اکیسویں صدی میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ۔ مولانا سید جلال الدین عمری

مولانا سید جلال الدین عمری، امیر جماعت اسلامی ہند نے جون ۲۰۱۲ء کے دوسرے ہفتے میں ایک علمی ادارے کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر وہ لاہور، کراچی، حیدرآباد اور اسلام آباد تشریف لے گئے اور وہاں مختلف عوامی اور تحریکی اجتماعات سے خطاب فرمایا۔ ۹ جون کو مولانا نے ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بھی اہل علم و دانش کے ایک منتخب مجمعے کے سامنے ’’اکیسویں صدی میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا تھا۔ اس موضوع کی افادیت کے پیش نظر مولانا کی نظرثانی کے بعد اسے ’’زندگیٔ نو‘‘ میں بھی شائع کیا گیا تھا۔ اس کی ترتیب وتدوین ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، سیکرٹری تصنیفی اکادمی جماعت اسلامی ہند نے فرمائی ہے، جو اس سفر میں مولانا کے رفیق تھے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے مولانا سید جلال الدین عمری کی یہ تحریر پیشِ خدمت ہے:
اکیسویں صدی میں تحریک اسلامی کو درپیش چلینج ۔ مولانا جلال الدین عمری 

میں ادارہ معارف اسلامی کراچی کے ذمہ داروں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آپ لوگوں سے ملاقات کا یہ موقع فراہم کیا۔ اس سے پہلے میں ۲۰۰۵ء میں پاکستان آیا تھا۔ اس وقت بھی اس ادارے میں آپ حضرات سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ ایک علمی ادارہ ہے، اسی مناسبت سے اس کے ذمے داروں کی خواہش ہے کہ اس وقت اسلام کو جو چیلنج درپیش ہیں ان پر کچھ گفتگو کی جائے۔

اظہارِ دین کا صحیح مفہوم

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:


’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

آیت کے الفاظ سورہ توبہ اور سورہ صف کے ہیں۔ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہ سورہ فتح میں بھی آئی ہے۔ ان آیات میں اظہارِ دین کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین اس لیے نازل کیاہے کہ اسے دوسرے ادیا ن پر غالب کردے، چاہے مخالفین کتنی ہی مخالفت کیوں نہ کریں۔’اظہارِ دین‘ یا دین کو غالب کرنے کا کیا مفہوم ہے؟ عام طور پر ہمارا ذہن سیاسی غلبے کی طرف جاتا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی طور پر اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کے دین کو رسول اکرمﷺ اور خلفاء راشدین کے دور میں سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل ہوا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ یہ غلبہ حاصل ہوگا، لیکن یہ بات ہر دور کے لیے نہیں ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اظہارِ دین کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کے اندر غلبے کی صلاحیت رکھی ہے۔ اس میں جو ہدایت، رہ نمائی اور فکری صلاحیت ہے، وہ قیامت تک کے لیے ہے، اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی علمی برتری اور اس کے دلائل کی قوت تاقیامت ہے۔ اگر کوئی قوم اِسے استعمال کرے گی تو اُسے سیاسی غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ سیاسی غلبہ بعد کی چیز ہے، دین کا اصل غلبہ دلائل کا غلبہ ہے اور دلائل کے ذریعے اس کا دینِ حق ہونا ثابت شدہ ہے۔ دلائل کے میدان میں اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ یہ کمزوری ہماری ہوسکتی ہے کہ ہم اس کے دلائل کو صحیح معنی میں استعمال نہ کرسکیں، لیکن اگر اس کے دلائل کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو اسے ہرگز شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس کا یہ غلبہ قیامت تک کے لیے ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو وہ قیامت تک کے لیے دین بھی نہیں بن سکتا۔

علمی وفکری غلبہ سیاسی غلبے پر مقدم ہے!

اس موضوع پر ایک اور پہلو سے غور کیا جائے۔ دنیا میں سیاسی غلبہ علمی اور فکری غلبے سے جڑا ہوا ہے۔ اگر علمی اور فکری غلبہ ہوگا تبھی سیاسی غلبہ مستحکم ہوگا اور اگر علمی اورفکری اعتبار سے غلبہ نہ ہوگا تو سیاسی غلبہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ چند دنوں تک تو اس کا اثر دکھائی دے سکتا ہے، لیکن اگر اس کی فکری بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی تو سیاسی غلبہ بھی دیرپا نہیں ہوگا،بہت جلد ختم ہوجائے گا۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی نظریہ سیاسی غلبہ اُسی وقت حاصل کرتا ہے، جب وہ اس سے پہلے دلیل کے میدان میں غالب ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کیے جنہوں نے اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ذریعے ثابت کیا۔ اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی دور ایسا آپ نہیں بتا سکتے جس میں دلائل کے ذریعے اسلام کی حقانیت اور اس کی برتری ثابت نہ کی گئی ہو۔ موجودہ دور میں بھی اسلام کی برتری اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے جن شخصیتوں نے غیر معمولی کوشش کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی ان میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام بہت نمایاں ہے۔ اسی کے نتیجے میں برصغیر میں تحریک اسلامی برپا ہوئی اور بہت سے ادارے وجود میں آئے۔ ان ہی میں سے ایک ’ادارہ معارف اسلامی‘ بھی ہے۔

دنیا پر مغرب کا فکری وسیاسی تسلط

محترم حضرات!
آج مغرب کو دنیا پر سیاسی غلبہ حاصل ہے، اپنے ملکوں پر تو ان کا غلبہ ہے ہی، دوسرے ملکوں پر بھی ان ہی کی مرضی چلتی ہے۔ صرف دو ایک ممالک ہی ہیں جو اپنے انداز سے سوچتے ہیں یا کچھ کرناچاہتے ہیں، لیکن پوری دنیا مغرب کی تابع ہے۔ اس سیاسی غلبے کے پیچھے اس کی وہ فکری اور علمی کوششیں ہیں جو اس نے دو سوسال سے زیادہ عرصے میں کی ہیں۔ اس نے دنیا کو قائل کیا ہے کہ وہی طریقہ صحیح ہے جو اس نے اختیار کیا ہے اور جو لوگ اس کے خلاف سوچتے ہیں، وہ غلط ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں، اور وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے۔ مذہب اپنی تاثیر کھوچکا ہے، اب ہماری زندگی میں اس کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا۔ یہ بات انھوں نے اس زور اور قوت سے پیش کی کہ کسی بھی میدان میں مذہب کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ انہوں نے تعلیم کا پورا ایک نظام تیارکیا۔ اِس کے اندر بچہ نرسری میں داخلہ لیتا ہے، پھر تعلیم کے مراحل طے کرکے گریجویشن کرتا ہے، پوسٹ گریجویشن کرتا ہے، ڈاکٹریٹ کرتا ہے یا اور آگے بڑھ جاتا ہے، لیکن کہیں اسے خدا اور رسول ؐ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا اور اپنے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خدا اور رسول کو مانے بغیر بھی کام چل سکتا ہے اور ہم چلارہے ہیں۔ ہم نے دنیا کو نئی فکر دی ہے، نئی تہذیب دی ہے، نیاکلچر دیاہے، ہم نے نئی نئی تحقیقات کی ہیں، نئی نئی ایجادات کی ہیں اور دنیا میں جو وسائل ہیں، ان سے ہم فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اب ہمیں خدا کی، اس کی ہدایت کی، آخرت کی، فرشتوں کی، جنت اور دوزخ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔کوئی شخص مانتا ہے تو مان لے، لیکن اس کی کوئی علمی اور عقلی بنیاد نہیں ہے،نہ انسان کو اس کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ اس جمی ہوئی فکرکو کم زور کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ایک نئی تحریک اور نئی فکر پیش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ مغرب کی فکر کو مضبوط کرنے کے لیے ہزاروں لاکھوں انسانوں نے کوشش کی۔ اگرچہ اسلامی فکر کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے یہاں بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں، انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دنیا میں جو بڑی تبدیلی آپ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ان کوششوں سے نہیں آسکتی۔ آپ مغرب کے قائم شدہ نظام کو ایک پہلو سے بدلنا چاہیں گے، وہ دوسرے پہلو سے آپ پر چھا جائے گا۔ آپ ایک میدان سے اسے ہٹانا چاہیں گے، وہ دوسرے میدان میں آپ پر غلبہ حاصل کرلے گا۔ آپ اس کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ ہندوستان اور پاکستان کو آزاد ہوئے ۶۵سال سے زائد عرصہ گزر گیا۔ ایک تیسرا ملک بنگلہ دیش کے نام سے وجود میں آگیا، لیکن یہ ممالک اب تک مجبور ہیں اُس نظام کو اختیار کرنے کے لیے جو مغرب کا عطا کردہ ہے۔ وہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکے۔ انھوں نے جو دستور بنایا اس کے خدوخال وہی ہیں جو مغرب نے متعین کیے۔ عدالتیں اسی کے تحت فیصلے کرتی ہیں، پوری معاشرت پر وہی چھایا ہوا ہے، معیشت پر عملاً اسی کا قبضہ ہے۔ انفرادی طور پر دیکھیں تو آپ کی وضع قطع، نشست وبرخاست پر اسی کا اثر ہے، اس سے آزاد ہوکر آپ سوچ نہیں پاتے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے جو فکر دی، اس کو اتنامضبوط کیاکہ سیاسی اقتدار کے باوجود ہم اس سے ہٹ نہیں سکے۔ اس کے ذریعے جو فکر ہمیں ملی، وہی ہمارے دل ودماغ پر حکمرانی کر رہی ہے۔

اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام

آج مختلف مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم غم وغصے کا اظہار کرتے ہیں، حالاں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر واضح کریں۔ مثال کے طور پر آج مغرب نے دہشت گردی کا مسئلہ چھیڑا ہے اور اس کی بنیاد پر ہندوستان، پاکستان دونوں جگہ اپنے خیالات پھیلا رہا ہے اور یہ تصور دے رہا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اسلام تو دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن مسلمان دہشت گرد ہیں اور کبھی کہتا ہے کہ اسلام میں بھی دہشت گردی کے عناصر موجود ہیں۔ اِس لیے جب تک اسلام ہے، اُس وقت تک دہشت گردی باقی رہے گی۔ اگرچہ سیاسی مصالح کے تحت کبھی کبھی اس کا انکار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش بھی جاری ہے کہ دہشت گردی کا سرچشمہ قرآن مجید اور اللہ کا دین اسلام ہے۔ اس تصور کی بنیاد پرمغرب نے یہاں کی فضا بھی مکدر کر رکھی ہے۔ہندوستان اور دیگر ممالک پر بھی اس کے اثرات ہیں۔ دہشت گردی کی تعریف کرنا آسان نہیں ہے، لیکن اس کا تصور یہ ہے کہ آدمی اپنی بات منوانے کے لیے دلیل کا نہیں، بلکہ طاقت کا سہارا لے۔ ایک شخص آپ کی بات نہیں مان رہا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ دلیل سے اسے منوائیے، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی گردن مار دیجیے۔ دہشت گردی کا تصور بنیادی طور پر یہی ہے کہ آپ اپنی بات کو منوانے کے لیے دلیل کا سہارا نہ لیں، بلکہ طاقت کا سہارا لیں۔ مغرب کا الزام ہے کہ ابھی چوں کہ مسلمانوں کے پاس عسکری طاقت زیادہ نہیں ہے، اس لیے ان میں کے کچھ افراد دہشت گردی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر ان کی کوئی ریاست فوجی لحاظ سے مضبوط ہوجائے تو وہ بھی دہشت گرد ہوجائے گی۔ حالاں کہ یہ پورا تصور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اسلام اور آزادیٔ فکر وعقیدہ

اسلام نے تو صاف صاف کہا ہے کہ وہ ایک نظریہ اورفکر کانام ہے۔ کوئی بھی شخص اسے ماننے پر مجبور نہیں ہے۔ وہ دلائل کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے، جو چاہے اسے مانے اور جو نہ ماننا چاہے نہ مانے، اس میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلام چاہتا ہے کہ ہر حال میں عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ وہ انصاف کے قیام کے لیے زور دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ دشمن ہو تب بھی انصاف کرو:

’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کرے کہ انصاف سے پھر جائو۔ انصاف کرو، تقویٰ سے قریب تر یہی بات ہے‘‘۔(المائدہ:۸)

قرآن حکیم میں ایسی کتنی ہی آیتیں ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ قیامِ عدل اسلامی ریاست کا بنیادی مقصد ہے، اور وہ جو قوت و طاقت حاصل کرتی ہے، اس کا مقصد بھی قیامِ عدل ہے۔ عدل کے ساتھ سیاسی جبر اور ظلم جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ بات جس قوت اور جن دلائل کے ساتھ اور جس بڑے پیمانے پر موجودہ نظام کو سامنے رکھ کر کہنے کی ہے، وہ ہم نہیں کہہ پا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں، بعض اوقات ہم اسلام کا موقف اپنے سرکل میں تو بیان کرتے ہیں، لیکن ہمارا جو اصل مخاطب ہے، اس تک ہماری بات نہیں پہنچتی۔ آج سے نہیں، ایک طویل عرصے سے کہا جارہا ہے کہ اگر اسلام برصغیر میں پھیلا ہے تو محض اس وجہ سے کہ یہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت تھی اور انھوں نے تلوار کے زور پر لوگوں کو مسلمان بنایا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خلاف واقعہ ہے،تاریخ اس کی تردید کرتی ہے۔ ایک موقع پر مسلمانوں اور غیرمسلموں کا مشترک مجمع تھا۔ میں نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں قرآن حکیم کا ایک طالب علم ہوں، اس کا تھوڑا بہت مطالعہ میں نے کیا ہے، مجھے وہ آیت یا حدیث بتا دیجیے جس میں کہا گیا ہو کہ اسلام کو نہ ماننے والوں کو قتل کردو۔ میں نے جو قرآن کریم پڑھا ہے اس میں تو صاف صاف کہا گیا ہے:

’’بلاؤ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ، عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔(النحل: ۱۲۵)

اس آیت میں دعوت کے تین طریقے بتائے گئے ہیں: ایک طریقہ ہے حکمت۔حکمت عقلی استدلال کو کہتے ہیں۔دوسرا طریقہ ہے عمدہ نصیحت، یعنی انھیں نرمی اور دل سوزی سے سمجھایا بجھایا جائے اور انکارِ حق کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔ تیسری بات یہ کہی گئی کہ اگر گفتگو ہوتو سلیقے سے اور تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ہو۔ یہ نہیں کہ آدمی نرمی سے گفتگو کر رہا ہے،مگر آپ جھنجھلا جائیں۔ وہ کوئی سخت با ت کہے تو آپ بدزبانی پر اتر آئیں یا اسے تھپڑ رسید کردیں۔ میں نے کہا کہ قرآن حکیم نے اسلام کو پھیلانے کی یہ تعلیم دی ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ وہ کون شخص ہے جس کے سر پر تلوار رکھ کر اسے مسلمان بنایا گیا۔ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہوگا، میں اس وقت شریعت کا ایک مسئلہ بتا تا ہوں، وہ یہ کہ ہمارے علماء کرام نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اگر کسی کو زبردستی مسلمان بنایا گیا تو اس کے ایمان کا اعتبار نہیں ہوگا اوراگر وہ کہے کہ میں اپنے پرانے مذہب پر واپس جانا چاہتا ہوں تو وہ جاسکتا ہے، اسے مرتد کی سزا نہیں دی جائے گی۔ قرآن حکیم نے بھی یہی کہا ہے اور ہمارے علماء کرام اور فقہا نے بھی یہی کہا ہے اور اُس وقت کہا ہے، جب ان کے ہاتھ میں اقتدار تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ تم زور زبردستی سے اپنی بات منوائو۔

اسلامی نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کیاجائے!

یہ باتیں جس قوت اور جتنے پختہ دلائل کے ساتھ پیش ہونی چاہئیں وہ نہیں ہورہی ہیں۔ بہرحال یہ ایک خلا ہے اور جب تک یہ خلا پْر نہیں ہوگا، کسی کے بارے میں آپ یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ اسی طرح یہ خیال کہ پرانا نظام اپنی جگہ آسانی سے خالی کردے گا اور اسلامی نظام آجائے گا، یہ سادہ لوحی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے اسی وقت ہٹتا ہے جب آپ دلائل سے اس کا غلط ہونا ثابت کریں۔ قرآن کریم نے یہی کیا تھا۔ اُس وقت شرک کی بنیاد پر ایک نظام قائم تھا۔ قرآنِ حکیم نے شرک کو چیلنج کیا۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ دیکھو میرے پاس دلائل ہیں، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے مضبوط دلائل ہیں:

’’ان سے کہہ دیجیے کہ یہ ہے میرا راستہ، میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں اور بصیرت پر میں بھی قائم ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘۔(یوسف:۱۰۸)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول محمدﷺ اور آپ کے ساتھی اس دعوے کے ساتھ دنیا کے سامنے آتے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر مضبوط دلائل رکھتے ہیں اور علیٰ وجہ البصیرت دنیا کو حق کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہی چیز ہے جو انہیں باطل کے مقابلے میں ثابت قدم رکھتی ہے اور دوسرے کو غوروفکر پر آمادہ کرتی ہے، ورنہ بغیر دلیل کے محض ہمارے کہنے سے کسی شخص کا اپنا موقف بدل دینا آسان نہیں ہے۔

سماج کے ساتھ فرد کو بھی مخاطب بنایا جائے!

ایک اور پہلو سے اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ آپ اسلام کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس سے ملک کا نظام بہتر طریقے سے چلے گا، ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہوگا، عدل وانصاف قائم ہوگا، معیشت بہتر ہوجائے گی، غریبی دور ہو گی، امیر اور غریب کا فرق ختم ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں صد فی صد صحیح ہیں۔ لیکن جب یہ باتیں آپ کہتے ہیں تو آپ کے سامنے سماج ہوتا ہے، فرد نہیں ہوتا۔ فرض کیجیے، آپ یہ کہیں کہ اسلامی نظام آئے گا تو غربت دور ہوجائے گی، تو جو شخص غریب نہیں ہے، وہ کہے گا یہ میرا مسئلہ نہیں ہے، میں مال دار ہوں۔ آپ کہیں گے، اسلامی نظام سے دنیا میں عدل قائم ہوجائے گا۔وہ کہے گا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے، میرے اوپر کوئی ظلم نہیں کر رہا ہے، میں سکون سے زندگی گزار رہا ہوں۔ لیکن قرآن حکیم کہتا ہے کہ اللہ کا دین ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ یہ غریب سے غریب شخص کا بھی مسئلہ ہے اور امیر سے امیر شخص کا بھی۔ خدا کو ماننا یا نہ ماننا صرف سماجی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ فرداً فرداً ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ اسلام جب آیا تھا اس وقت وہ امیروں کے لیے بھی ایک سوال تھا اور غریبوں کے لیے بھی۔ ان میں سے ہر ایک نے سمجھا کہ یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر شخص تنہاخدا کے سامنے حاضر ہوگا اور جواب دے گا کہ اس نے خدا کو مانا تھا یا نہیں اور اللہ کے رسولؐ کی رسالت کو تسلیم کیا تھا یا نہیں۔ میں کبھی کبھی اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھاتا ہوں۔ ایک آدمی کتنا ہی نیک ہو، اچھا ہو، لیکن اگر وہ اس حقیقت کو نہ مانے کہ فلاں شخص میرا باپ ہے تو اس کی نیکیوں کے باوجود بہرحال وہ ایک جرم کا ارتکاب کرے گا۔ اسی طرح مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم کسی طرح کی پریشانی میں مبتلا ہیں یا نہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم خدا کو مانتے ہیں یا نہیں۔ اس کی ہدایت کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں یانہیں کہ اگر اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیاتو آخرت میں پکڑے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ پوری زندگی کا ہے اور ہر پہلو سے ہے۔

بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرد، جسے ہمارا ہدف ہونا چاہیے، وہ صحیح معنوں میں ہدف نہیں بن پاتا۔ اسلام کا اجتماعی تصورِ حیات صد فی صد صحیح ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے بہتر نظامِ سیاست وجود میں آئے گا، بہتر قانون ملے گا، عدل وانصاف قائم ہوگا، معیشت بہتر ہوگی، امیری اور غریبی کا فرق ختم ہوگا۔ یہ ساری باتیں صحیح ہیں، لیکن ان کی اہمیت پورے سماج کے لیے ہے، سماج کے ہر فرد کے لیے نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں کسی خاص طبقے کے لیے اور خاص ملک کے لیے کشش ہو، دوسرے کے لیے نہ ہو، جب کہ اللہ کا دین سب کے لیے ہے۔

بہت سے مسائل ایسے ہیں جو خود انسانوں کے پیدا کردہ ہیں۔ مغرب نے گزشتہ دو سو سال میں جو تجربات کیے ہیں، ان کی کمزوریاں سامنے آرہی ہیں۔ لیکن ان کا کوئی متبادل ان کے پاس نہیں ہے۔ اگر کہا جائے کہ عورت اور مرد کی آزادی کی وجہ سے خاندان کا نظام تباہ وبرباد ہوگیا ہے تو اس کا وہ انکار نہیں کر سکتے۔ اب تو وہ خود ہی کہتے ہیں کہ خاندان کو آباد کرنا چاہیے۔ اب ان کے درمیان اس سلسلے میں تحریکیں چلنے لگی ہیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ خاندان کا نظام خراب ہوگیا ہے اور زندگی سکون سے محروم ہے تو پھر وہ گھر کی طرف واپسی کی بات کرنے لگے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا فیملی نظام، جس کو وہ اس کا متبادل قرار دے سکیں، ان کے پاس نہیں ہے۔کہیں سے کوئی آواز آتی ہے کہ اسلام کے معاشرتی نظام کا تجربہ کرنا چاہیے تو ہم خوش ہو جاتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ آواز شاذونادر ہی آتی ہے اور بہت دھیمی ہوتی ہے۔ بحیثیت مجموعی وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے پاس خاندان کا کوئی نظام موجود ہے۔ یا ان کایہ خیال کہ عورتوں کے ساتھ اسلام میں بڑی زیادتی کی گئی ہے اور اسے وہ اسلام پر تنقید کابہانہ بناتے ہیں۔ اگر ہم یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام عورت کے ساتھ انصاف کرتا ہے اوراس نے حقوق و اختیارات کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے، جو فرق تم سمجھتے ہو وہ حقیقی فرق نہیں ہے، اس کے اسباب اور حکمتیں دوسری ہیں۔ اگر یہ ساری باتیں وضاحت اور دلائل کے ساتھ ان کے سامنے آئیں تو ہوسکتا ہے وہ ان پر غور کریں۔

اسلام کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت

دوستو اور ساتھیو! مسائل ایک دو نہیں، بے شمار ہیں، جن کے بارے میں آج کی دنیا سوچتی ہے اور ان کا کوئی متبادل بھی چاہتی ہے، لیکن علمی اور فکری سطح پر ابھی ہم اس مقام پر نہیں ہیں کہ کہہ سکیں کہ ہم نے اسلام کو ایک متبادل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے اور اب دنیا مجبور ہے اس پر غور کرنے کے لیے۔ ضرورت ہے کہ ہم علمی اورفکری سطح پر اسلام کو دنیا کے سامنے ایک متبادل کے طور پر پیش کریں۔دنیا میں آج کہیں سے یہ آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ اسلام بھی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ رکھتا ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔ نہ کہیں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے ایک متبادل پیش کیا ہے، اس پر غور کرو، حسن البناء نے ایک متبادل پیش کیا ہے، یا فلاں تنظیم ایک متبادل کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے،اس پر غور کرو۔ اس صورت حال میں آپ کا یہ سمجھنا کہ پورا نظام بدل جائے گا اور دنیا اسلام کی طرف لپکے گی، میرے خیال میں بہت دور کی بات ہے۔ اسلام نے غلبۂ دین کی جو بات کہی ہے، اس کی بنیاد علم اور فکر پر ہے، اس کے بعد سیاسی میدان میں غلبہ حاصل ہوتا ہے۔

یہ مجلس گفتگو اور تبادلۂ خیال کی ہے۔ جو باتیں میں نے عرض کی ہیں وہ کسی قابل ہیں تو آپ سب اصحاب علم سے توقع ہے کہ ان پر غور کریں گے۔

----------------
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ اکتوبر ۲۱۰۲ء)