’رحمۃ للعالمین۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

 رحمۃ للعالمین - عبد الماجد دریابادی 
میں شہادت دیتا ہوں کہ انسان بھائی بھائی ہیں‘‘۔

جس کے منھ سے یہ سندربول نکلے تھے ، آج اس کی پیدائش کا دن ہے۔اسی نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا تھا۔بتایا تھاکہ نسل کی ،جلد کی ،رنگ کی یاد وطنی تقسیم کی بناء پر کسی سے جنگ کرنا یا کسی کوحقیر اور ذلیل سمجھنا حماقت ہے۔یہ ساری چیزیں غیر اختیاری ہیں ۔انسان کے کردار کا ،اس کے کردار کا ،اس کے شرف اور عظمت کا ان سے کیا سردکار ۔اور اسی نے آکر یہ منادی کی تھی کہ :

الخلق عیال اللہ

مخلوق تو ساری ،اللہ کا کنبہ ہے۔

فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ

تو مخلوق میں،اللہ کی نظر میں محبوب ترین وہی ہے جو اپنے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک سے پیش آئے۔

مہر و محبت کے اس پیامبر کو ،شفقت و الفت ،ہمدردی و انسانیت کے اس سچّے پیام رساںکو ’’رحمت عالم،،نہ کہئے تو آخر کہئے کیا؟

آج اسکی پیدائش کا دن ہے جس نے اپنے پیروؤں کو ہدایت کی تھی کہ حکمت و دانش تو تمہاری کھوئی ہوئی چیز ہے تو تم جہاں کہیں بھی پاؤاپنی ہی چیز سمجھ کر حاصل کرلو اور اس دہم میں نہ پڑے رہو کہ یہ غیروں کی ہے ،اسے ہم ہاتھ کیسے لگائیں۔اور ہاں اسی نے یہ ہدایت بھی تو کی ہے کہ علم و دانش کی تحصیل سے غافل نہ رہو،چاہے اس کے لیے چین ہی کا سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔چین کا لفظ اس وقت کے عربی محاورہ کے مطابق انتہائی فاصلہ ظاہر کرنے کو ہے ۔مطلب یہ ہوا کہ علم حاصل کرنے کی راہ میں کوئی بھی ملکی یا قومی تعصب حائل نہ ہونے پائے۔یہ ہداتیں آج بھی ایک دینی پیشوا کی زبان سے ایک حد تک نئی معلوم ہیں۔اور پھرچھٹی صدی عیسوی میں جب دنیا مختلف چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی تھی اور ایک دوسرے کے خلاف نسلی اور وطنی تعصبات کی سنگین دیواریں اٹھی ہوئی تھیں ۔اس وقت عام رواداری اور عالمگیر انسانیت کی تعلیم عرب کے ایک امّی کی زبان سے بجائے خود ایک معجزہ تھی۔

آج اس نبی ؐ رحمت کی یاد منانے کا دن ہے جس کا فرمان ہے :

من لا یَرحَم لا یُرحم

جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا وہ خود رحم سے محروم رہے گا

شفقت ومہربان کا یہ حکم کسی قبیلہ یا قوم کے ساتھ محدود نہیں،بلکہ نوع انسانی کے لیے ہے اور نوع انسانی بھی کیوں کہئے ،یوں کہئے کہ ساری مخلوق خدا کے لئے،جس میں چرندے اور پرندے گھوڑے اور گدھے ،کتّے اور بلّی ،کبوتر اور مرغی سبھی شامل ہیں ۔اور بعض حدیثوں میں تو نام لے لے کر بعض بے زبان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر بشارتیں آئی ہیں ۔عمل اس تعلیم پر ہوجاتے تو آج ضرورت نہ کسی’’انجمن برائے انسداد بیر حمی بر حیوانات،،کی رہ جائے اور نہ کسی گھوڑے کی چابکوں سے چھلی ہوئی پیٹھ دیکھنے ہی کو مل پائے ۔

آج اس رحمت عالم کا یوم میلاد جس کی لائی آسمانی کتاب کا پہلا سبق تھا کہ خدا کا تعلق ربوبیت سارے ہی عالم و مافی العالم سے ہے ۔وہ خدا پر وردگار قریش کا نہیں ،قوم عرب کا نہیں،گوروں کا نہیں ،کالوں کا نہیں ،مشرقیوں مغربیوں کا نہیں،بلکہ نیکوںاور بدوں بڑوں اور چھوٹوں ،سرداروں اور زیر دستوں ،شہ زورں،انسانوں اور جانوروں ،سب ہی کا پروردگار ہے ۔ننھی سے ننھی ،بے حقیقت مخلوق ،پتھروں کے کیڑے تک کی پرورش کرنے والا اس کو اس کے کمالات کی طرف چلانے والا ،وہی ایک ہے اخوت انسانی بلکہ ساری نظام کائناتی کی وحدت کی تعلیم اس سے زیادہ مؤثر و دلنشین انداز میں اور کیا ہوگی؟

اس نورنبوت نے جب اجالا شروع کیا ہے تو دنیا طرح طرح کی تاریکیوں اور گہرے گہرے اندھیروں میں لپٹی ہوئی تھی۔جہالت نے ایک خدا کی خدائی میں ساجھے دار خدا معلوم کتنوں کو بنادیا تھا اور مصلح برحق نے اپنی عظیم الشان اصلاحوں کا سنگ بنیاد اسی عقیدئہ توحید کو رکھا ۔اس نے بندہ اور اس کے خالق کے درمیان ربط براہ راست قائم کردیا ۔درمیانی واسطوں کو مٹایا اور دلوں اور دماغوں کا سہارا ماسوا کی طرف سے چھیڑایا۔اور عقیدہ کی ان بنیادی اصلاحوں کے معًا بعد وہ عملی زندگی کے سنوارنے اور سدھارنے میں لگ گیا،اور وہ قانون اور ضابطے اس نے اپنے اس حکم سے پیش کئے جو ایک طرف فرد کوسدھارتے گئے تو دوسری طرف سوسائٹی یا معاشرہ یا سماج کا اخلاق بھی نکھارتے گئے ۔

شراب عرب سوسائٹی کا جز و اعظم تھی ،ان کے اونچے طبقہ کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ دوستوں کی مجلس میں ،برادری کی کسی دعوت میں ،خاندان کی کسی تقریب میں ،پیمانہ کی گردش اور جام تک شرابی اور بلا نوش تھے ،انہیں دم کے دم میں پاکباز ،محتاط ،تہجد گزاربنا دیا ۔جنگ جوئی ،خونریزی ،نبردآزمائی گویا عرب کے خمیر میں داخل تھی۔برسوں سے نہیں،صدیوں سے قبائلی اور خاندانی رقابتیں چلی آتی تھیں،اور عداوتیں گویا وراثت میں ایک نسل سے دوسری نسل کومنتقل ہوتی رہتی تھیں۔رحمت عالم نے آتے ہی اس کینہ کو ہر سینہ سے دھودیا اور جہاں بغض و نفرت کی بھٹیاں دہک رہی تھیں۔وہاں میل اور محبت کے پھول کھلا دیے۔یہ معجزہ تنہا عرب ہی کے لیے نہیں ہوا۔عدل ،خدا ترسی اور ادائے حقوق کے قانون ۔ایسے تعلیم کردیے کہ ان پر عمل ہو تو آج بھی سارا عالم آتش کدہ سے گلزار میں تبدیل ہوجائے ۔

سوددرسود کے چکر سے دنیا جن مصیبتوں میں گرفتار چلی آرہی ہے وہ سب پرروشن ہے ۔غریبوں کا خون چوسنا اور اپنے اور اپنے اندر بجائے ہمدردی و شفقت کے سنگدلی اور بے دردی کے جذبات کو پرورش کرتے رہنا ،سودخوار غریب کی قسمت کا نوشتہ ہے اور پھر دنیا میں جوبڑی بڑی خونریز لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں ،سوچ کر دیکھئے کہ اگر بڑے بڑے سودی قرضے نہ ملتے تو یہ ہولناک اور انسانیت سوز جنگیں کبھی واقع ہوسکتی تھیں؟دنیا کے اس سچّے رہبر اور دین کے پیمبر نے انسانیت کی اس دکھتی ہوئی رگ کو پکڑا ،اور اپنی شریعت کے ذریعہ اس کا پورا قلع قمع ہی کرکے چھوڑا ۔یہ شرح سود ہلکی ہو یا بھاری سودی معاملت کی ہر شکل اور ہر درجہ کو اس نے حرام ہی قرار دے دیا کہ بغیر اس حرمت کلّی کے اس عذاب سے نجات پانا ممکن ہی نہ تھا۔

فحش و بدکاری کی وبا بھی دنیا پر ہمیشہ مسلط رہی ہے ۔مصر ،یونان،روما کے بڑے بڑے حکیم اور فلسفی اس سے پیش نہ پاسکے بلکہ بہت سے تو خود ہی اس کا شکار ہوگئے ۔گندی شاعری ،گندی مصوّری،گندی نقاشی،گندے ناچ رنگ ،یہ سب اس کے لوازم طرح طرح کی دل کشی اور رغبت افزانا موں کے ساتھ رہے ہیں۔محمد ؐ ابن عبد اللہ کی لائی ہوئی شریعت نے ان ساری سڑی لاشوں کے چہروں سے رنگین و خوش نما نقاب نوچ نوچ کر الگ کردیے اور ہر گندگی کی بیخ کنی بقدر اس کے مفسدہ کے کردی ۔

ان پیمبر میں اور وصف جوتھے وہ تو تھے ہی ،ہزاروں کمال یہ تھا کہ آپ حقیقت پسند Realistاعلی درجہ کے بلکہ بے نظیر تھے ۔ آپ کی نظر عرفان ہمیشہ حقائق ہی پر رہتی تھی اور آپ کی شریعت نے احکام جتنے بھی دیے ہیں وہ نہ شاعرانہ ،خیالی سبز باغ ہیں اور فلسفیانہ وہمی نظیریے ہیں ،بلکہ تمام تر انسان کے کام آنے والی حال و مستقبل دونوں میں عملی ہدایتیں ہیں ۔

عورت کے حق میں دنیا عموما افراط و تفریط ہی سے کام لیتی آئی ہے ۔کبھی وہ گھٹائی گئی تو اتنی کہ جیسے اس کا شمار ہی دائرہ انسانیت میں نہیں اور کبھی بڑھائی گئی تو ایسی کہ جیسے مرد اس کے محکوم اور تابع ہیں۔اس رسول کریم نے آکر اس کا صحیح مرتبہ قائم کیا اور بتایا کہ عورت کسی حال میں مرد کی باندی نہیں بلکہ اس کی ماں ہے ،بہن ہے ،بیٹی ہے،بیوی ہے اور ہر رشتہ میں اپنے خاص خاص حقوق رکھتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ذمہ خاص خاص فرائض بھی باپ کے ،بھائی کے،بیٹے کے،شوہر کے لیے ہیں ۔

غلاموں کو ایک دنیا ذلیل سمجھتی آرہی ہے ۔لفظ غلامی ،ذلت و پستی کامرادف بن گیا تھا ۔اس نبیؐ نے آکر اس لعنت کو بھی دور کیا اور غلاموںکو انسانی حقوق ہی میں شریک نہیں کرایا بلکہ عملا غلاموں اور آقاؤں کو بھائی بنا دیا۔چنانچہ ان نام کے غلاموں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو ان میں نہ صرف امیر ووزیر،سپہ سالار اور بادشاہ تک نظر آئیں گے ،بلکہ بہت سے نام دینی پیشواؤں ،فقہ و حدیث اور تفسیر کے عالموں کے بھی مل جائیں گے ۔

ضعیفوں ،مسکینوں،اپاہجوں ،یتیموں ،بیماروںکے ساتھ حسن سلوک اور مدارات کی جو ہدایتیں اس ہادیؐ کی لائی ہوئی کتاب اور خود اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں ملتی ہیں ۔وہ اس کثرت سے ہیں کہ جمع کی جائیں تو خود ایک دفتر ہوجائے ۔نمونہ کے طور پر اس وقت ایک حدیث مبارک کا خلاصہ سن لیجئے:

’’قیامت کے دن خدا اپنے بندے سے ارشاد کرے گا کہ :

’’میں بیمار ہوا تم نے میری خبر نہ لی ۔میں بھوکا رہا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا‘‘۔

بندہ حیرت سے عرض کرے گا:

’’الہ العلمین!یہ کیوں کر ؟تیری ذات پاک تو ہر بیماری اور بھوک سے بالا تر ہے ‘‘۔

ارشاد ہوگا کہ فلاں بیمار کو تو دیکھتا ہوا چلا گیا،وہ ہم ہی تھے فلاں بھوکا تیرے علم میں آیا تھا ،وہ ہم ہی تھے !‘‘

حق یہ ہے کہ آپ کی نبوت پر اور جتنے دلائل ہیں بالفرض وہ سب معدوم ہوجائیں اور آپ کی شریعت کے صرف وہی حصّے باقی رہ جائیں جو عام خلائق اور اس کے مختلف طبقوں کے ساتھ ہمدردی ،محبت اور سلوک پر مشتمل ہیں تو تنہا یہی چیز آپ کی نبوت کے اعجاز کے لئے کافی دلیل بن سکتی ہے۔

اس رسول نے جنگ کو سرے سے حرام قرار نہیں دیا بلکہ اسے بعض حالات میں جائز اور بعض حالات میں واجب بھی بنا دیا ۔البتہ اس پر قیدیں بڑی بڑی سخت لگادی ہیں اور جہاد کو بجائے نفس پرستی یاستم رانی کے ایک اعلی درجہ کا مجاہدئہ نفس اور بہترین آلئہ دفع ظلم کا بنا دیا۔

اسی طرح اس نے دنیا جہان کے مجرموں ،چوروں ،ڈاکوں،خونیوں،شرابیوں،جواریوں کے ہاتھ میں عفوِعام کا پروانہ نہیں تھما دیا بلکہ اس نے اپنے وہی Realistیا مصلح اکبر ہونے کی رعایت سے ،ہر پھوڑے پھنسی کے لئے الگ الگ نشتر ،الگ الگ آپریشن بھی تجویز کر دیے۔البتہ ثبوتِ جرم کا معیار بہت اونچا کر دیا ۔یہ نہیں کہ اِدھر شبہ پیدا ہوا ،ادھر سزا ٹھونک دی گئی۔

فطرت بشری جب تک اپنی موجودہ کمزوریوںکے ساتھ قائم ہے اور انسان کے خون فاسد میں گردش کرہی ہے ،مہر کے ساتھ قہر کی اورشاباش کی تسلیموںکے ساتھ تادیب کی گوشالیوں کی حکیمانہ آمیزش لازمی ہی نہیں ،عین رحمت و شفقت ہی کے مطالبہ کا پورا کرنا ہے ۔جس پاک ذات اور پاک صفات ہستی نے نہ صرف اپنی ان تعلیمات کے ذریعہ سے دنیا کو نمونہء جنت بنا دینا چاہا بلکہ ۲۲،۲۳سال کی حیرت انگیزحد تک قلیل و قفہ میں ان کی عملی جھلک بھی اپنے وطن میں دکھادی تھی اور کئی لاکھ مربع میل پر عدل وفضل ،مہر و شفقت کی عملداری ،دوست دشمن سب کی آنکھوں کے سامنے قائم کرادی تھی ،آج کی تاریخ روایت مشہور کے مطابق اسی کی پیدائش کی ہے ،لیکن اگر قرآن نے نہ بھی کہا ہوتا ،جب بھی ان کارناموں سے واقف ہوجانے کے بعد عقل سلیم خود ہی سوال کرتی ہے کہ اگر اسے رحمت للعالمین نہ کہئے تو آخر کیا کہہ کر پکار ہے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔