عمر ابراھیم
فرائیڈے اسپیشل
تاریخ اشاعت : 30 مارچ 2018ء
انسانو ں کے معاشرے توحید پر منظم ہوئے، شرک پر منتشر ہوئے۔ وحی پر تہذیب نے نمو پائی، نافرمانی پرجڑ اکھڑ گئی۔ بناؤ اور بگاڑ کا قانونِ الٰہی سب معاشروں پر لاگو ہوا۔ سب تہذیبیں ختم ہوچکیں اور ہوجائیں گی، سوائے اسلامِ کامل کے۔ یہ دعویٰ بربنائے قانونِ الٰہی ہے۔ یہی انسانوں کی تہذیبِ خاتم ہے۔ یہی فلسفۂ تاریخ کا فیصلہ ہے۔
جبکہ ’مغرب‘ کا بیشتر فکری زمانہ یتیمی میں گزرا ہے۔ تاریخ کی تعریف اور تہذیب کی تفہیم پر انسانوں کے فلسفے اور تجربات بے بنیاد ہی رہے، ناپائیدار ہی رہے۔ پہلی بار جرمنی میں ہائی اسکول کے ایک ٹیچرکی بصیرت نے اس حقیقت کا ادراک کیا۔ تاریخ کی منطق کا کھوج لگایا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں، اسولڈ اشپنگلر کی تاریخ ساز تصنیف “The Decline of the West” منظر پر ابھری۔ اشپنگلر نے موضوع پر مدعا یوں بیان کیا:
’’یہ کتاب کسی ثقافت کے مقدر کے قبل از وقت تعین کے لیے اس کے پوشیدہ گوشوں کا جائزہ لینے کی اولین کوشش ہے، اور اس مقصد کے لیے ہمارے دور کی مغربی ثقافت یعنی یورپ اور امریکہ کو منتخب کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی، اور اگر ہوئی بھی ہے تو اس میں جامع تحقیق کا عنصر معدوم ہے۔ کیا اس عمل کو تاریخ کی منطق قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا مختلف واقعات کے پس منظر میں اتفاقات کا کوئی وجود ہے؟ یا یہ کوئی ایسی فعالیت ہے جسے ’’مابعد الطبعیاتی تاریخ انسانیت‘‘ کا نام دیا جائے، کیا یہ کوئی ایسی شے ہے جو مروج شعبہ ہائے علم (معاشرتی، روحانی یاسیاسی) سے الگ ہے؟ اور جس کا جائزہ لینا ہمارے لیے ممکن نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہم اپنی فکر کی عمارت کس بنیاد پر استوار کریں؟‘‘
اشپنگلر لکھتا ہے: ’’ہمارا موضوع مستقبل کے فلسفے کی ایسی شکل اختیار کرلیتا ہے جو یورپ میں مابعدالطبعیاتی فکر کے ختم ہوجانے کے بعد وجود پذیر ہوتا ہے۔ فلسفے کی یہ شکل تبدیل ہوکر تاریخ کی صورت اختیار کرلیتی ہے، جو فکری اتحاد سے لبریز عالمی تحریکات کا گہرا اور سنجیدہ مطالعہ کرتی ہے۔‘‘
یہ عظیم دانشور ایک جملے میں فلسفۂ تاریخ یوں سموتا ہے: ’’فطرت انسان کی تشکیل کرتی ہے، اور تاریخ اس کے تخیل کی تشکیل کرکے اسے کائنات سے ہم آہنگ بناتی ہے۔‘‘
یقینا اشپنگلرکا یہ دعویٰ درست ہے کہ مغرب میں تاریخ کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جاسکا۔ یہ ایسی پہلی سنجیدہ کوشش تھی جس نے بعد کے تاریخی کام کا رخ اور رجحان بدل کر رکھ دیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مطالعہ تاریخ کی درست سمت متعین کردی۔ معاشروں کے عروج و زوال میں واقعات کی مماثلتوں اور اٹل اصولوں کی موجودگی کے شواہد نے تاریخ پر مابعد الطبعیاتی فعالیت کی حاکمیت ثابت کردی، جسے مغرب میں سب سے پہلے اشپنگلر نے دریافت کیا۔
اسولڈ اشپنگلر نے قوموں اور معاشروں کی تقدیرکا شرح وبسط سے جائزہ لیا… چند روز میں یہ بے نام مؤرخ تاریخ ساز شخصیت بن گیا۔ وجہ وہ خوف تھا جو اشپنگلر نے مغربی مفکرین کے رگ و پے میں اتار دیا تھا۔ اس شخص نے واضح کردیا کہ تمام ثقافتیں طفولیت اور بلوغت سے گزرکر زوال پذیر ہوئیں۔ مغرب کی ثقافت کا زمانۂ عروج گزر چکا، اب وقتِ زوال ہے۔ یہ ثقافتوں کی زندگی کا وہ اٹل قانون ہے، جس سے مفر ممکن نہیں۔ بلاشبہ اشپنگلر کا انداز بہ یک وقت مجذوبانہ اور مدبرانہ تھا۔ تاہم دو باتیں ’زوالِ مغرب‘ میں تشنہ رہ گئیں۔ ایک مابعدالطبعیاتی فعالیت کی نوعیت کا جامع فہم یا تعارف اور دوسرا، عظیم معاشروں کی تہذیبی وسعت و اثرپذیری کا مفصل بیان۔
ان دو اضافوں کے ساتھ عظیم برطانوی دانشور آرنلڈ ٹوائن بی نے اشپنگلر کی کتاب کا ضخیم جواب تیارکیا۔ اس غیر معمولی محقق نے بارہ جلدوں میں ’تاریخ کا مطالعہ‘ سمو دیا۔ اکیس تہذیبوں کی تفصیل بیان کی۔
فلسفی، ماہرِ اقبالیات ڈاکٹرعبدالحمید کمالی نے عمدگی سے ’ٹوائن بی کا فلسفۂ تاریخ‘ بیان کیا ہے۔ اُن کے مقالے سے ایک طویل اقتباس فہم افروز ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ٹوائن بی نے دانہ دانہ واقعات جمع نہیں کیے، بلکہ جمع کیے ہوئے مختلف انباروں کو ’تاریخ کا ایک مطالعہ‘ کی بارہ جلدوں میں منظم کیا ہے اور اس کے ذریعے اکیس تہذیبوں کی سوانح حیات مرتب کی ہے۔ ان کا یہ ضخیم مطالعہ مقصدیت سے بھرپور ہے۔ وہ دراصل مغربی تہذیب کا حال اور مستقبل دریافت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے تاریخ میں غواصی کرتے ہیں۔ اور واپس آکر مغرب کو بڑا رجائی پیغام دے کر اُس کا اپنے آپ پر اعتماد جو متزلزل ہوگیا تھا، بحال کرتے ہیں۔ مغرب نے آج تک ان سے بڑا وکیل پیدا نہیں کیا۔ ان کا حاصلِ مطالعہ یہ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں اکیس کے قریب تہذیبوں کا سراغ ملتا ہے۔ ان میں سب اپنے انجام کو پہنچ چکیں اور خاک میں مل گئیں۔ خود ایک بڑی تہذیب یعنی اسلامی تہذیب بھی استحالہ اور انہدام کے دور میں آگئی۔ وقت کی سوئیوں کو پلٹا نہیں جاسکتا۔ اب ایک تہذیب رہ گئی ہے اور وہ مغربی تہذیب ہے۔ تمام معاشرے اب اسی تہذیب میں جذب ہورہے ہیں، اب اس تہذیب کا مستقبل ہی انسانیت کا مستقبل ہے، کیوں کہ اگر یہ فنا ہوگئی تو انسانیت فنا ہوجائے گی۔ ایک عمیق مذہبی وجدان ان کے تمام کاموں میں سوزِ دروں کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ وہ بنیادی طور پرکلیسائی مفکر ہیں اور قرونِ وسطیٰ کے کلیسائی تاریخ نویسوں کی طرح ان کو پوری عالمی تاریخ میں، تہذیبوں کے بننے اور مٹنے میں ایک الٰہی منصوبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ چناں چہ اس منصوبے کی وجہ سے ان کو یوں نظر آتا ہے کہ انسانیت خواہ مکمل تباہی کی طرف رواں دواں ہی کیوں نہ ہو، آخرکار بچا لی جائے گی اور زندہ رہے گی۔ مغربی تہذیب کا یہ جہاز جو اَب سب انسانیت کا مستقبل ہے، سلامت رہے گا اور لطف و عنایتِ الٰہی سے یہ تیرتا رہے گا۔ وہ تہذیبِ مغرب کو اپنی تاریخی جبریت و عالمی مشیت کے قانون سے استثنیٰ دیتے ہیں، اور یہ استثنیٰ ان کو اپنے کلیسائی ایقان و ایمان سے ملتا ہے۔ وہ اپنے اس ایقان کی تشریح میں جان بنین کے ناول “The Pilgrim’s Progress” سے حوالہ دیتے ہیں کہ آخرکار اس کے مرکزی کرداروں کو جو سچے کرسچن ہوتے ہیں، بچا لیا جائے گا۔‘‘
مغربی تہذیب سے ٹوائن بی کی امیدیں بطورکلیسائی مفکر اچنبھے کی بات نہیں، بلکہ عین فطری ہے۔ یقینا ٹوائن بی انجیل کو مابعد الطبعیاتی فعالیت کی حتمی صورت تصورکرتے ہیں۔ نتیجتاً رومن عیسائی کلیسائی مغربی تہذیب کو تاریخ کی منطق سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔ یعنی مغربی تہذیب کو آخری انسانی تہذیب سمجھتے ہیں۔ مغرب کو ٹوائن بی سے جو بہترین علمی جوہر حاصل ہوتا ہے، وہ کامل مذہبی تہذیب کی حتمی عالمگیریت کا تصور ہے۔
اسولڈ اشپنگلر اور ٹوائن بی کی تحقیقات نے مغرب کے تصورِ تاریخ میں انقلاب برپا کردیا۔ ناپسندیدگی اور ناگواریت کے باوجود، تاریخ کی مادی و معاشی اور قومی و قبائلی تعریفات کوڑے دان کی نذر ہوئیں۔ اشپنگلر اور ٹوائن بی دونوں نے تاریخ کی تعریف میں عظیم معاشروں کا کردار کلیدی ثابت کردیا۔ تہذیبوں کی تشکیل میں الٰہیات اور مذاہب کا بنیادی اور تعمیری کردار واضح کردیا۔ تہذیبوں کے عروج و زوال پر قانونِ الٰہی کی اجارہ داری یا مابعد الطبعیاتی فعالیت کا فہم عام کردیا۔ ٹوائن بی نے اہم پیش رفت کی، مغربی یا کلیسائی تہذیب کو آخری انسانی تہذیب قرار دیا۔ یہ دو عظیم علمی کام مغربی مفکرین کے لیے کئی سوالات چھوڑ گئے۔ اگر تہذیب ہی تاریخ کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کررہی ہے، تو پھر مستقبل کس تہذیب کا ہے؟ اگر مستقبل مغربی تہذیب کا ہے تو پھر اس کی مابعدالطبعیاتی نوعیت کیا ہے؟ اگر یہ عیسائیت پر استوار ہوگی، تو پھرعیسائیت کی مابعدالطبعیاتی وقعت کیا ہے؟ اگر عیسائیت نقائص سے بھرپور اور منطق سے دور ہے، تو پھر لادین مغربی تہذیب کی مابعدالطبعیاتی حیثیت کیا ہوگی؟ تاریخ کی منطق سے لادین مغربی تہذیب کا کوئی مستقبل کیسے ہوسکتا ہے؟
مذکورہ سوالات میں الجھے سرمایہ دار ذہن نے اپنے لیے گریز کی راہ جلد ڈھونڈ لی۔ جاپانی نژاد امریکی دانشور فرانسس فوکویاما نے ’غلام قلم‘ کا سہارا لیا اور ٹوائن بی کے دعوے کی مادی تعبیر کردی، سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کی کاملیت پر تاریخ کا اختتام کردیا۔ فوکویاما کی یہ اونچی چھلانگ جلد ہی منہ کے بل زمین پر آپڑی۔ جلد ہی مجاہدینِ افغانستان کے ہاتھوں کمیونزم منہدم ہوگیا… الجزائر سے لبنان تک تسلسل سے ایسے واقعات پیش آئے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئل ہن ٹنگٹن کی نگاہ تہذیبی تصادم کی تاریخی فعالیت پرجا ٹھیری۔ انہوں نے اسلامی تہذیب میں احیا اور تصادم کی صلاحیت کا اعتراف کیا، اور اسے مغربی تہذیب کے لیے خطرہ قراردیا۔
جس کے بعد سے اکیسویں صدی کے اوائل کا تمام تر زمانہ مغربی تہذیب نے اسلام سے جنونی تصادم میں گزارا ہے۔ وجہ وہی تاریخی منطق ہے، جس کا نتیجہ التہذیب الخاتم ہے۔ سوالات کی یہ منطقی ترتیب یوں ہوسکتی ہے کہ اگر تاریخِ انسانی میں مابعدالطبعیاتی فعالیت کا کردار مرکزی ہے، تو پھرکون سی انسانی تہذیب الٰہیات سے قریب ترہے؟ ظاہر ہے، جب دیدۂ بینا مابعدالطبعیاتی فعالیت کے مرکز کعبۃ اللہ کا طواف کرتی ہے، مساجد کی صفوں سے کائنات کی وسعتوں تک بلند ہوتی ہے، عرب کے ریگ زاروں سے مشرقِ وسطیٰ کے سبزہ زاروں تک سفرکرتی ہے، افغان کہساروں سے غزہ کے گلی کوچوں تک خون ٹپکاتی ہے، شام کی راکھ سے عراق کی خاک تک نم رہتی ہے، اور یورپ کی سرد شاموں میں ایمان کی حرارت سے امید کی جِلا پاتی ہے تو یہ یقین مستحکم ہوجاتا ہے کہ اسلامی تہذیب ہی کامل انسانی تہذیب ہے۔ قرآنِ حکیم اعلان کرچکا ہے کہ انسانوں کے لیے دینِ اسلام حتمی طور پر پسند کرلیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاتم النبیین ہیں، یہ کتاب بھی آخری کامل ہدایت ہے۔ اسلامی معاشرہ ہی التہذیب الخاتم ہے۔
اب التہذیب الخاتم پر جو بھی تحقیقی و علمی کام ہوگا، وہ اسلامی تہذیب پر پہنچ کر قلم توڑ دے گا۔ یہی وہ تاریخی منطق ہے، جو آج نہیں توکل، کل نہیں تو پرسوں انسانوں کا مقدر ہے، اس سے مفر ممکن نہیں۔