املا نامہ (1/2) ۔ مرتبہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ


اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی سے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اُردو میں آیا۔ صدیوں کے اس تہذیبی اور تاریخی سفر میں اس رسم الخط میں بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں۔ اُردو دنیا کی ان چند انتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذ و استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے اس کے ذخیرہ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت، پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے، تو ایک چوتھائی حصہ جو دراصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز و افتخار کا ضامن ہے’ سامی اور ایرانی مآخذ یعنی عربی، فارسی زبانوں سے لیا گیا ہے اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں جو بے مثل تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے، وہ اُردو صوتیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اُردو صوتیات میں ایک پرت تو ہند آریائی آوازوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ دراوڑی آوازوں کی ہے۔ اور دوسری اتنی ہی اہم پرت مشرق وسطی کی زبانوں سے ماخوذ آوازوں کی ہے اُردو دنیا کی ان چند "تہ دار” زبانوں میں سے ہے جس میں متعدد منفرد اور ممتاز صوتیاتی نظام ایک وسیع تر لسانی پیکر میں ڈھل کر بہ یک وقت کام کرتے ہیں۔ یہ ” کثیر لسانیت” جہاں اُردو میں ایسی وسعت، لوچ اور لطافت پیدا کر دیتی ہے جو دوسری ہند آریائی زبانوں کے لیے لائق رشک ہے وہاں رسم الخط سے ایسے تقاضے بھی کرتی ہے جن کو پورا کرنا آسان نہیں۔ اُردو جیسی مخلوط و ممزوج زبان کے لیے کسی بھی ایک خاندان کا رسم الخط اپنایا جاتا، دوسرے خاندان کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں نئی گنجائشیں نکالنی ہی پڑتیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم میں جب اُردو عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تو کئی علامتیں ایسی تھیں جن کے لیے آوازیں نہیں تھیں، اور کئی آوازیں ایسی تھیں، جن کے لیے علامتیں نہیں تھیں۔ وقتاً فوقتا نئی علامتوں کا اضافہ ہوتا رہا، اور تبدیلیوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ زبان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں از خود ہوتی رہیں، اور لکھنے والے اپنے اپنے طور پر لکھاوٹ کی صحت کا التزام کرتے ہے۔ اس وقت کسی معیاری بندی یا ضابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ رسم الخط ایک نئی وضع پر آ رہا تھا، اور اُردو کے "کثیر صوتیاتی” مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل جاری تھا۔


برطانوی اقتدار کے قائم ہو جانے کے بعد مستشرقین اُردو کی طرف متوجہ ہونے شروع ہوئے، اور خصوصاً فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کچھ پہلے اور بعد میں بھی جب اُردو لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جانت لگیں تو اُردو رسم الخط کے مطابق صحت سے لکھنے کے مسائل یعنی املا پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ جان جوشوا کٹلر، مُل، جان گل کرسٹ، جوزف ٹیلر، ٹامس روبک، جان شکسپئر، ڈنکن فاربس، ایس ڈبلیو فیلن اور جان پلیٹس ان چند مستشرقین میں ہیں جن کے لغات اور صرف و نحو کی کتابوں میں اُردو املا سے باخبری کا گہرا احساس پایا جاتا ہے مستشرقین کی تصانیف میں اکثر اُردو الفاظ یا جملوں کو رومن حروف میں لکھنا پڑتا تھا جس کے لیے اُردو تہجّی اور رومن حروف تہجّی میں مطابقت کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ غیر اہلِ زبان کو اُردو پڑ جانے ک لیے ان قاعدوں اور ضابطوں کو بھی سمجھنے سمجھانے کی ضرورت تھی جن کے مطابق حروف کے جوڑنے سے الفاظ اور عبارت لکھی جاتی ہے مستشرقین کی یہ کوشش تقریباً ایک صدی جاری رہیں لیکن خود اُردو والوں نے ان امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی یوں تو انّیسویں صدی میں جب لکھنو کو ادبی مرکزیت حاصل ہو گئی تو دہلی اور لکھنو کی ادبی و لسانی چشمک میں جی کھول کر ہندی کی چندی کی گئی، لیکن زبان کے جن پہلوؤں پر زیادہ توجہ صرف ہوئی، وہ شعر کی زبان سے متعلق تھے ؛ بول چال کی زبان اور نثر کی زبان برابر بے توجہی اور غفلت کا شکار رہی۔ متروکات، تذکیر و تانیث اور صحتِ استعمال ہی کو زبان کی کل کائنات سمجھا جاتا تھا۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے جب اُردو ادب کے قدیم سرمائے کی تلاش و تحقیق کا کام شروع ہوا، اور جن مولوی عبدالحق کے زیرِ نگرانی انجمن ترقی اُردو سے قدیم تذکرے، دواوین اور کلیات مرتب ہو کر شائع ہونے لگے، تو ترتیب و تدوین کے مسائل کے ساتھ ساتھ صحتِ املا کا خیال بھی ذہنوں میں آیا۔ مولوی عبدالحق نے قواعدِ اُردو لکھی اور اسٹنڈرڈ انگریزی اُردو لغت کا کام بھی مکمل کرایا۔ اس دوران میں اُردو کی بے قاعدگیوں کا احساس اور بھی شدید ہوا ہو گا۔ بیسویں صدی میں تین خاص لغات بھی منظرِ عام پر آئے: فرہنگ آصفیہ، سیّد احمد دہلوی؛ نور اللغات، نور الحسن نیّر کاکوروی؛ اور جامع اللغات، فیروز الدّین لیکن سائنسی نظر کے فقدان کی وجہ سے ان میں املا کے مسائل پر وہ توجہ نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔

اس صدی کی تیسرے اور چوتھی دہائیوں میں تحریک آزادی کی رفتار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قومی زبان کا مسئلہ سامنے آیا، اور "ہندوستانی” کی تحریک خاصی اہمیت اختیار کر گئی۔ مہاتما گاندھی چونکہ اعلان کر چکے تھے کہ "ہندوستانی” کے لیے دیو ناگری اور اُردو دونوں "لپیوں” کو اپنایا جائے گا، اس لیے دونوں کو اپنا اپنا گھر سنبھالنے کی فکر ہوئی۔ اُردو میں اس کا اظہار دو طرح سے ہوا۔ اوّل تو یہ کہ اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر سادہ اور سہل بنایا جائے (ڈاکٹر جافرہسن، آسان رسمِ خط، حیدر آباد، 1940) دوسرے یہ کہ اُردو رسم الخط کی جیسا وہ ہے، مدافعت کی جائے۔ (سیّد مسعود حسن رضوی ادیب، اُردو زبان اور اس کا رسم الخط، لکھنو، 1948ء عبد القدوس ہاشمی، ہمارا رسم الخط، انجمن، دلّی (قبل 1947ء) : محمد الیاس برنی، اُردو ہندی رسم الخط، حیدر آباد، 1948ء (؟))

اُردو رسم الخط کی ان بحثوں میں شریک ہونے والی ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصّہ اُردو املا کے لیے وقف کر دیا۔ اُردو والوں کو ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اُردو املا کے مسائل پر نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے اپنی متعدد تحریروں، خطوں، تبصروں اور مضامین کے ذریعے اُردو املا کے بارے میں برتی جانے والی عام بے توجہی اور بے حسی کو بے نقاب کیا۔ اور املا کے مسائل پر عالمانہ نظر ڈال کر وقتاً فوقتاً اصلاحی تجویزیں پیش کیں۔ 1943 میں جب انجمن ترقی اُردو نے کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط مقرر کی تو مولوی عبدالحق کی دعوت پر اس کا اجلاس 22 مارچ 1943 کو سید ہاشمی فرید آبادی کی ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے انجمن کے دفتر واقع دریا گنج دہلی میں منعقد ہوا جس میں مولوی عبدالحق اور سیّد ہاشمی فرید آبادی کے علاوہ ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے مرتب کیا تھا، 16 ستمبر 1943 کو اخبار ہماری زبان میں شائع کی گئیں، اور 21 جنوری 1944ء کو کل ہند اُردو کانفرنس کے ناگ پور اجلاس میں رسمِ خط کی ذیلی مجلس میں پیش ہوئیں یہ تجاویز خاصے غور و مباحثے کے بعد ترمیم و اضافے کے ساتھ منظور کی گئیں اور جنوری 1944ء کے رسالہ اُردو میں شائع کی گئیں۔ (ص 103 – 120)

کمیٹی اصلاح رسمِ خط کی ان سفارشات پر انجمن ترقی اُردو سے شائع ہونے والی کتابوں اور رسالوں میں عمل ہونا شروع ہی ہوا تھا کہ برِ صغیر کی تقسیم سے اُردو کو ہندوستان میں اپنی زندگی کی نئی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا اور املا کی معیار بندی کی کوششوں پر اوس پڑ گئی۔ تا ہم سرکردہ محقّقین اور مصنّفین کے ہاں جن میں ڈاکٹر سیّد عابد حسین، سیّد مسعود حسن رضوی، امتیاز علی عرشی، قاضی عبد الودود، مالک رام، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر گیان چند جین کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں، صحتِ املا لا التزام رہا، لیکن بہ حیثیت مجموعی اُردو املا طرح طرح کی بے قاعدگیوں اور بے اعتدالیوں کا شکار رہا۔

اُردو میں املا کے مسائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں سے بعض بنیادی مسائل وہ ہیں جو مستعار الفاظ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اُردو لفظیات کا امتیازی حصّہ عربی، فارسی سے ماخوذ ہے۔ ان زبانوں سے آنے والے ہزاروں لفظ اُردو میں رچ بس گئے ہیں، اور اُردو کے اپنے ہو چکے ہیں۔ اُردو ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں مستعار لفظوں کا طریقِ املا سے مختلف ہے، وہاں اصل کی پیروی کرنی چاہیے یا انھیں اُردو کے قاعدے سے لکھنا چاہیے؟ ایسی ایک مثال ان عربی لفظوں کی ہے جن کے آخر میں ی کے اوپر الف لکھا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، موسیٰ، دعویٰ، اس قبیل کے کئی الفاظ اُردو میں پورے الف سے رائج ہو چکے ہیں۔ مولا، تقاضا، تماشا، تمنا۔ ان کے بارے میں قاعدہ کیا ہونا چاہیے؟

ایسے کئی الفاظ جن میں الف مقصورہ آتا ہے، پہلے ہی عام الف سے لکھے جاتے ہیں، جیسے رحمٰن اور رحمان۔ اسمٰعیل اور اسماعیل، سلیمٰن اور سلیمان، ابرٰہیم اور ابراہیم، مولیٰنا اور مولانا۔ اس املائی دو عملی سے کس طرح بچا جائے، اور اس سلسلے میں کیا اصول اپنایا جائے؟

عربی، فارسی کے کئی الفاظ میں لکھنے میں نون آتا ہے لیکن پڑھا میم جاتا ہے، جیسے گنبد، انبساط، انبوہ۔ ان کی تقلید میں کئی دیسی الفاظ بھی جو میم سے بولے جاتے ہیں، خواہ مخواہ نون سے لکھے جاتے ہیں : اچنبھا، تنبولی، چنپا، چنبیلی۔

اُردو میں سینکڑوں دیسی لفظ مستعار الفاظ کی نقل میں خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ غنچہ، کشتہ، زردہ، پردہ میں تو اصلاً ہ ہے، لیکن بھروسہ، ٹھیکہ، بھوسہ، دھبہ، اکھاڑہ، انڈہ، اڈّہ، راجہ، باجہ، گینڈہ، سہرہ، دسہرہ میں اس کا کیا جواز ہے؟ آنکھ کو آنکھہ، ہاتھ کو ہاتھہ، بیٹھ کو بیٹھہ، مجھ کو مجہہ، اور کچھ کو کچہہ عام طور پر لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ بات بھی عام طور پر معلوم نہیں کہ خفی ہ کی آواز ہ کی نہیں، خفیف مُصوّتہ (مثلاً زبر) کی ہے۔

ذ اور ز کے بارے میں بھی اُردو میں خاصا خلط مبحث ہے۔ قاضی عبد الودود نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ مرزا غالب فارسی میں ذال کے وجود کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے گزشتن اور پزیرفتن کو صحیح سمجھتے تھے۔ حالانکہ صحیح صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یہ غلط روش یہاں تک عام ہوئی کہ کئی لوگ گزارش کو گذارش، شکر گزار کو شکر گذار اور گذشتہ کو گزشتہ لکھنے لگے۔

ہمزہ اُردو میں عربی سے آیا۔ عربی میں ہمزہ جس آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے، اُردو میں اس کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ عربی میں ہمزہ کی حیثیت مُضمتے کی ہے، اُردو میں ہمزہ مصوّتوں کے ساتھ آتا ہے۔ باوجود اس قلب ماہیت کے ہمزہ اُردو املا میں ایسا ناگزیر جزو ہے جس کے بغیر اُردو املا کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو میں ہمزہ کی کیا ضرورت ہے اور ہم ہمزہ کو استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں، اس کا کوئی واضح شعور ذہنوں میں نہیں۔ ہمزہ کےاستعمال کے سلسلے میں اُردو میں بڑی بے اعتدالیاں برتی جاتی ہیں، مثلاً عربی کے کئی الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے ابتداء، انتہاء، علماء، فضلاء، قدماء، ادباء، حکماء۔ اُردو میں یہ الفاظ چونکہ ہمزہ کے خاص تلفّظ کے ساتھ رائج نہیں، ان ہمزہ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح چاہیے، لیے، کیے، پیے، جیے، کو چاہیئے، لئیے، کئے، دئے، پئے، جئے بھی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیجئے، کیجئے، لیجئے وغیرہ افعال کی تصریفی صورتوں میں بھی ہمزہ کے معاملے میں خاصا انتشار ہے۔ بعض لوگ انھیں ی سے لکھتے ہیں، بعض ہمزہ سے، اور بعض دونوں سے۔ اضافت کے لیے بھی ہمزہ کی غلط نگاری عام ہے۔ اس بات کا شعور عام نہیں کہ نغمہ شب، جلوہ مجاز اور کشتہ ناز میں ہمزہ کیوں لکھنا چاہیے اور ماہِ نو، تہِ دریا اور نگاہ دل نواز میں اضافت کیسے ظاہر کی جائے گی۔

املا کے کئی مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق اُردو کی صوتیات سے ہے۔ ایک ہمہ گیر زبان میں جو ملک بھر کے دور دراز خطّوں، علاقوں اور شہروں میں بولی جاتی ہو، مقامی اثرات کا لہجے اور تلفّظ کے اختلاف میں ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ املا کا کام معیاری تلفّظ کا اظہار ہے۔ لیکن بعض مثالیں ایسی بھی مل جاتی ہیں، جہاں ایک سے زیادہ معیاری شکلیں موجود ہیں۔ اور دونوں طرح کے تلفّظ کی سند مل جاتی ہے۔ ایسی صورتوں میں فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟

اُردو صوتیات میں ہکار آوازوں کی خاص اہمیت ہے۔ اُردو میں ان کے لیے الگ سے حروف نہیں، لیکن ان کے اظہار کا اطمینان بخش طریقہ موجود ہے۔ (پھ بھ، تھ د ھ، ٹھ ڈ ھ، چھ جھ، کھ گھ، ڑ ھ)۔ پھر بھی یہ صوتی تصوّر ابھی تک پوری طرح ذہن نشین نہیں ہو سکا کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے ہے کو ھے، چاہیے کو چاھیے، ہی کو ھی یا مجھ کو مجہہ۔ بیٹھ کو بیٹہہ اور آٹھ کو آٹہہ لکھنے کی روش قدیم زمانے سے چلی آتی ہے۔ اور تو اور، گھر اور گہر، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھاری اور بہاری، بھن اور بہن یا دھلی اور دہلی میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔

نون غُنہ خالص اُردو کی چیز ہے۔ عربی میں نون غُنہ نہیں، قدیم و جدید فارسی میں اس کا وجود کہیں ہیں، کہیں نہیں ہے۔ اُردو میں ہم نون کا نقطہ اُڑا کر اس کو غُنیت کے لیے کام میں لاتے ہیں، جبکہ لفظ کے بیچ میں نقطہ ضروری ہے۔ حرف و صوت کی اس عدم مطابقت سے کہیں کہیں دقّت پیدا ہوتی ہے، اُردو میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ معلوم نہیں کہ ان میں نون غُنہ کا صحیح مقام کیا ہے۔ لفظ گا نو بہ معنی بستی تین چار طرح لکھا جاتا ہے، گانو، گاؤں، گانوں اور گانئوں۔ یہی حال پانْو، چھانْو اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ کا ہے۔ اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے معیار بندی بیحد ضروری ہے۔

حروفِ علت کی کمی کے فائدے اپنی جگہ ہیں، لیکن اس سے بعض املائی دقّتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تیر، تَیر ؛ پیر، پیَر؛ بین، بَین ؛ میرا، میرا ؛ اور میل، مَیل میں جو فرق ہے ؛ یا دور، دَور ؛ طور، طور، چور، چور ؛ مَول، مول ل میں فرق ہے، اسے ہم اعراب کی عدم موجودگی میں سیاق و سباق کی مدد سے سمجھ لیتے ہیں، لیکن واؤ کی تین آوازوں (واؤ معروف واؤ مجہول اور واؤ ماقبل مفتوح) اور ی کی تین آوازوں (یائے معروف، یائے مجہول، یائے ماقبل مفتوح) کے صوتی اور املائی امتیازات عام طور سے نہ پڑھانے والوں کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں، نہ پڑھنے والوں کے۔ زیر، زبر، پیش، اور الف مد ملا کر اُردو کے کل دس مصوّتے ہوئے۔ ان دس مصوّتوں کا اعرابی نظام ابھی تک مُسلّم نہیں، اور قاعدوں اور ابتدائی کتابوں میں عجیب و گریب انتشار ملتا ہے۔

املا نامہ میں تمام مسائل پر توجہ کی گئی ہے، اور پورے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد، سادہ اور صاف زبان میں سفارشیں پیش کی گئی ہیں، نیز پہلی بار اُردو کے دس مصوّتوں کے لیے اِعرابی نظام پیش کیا گیا ہے جو سہل بھی ہے اور سائنٹِفک بھی۔

آزادی کے بعد املا کی اصلاح و تنظیم کی طرف پھر سے توجہ ہوئی۔ کئی ذہنوں نے ان مسائل کو وہیں سے لیا جہاں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے انھیں چھوڑا تھا۔ نیز یہ احساس بھی عام ہوا کہ املا کے بارے میں سوچتے ہوئے محض صوتیات ہی سے نہیں، سماجی لسانیات سے بھی مدد لینی چاہیے، زبان کی صوتیات اس کی سماجیات سے ہٹ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعض حضرات نے اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر ڈھالنے میں یہی غلطی کی تھی۔ ڈاکٹر جافر ہسن کا صوتی املا (جس کی سیّد ہاشمی فرید آبادی اور سیّد اختر حسین رائے پوری نے بھی کسی حد تک تائید کی تھی) چونکہ اُردو کے تاریخی ارتقا اور سماجی ضرورتوں کا اتنا احساس نہیں رکھتا تھا جتنا ضروری ہے۔ نیز اس میں رواج اور چلن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا تھا، اس لیے جزوی طور پر بھی قبول نہ ہو سکا زبان کے معاملے میں صدیوں کے چلن اور سماجی ضرورتوں اور عام استعمال سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ سجّاد مرزا اور ہارون خان شروانی نے اُردو ٹائپ اور طباعت کے لیے جو کوششیں کیں (اُردو رسمِ خط اور طباعت، حیدر آباد، 1957ء) ان میں بالواسطہ طور ہی پر سہی، املا کے نکات بھی زیرِ بحث آئے۔ اُردو کے نام سے غلام رسول نے ایک کتابچہ 1960 میں حیدر آباد سے شائع کیا۔ عبد الغفار مدہولی نے اپنے تدریسی تجربوں کی بنا پر اُردو املا کا آسان طریقہ رائج کرنے لیے متعدد تحریریں لکھیں، اور اسی نام سے 1963ء میں دہلی سے ان کا ایک کتابچہ بھی شائع ہوا۔ اس زمانے میں سیّد احتشام حسین اور آل احمد سرور نے بھی بعض اصلاحات کے لیے ذہنی فضا تیار کرنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر گیان چند جین اور راقم الحروف نے اپنے مضامیں میں صحتِ املا کے لیے جامع سائنسی اصولوں کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ رشید حسین خاں بھی املا کے مسائل پر برابر غور و فکر کرتے رہے اور لکھتے رہے۔ 1973ء میں ترقی اُردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں املا کمیٹی مقرر کی۔ راقم الحروف اور رشید حسن خان اس کے رکن مقرر کیے گئے۔ رشید حسن خاں اُردو املا پر اپنی کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔ کمیٹی کی متعدد نشستوں میں ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی مجوزہ اصلاحات اور دوسرے مسائل پر غور و خوض ہوا، بنیادی اصول طے کیے گئے اور سفارشات مرتب کرنے کا کام راقم الحروف کو سونپا گیا۔ رشید حسن خاں نے اُردو املا پر عالمانہ اور مبسوط کتاب لکھی جس میں بنیادی اُصولوں کی وضاحت کی گئی، مختلف عنوانات کے تحت ضروری الفاظ کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ اور لغات میں پائے جانے والے انتشار اور غلط نگاری کا تفصیلی جائزہ لے کر ترجیحی صورتوں کا تعیّن کی گیا۔ لیکن واضح رہے کہ کتاب ایک فردِ واحد کا کام ہے۔ کمیٹی نے اُن کے کام اور اُن کے مشوروں سے استفادہ کیا، لیکن جس طرح کمیٹی نے ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی کئی اصلاحات کو رد کر دیا، رشید حسن خاں کی بعض باتوں سے بھی کمیٹی باوجود کوشش کے متفق نہ ہو سکی، اور املا نامہ میں متعدد سفارشیں اُن سے ہٹا دی گئیں۔

املا نامہ طبعِ اول (1974ء) میں زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اُردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط (1943 -44ء) نے پیش کی تھیں یا جن کی وضاحت ڈاکٹر عبد الستّار صدیقی نے اپنے مضامین اور تحریروں میں کرتے رہے تھے۔ ترقی اُردو بورڈ کی املا کمیٹی کو بعض مقامات پر بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ جس کی نشان دہی کر دی گئی تھی مثلاً وہ اصلاحات جو انقلابی تبدیلیوں پر مبنی تھیں۔ جیسے مصدر یا کسی صیغے کے آخر میں جو نا، تا وغیرہ آتے ہیں، وہ مادّے سے جدا کر کے لکھے جائیں، جیسے لکھ نا، لکھ تی، لکھ تے، لے نا، اٹھ تیں، بھج وانا، سے تا، یا بالکل کو بلکل یا خوش کو خُش لکھا جائے، یا نون غُنہ کو منفصل لکھا جائے، جیسے پھان س، بان س، سن گھاڑے۔ یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھا جائے، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، پھ ر۔ یا یہ کہ عربی کے ہم آواز حروف جن کی تین یا چار شکلیں آتی ہیں، ان کو گھٹا کر صرف دو شکلوں پر اکتفا کیا جائے یعنی ث، ص، س میں سے ص کو اور ز، ذ ض اور ظ میں سے ذ اور ض کو حذف کر دیا جائے۔ یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے لا، ی، جا، ی، داءِ رہ، کو، ی، سو، یاں، زاءِ ل، قاءِ ل۔ طائرِ، زائدِ، سناءِ ی، آء ی، یا مصیبت کو مصی بت، گھر کنا کو گُھر ک نا، اور قرینہ کو قری نہ لکھا جائے ؛ یا ڑھ کو ڑھ، ڈھ کو ڈھ یعنی ملا کر دھ رتی بجائے دھرتی، ادھ ورا بجائے ادھورا لکھا جائے، ایسی تبدیلیاں چونکہ رواج اور چلن میں نہیں آ سکتی تھیں، اور ناقابلِ عمل تھیں، اس لیے ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

سفارشات پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل رہنما اصول سامنے رہے:

1۔ صحتِ املا کے جو اصول اب تک سامنے آ چکے ہیں، اور محتاط اہلِ قلم کے ہاں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے، ان کو علمی، صوتی اور لسانیاتی نظر سے پرکھا جائے اور سائنٹفک طور پر منضبط و منظّم کر کے پیش کیا جائے۔

2۔ اُردو کے صدیوں کے چلن اور رواج کو پوری اہمیت دی جائے اور استعمالِ عام کی روشنی میں ترجیحی صورتوں کا تعیّن کیا جائے۔

3۔ املا میں کوئی تبدیلی ایسی تجویز نہ کی جائے جو اُردو کی علمی میراث، اس کی تاریخ، مزاج اور سماجی ضرورتوں کے نقطہ نظر سے نا قابلِ عمل ہو۔

4۔ عربی فارسی سے ماخوذ اُردو ہماری لسانی میراث کا جزو بن چکے ہیں۔ انھیں کی بدولت ہزاروں الفاظ کی بیش بہا دولت ہمیں ودیعت ہوئی جو زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سرمائے کا تحفّظ ہمارا فرض ہے۔

5۔ عربی کے جو مرکبات، عبارتیں یا مکمل اجزا، اُردو میں مستعمل ہیں، انھیں اصل کی طرح لکھنا چاہیے۔

6۔ املا کے اصولوں کا تعیّن کرتے ہوئے وسیع تر عام زبان پر نظر رکھی گئی ہے۔ محض شعری زبان پر نہیں (شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کو کبھی اشباع اور کبھی تخفیف کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، عام زبان میں لفظ کی متعیّنہ شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔

7۔ جہاں مروّجہ قاعدوں سے کوئی مدد نہیں ملی یا املائی انتشار حد سے بڑھا ہوا ہے، وہاں معیاری تلفّظ کی پیروی پر اصرار کیا گیا معیاری تلفّظ کو بنیاد بنانے سے ایسے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔

8۔ سفارشات کو پیش کرنے میں قدیم علمِ ہجا سے بھی مدد لی گئی، اور جدید صوتیات و سماجی لسانیات سے بھی۔ اُردو ایسی پیچیدہ اور متنوع زبان ہے۔ کہ کسی ایک نقطہ نظر کو اپنا کر اس کے املا سے پورا پورا انصاف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وسیع تر طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جہاں سے بھی جو روشنی مل سکتی تھی، لی گئی۔

زیرِ نظر صفحات میں قدیم روایت کا تسلسل بھی ملے گا اور جدید فکر کی سائِنٹِفک توجیہ بھی۔ صوتیات کے کئی تصورات ایسے کہ انھیں قدیم اصطلاحوں میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ دقّت بعض امور سے بحث کرتے ہوئے بار بات محسوس ہوئی، جس کی وجہ سے ایک طرح کا مفاہمتی رویّہ اختیار کرنا پڑا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ زیرِ نظر سفارشات صرف ماہرین اور محقّقین کے لیے نہیں، بلکہ اُردو کے عام لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بھی ہیں۔ جن میں طالب علم، ادیب، شاعر، صحافی، خوش نویس، ٹائپسٹ، نقل نویس، پروف پڑھنے والے، سبھی شامل ہیں۔ ان مباحث کے لیے زبان جتنی زیادہ سے زیادہ آسان اور عام فہم اختیار کی جا سکتی تھی، کی گئی ہے۔ مثالیں ہر جگہ دی گئی ہیں۔

دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ہو جس کا املا پوری طرح صوتی ہو۔ حروف کی صوتی اقدار سے عدم مطابقت کئی زبانوں میں ملتی ہے۔ اُردو میں حروفِ صحیح آوازوں سے زیادہ ہیں، اور حروفِ علّت آوازوں سے کم۔ اس سے کچھ پیچیدگیاں تو پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان سے مفر بھی نہیں۔ اس کمیٹی کا کام اُردو املا میں تبدیلیاں کرنا نہیں تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ املا میں جو بے اعتدالیاں اور بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، ان کو دور کیا جائے اور صحت اور اصول کی راہ دکھائی جائے۔ راقم الحروف اُن سب حضرات کا ممنون ہے جنھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔


نئی دہلی

مارچ 1974ء

گوپی چند نارنگ


(سفارشات املا کمیٹی، ترقّی اردو بورڈ)

مرتب: گوپی چند نارنگ
پروفیسر اردو، دہلی یونی ورسٹی

نیشنل فیلو، یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن

اراکین املا کمیٹی


ڈاکٹر سید عابد حسین (صدر)

رشید حسن خان

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (مرتّب)

(اس کمیٹی نے 1973 سے 1974 تک کام کیا اور اس کے جلسوں میں شہباز حسین نے بحیثیت پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر شرکت کی)


نظرِ ثانی کمیٹی (توسیع شدہ املا کمیٹی)


ڈاکٹر عبد العلیم (صدر)

پروفیسر گیان چند جین

ڈاکٹر سید عابد حسین

پروفیسر خواجہ احمد فاروقی

رشید حسن خان

پروفیسر محمّد حسن

حیات اللہ انصاری

ڈاکٹر خلیق انجم

مالک رام

سیّد بدر الحسن

پروفیسر مسعود حسین خان

پروفیسر گوپی چند نارنگ (مرتّب)

(1976 اور 1977 میں اس کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی نے بحیثیت پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر اور ابو الفیض سحر نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر شرکت کی)

 ورکشاپ اردو املا

شمس الرّحمان فاروقی (صدر)

رشید حسن خان

ڈاکٹر نثار احمد فاروقی

پروفیسر گوپی چند نارنگ (مرتّب)

(ستمبر 1980 میں اس کے تین اجلاس ہوئے۔ ابو الفیض سحر اور شمیم احمد نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر شرکت کی)


مقدّمہ طبعِ ثانی


املا نامہ کا پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں 1974 میں شائع ہوا تھا، اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ املا نامہ کا جو پُر جوش خیر مقدم کیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ کی کتنی شدید ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور پاکستان میں یہ مسئلہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گیا، اور رسائل و جرائد میں بحثوں اور تبصروں کا تانتا بندھ گیا۔ املا نامہ کے سلسلے میں بالعموم املا کمیٹی کو مبارک باد دی گئی اور ترقّی اردو بورڈ کے اس اقدام کی ستائش کی گئی، لیکن جہاں املا نامہ کے سائنسی انداز، اختصار اور جامعیت کی داد دی گئی اور کہا گیا کہ "یہ ایک وقیع کمیٹی کی سفارشات ہیں جن کی حیثیت سنگِ میل کی ہے۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کا حق ادا کیا گیا ہے” وہاں سخت سے سخت تنقید بھی کی گئی اور بعض سفارشات سے اختلاف کرتے ہوئے ان پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا، بالخصوص مولانا عبد الماجد دریا بادی، ڈاکٹر صفدر آہ، پروفیسر ہارون خان شیروانی، مولانا شہاب مالیر کوٹلوی، سیّد بدر الحسن، حیات اللہ انصاری، پروفیسر گیان چند جین، علی جواد زیدی، سید شہاب الدین دسنوی، ڈاکٹر خلیق انجم، حسن الدین احمد، ڈاکٹر شکیل الرّحمان، ڈاکٹر عبد السّتار دلوی، راج نرائن راز، کرشن موہن، ڈاکٹر عابد پشاوری، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ڈاکٹر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر سیفی پریمی، رشید نعمانی اور وقار خلیل نے کئی کئی قسطوں میں نہایت بے لاگ تحقیقی تبصرے لکھے اور علمی تجزیے کا حق ادا کیا۔ ان میں سے بعض تبصرے پاکستان کے رسائل نے بھی نقل کیے۔ املا نامہ کے آخر میں چونتیس اہم تبصروں کا گوشوارہ درج ہے اور عمومی آرا کی تلخیص بھی دے دی گئی ہے تا کہ اس ردِّ عمل کا اندازہ کیا جا سکے جو املا نامہ کی اشاعت سے ہوا۔ تمام مبصرین کا شکریہ واجب ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور دلسوزی سے اس مسئلے پر توجہ صرف کی۔ یہ حقیقت ہے کہ اتنے کسی چھوٹی کتاب پر تبصرے نہیں لکھے گئے جتنے املا نامہ پر لکھے گئے۔

ڈاکٹر عبد العلیم مرحوم جنھوں نے اپنے شوقِ خاص سے اور شہباز حسین سابق پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر کے توجہ دلانے سے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ املا نامہ پر تبصروں کی فائل مجھ کو بھجوا کر فرمائش کی کہ ان تبصروں کی مدد سے ہر سفارش کے بارے میں نام بنام اختلافی نکات کی رپورٹ تیار کر دوں تا کہ املا نامہ پر نظرِ ثانی کا کام شروع کرایا جا سکے۔ یہ اختلافی رپورٹ املا نامہ کے کُل صفحات سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ اب کے علیم صاحب نے کمیٹی کی توسیع کی اور پہلی کمیٹی کے تین اراکین کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں، حیات اللہ انصاری، مالک رام، پروفیسر گیان چند جین، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر محمّد حسن، ڈاکٹر خلیق انجم اور سیّد بدر الحسن کو بھی دعوت دی۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین مرحوم بوجہ علالت شرکت نہ فرما سکے اور پروفیسر گیان چند جین صرف ایک جلسے میں شریک ہو سکے، لیکن جین صاحب کا مفصّل تبصرہ کمیٹی کے پیشِ نظر رہا۔ اگرچہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد العلیم کی صحّت خراب رہنے لگی تھی، اس کے باوجود انھوں نے ہر اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری کو پوری دلجمعی سے انجام دیا، اور گھنٹوں بحثوں میں حصّہ لیا۔ اس توسیع شدہ کمیٹی کے تین پُر جوش اجلاس رام کرشنا پور میں علیم صاحب کے دفتر میں منعقد ہوئے، تھوڑا سا کام باقی تھا کہ اچانک بلاوا آ گیا اور علیم صاحب نے داعی اجل کو لبّیک کہا۔ چنانچہ یہ کام جوں کا توں دھرا رہا۔ کئی برس کی خاموشی کے بعد جب ترقی اردو بیورو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے شمس الرّحمان فاروقی کا تقرّر ہوا تو علاوہ دوسرے کاموں کے، املا کی معیار بندی پر بھی توجہ ہوئی، اور اس بارے میں انھوں نے ورکشاپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ چونکہ عربی سے متعلق کچھ امور تصفیہ طلب تھے، اس لیے ڈاکٹر نثار احمد فاروقی سے بھی مشورہ کیا گیا۔ اس ورکشاپ کے تین بھرپور اور طویل اجلاس ترقی اردو بیورو کے دفتر میں منعقد ہوئے جو صبح سے شام تک جاری رہے۔ ہر ہر سفارش کو بار بار دیکھا اور پرکھا گیا۔ املا نامہ طبع اوّل کی سفارشات، انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی اصل تجاویز، ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے بنیادی کام، رشید حسن خان کی تصنیف، حفیظ الرّحمان واصف کی تنقیدی کتاب، اور املا سے متعلق ڈاکٹر ابو محمد سحر اور دیگر حضرات کے مضامین، تبصروں اور بحثوں کو سامنے رکھا گیا۔ چلن، استعمالِ عام اور مروّجہ طریقوں کو پوری اہمیت دی گئی، اور خاصے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد انتہائی معروضی طور پر فیصلے کیے گئے، اور جہاں ضروری تھا لسانی و صوتی توجیہ کو انتہائی مختصر طور پر لیکن واضح الفاظ میں درج کر دیا گیا۔ کئی جگہ اصولوں اور قاعدوں میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ بعض توجیہات بدلی گئیں۔ بعض مقامات پر از روئے اصل حک و اصلاح کی گئی تو بعض اور رواج کو بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے تبدیلی کرنی پڑی، کئی شقیں حذف کر دی گئیں، چند ایک کا اضافہ بھی ہوا اور کچھ گوشواروں کو یکسر بدل دینا پڑا۔ غرض املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح و اضافے کا عمل جگہ جگہ دکھائی دے گا اور یہ ضروری بھی تھا۔

ورکشاپ کے جلسوں کی صدارت شمس الرّحمان فاروقی نے کی۔ اگر وہ دلچسپی نہ لیتے تو یہ کام خدا جانے کب تک سرد خانے کی زینت بنا رہتا۔ انھوں نے اور ڈاکٹر نثار احمد فاروقی نے اہم مشورے دیے۔ رشید حسن خان تمام بحثوں میں شریک ہوئے۔ اُنھیں بعض نکات پر اصرار تھا لیکن کمیٹی نے اُن سے اختلاف کیا۔

اس وضاحت کی بہرحال ضرورت ہے کہ املا نامہ طبع اوّل ہو یا زیرِ نظر ترمیم شدہ ایڈیشن، سفارشات کی اصل وہی ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی اور مولوی عبد الحق کا کام اور انجمن ترقی اردو کی ‘اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی’ کی رپورٹ ہے۔ (مقدمہ طبع اوّل میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ "زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اردو کی کمیٹی ‘اصلاحِ رسمِ خط’ (1943 تا 1944) نے پیش کی تھیں۔”)


   1. اعلیٰ، ادنیٰ، اولیٰ، معلیٰ، مصلیٰ، معریٰ، مقویٰ، تقویٰ، مصطفیٰ، مطلیٰ، منقیٰ، مدعیٰ علیہ وغیرہ کو الف مقصورہ کے بجائے معمولی الف سے لکھنا چاہیے۔ (عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115، 119)

   2. وہ عربی لفظ (یا نام) جو خود عربی میں دو طرح لکھے جاتے ہیں، ان کو اردو میں الف سے لکھنا چاہیے: رحمان، سلیمان، ابراہیم، اسماعیل، لقمان، (ص 114، 119) عیسا، موسا، مصطفا، مرتضا، صغرا، کبرا (انجمن ص 115)

   3. شوربا، ناشتا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58) تمغا، حلوا، سقّا، (عبد السّتار صدّیقی، ص 59) کو الف سے لکھنا چاہیے، اسی طرح تماشا، تقاضا، ماجرا، مدّعا، معماّ، تبرّا، تولّا، مربّا، بقایا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115)

   4. علحدہ / علاحدہ کی بحث (انجمن 115)

   5. وصل کا الف لام باقی رہنا چاہیے (انجمن ص 113)

   6. عربی کی ۃ (تائے مُدوّرہ) کو اردو میں ہمیشہ ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 55، 56)

   7. ت / ط کی بحث: طپش، طپیدن، طشت، طشتری، طوطا، طوطیا، طمانچہ، طلاطم، طیّاری کو ط سے نہیں، ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68)

   8. ذ یا ز کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

   9. گذشتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

  10. پذیرفتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

  11. پذیرا (ایضاً ص 65)

  12. آذر (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) آزر (ایضاً ص 66)

  13. زخار (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)

  14. آزوقہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)

  15. ذات (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) زات کی سفارش نہیں مانی گئی (ایضاً 66)

  16. ذرہ، زرہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 67)

  17. ازدحام، اژدحام کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68)

  18. ہائے مختفی: تمام دیسی لفظوں کو جو عربی فارسی کی نقل میں خواہ مخواہ مختفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے: آنولا، بھروسا، باجا، بٹوا، بلبلا، دھوکا، باڑا، پٹاخا، پٹارا، چبوترا، راجا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

  19. یورپی الفاظ بھی الف کے ساتھ: ڈراما، فرما، کمرا، مارکا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

  20. عربی فارسی لفظوں کی تصریفی شکلیں: ان سب لفظوں کے آخر میں الف لکھنا چاہیے جو ایک اردو اور ایک فارسی یا عربی جز سے بنے ہیں: بدلا، بے فکرا، نو دولتیا، کبابیا، مسالا، ملیدا، دسپنا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57) تماہا، چھماہا، پچرنگا، سترنگا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58) دو ماہا (ایضاً 61)

  21. پٹنہ، آگرہ، کلکتہ شہروں کے ناموں کو جوں کا توں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 56)

  22. مسالا کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

  23. گنبد، زنبور، شنبہ، تنبورہ جیسے عربی فارسی لفظوں میں ن ساکن کے بعد ب آئے تو اصل کی پیروی کرنی چاہیے، نہیں تو میم لکھا جائے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 64)

  24. نون غنّہ کے لیے اُلٹے قوس کا استعمال مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات کے ذریعے رائج کیا تھا۔

  25. گانو، پانو، چھانو، دانو میں نون غنّہ کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62)

  26. پردے، جلوے: محروف شکلوں میں ے لکھنی چاہیے، وہ چھٹے درجے میں پڑھتا ہے، میں مدرسے جاتا ہوں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)

  27. ہمزہ: ابتدا، انتہا، ارتقا، استدعا، استغنا میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 59)

  28. بنا و سنگار، دیو، بھاو، تاو، نبھاو، گھماو میں ہمزہ کا کچھ کام نہیں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

  29. گاے، چاے، راے، ہاے میں بھی ہمزہ نہ چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

  30. ہمزہ اسی وقت آئے گا جب اس سے پہلے زبر ہو، اگر زیر ہو تو یائے لکھی جائے گی۔ دیے، لیے، کیے، چاہیے، دیجیے، لیجیے میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63، 64)

  31. گنتیاں: دونو غلط دونوں صحیح (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

  32. چھے کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)

  33. گیارہ سے اٹھارہ تک آخر کا حرف ہ ہے۔ ان کو ہ سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62، 63)

  34. لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کی بحث۔ مرکّب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں (انجمن 111، 118)

  35. مفرد لفظوں کے تکراری اجزا کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔ بی بی، دُل دُل، جھُن جھُنا، کن کنا، گل گلا، کھٹ کھٹاہٹ (انجمن 111، 118)

  36. فارسی لاحقے اردو عبارت میں الگ لکھنے چاہییں: بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ دولت، نہ گفت، بہ قول، تا وقتے کہ (انجمن 112)

  37. انگریزی کے صوتی ٹکڑوں کو الگ الگ کر کے لکھنا چاہیے، اِن فارمل، ان سٹی ٹیوٹ، کان فرنس، یو نی ورسٹی (انجمن 115، 119)

  38. اعراب (حرکات و سکنات) کی بحث (قواعدِ اردو، مولوی عبد الحق، ص 43، 50)

  39. رموزِ اوقاف کی بحث (مولوی عبد الحق، ص 338، 354)

  40. اعراب میں واؤ معروف کے لیے اُلٹا پیش اور یائے معروف کے لیے کھڑا زیر مولوی عبد الحق نے رائج کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہ اصول ہیں، جو املا نامہ کی زیادہ تر سفارشات کی بنیاد ہیں، ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے اور بھی بہت سے اصول پیش کیے جن کو مندرجہ بالا فہرست میں عمداً شامل نہیں کیا گیا، اس لیے کہ وہ اصول و تجاویز ان کی زندگی میں ہی رد ہو گئیں، مثلاً بالکل کو بلکل یا خوش خُش لکھنا، یا نون غنّہ کو منفصل لکھنا جیسے پھان س، بان س، یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھنا، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو اس کو جدا لکھنا، جیسے لا ء ی، جا ءی، یا ‘ڑھ’ کو ‘ڑ ھ’، ‘ڈھ’ کو ‘ڈ ھ’ لکھنا وغیرہ۔ 

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی فاضلِ اجل تھے۔ نیز مولوی عبد الحق جو انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کے روحِ رواں تھے، اور برج موہن و تاریہ کیفی جو اس کمیٹی کے رکن تھے، دونوں عالمِ بے بدل تھے۔ ان اور دوسرے حضرات نے جو اصول بنائے ہوں گے اور تجویزیں پیش کی ہوں گی، پوری ذمہ داری اور پورے غور و فکر کے بعد کی ہوں گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے متعدد اصول زمانے نے رد کر دیے۔ ہر زبان کا ایک لسانی مزاج ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لسانی مزاج نے ان اصولوں کو رد کر دیا جو اس سے لگّا نہیں کھاتے تھے، اور صرف ان اصولوں کو قبول کیا جو اس سے ہم آہنگ تھے۔ ان اصلاحات کو پیش ہوئے تقریباً نصف صدی گزرنے کو آئی ہے۔ علم کا افق روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ چنانچہ ترقی اردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں جب املا کمیٹی تشکیل کی، اور راقم الحروف کو اس کا رکن نامزد کیا، تو خاکسار نے اس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا، کیونکہ مجھے احساس تھا کہ وہ زبان جس کی صوتیات، صرفیات اور نحویات یعنی ہر ہر سطح پر تین تین لسانی خاندانوں کے اثرات یعنی ہند آریائی، ایرانی اور سامی اثرات بیک وقت کار فرما ہوں، اور اختلاط و امتزاج کی قوس قزح پیش کرتے ہوں، اس کے رسمِ خط کے ان گنت اجزا میں مطابقتیں تلاش کرنا اور انھیں کُلّیوں کے تحت لا کر سیدھے سادے اصولوں میں بیان کرنا خاصا دقت طلب کام ہے۔ اس راہ کے مسافر کو ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے کام سے تقویت ضرور پہنچتی ہے لیکن یہ بھی معلوم تھا کہ انتہائی نیک نیّتی اور گہرے لسانی شعور پر مبنی اُن کی کئی اصلاحات کو اردو نے گوشۂ چشم سے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ بہرحال ان پیچیدگیوں اور مشکلات کے گہرے احساس کے ساتھ راقم الحروف نے اس کام کو ہاتھ میں لیا۔ ڈاکٹر عبد العلیم اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی کرم گستری تھی کہ اُنھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے، کمیٹی نے نہ صرف ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کے کام کو سامنے رکھا، بلکہ اس وقت تک مختلف حضرات نے متعلقہ مسائل پر جو کچھ بھی لکھا تھا، اس کا بغور مطالعہ کیا گیا، نیز رشید حسن خان جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، ان کے کام اور مشوروں سے بھی استفادہ کیا گیا، تا ہم جس طرح ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کی اصلاحات کو مِن و عَن قبول نہیں کیا گیا، رشید حسن خان کی کئی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکا۔ ہر ہر سفارش پر کھُل کر گفتگو ہوئی اور پوری بحث و تمحیص کے بعد تجاویز کو یا تو رد کیا گیا، یا از سرِ نو لکھا گیا، یا قبول کیا گیا۔ خاکسار کی کوشش رہی ہے کہ سفارشات پیش کرتے ہوئے اختصار ملحوظ رہے، زبان زیادہ سے زیادہ سادہ ہو، اور جہاں ضرورت ہو لسانی سائنٹفک توجیہ کو آسان سے آسان لفظوں میں پیش کر دیا جائے۔ اردو میں غُنیت، ہکاریت اور ہمزہ کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختصر لسانی وضاحتیں ضروری خیال کی گئیں۔ مصوتی اعراب کے تحت اردو کے دس مصوتوں کے لیے جو مکمل اعرابی نظام پیش کیا گیا ہے، وہ اب تک کے پیش کردہ طریقوں میں سب سے زیادہ سہل اور سائنٹفک ہے۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین (مرحوم) اور ڈاکٹر عبد العلیم (مرحوم) نے ان لسانی وضاحتوں کو نہ صرف پسند کیا بلکہ ان پر صاد کیا۔

املا نامہ کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے کئی باتوں میں مختلف ہے۔ صاحب الرّائے اور صاحبِ علم مبصرین کی اکثریت نے جن تجاویز سے اختلاف کیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق الف مقصورہ، نون اور نون غنّہ، ہائے خفی، ت، ط اور ہمزہ اور اضافت کے مسائل سے تھا، اس لیے ان شقوں میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ یوں تو ہر ہر سفارش پر نظرِ ثانی کی گئی ہے، کہیں وضاحتوں میں ترمیم و اضافہ ہوا ہے تو کہیں مثالوں میں الفاظ کو بدلا گیا ہے۔ لیکن جن بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے املا نامہ کا یہ ایڈیشن پہلے سے مختلف ہو گیا ہے، ان میں خاص خاص یہ ہیں:



    * الف مقصورہ کو زیادہ تر برقرار رکھا گیا ہے۔

    * طشت، طشتری، طمانچہ، طوطی، غلطاں وغیرہ جیسے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔

    * گانو، پانو، چھانو کے بجائے گاؤں، پاؤں، چھاؤں کی تائید کی گئی ہے۔

    * اسی طرح حاصل مصدر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ اور امر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ سب میں ہمزہ کے استعمال کو مناسب قرار دیا گیا ہے۔

    * نیز اسما گائے، پائے، چائے، رائے، جائے میں بھی ہمزہ لکھنا مناسب خیال کیا گیا ہے۔

    * ایک اہم مسئلہ اضافت کے لیے ہمزہ کا تھا، یعنی بوئے گُل، صدائے دل، اردوئے معلیٰ میں یائے پر ہمزہ لکھا جائے یا نہیں۔ مبصرین میں تقریباً سب نے ہمزہ کے استعمال کی تائید کی، نیز چونکہ ان میں دوہرے مصوتے کی آواز ثابت ہے، اس لیے ہمزہ کے استعمال کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔

    * آزمائش، نمائش اگرچہ از روئے اصل یائے سے ہیں، لیکن اردو میں چونکہ ہمزہ سے بولے جاتے ہیں، ایسے تمام الفاظ کو ہمزہ ہی سے لکھنا ٹھیک سمجھا گیا۔

    * سابقوں، لاحقوں میں بل کہ، کیوں کہ، چوں کہ، حالاں کہ، چناں چہ، بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ خدا کو الگ الگ لکھنے کو کہا گیا تھا، لیکن چونکہ ان کی ملی ہوئی شکلیں پوری طرح چلن میں آ چکی ہیں، ایسے تمام لفظوں کو ملا کر لکھنے ہی کو مناسب قرار دیا گیا۔

    * اس طرح املا نامہ طبع دوم میں عملی دقّتوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ یوں اب یہ اردو زبان کے مزاج اور چلن کی پہلے سے کہیں بہتر نمائندگی کرتا ہے۔

اُدھر پاکستان میں بھی اردو املا کی معیار بندی کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے، ڈاکٹر وحید قریشی کے زیرِ سرکردگی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ایک سہ روزہ سیمینار "املا اور رموزِ اوقاف کے مسائل” 23 تا 25 جون 1985 منعقد ہوا۔ اس سیمینار کی روداد مقتدرہ کے "اخبارِ اردو” کے جنوری 1986 کے شمارے میں شائع ہوئی۔ نیز ان تمام مقالات اور مباحث کو مقتدرہ نے کتابی طور پر بھی شائع کر دیا ہے (املا و رموزِ اوقاف کے مسائل، مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، 1985) اس سیمینار میں املا سے متعلق چودہ سفارشات پیش کی گئیں، یہ چونکہ مفصّل نہیں تھیں، ان کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ذیل کے اراکین تھے:


   1. ڈاکٹر فرمان فتح پوری

   2. پروفیسر شریف کنجاہی

   3. مظفر علی سیّد

   4. ڈاکٹر خواجہ محمّد ذکریّا

   5. ڈاکٹر ممتاز منگلوری

   6. ڈاکٹر محمّد صدیق شبلی (سیکریٹری)

اس کمیٹی کے اجلاس 22، 23 اور 24 اکتوبر 1985 کو راولپنڈی میں منعقد ہوئے۔ سیمینار کی سفارشات پر غور کیا گیا، اور ہر سفارش کے بعد مثالیں درج کی گئیں۔ اور بعض مسائل جو پہلے سفارشات میں شامل نہیں تھے، انھیں بھی زیرِ بحث لا کر کُل 24 سفارشات منظور کی گئیں۔ یہ سفارشات "اخبارِ اردو” جنوری 1986 میں صفحہ 15 سے 22 پر شائع ہوئی ہیں۔

پاکستانی سفارشاتِ املا میں زیادہ تر املا نامہ طبعِ اوّل کی سفارشات پیشِ نظر رہی ہیں۔ البتہ بعض جگہ الگ ترجیحات بھی قائم کی گئی ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ املا نامہ کی نظرِ ثانی کمیٹی نے جن تبدیلیوں پر اصرار کیا تھا، مثلاً گاؤں، پاؤں (اسما)، مہندی، مہنگی میں نون غنّہ کو چلن کے مطابق لکھنا، یا بچاؤ، پتھراؤ، نیز گائے، چائے، رائے، جائے (اسما) کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا اردوئے معلیٰ، بوئے گُل میں اضافت کی یائے پر ہمزہ کو برقرار رکھنا، یا آزمائش، نمائش کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا بلکہ، چونکہ، چنانچہ کو توڑ کر نہ لکھنا، پاکستانی سفارشوں میں بھی چلن کے ان تمام مقامات کی تائید کی گئی ہے، البتہ کچھ سفارشات میں چلن کو نظر انداز بھی کیا گیا ہے، مثلاً الف مقصورہ کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھا ہے، یا کلیۃً، ارادۃً میں تنوین کو تائے مدوّرہ پر لکھنے کی سفارش کی ہے، یا گزارش، گزرنا، گزارنا، باج گزار، خدمت گزار، جیسے لفظوں کو بھی ذال سے لکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اردو مصوتوں کے اعراب کی نشان دہی ضروری تھی، اس پر توجہ نہیں کی گئی۔ سوائے ان امور کے باقی سفارشات تقریباً وہی ہیں، اور اُسی ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا ہے۔

املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے لیے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، ترقی اردو بیورو کی موجودہ ڈائریکٹر کا شکریہ بھی واجب ہے کہ جب سے اُنھوں نے چارج سنبھالا ہے، املا نامہ کے نئے ایڈیشن کے لیے تقاضا کرتی رہی ہیں۔ میری دوسری مصروفیات نے ادھر توجہ کا موقع ہی نہ دیا۔ ادھر سٹینڈنگ کمیٹی اور ترقی اردو بورڈ نے ریزولیوشن کر دیا تو اُن کی طرف سے تقاضا شدید ہو گیا۔ اُن کا میں ممنون ہوں کہ اس طرح یہ کام جو کئی برس سے ادھورا رکھا ہوا تھا، پورا کرنا پڑا۔ ادھر ستمبر میں کشمیر یونی ورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں کی پُر سکون فضا میں کچھ وقت نکال کر میں مسوّدے کو آخری شکل دے سکا۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کی دوست داری اور کرم فرمائی کا ایک مدت سے قائل ہوں۔ ان کا اور شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی کے رفقا کا ممنون ہوں کہ ان کی عنایت اور تعاون سے یہ ادھورا کام سری نگر میں تکمیل کو پہنچا۔

آخر میں یہ اعادہ ضروری ہے کہ املا نامہ کی سفارشات اس احساس کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں کہ زبان اور اس کے تمام طواہر کسی فرد واحد، ادارے یا انجمن کے تابع نہیں۔ زبان ایک وسیع تر عمرانیاتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج چلن سے وجود میں آتا ہے اور جس کی پُشت پر صدیوں کے تاریخی اور لسانیاتی ارتقا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زبان اور رسم الخط میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کوئی فردِ واحد، کمیٹی یا انجمن یا ادارہ جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ تبدیلیاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ زبان کے خاموش عمرانیاتی عمل کے تحت از خود رونما ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور ادارے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے میں احساس و شعور کو بیدار کر دیں اور آگہی کی فضا پیدا کر دیں تا کہ انتشار دور ہو۔ چنانچہ یہ سفارشات بھی تجاویز ہیں، سرکاری حکم نامہ نہیں، اور اس توقع کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں کہ ان سے املا کی معیار بندی کے لیے احساس و شعور کی بیداری کا عمل تیز تر ہو گا اور آگہی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، چنانچہ اصولوں میں اتنی لچک بہرحال ہونی چاہیے کہ زبان کے وسیع تر چلن اور آئندہ ضرورتوں کا ساتھ دے سکیں۔ ہمارا جو فرض تھا، وہ ہم نے ادا کیا، فیصلہ بہرحال زمانہ اور وقت کرے گا۔ و ما توفیقی الّا باللہ


گوپی چند نارنگ

16 ستمبر، 1988

نسیم باغ، سری نگر

٭٭٭
-------------------
(بشکریہ بزم اردو لائبریری )