گم شدہ متاع کی تلاش میں ۔ خطاب : شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ ٭

(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  شمارہ ، مارچ 2019)

حامدا و مصلیاً: اما بعد ! جلسوں کی عام روش کا اقتضا یہ ہے کہ میں سب سے پہلے اس عزتِ صدارت پر، جو ایک نہایت ہی سرفروشانہ ایثار و شجاعانہ جد و جہد کرنے والی جماعت کی طرف سے مجھ کو مرحمت ہوئی ہے، شکرگزاری اور منت پذیری کا اظہار کروں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ شکریہ چند وقیع اور شان دار الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا اور نہ مجھ کو محض رسمی اور مصنوعی ممنونیت کی نمایش اس بھاری ذمہ داری کے بوجھ سے سبک دوش کرسکتی ہے، جو فی الحقیقت آپ نے اس عزت افزائی کے ضمن میں مجھ پر عائد کی ہے۔ دو چار پھڑکتے ہوئے جملے بلاشبہہ عارضی طور پر مجلس کو محظوظ کرسکتے ہیں، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ میری قوم اس وقت فصاحت و بلاغت کی بھوکی نہیں ہے اور نہ اس قسم کی عارضی مسرتوں سے اس کے درد کا اصلی درمان ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایک قائم و دائم جوش کی، نہایت صابرانہ ثبات قدم کی، دلیرانہ مگر عاقلانہ طریق عمل کی، اور اپنے نفس پر پورا قابو پانے کی۔ غرض ایک پختہ کار بلند خیال اور ذی ہوش محمدی بننے کی!


‎میں ہرگز آپ کے لیکچراروں اور فصیح اللسان تقریر کرنے والوں کی تحقیر نہیں کرتا ہوں، کیوںکہ میں خوب جانتا ہوں کہ جو چیز سوئے ہوئے دلوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور زمانے کی ’ہوا‘ میں اول تموّج پیدا کرتی ہے، وہ یہی دعوتِ حق کا غلغلہ ڈالنے والی زبان ہے۔ ہاں! اس قدر گزارش کرتا ہوں کہ تا وقتیکہ متکلم اور مخاطب کے دل میں سعی جمیلہ کا سچا جذبہ، اس کے اخلاق میں شجاعانہ استقامت و ایثار، اس کے جوارح میں قوت عمل، اس کے ارادوں میں پختگی اور چستی نہ ہو، محض گرم جوش تقریریں کسی ایسے کٹھن اور بلند پایہ مقصد میں آپ کو کامیاب نہیں کرسکتیں:

‎وَ کَیْفَ الْوُصُوْلُ اِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا
‎قُلَلٌ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ حُتُوْفُ

محبوب ’حقیقی‘ تک رسائی کیسے ہوگی، جب کہ راستے میں پہاڑی چوٹیاں اور موت کے خطرات حائل ہیں۔
‎اے حضرات! آپ خوب جانتے ہیں کہ جس وادیِ پُرخار کو آپ برہنہ پا ہوکر قطع کرنا چاہتے ہیں، وہ مشکلات اور تکالیف کا جنگل ہے۔ قدم قدم پر وہاں صعوبتوں کا سامنا ہے، طرح طرح کی بدنی، مالی اور جاہی مکروہات آپ کے دامنِ استقلال کو الجھانا چاہتے ہیں۔ لیکن حُفَّتِ الجَنَّۃُ بِالمَکارِہِ  وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ   [جنّت تکلیفوں سے گھری ہوئی ہے، جب کہ جہنم نفسانی خواہشات سے۔ مسلم، حدیث ۵۱۵۶]کے قائل کو اگر آپ خدا کا سچا رسولؐ مانتے ہیں (اور ضرور مانتے ہیں) تو یقین رکھیے! کہ جس صحراے پُرخار میں آپ گامزن ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے راستے پر جنت کا دروازہ بہت ہی نزدیک ہے۔‎کامیابی کا آفتاب ہمیشہ مصائب و آلام کی گھٹاؤں کو پھاڑ کرنکلا ہے اور اعلیٰ تمناؤں کا چہرہ سخت سے سخت صعوبتوں کے جھرمٹ میں سے دکھائی دیا ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴ (البقرہ۲: ۲۱۴)‎

کیا تم کو یہ خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جائو گے اور تمھیں اس طرح کے حالات پیش نہ آئیں گے جو کہ تم سے پہلے لوگوں کو پیش آئے؟ ان کو سختیاں اور اذیتیں پہنچیں اور وہ اس قدر جھڑ جھڑائے گئے کہ پیغمبر اور اس کے ساتھ مومنین بول اُٹھے کہ خدا کی مدد کہاں ہے؟ یاد رکھو کہ خدا کی مدد نزدیک ہے۔

‎دوسری جگہ ارشاد ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۲ (اٰلِ عمرٰن۳: ۱۴۲)کیا تم نے یہ خیال کیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے بدون [بغیر] اس کے کہ اللہ جانچ کرے تم میں سے مجاہدین اور صابرین کی؟
‎ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے:

‎الۗمّۗ۝۱ۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۝۲ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۝۳ (العنکبوت۲۹: ۱-۳) کیا لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ محض أمنّا کہنے پر وہ چھوڑدیے جائیں گے؟ حالاںکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کی آزمایش کی ہے، تو ضرور ہے کہ اللہ پرکھے گا سچے اور جھوٹے لوگوں کو۔

‎یہ حق تعالیٰ جل شانہ کی سنت مستمرہ ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی و تغیر گوارا نہیں، کوئی قوم اللہ جل شانہ کی محبت اور اس کے راستے پر چلنے کی مدعی نہیں ہوئی جس کو امتحان و آزمایش کی کسوٹی پر نہ کسا گیا ہو، خدا کے برگزیدہ اور اولوالعزم پیغمبر جن سے زیادہ خدا کا پیار کسی پر نہیں ہوسکتا، وہ بھی مستثنیٰ نہیں رہے۔ بے شک ان کو مظفر و منصور کیا گیا، مگر کب؟ سخت ابتلا اور زلزالِ شدید کے بعد۔ وہ خود فرماتے ہیں:

حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاۗءَہُمْ نَصْرُنَا۝۰ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۱۱۰ (یوسف۱۲: ۱۱۰)‎[یہاں تک کہ جب نااُمید ہونے لگے رسول، اور خیال کرنے لگے ان سے، جھوٹ کہاگیا تھا، پہنچی ان کو ہماری مدد، پھر بچادیا جن کو ہم نے چاہا، اور پھرتا نہیں عذاب ہمارا قوم گناہ گار سے]۔

پس اے فرزندانِ توحید! میں چاہتا ہوں کہ آپ انبیا و مرسلین اور ان کے وارثوں کے راستے پر چلیں اور جو لڑائی اس وقت شیطان کی ذُرّیت اور خداے قدوس کے لشکروں میں ہورہی ہے اس میں ہمت نہ ہاریں اور یاد رکھیں کہ شیطان کے مضبوط سے مضبوط آہنی قلعے خداوند قدیر کی امداد کے سامنے تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں:

‎اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ۝۰ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا۝۷۶ۧ (النساء ۴: ۷۶) ایمان دار تو خدا کے راستے میں لڑتے ہیں اور کافر شیطان کے راستے میں، پس، تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو، بلاشبہہ شیطان کی فریب کاری محض لچر پوچ ہے۔

‎میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں، جس کو آپ خود مشاہدہ فرمارہے ہیں، آپ کی دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔

‎بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے، لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا! اُٹھو اور اس اُمتِ مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ، [تو] ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہو جاتا ہے، خدا کا نہیں، بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا اور ان کے سامانِ حرب و ضرب کا۔ حالاںکہ ان کو تو سب سے زیادہ جاننا چاہیے تھا کہ خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو خدا کا غضب اور اس کا قاہرانہ انتقام ہے اور دنیا کی متاع قلیل خدا کی رحمتوں اور اس کے انعامات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اس قسم کے مضمون کی طرف  حق تعالیٰ جل شانہ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝۷۷  اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝۰ۭ (النساء۴: ۷۷)کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نظر نہیں کی، جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکو اور نماز پڑھتے رہو اور زکوۃ دیتے رہو، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو یکا یک ان میں ایک فریق ڈرنے لگا آدمیوں سے، خدا کے برابر یا اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگا: اے ہمارے پرورگار! آپ نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا؟ اور کیوں تھوڑی مدت ہم کو اور مہلت نہ دی؟ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت اس شخص کے لیے بہتر ہے، جس نے تقویٰ اختیار کیا اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، جہاں کہیں بھی ہو موت تم کو آدبائے گی، اگر چہ تم نہایت مستحکم قلعوں میں ہو۔
اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار، کہ جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم، اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا، اور اس طرح ہم نے ہندستان کے دو تاریخی مقاموں: ’دیوبند اور علی گڑھ‘ کا رشتہ جوڑا۔ کچھ بعید نہیں کہ بہت سے نیک نیت بزرگ میرے اس سفر پر نکتہ چینی کریں اور مجھ کو اپنے مرحوم بزرگوں کے مسلک سے منحرف بتائیں، لیکن اہل نظر سمجھتے ہیں کہ جس قدر میں بظاہر علی گڑھ کی طرف آیا ہوں اس سے کہیں زیادہ علی گڑھ میری طرف آیا ہے:
‎دوش دیدم کہ ملائک در مے خانہ زدند
‎گلِ آدم بسرشتند و بہ پیمانہ زدند
‎ساکنانِ حرم سرّ عفاف ملکوت
‎بامن راہ نشیں بادۂ مستانہ زدند
‎شکر ایزد کہ میان من و او صلح فتاد
‎حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند
‎جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
‎چوں نہ دیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند

[میں نے کل رات فرشتوں کو مے کدے کا دروازہ کھٹکھٹاتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے آدم کی مٹی گوندھ کر سانچے میں ڈھالی۔ اُس رات فرشتوں کی دنیا کی پاک دامنی کے رازدان، جو حرم میں بسنے والے ہیں، انھوں نے مجھ جیسے خاک نشین کے ساتھ جام نوشی کی۔ اللہ کا شکر ہے اُن میں اور مجھ میں صلح ہوگئی۔ رقص کناں حُوروں نے مجھے تشکر کا جام پلایا ۔ اور بہتّر فرقوں کے اختلاف والوں کو معذور سمجھ کر، جب حقیقت کا راستہ معلوم نہ ہوا، تو انھوں نے افسانہ گوئی کا راستہ اپنا لیا]۔
آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم و فنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ ہاں! یہ بے شک کہا کہ: ’’اگر انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے، جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں، یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور مذہب والوں کا مذاق اُڑائیں، یا حکومت وقت کی پرستش کرنے لگیں، تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا ہی اچھا ہے‘‘۔ اب از راہِ نوازش آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ تعلیم سے روکنا تھا یا اس کے اثر بد سے اور کیا یہ وہی بات نہیں جس کو آج مسٹر گاندھی{ FR 653 } اس طرح ادا کررہے ہیں کہ: ’’ان کالجوں کی اعلیٰ تعلیم بہت اچھی، صاف اور شفاف دودھ کی طرح ہے، جس میں تھوڑا سا زہر ملادیا گیا ہے‘‘۔

[یاد رہے اُس زمانے میں، ۱۹۱۹ء سے شروع ہونے والی تحریک ِ خلافت اور پھر ۱۹۲۰ء میں اس کے حصے کے طور پر ’تحریک عدم تعاون‘ یا تحریک ترک موالات (۶ستمبر ۱۹۲۰ء) چھائی ہوئی تھی۔ تب ’مسلم ہندو اتحاد‘ کا آغازاور پھر۱۲فروری ۱۹۲۲ء کو اختتام ہوا۔ اس مشترکہ جدوجہد کے ایک بڑے رہنما مسٹرگاندھی تھے اور علماے ہند کی بڑی جمعیت اور مولانا محمدعلی جوہر سمیت اکابر ملّت ان کے شریک ِ کاررواں تھے۔(ادارہ)]

‎باری تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری قوم کے نوجوانوں کو توفیق دی ہے کہ وہ اپنے نفع و ضرر کا موازنہ کریں، اور دودھ میں جو زہر ملا ہوا ہے اس کو کسی ’بھپکے‘ کے ذریعے سے علیحدہ کرلیں۔ آج ہم وہی بھپکا نصب کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں اور آپ نے مجھ سے پہلے سمجھ لیا ہوگا کہ وہ ’بھپکا‘ مسلم نیشنل یونی ورسٹی ہے۔
‎مطلق تعلیم کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت اب میری قوم کو نہ رہی، کیوںکہ زمانے نے خوب بتلادیا ہے کہ تعلیم سے ہی بلند خیالی اور تدبر اور ہوش مندی کے پودے نشو و نما پاتے ہیں اور اس کی روشنی میں آدمی نجاح و فلاح کے راستے پر چل سکتا ہے۔ ہاں! ضرورت اس کی ہے کہ وہ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو اور اغیار کے اثر سے بالکل آزاد ہو___ کیا باعتبارِ عقائد و خیالات کے، اور کیا باعتبارِ اخلاق و اعمال کے، اور کیا باعتبارِ اوضاع و اطوار کے، ان سب میں ہم غیروں کے اثرات سے پاک ہوں۔

‎ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے داموں پر غلام پیدا کرتے رہیں، بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہییں بغداد اور قرطبہ کی یونی ورسٹیوں اور ان عظیم الشان مدارس کے، جنھوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا، اس سے بیش تر کہ ہم اس کو اپنا استاد بناتے۔

‎آپ نے سنا ہوگا کہ بغداد میں جب مدرسۂ نظامیہ کی بنیاد ایک اسلامی حکومت کے ہاتھوں رکھی گئی، تو اس دن علما نے جمع ہوکر علم کا ماتم کیا تھا کہ: ’افسوس، آج سے علم حکومت کے عہدے اور منصب حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے گا‘___ ہماری قوم کے سربرآوردہ لیڈروں نے، سچ تو یہ ہے کہ اُمت اسلامیہ کی ایک بڑی اہم ضرورت کا احساس کیا ہے___ بلاشبہہ مسلمانوں کی درس گاہوں میں جہاں علوم عصریہ کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہو، اگر طلبہ اپنے مذہب کے اصول و فروع سے بے خبر ہوں اور اپنے قومی محسوسات اور اسلامی فرائض فراموش کردیں، اور ان میں اپنی ملت اور اپنے ہم قوموں کی حمیت نہایت ادنیٰ درجے پر رہ جائے، تو یوں سمجھو کہ وہ درس گاہ مسلمانوں کی قوت کو ضعیف بنانے کا ایک آلہ ہے۔ اس لیے اعلان کیا گیا ہے کہ ایک آزاد یونی ورسٹی کا افتتاح کیا جائے گا، جو [برطانوی] گورنمنٹ کی اعانت اور اس کے اثر سے بالکل علیحدہ ہو، اور جس کا تمام تر نظامِ عمل اسلامی اور قومی محسوسات پر مبنی ہو۔

‎مجھے ان لیڈروں سے زیادہ ان نونہالانِ وطن کی ہمت ِبلند پر آفرین اور شاباش کہنا چاہیے، جنھوں نے اس مقصد کی انجام دہی کے لیے اپنی ہزاروں امیدوں پر پانی پھیردیا اور باوجود ہر قسم کے طمع اور خوف کے وہ ’موالاتِ نصاریٰ کے ترک‘ پر مضبوطی اور استقلال کے ساتھ قائم رہے اور اپنی عزیز زندگیوں کو ملت اور قوم کے نام پر وقف کردیا۔

‎شاید ترکِ موالات کے ذکر پر آپ اس مسئلے کی تحقیق کی طرف متوجہ ہوجائیں اور ان عامۃ الورود سوالات اور شبہات کے دلدل میں پھنسنے لگیں، جو اس بہت ہی اہم و اعظم مسئلے کے متعلق آج کل عموماً زبان زد ہیں۔ اس لیے میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ آپ تھوڑا سا وقت مجھ کو اس تحریر کے سنانے کے لیے عنایت فرمائیں، جو میں نے بعض مسائل دریافت کیے جانے پر دیوبند سے تیار کرکے بھیجی تھی۔

‎اب میری یہ التجا ہے کہ آپ سب حضرات بارگاہِ رب العزت میں نہایت صدقِ دل سے دعا کریں کہ وہ ہماری قوم کو رُسوا نہ کرے اور ہم کو کافروں کا تختۂ مشق نہ بنائے اور ہمارے اچھے کاموں میں ہماری مدد فرمائے، آمین!

 -----------------------

٭ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ[پ:۱۸۵۱ء] ۱۲مارچ ۱۹۲۰ء کو طویل قید اور جلاوطنی گزار کر اپنے قیدی ساتھیوں کے ہمراہ بحری جہاز سے سرکاری نگرانی میں مالٹا سے ہند روانہ ہوئے۔ راستے میں تقریباً تین ماہ کی مزید پابندیاںگزار کر ۲۰رمضان ۱۳۳۸ھ (۸جون ۱۹۲۰ء) کو بمبئی بندرگاہ پرپہنچے ہی تھے کہ ایک سرکاری مولوی صاحب رحیم بخش نے  ملاقات کرکے مشورہ دیا: ’آپ سیاسی جھگڑوں میں پڑنے کے بجاے عمر کا باقی حصہ دیوبند میں گزار یے‘‘ (نقشِ حیات، دوم، ص ۲۳۵) ۔ تاہم، مولانا محمود حسن نے جہاز سے اُتر کر آزاد ہوتے ہی خلافت کمیٹی سے ملاقات کی (ایضاً، اوّل ، ص ۲۴۸)۔۱۳جون دہلی پہنچے اور ۱۴جون کو دیوبند۔ آپ کی رہائی اور وطن واپسی درحقیقت مرض الوفات کا آغاز تھی اور تپ دق لاحق تھا۔ اسی زمانے میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے طلبہ نے مولانا محمدعلی جوہر کے ایما پر بائیکاٹ کرکے دوسری درس گاہ ’مسلم نیشنل یونی ورسٹی‘ قائم کرنے کی مہم شروع کر رکھی تھی، اور وہ حضرت محمود حسن کو صدارت کی زحمت دینے دیوبند پہنچ گئے تھے۔ بیماری کی شدت کے سبب مولانا سے کروٹ تک بدلنا دشوار تھا۔ شاگردوں اور دوستوں نے مولانا کو باربار روکا کہ اس اجلاس کی صدارت کا سفر آپ کی زندگی کے لیے خطرناک ہوگا۔ لیکن حضرت شیخ الہند نے جواب دیا: ’’اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو میں جلسے میں ضرور جائوں گا‘‘۔ چنانچہ طالب علموں نے پالکی میں لٹا کر مولانا کو دیوبند ریلوے اسٹیشن پر پہنچایا، اور آپ علی گڑھ روانہ ہوئے۔ ۱۶صفر ۱۳۳۹ھ/۲۹؍اکتوبر ۱۹۲۰ء کو علی گڑھ شہر میں ان طلبہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ مذکورہ خطبۂ صدارت مولانا محمود حسن صاحب نے خود تحریر فرمایا تھا، مگر جلسے میں مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے پڑھ کر سنایا۔ ازاں بعد اسی روز مولانا نے سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ درس گاہ ’جامعہ ملّیہ اسلامیہ‘ کے نام سے قائم ہوئی اور ۲۲نومبر ۱۹۲۰ء کو مولانا محمد علی جوہر پہلے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ اس خطبے کے ایک ماہ بعدمولانا محمود حسنؒ نے ۱۸ربیع الاوّل ۱۳۳۹ھ/۳۰نومبر ۱۹۲۰ء کو انتقال فرمایا۔ (ادارہ)