ولادت باسعادت۔ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ولادت باسعادت - عبد الماجد دریابادی
آگے کچھ سننے سنانے سے قبل ذہن کے سامنے نقشہ، تاریخ کی بڑی بڑی ضخیم کتابوں کی مدد سے چھٹی صدی عیسوی کے آخر اور ساتویں صدی عیسوی کے شروع کی دنیا کی زبردست اور نامور طاقتیں اس وقت دو تھیں، جن کے نام سے سب تھراتے تھے اور جن کا لوہا مشرق و مغرب مانے ہوئے تھے۔ مغرب میں رومن امپائر یا شہنشاہی روم اور مشرق میں پرشین امپائر یا شہنشاہی ایران۔ دونوں بڑی بڑی فوجوں اور لشکروں کے مالک، دونوں میں زر و دولت کی افراط اور دونوں تمدن عروج پر۔لیکن دونوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ۔عیش و عشرت نے مردانگی کی جڑ یں کھوکھلی کر ڈالی تھیں اور روح و قلب کے روگ ہر قسم کے پھیلے ہوئے۔ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا۔توحید کا چراغ گویا بالکل بجھا ہوا اور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا۔ تفصیل کا وقت کہاں، ورنہ ہندوستان، چین، مصر وغیرہ ایک ایک ملک کا نام لے کر اس وقت کے اخلاقی زوال کی تصویر آپ کے سامنے پیش کردی جاتی۔

اس وبائے عام میں ملک عرب کا نمبر خاص شاعری کے آرٹ میں یہ قوم یقینا طاق اور تجارت کے کاروبار میں بھی بہت ممتاز۔ چند اور اخلاقی جوہر بھی ان کے اندر خوب چمکے ہوئے، بہادری اور سپہ گری، فیّاضی مہمان نوازی میں ان کا سکّہ قرب وجوار ہی میں نہیں، دور دور تک بیٹھا ہوا، لیکن اس سے آگے چلئے تو یہ لوگ بالکل کورے۔ آج اسے لوٹ لیا، کل اسے ختم کردیا۔ بے حیائی فیشن میں داخل اور بے ستری جز وعبادت۔ شراب کی محفل جمی تو شام کی صبح ہوگئی۔ جوئے کی بازی لگی تو جسم سے کپڑے تک اتر گئے اور خون کے انتقام در انتقام کا سلسلہ جو چلا تو کہنا چاہئے کہ صدی کی چھٹی ہوگئی، عمریں ختم ہوگئیں، پشتیں گذر گئیں اور جھگڑا چکائے نہیں چکتا۔ تو یہ تھا چھٹی صدی عیسوی کی آخری تہائی کا ملک عرب، جس کے مشہور ترین شہر مکّہ میں ۵۷۰ء میں ایک روز صبح صادق کے وقت قوم کے شریف ترین گھرانے میں ایک جیتا جاگتا چاند عالم ظہور میں آیا، جس کو نورانیت سے، کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کے گھر کے دردیوار جگ مگ کرنے لگے، زچہ خانہ کے مادی حدود کی بساط ہی کیا، یہ نورانیت تو اس غضب کی تھی کہ مشرق و مغرب کے سرے اس سے جگمگا اٹھنے والے تھے۔

عرب کے جغرفیہ کا خاکہ تو آپ کے ذہن میں ہوگا ہی، طول البلد ۱۲، اور ۳۲۔عرض البلد ۳۵، اور ۶۰۔ایک طرف مصر اور حبشہ اور طرابلس اور سارا براعظم افریقہ، دوسری طرف ملک روم و شام، فلسطین اور سارا یورپ۔ تیسری جانب عراق اور ایران اور سارا ایشیا۔اور چوتھی سمت میں سمندر ہی سمندر۔گویا معمورہ عالم، خصوصا اس وقت کی دنیائے مہذب کا عین چوراہا، اور پھر جو تجارتی شاہراہ مشرق کو مغرب سے ملا رہی تھی اور بحر ہند و خلیج فارس کے تجارتی مال کو خشکی کے راستہ مصر، روم و شام تک پہنچارہی تھی، وہ بحر احمر کے برابر گویا ایک خط مستقیم بناتی ہوئی ٹھیک اسی عرب ہی کے مغربی کنارے پر تو تھی۔

تاریخ اور جغرافیہ، دیکھئے دونوں کی شہادت کیا گزری ہے۔یہی نا کہ اکیلے عرب ہی کی نہیں، دنیا کی اصلاح کے لیے، اس سے بڑھ کر ضروری وقت و زمانہ اور کیا ہوسکتا تھا اور مقام اس کے لیے عرب سے موزوں تر کون سا ہوسکتا تھا؟ زمان و مکان دونوں کے لحاظ سے ولادت ایسی باسعادت اور کون سی ہوگی؟ والد ماجد کا نام عبد اللہ، توحید و عبودیت کی طرف کتنا صاف اشارہ۔ والدہ ماجدہ بی بی آمنہ، امن و امان کے حق میں ایک مستقل فال نیک۔ آنکھ یتیمی میں کھلی۔ والد ماجد نور عین کے دیدار جمال سے قبل ہی سفر آخرت پر روانہ ہوچکے تھے۔ اس کو سارے عالم کا سہارا بنایا جانے والا تھا، حق تھا کہ قدرت اسے وجود میں بغیر ظاہری سہارے کے لائے اور اس کا سہارا روز ازل سے بجز ذاتِ حق کے اور کوئی ساجھی نہ رکھے۔

نام نامی دادا عبد المطلب نے ’’محمد‘‘رکھا۔لفظی معنی ’’بہت حمد کیے گئے‘‘کے ذات صفات کے لیے اسم بامسمی۔ دوسرا نام ’’احمد‘‘پڑا۔ جس کی زندگی حمد میں کٹی اور جسے اٹھنا بھی مقام حمد میں ہے۔ اس کے لیے اس سے بہتر نام اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ پلے، بڑھے، کھیلے، چلے پھرے، ملے جُلے، بچپن یوں گزرا کہ خود معصیت اس بچپن پر فخر کرنے لگی۔ جوان ہوئے تو نیکی اور پارسائی، طاعتِ حق عیش پرستی اور لذت کوشی کی ہراہ کھلی ہوئی۔ قدم کی ہر لغزش مستانہ پر رواج اور فیشن کی مہر لگی ہوئی، اس ماحول میں اور سن و سال میں، محلہ اور بستی والوں نے، کنبہ اور قبیلہ والوں نے لقب دیا تو کیا؟ ’’امین‘‘ امین کا لفظ بڑا وسیع اور جامع ہے۔انگریزی میں اس کا ترجمہ Virtous ہی سے کیا جاسکتا ہے، یعنی محمدؐ دیانت دار بھی ہیں اور راست باز بھی، نظریں نیچی رکھنے والے بھی اور سب کی خدمت کرنے والے بھی۔ کتنے ایسے ہیں جن کی قسمت میں ہر وقت دیکھنے والوں کی زبان سے یہ شہادت آتی ہے۔

لڑکپن بھر گلہ بانی کی۔۔۔ جس کے نصیب میں آگے چل کر قوموں اور اُمتوں کا گلہ بان ہونا تھا، اس کے لیے کتنی اچھی تعلیم۔۔۔ جوان ہوئے تو تجارت کی۔۔۔ جس کا کام آگے بڑھ کر جنت کے تمسّکات Share Cirtificate ہلکے پھلکے داموں خریدوانا ہونا تھا، اس کے لئے کتنا موزوں اور پُر معنی پیشہ۔ امانت و دیانت اور کاروبار میں مہارت دیکھ کر ایک دولت مند بیوہ نے شادی کی درخواست از خود کی اور ۲۵ سال کی سن میں اس جوان رعنا کی خانگی زندگی بھی شروع ہوگئی۔ سن کے چالیسویں میں تھے کہ مرتبہ نبوت سے سرفراز ہوئے۔ ساری تیاریاں اسی لیے تھیں اور ۲۳ سال تک اپنے خالق و مالک کا پیام بندوں کو سناتے رہے۔ نکاح کئی فرمائے، اولادیں بھی متعدد ہوئیں۔ لڑائیاں باربار سخت اور خونریز اپنے ہم وطنوں اور ہم قوموں سے لڑنا پڑیں ۔ ہمسایہ ملکوں سے معاہدے بھی کئے۔ ملک کے انتظام ہرطرح کے فرمائے۔ دیوانی، فوجداری، قانونی، فیصلے ہر قسم کے کرنے پڑے۔ غیر مسلم تاجروں سے نامہ و پیام رکھا۔ بے شمار نمازیں پڑھیں اور پڑھائیں۔خطبہ یا برجستہ تقریریں، خدا معلوم کہ کتنی کر ڈالیں۔غرض یہ کہ دنیا کو ہر پہلو پر خوب برتا، لیکن دنیا میں ایک بار بھی نہ پڑے، جیسے غوطہ خور نے سمندر میں گر کر غوطہ لگایا۔ اور جسم کا رواں بھی بھیگنے نہ پایا اور جب ۶۳ سال کی عمر شریف میں جون ۶۳۲ء میں اس فانی دنیا کو چھوڑا‘ تو دل میں تمنّا اپنے رفیق اعلی کے دیدار کی بسی ہوئی تھی اور پاک اور معصوم ہونٹوں سے آواز اللہم بالرفیق الاعلیٰ کی چلی آرہی تھی۔

تعلیم یہ لائے کہ اپنی عقلوں اور ذہنوں کو مادیت کے جنجال میں نہ پھنساؤ۔ اسباب ظاہری و قریبی کے دھوکہ میں نہ آؤ۔ ان سے کام تو یقینا ً لو۔ اور پوری طرح لو، لیکن اصلی سہارا اور حقیقی بھروسہ ایک اَن دیکھی ذات ہی کا رکھو۔ وہی سب کا پیدا کرنے والا، وہی سب کا پالنے والا اور وہی جلانے والا اور وہی سب کو آخر میں مارنے اٹھانے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہ ذات میں نہ صفات میں۔ زندگی کے چھوٹے بڑے ایک ایک عمل میں اپنی ذمہ داری محسوس کرو اور مادی و جسمانی زندگی کو سلسلہ ہستی کا ایک جزو اور بہت ہی محدود جزد سمجھو۔ تنگ نظری سے کام لے کر اسی کو کل سمجھ لینے کے دھوکے میں نہ پڑو۔ اس ’’آج‘‘ کا عنقریت ’’کل‘‘ ہونے والا ہے۔ ہر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوکر رہے گا۔ ساری تیاری اس یوم کے لیے رکھو۔

قانون یہ بنایا کہ کوئی کسی حال میں کسی پر ظلم نہ کرے۔ بڑائی اور چھٹائی اس عالم آب و گل کا بنیادی قانون ہے۔ کوئی امیر رہے گا کوئی غریب۔لیکن بڑے کو چھوٹے کے دبانے کا اور امیر کو غریب کے پیسنے کا، حاکم کو محکوم کے ستانے کا قطعا کوئی حق نہیں۔ میاں اور بیوی، بادشاہ اور رعایا، زردار و نادار، ادائے حقوق کے لحاظ سے اللہ کی عدالت میں سب بالکل برابر ہیں۔دھیان اپنے فرائض کا رکھو۔ اپنی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے کے حق میں ادا کرو۔ مطالبات حقوق کا نام لے کر غل غپاڑہ نہ کرو۔ دنیا کو ہنگامہ و فساد کے تہلکہ میں نہ ڈالو۔تلوار ہاتھ میں اٹھاؤ بھی تو دنیا میں امن قائم کرنے کو۔ اللہ کی حکومت کا سکہ ازسر نوچلانے کو۔ سود کا، رشوت کا، خیانت کاایک ایک پیسہ حرام سمجھو۔ بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ۔ ننگے ناچ کی قدردانی نہ کرو۔ نشہ کی چیزوں کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ۔ ترکہ سب وراثوں کو ان کے حصہ رسدی کے مطابق تقسیم کرو۔ یہ نہ ہوکہ سب کچھ بڑا لڑکا پاگیا اور دوسرے لڑکے لڑکیاں منہ دیکھتی ہی رہ گئیں۔ جوئے کی کمائی، چوری کے مال کی طرح گندی سمجھے رہو۔ بیگانی عورت کی طرف نظر بھی نہ اٹھاؤ۔ ہاں جائز شادیاں اگر ضرورت یا مصلحت سمجھو تو ادائے حقوق کے ساتھ ایک سے زائد بھی کرسکتے ہو۔

غرض ان ساری ہدایتوں کو، اپنے پروردگار سے سیکھ کر جب وہ رہبر اعظم اس دینا سے رخصت ہوا تو وہ دنیا کے ہاتھ میں ایک مکمل ہدایت نامہ اور جامع و مفصل دستورالعمل دے کر گیا اور اس کی یہ ساری تعلیمات محض لفظی نہ تھیں۔ وہ ان سب کی مشق سالہا سال تک اپنے سامنے کرا کر گیا۔ اس کی قوم کے جاہلوں اور فاسقوں نے اس کا پیچھالیا۔ اسے اپنے مشن کے تحفظ کے لیے مکہ معظمہ سے جلاوطن ہوکر ڈھائی پونے تین سو کی منزلیں طے کر کے مدینہ جابسنا پڑا تھا اور بے رحمانہ سختیوں کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو اسے اور اسکے وفادار ساتھیوں کو جھیلنا نہ پڑی ہو۔ ساری مشکلات پر وہ اپنی معجزانہ ہمت و تدبیر سے غالب آیا۔ ملکوتی اور لاہوتی قوتیں پہاڑوں کو اس کے سامنے پانی کرتی گئیں۔ اس نے اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی ایک جماعت ایک لاکھ سے اوپر کوئی سوا لاکھ کی چھوڑی اور عرب کے کوئی۱۰ لاکھ مربع میل پر وہ اپنی عادلانہ حکومت کا نقش قائم کرگیا۔ اس کی ہمہ گیر، بے نظیر اور جمال و جلال اور کمال سب کی جامع شخصیت کے لیے ہم کو، آپ کو نہیں، یورپ کو آج تک اعتراف ہے کہ:

’’وہ دنیا کے تمام انبیاء اور مذہبی شخصیتوں میں کامیاب ترین ثابت ہوئی۔‘‘

The most successfull of all Prophets and rellglous personalities.

اس حوالہ کے لئے ملاحظہ کیجئے انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا کے گیارہویں ایڈیشن کی جلد ۱۵، صفحہ ۸۹۸ اور اس کے لائے ہوئے لاجواب اور بے مثال خدائی کلام کے لیے بھی آج اسی یورپ کو اقرار ہے کہ اس سے زیادہ کثیر الاشاعت دنیا کے پردہ پر کوئی کتاب نہیں :

The most widely read BOOK in exlstence.

اس حوالہ کے لیے ملاحظہ فرمائیے اسی انسائیکلو پیڈیا کے اسی جلد کا وہی صفحہ۔ یہ خراج عقیدت منکرین کی زبان سے کس کے حصّے میں آیا۔




اللہم صل وسلم و بارک علیہ