’کتابُ الھیئۃ فی اصلاح المجسطی‘‘ لکھی۔

علمُ النباتات (Botany)

اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ طبی بنیادوں پر نباتات پر تحقیق علمُ الطب کے فروغ کے لیے ایک جزوِلاینفکّ تھی۔ چنانچہ ’عبدالرحمن اوّل‘ نے قرطبہ میں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کے نام سے ایک ایگریکلچرل ریسرچ فارم بنایا، جہاں اَطباء اور نباتیوں (botanists) کو پودوں کے خواص، اُن کی اَفزائش اور اَثرات پر تحقیق کے گوناگوں مواقع میسر تھے۔ عبدالرحمن اوّل نے علمِ نباتات (botany) کی سرپرستی میں خاص دِلچسپی لی اور اندلس میں میسر نہ آنے والے پودوں اور درختوں کے بیج اور قلمیں دُور دراز ممالک سے درآمد کروائیں۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف برِاعظم افریقہ بلکہ بیشتر اَیشیائی ممالک کی طرف بھی سرکاری وفود بھیجے جو نایاب پودوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش اور پیداوار میں مددگار ثابت ہوئے۔

طبی جڑی بوٹیوں کی اَفزائش میں وادی آش (Guadix)، المریہ (Almeria) اور غرناطہ (Granada) کے قریب جبلِ شلیر (Mulhacen) اندلس بھر سے بڑھ کر تھے۔ خوشبودار بوٹیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ زعفران مسلمان ماہرینِ نباتات (botanists) ہی نے اندلس میں متعارف کرایا۔ طلیطلہ (Toledo)، بلنسیہ (Velencia)، بیاسہ (Beyasa) اور وادئ حجارہ (Hijara Valley) زعفران کی پیداوار میں مشہور تھے۔ ماہرینِ نباتات کی شبانہ روز محنت سے اندلس میں زعفران اِس کثرت سے پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ آس پاس کے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح بنفشہ کی پیداوار بھی خاصی تھی۔ اندلس کے نباتیوں (botanists) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ برس ہا برس کی تحقیقات سے نباتات میں موجود جنسی تفاوُت کا درُست مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔

اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اُناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔ اِس کے علاوہ لیموں، امرود، سیب، انجیر، زیتون، بہی، بادام، کیلا، آڑو، چکوترا، خربوزہ، انار، گنا، گندم، جَو، چنا، جوار، مکئی اور چاول کی کاشت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اِن میں سے اکثر اَجناس بیرونِ ممالک برآمد کر کے خطیر زرِمبادلہ بھی کمایا جاتا تھا۔

وادئ آش (Guadix) اور اشبیلیہ (Seville) میں اعلیٰ قسم کی ’رُوئی‘ پیدا ہوتی جو مسلمان ماہرینِ نباتات ہی نے سپین میں متعارف کروائی۔ رُوئی کو عربی میں ’قُطن‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہسپانوی میں alagodon اور انگلش میں cotton کہلانے لگا۔ اندلسی مسلمانوں کی تحقیقات سے ’پٹ سن‘ کے ایک نہایت اعلیٰ ریشے نے بھی جنم لیا، جس سے اچھی نسل کے دھاگے اور عمدہ قسم کا کاغذ تیار کیا جاتا تھا۔

ملک کے جنوبی ساحل پر واقع اکثر مقامات پر گنّے کی فصل نہایت شاندار ہوتی، جس سے اعلیٰ قسم کی شکّر (sugar) تیار کی جاتی۔

ابوعبید البکری، ابو جعفر بن محمد الغافقی، ابنِ بصال، ابنِ حجاج، شریف اِدریسی، ابنُ الرّومیہ، ابنِ بکلارش، ابوالخیر اشبیلی، ابنُ العوام اور ابنُ البیطار اندلس کے اِسلامی عہد کے نامور نباتی (botanists) تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی تحقیقات کے ذریعے اندلس کو پودوں، درختوں اور فصلوں سے لاد دیا بلکہ اُن کی حفاظت کا بھی بخوبی اِنتظام کیا، چنانچہ ابنُ العوام نے پھلوں اور اناج کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے بہت سے طریقے ’کتابُ الفلاحہ‘ میں ذِکر کیے ہیں۔ اُس نے کچھ ایسے طریقے بھی تحریر کیے ہیں جن سے گندم بیسیوں سال تک خراب ہونے سے بچی رہتی تھی۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے اُن ماہرین کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق بڑے بڑے گودام تیار کیے جاتے جن میں غلہ اور اناج سالہا سال تک محفوظ رہتا۔

اِسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی  اثرات 

اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ علمی حالت سب سے بڑھ کر قابلِ رحم تھی۔ لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گنتی کے چند پادریوں کے سوا کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اور وہ پادری چمڑے پر لکھی پرانی کتابوں کو کھرچ کر اُنہی کے اُوپر نئی تحریریں لکھنا شروع کر دیتے تھے جس سے اُن کا بچا کھچا علمی سرمایہ بھی ضائع ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔

مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سپین کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی سپین یورپ بھر کے لیے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا سپین کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ سپین نے جہاں علوم و فنون، صنعت و حرفت اور تجارت میں خوب ترقی کی وہاں تہذیب و ثقافت میں بھی قرونِ وُسطیٰ میں ہر طرف اُسی کا طوطی بولتا تھا۔

اِسلامی سپین کا کلچر عرب مسلمانوں ہی کا مرہونِ منّت تھا، جو ترکِ سکُونت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے۔ وہ اِسلامی تہذیب کی خوشنما روایات بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے، جس سے سپین کی سرزمین تہذیبی کمال کے عروج کو پہنچی۔

اِسلامی سپین کے دارُالحکومت قرطبہ (Cordoba) کی آبادکاری کچھ اِس حسین انداز سے تھی کہ اُس کی سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات نے اُسے چار چاند لگا دیے تھے۔ قرطبہ اپنی علمی و فنی سرگرمیوں اور صنعتی و تجارتی اہمیت کے باعث دُنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ اندلس کے مسلمانوں نے خلفائے عباسیہ کی شان و شوکت اور پُرتکلف مہذّب زندگی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اندلس تہذیب و ثقافت اور فیشن میں دُنیا بھر میں ایک معیار کی حیثیت اِختیار کر چکا تھا اور دُنیا اُس کی مثالیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ بڑے بڑے عالیشان محلات اور بنگلوں کے علاوہ بڑے شہروں میں میلوں تک پھلوں اور پھولوں کے باغات اُسے جنتِ ارضی کی صورت دے چکے تھے۔

مسلمانوں نے جہاں سپین کو تعمیرات سے آراستہ کیا وہاں اُسے تہذیبی اِرتقاء سے بھی منوّر کیا۔ سپین جہاں معاشرہ اَمن و امان کی ناقابلِ مثال صورت میں چین سے زندگی بسر کر رہا تھا، وہاں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ نے شہریوں کو آسودہ حال کر دیا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ سرمایہ نئی صنعتوں میں لگانے لگے تھے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ لباس اور بہترین اَشیائے خور و نوش پر بے دریغ رقم خرچ کرتے تھے۔ تہذیبی تکلّفات اُن کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ آرائش و زبیائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے باہر لان بنانے اور اُن میں دُور دراز ممالک سے نایاب درخت منگوا کر لگانے کا رواج عام تھا۔ اکثر گھروں میں فوّارے اور حوض بھی بنائے جاتے تھے۔

عبدالرحمن الداخل کے دورِ حکومت میں جب سپین میں اِسلامی سلطنت کو اِستحکام نصیب ہوا تو اُس نے ملک کی تعمیر و تزئین کی طرف خاص توجہ دی۔ اُس نے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جابجا باغات، فوّاروں، پختہ گلیوں، سڑکوں اور دِیدہ زیب عمارات کا جال بچھا دیا۔ گلی کوچے پختہ ہوتے اور اُن میں روشنی کا بخوبی اِنتظام حکومت کے خرچ سے ہوتا۔ شہروں میں سیورِیج کا بھی بہت اعلیٰ اِنتظام تھا۔ بلنسیہ (Valencia) کے بڑے گندے نالے پر پکی چھت تھی اور وہ اِتنا چوڑا تھا کہ ایک چھکڑا بآسانی اُس کے اُوپر چل سکتا تھا۔ عبدالرحمن اوّل ہی نے دریائے وادئ کبیر (Guadalimor River) اور دریائے شنیل (Genil River) کے کنارے آباد اکثر شہروں کو متعدّد نہریں کاٹ کر پانی بہم پہنچایا۔ غرناطہ کے باہر ایک عظیمُ الشان محل بنایا اور اُس کے اَطراف میں وسیع و عریض باغ لگایا، جس کا نام ’رصّافہ‘ رکھا۔