ناک کا داغ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ناک کا داغ -  عبدالماجد دریابادی 

ناک کا داغ

نظام عالم کو قائم کیے ہوئےبے شمار مدّت گزر چکی ہے، دنیا اپنی انھیں نیرنگیوں اور بوقلمونیوں کے ساتھ ایک بے حساب زمانہ سے آباد ہے، نامی گرامی حکماء پیدا ہوچکے ہیں ، نامور کشور کشا گزر چکے ہیں ، یہ سب کچھ ہے، لیکن ’’علم‘‘اور ’’تمدن‘‘ کا جو مفہوم سمجھا جارہا ہے۔ اس سے انسانی دماغ ابھی تک ناآشنا ہے۔ دنیا مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے، اور زمین مختلف اقلیموں میں پھٹی ہوئی ہے، ہرقوم دوسری سے بے گانہ، ہر ملک دوسرے سے اجنبی۔ آمد و رفت کے وسائل محدود، رسائل کے ذرائع دشوار، بین الاقوامی تعلقات بمنزلہ صفر۔لکھے پڑھے ہوؤں کی تعداد ہر ملک میں قلیل۔ کتابوں کی یہ فراوانی جو آج ہے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ۔ گویا ہر ملک دوسرے ملکوں سے بے نیاز و بے تعلق بجائے خود ایک مستقل عالم تھا، اسی لئے قدرتا ہر ملک کے لیے ایک جداگانہ ہادی، اور ہر قوم کے لیے ایک علیحدہ داعی۔

لیکن اب محاسب قدرت کے اندازہ میں وہ وقت آجاتا ہے، جب ہر ملک کے ڈانڈے دوسرے سے مل کر رہیں گے، ہر قوم دوسری قوم سے تعلقات پیدا کرے گی، بے گانگی و بے تعلقی کی جگہ ایک سخت قسم کی دوستی یا دشمنی لے گی۔ کلوں کی ایجاد دور دراز سفر کو آسان کردے گی۔ آلات کی مدد سے مشرق کی خبر، دم کی دم میں مغرب تک پہونچ جائے گی، چھاپہ کی کلیں نقوش کاغذی کے خزانے اگلنے لگیں گی، اور کتابوں کے لکھنے والوں کی تعداد شاید پڑھنے والوں سے بھی بڑھ کر رہے گی!

محاسب فطرت کا اندازہ


محاسب فطرت کے اندازہ میں جب کائنات اپنی عمر کی اس منزل تک پہونچ جاتی ہے، جب دنیا اپنی پختگی و تکمیل کا یہ درجہ طے کر لیتی ہے، جب یہ گھڑی آجاتی ہے، تو اس ملک میں جو اور سب ملکوں سے زیادہ بے علم اور اجڈ تھا، اس سرزمین پر جہاں علم و حکمت، تمدن و شائستگی کا سایہ بھی نہیں پڑا تھا، اس فضا میں جس نے نہ کوئی ارسطوؔپیدا کیا تھا، نہ کوئی جالینوسؔ، نہ کوئی ہومرؔپیدا کیا تھا نہ کوئی کالیؔداس۔اُمیوں کے خاندان میں ، ان پڑھوں کے گھرانے میں ، ایک یتیم امّی اٹھا کھڑاکیا کہ اپنے قوم وملک ہی کو نہیں بلکہ ساری انسانی آبادی کو اپنے پروردگار کی راہ کی طرف بُلا، ساری دنیا کے بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ دکھا، تارے بہت سے نکل چکے، شب انسانیت بسرہونے کو آئی۔ اب تو مطلع کائنات پر آفتاب بن کر طلوع ہو، عامی و عالم، جاہل و حکیم، گورے اور کالے، مشرقی اور مغربی، نادان ودانا، سب کے ظلمت کدے اپنی نورانیت کے پر تو سے روشن کردے، عصائے موسیٰ علیہ السلام، دم عیسی علیہ السلام، تخت سلیمان علیہ السلام، نارِ ابراہیم علیہ السلام، حسن یوسف علیہ السلام، وغیرہ کے سارے معجزات جو مخصوص قوموں کے مقابلہ میں پیش کیے جاتے تھے، ختم ہو چکے، اب زمانہ نئی کروٹ لے رہا ہے، تیرے جلو میں وہ معجزات ہوں گے جو آفتاب سے بڑھ کر روشن ہوں گے !تو اُمّی ہے، اور دنیا اب کاغذی نقوش پر جان دیگی، تو اَن پڑھ ہے، اور دنیا میں اب قدر صرف اسکولوں اور کالجوں ، یونیورسیٹیوں اور اکاڈمیوں کی ہوگی، تو خط نہیں لکھ سکتا، اور دنیا میں اب پر ستش صرف ڈگریوں اور ڈپلوموں امتحانوں اور کتب خانوں کی ہوگی، لیکن ہماری قدرتوں کا اعجاز اور ہماری کارفرمائیوں کا تماشہ دیکھنا، کہ یہی دوات، یہی کاغذ اور یہی سیاہی، یہی علوم اور یہی فنون، نٓ، وَاَلْقَلَمِ وَمَا یَسْطَرُوْنَ، یہی کتب خانے اور یہی چھاپے خانے اوریہی کتبے، یہی مقالات اور یہی تحقیقات، یہی قلم اور دوات کی پیدا کی ہوئی ساری مخلوقات تیرے حق میں گواہ ہو کر رہیں گی۔ تیری ہی صداقت کا کلمہ پڑھیں گی، تیری ہی بزرگی و برتری کے محضر پر مہر تصدیق ثبت کرے گی! 

 بدنصیب ابوجہل ؔاور کوربخت ابو لہبؔ آج تجھے رَد کر رہے ہیں تو اپنی بے بصری کی بناء پر معذور ہیں ، کل ہی وہ دن آتا ہے، جب انھیں کی ذریات جن لوگوں کو دانائی و فرزانگی کا امام تسلیم کرے گی۔حکمت و دانش کا پیشوا تسلیم کر یگی، خود ہی زبان حال دونوں سے مَااَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ سے تیری گواہی دیں گی، اور بول اٹھیں گے، کہ تو اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے مجنوں اور دیوانہ نہیں ، بلکہ خبطی اور دیوانے وہ ہیں جو اپنی جہالت سے تجھے جھٹلارہے ہیں ۔عقل کے اندھے وہ ہیں ، جو اپنی نادانیوں سے تیری نبوت میں شک کر رہے ہیں ۔دنیا جتنی آگے بڑھے گی، عقل و حکمت کو جتنی ترقی ہوتی جائے گی، تیرے لائے ہوئے دین کا چہرہ روشن سے روشن تر ہوجائے گا تیری عقل و فرزانگی، کا آوازہ بلند سے بلندتر ہوجائے گا، رازیؔ و غزالیؔ، طوسیؔ وفارابیؔ ابن رشدؔ و ابن سیناؔ، تیری ہی حلقہ بگوشی پر فخر کریں گے، غزنویؔ و غوریؔ، ترکؔ و سلجوقؔ، مصطفے کمال و امان اللہ کو تیری ہی غلامی پر ناز ہوگا!

زمانہ بدل جائے گا، اہل زمانہ کی طبیعتیں بدل جائیں گی، مشرق کی بساط الٹ کر مغرب کے ٹھاٹھ جم جائیں گے، روحانیت کی جگہ مادّیت کا سکّہ چلنے لگے گا، یہ سب کچھ ہوگا، لیکن تیری محنت و کوشش کا صلہ غیر محدود ہے۔ وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُونٍ تیری تبلیغ کا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں ، تونے اپنی اصلاحات سے دنیا میں جو انقلاب برپا کردیا ہے، اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہی ہوتا جائے گاتیرے غلاموں کے ذخیرہ علم سے خوشہ چینی کر کرکے اہل مغرب بڑے بڑے نظامات فلسفہ تیار کریں گے، تیری منقبت نگاری کار ؔلائل اور گوئٹے اپنے لیے باعث شرف سمجھیں گے، تیرا ہلکا پر تو پڑ جانے سے ٹالسٹائےؔ اور گاندؔھی، ذرہ سے آفتاب بن جائیں گے، تیری عظمت کا اعتراف آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسیٹیاں کریں گی، تیرے منہ سے نکلے ہوئے کلموں کے زندہ و محفوظ رکھنے کے لیے ہالینڈؔ اور جرمنی ؔ کے بڑے بڑے دارالاشاعت وقف رہیں گے۔تیرا نام ہر روز پانچ پانچ مرتبہ برلنؔ، پیرسؔ اور لنڈنؔ کے بلند میناروں سے پکارا جائے گا، تیرے پرستاروں کی عبارت و کلام کی تشریح و تحشی کو براؤن ونکلسنؔ اپنے لیے سرمایہ نازسمجھیں گے! جو تیرے دین کے منکرہوں گے، جو تیرے نام سے دشمنی رکھیں گے، خود انھیں کے قلم اور انھیں کی دوات، انھیں کے کاغذ اور انھیں کی سیاہی انھیں کی عقل اور انھیں کے دماغ کو ہم تیری عظمت کے اعتراف، تیری دانائی کی شہادت، تیری کامیابی کی گوائی کے لیے وقف رکھیں گے!

مناقب کی جامعیت

توآج اُمّی ہے، بے کس ہے، یتیم ہے ظاہر بینوں کی نگاہ میں بے وقعت وبے اثر۔تیرا ابدی دائمی معجزہ یہ ہے، کہ علوم وفنون ہی تیری عقل و دانائی پر گواہ ہوتے جائیں گے، اور اہل علم واربابِ فن ہی کا گروہ تیری کامیابی پر ایک ناطق ہوتا جائے گا، لیکن علوم وفنون کے دفتر یہیں تک پہونچ کر خاموش نہ ہوجائیں گے، بلکہ تیری عقل و دانش، تیرے اثر و کامیابی سے گزر کر جب تیرے اخلاق کی بلندی، تیری زندگی کی پاکی و پاکیزگی، تیری سیرت کی عظمت و بزرگی کا تذکرہ آئے گا، تو علم و فن کے دفتروں کی خاموش وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ زبان ایک بار پھر ناطق ہوجائے گی اورتاریخ، تیرے آفتاب جمال کی نورانیت کے سامنے کسی بزرگ، کسی حکیم، کسی فاتح، کسی رشی، کسی مصلح، کسی نبی کی روشنی کو نہ پیش کرسکے گی! تاریخ اپنی فہرست مشاہیر …ہیروز… کو اول سے آخر تک دوہرا جائے گی اپنے اسماء الرجال کو ایک ایک کرکے سناجائے گی، لیکن زندگی کے ہرشعبہ میں ، اور ہرموقع پر اخلاق کی اس بلندی،ہر طرف کی اس وسعت، قلب کی اس فراخی، اور مناقب کی اس جامعیت کی کسی دوسری مثال کے پیش کرنے سے عاجز رہ جائے گی

انیسویں اور بیسویں صدی کے ماہرین نفسیات کی تحقیقات ہے، کہ نفس بشری تین اجزاء سے مرکب ہے، ایک عقل یا وقوف، دوسرے جذبات و احساسات، تیسرے ارادہ یا سعی عمل، ساتویں صدی کے ایک امّی کی لائی ہوئی کتاب کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے تین مختصر و جامع فقروں میں دنیا کے مصلح اعظم کی ساری زندگی کا عطر کھینچ دیا، اور حیرت انگیز، بلاغت و جامعیت کے ساتھ یہ تینوں حقیقتیں روشن کردیں کہ

۱۔ نہ تو ان پیمبر کی عقل میں کسی طرح کا خلل، اور دماغ میں کسی طرح کا فتور ہے، بلکہ ان پر تو عقل و دماغ پیدا کرنے والے کا خاص فضل ہے۔یعنی ان کی عقل تو مرتبہ کمال پر پہونچی ہوئی ہے، ان کی عقل کے مرتبہ شناس ہونے کے لیے تو خود بھی بہت قابل ہونے کی ضرورت ہے مَا اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ

۲۔ اور نہ یہ ارادہ و ہمت میں ضعیف ہیں ، نہ مخالفتوں کے ہجوم سے گھبرانے والے ہیں۔ یہ اپنے کام میں بدستور لگے رہیں گے اور ان کی اسی قوت ارادی کے جوعملی نتائج و ثمرات نکلیں گے، وہ جلد کیا معنی دیر میں بھی ختم ہونے والے نہیں ، وہ غیر محدود اور غیر منقطع ہیں .وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُونٍ

۳۔ پھر اپنے جذبات کی پاکی و پاکیزگی، اور اپنے احساسات کی بلندی و برتری کے لحاظ سے بھی تاریخ کائنات میں اگر کوئی ہستی بزرگ و عظیم کہی جانے کی حقدار ہے تو یہی ہے .وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ

دنیا میں اب تک جتنے مصلح اور بزرگ پیدا ہوئے ہیں، سب نے اسی سہ گانہ نفسی زندگی کی کسی ایک ہی صنف یا شاخ تک اپنی اصلاحوں کا دائرہ محدود رکھا ہے، کوئی وجود باری پر بہتر سے بہتر عقلی دلائل قائم کر گئے، معرفت الہی کے دقیق سے دقیق اسرار کھول گئے، رموز الہیات کی بہترین شرحیں لکھ گئے، کوئی ایسے آئے، جو اپنے کلام کی شیرینی ، زندگی کی سادگی، اور پیام کی تاثیر سے دلوں کو موہ گئے، بزم کائنات کے جذبات کو بے خود و بے قرار کر گئے، محفل گیتی کے احساسات سوز و گداز سے گرماگئے، اور کوئی ایسے بھی گزرے، جنھوں نے اپنی ہمتوں کا ہدف بجائے دل ودماغ کے جسموں کو رکھا اپنی بے پناہ قوت عمل کی شمشیرزنی کا نشان رزمگاہِ عالم کے چپہ چپہ پر ثبت کر گئے۔لیکن وہ بے نظیر ہستی، جو معرکہ بدر ؔمیں سپہ سالار بھی ہو، اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ باندھ کر صبر کرنے والا بھی، ایک کامیاب و معاملہ فہم تاجر بھی ہو، اور ساری ساری رات عبادت کے لیے کھڑے ہو کر کاٹ دینے والا بھی، جو ناصح بھی ہو، اور زندہ دل بھی، جو فقرو توکل کابھی بوریہ نشین ہو، اور آئین جہاں بانی کا معلم بھی، جو علم و حکمت کا درس بھی دیتا ہو، اور عشق و محبت کے گر بھی سکھاتا ہو، جو ایک ہی وقت میں عقل و فہم کی درسگاہ کا استاد بھی ہو، جذبات کے چمن کا سب سے زیادہ لطیف، شاداب اور سدا بہار پھول بھی ہو، اور سعی و ارادہ کے میدان میں سب کا سردار بھی ہو، ایسی جامع اور لاشریک لہ، ہستی تو صرف اسی مصلح اعظم کی ہوئی ہے۔جس کی تصدیق کسی وقتی معجزہ اور ہنگامی کرامت پر منحصر نہیں ، بلکہ جس کی سچائی پر نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ دوات اور قلم، اور ان کے لکھے ہوئے دفتر علوم و فنون کی خاموش زبانیں ہمیشہ کے لئے گواہ ناطق رہیں گی

آج کا ماہر نفسیات اپنی محدود بشری معلومات کے لحاظ سے کہہ سکتا ہے کہ ترتیب بیان میں جذبات کے ذکر کو ارادہ کے ذکر پر مقدم ہونا چاہئے تھا، لیکن اس بے چارہ کو اسکی خبر نہیں کہ سیرت کی بلندی کے اصلی امتحان کا وقت تو ہرقسم کی عملی کامیابیوں کے حصول کے بعد ہی ہوسکتا ہے، نہ کہ ان کے قبل۔ اس لئے انتہائی عملی کامیابیوں کا ذکر، سیرت کی بزرگی پر مقدم ہونا لازمی تھا۔نفسیات کی عام درسی کتابوں میں لکھی ہوئی ترتیب میں اس بظاہر خفیف اصلاح کے ذریعہ سے کتاب مبین نے یہ پورا مفہوم واضح کردیا، کہ ’’اے پیمبر، ابھی تو تم کمزوری اور مغلوبی، بے کسی اور بے بسی کی حالت میں ہو، ابھی یہ نادان اور بدنصیب تمہارے اوپر مضحکہ کر رہے ہیں ، لیکن عنقریب وہ دن آرہا ہے، جب تمہارے کمالات عقلی کا انہیں اعتراف کرنا پڑے گااور تمہاری تبلیغ کی عملی کامیابی کی یہ نوبت ہوگی، کہ بڑے سے بڑے خزانوں کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں گی بڑی سے بڑی فوجوں کی سرداری تمہیں حاصل ہوگی، بڑی سے بڑی قوت وطاقت کے تم مالک ہوگے اس وقت تمہارے خلق عظیم کے جوہر چمکیں گے۔اس وقت یہ نظر آئے گا، کہ آج کی فروتنی حلم، خاکساری و بردباری، نرمی و رحمدلی، مغلوبیت کی مجبوری سے نہیں ، بلکہ تمہاری سرشت ملکوتی اور فطرت لطیف میں داخل ہے، اور تمہاری سیرت کی بلندی و برتری کا پورا امتحان ان عملی کامیابیوں اور فیروز مندیوں کی معراج پر پہونچ کر ہوگا‘‘۔

بشارت کا وقت


یہ بشارتیں اس وقت نازل ہوتی ہیں ، جب حق چاروں طرف سے باطل کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے۔ جب مکہ کا ایک پاک نسب یتیم، اپنے گنتی کے چند رفیقوں کوچھوڑ کر، مکہ اور گرد و جوار کی ساری آبادی کے خلاف اپنی بے چارگی اور بے بسی کو پوری طرح محسوس کر رہا ہے، جب چشم ظاہر کے سامنے کوئی ایک علامت بھی اس کی تائید و موافقت میں موجود نہیں، اس لیے معًا بعد یہ ارشاد ہوتا ہے، آج تو ان پیشگوئیوں کو کون تسلیم کریگا، آج تو خود ہی تمہارا دل سارے ظاہری اسباب کامیابی سے مایوس ہوچکا ہے، فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ بِاَیِّکُمُ المَفْتُوْنُ!لیکن عنقریب تمہیں بھی نظر آجائے گا اور انہیں بھی تم دیکھ لوگے، اور یہ بھی دیکھ لیں گے، کہ واقعتًا نادان اور لایعقل اور سر پھرا ہوا کون ہے؟ آج یہ اپنے عقل وفہم کے غرّہ میں تمہیں نادان سمجھ رہے ہیں اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالمُھْتَدِیْنَ لیکن کل ان نادانوں کو بھی نظر آجائیگا کہ بھٹکا ہوا کون ہے اور راہ راست پر کون ہے! کس کا دماغ اوہام و خیالات فاسدہ میں پھنساہوا ہے، اور سر رشتہ حقیقت کس کے ہاتھ میں ہے! کائنات کا پروردگار خود ہی اس کا فیصلہ کرکے رہے گا، قیامت ہی کو نہیں ، اس مادّی و عنصری دنیا میں بھی۔

یہ فیصلہ عنقریب ہوکر رہے گا، نہ ہو، کہ اسے دور سمجھ کر یہ پیمبر اور حالاتِ مخالف کے ہجوم کودیکھ کر کہیں تم ان نالائق جھٹلانے والوں کے کہے سنے میں آجاؤ، فَلَا تُطِیْعِ المُکَذِّبِیْنَ، وَدُّوْا لَو تُدْھِنُ فَیُدْھِنُونَ، اور نہ ہوکہ ان باطل پرستوں کی مروت، یا صلح جوئی اور مصالحت پسندی، کے تقاضا سے اپنے فریضہ حق گوئی میں کچھ کمی آنے دو، یہ لوگ تو دل سے چاہتے ہی یہ ہیں کہ ادھر تم اپنے فرائض تبلیغ ورسالت میں نرم پڑو اور ادھر وہ اپنے مشق ستم میں نرمی اختیار کر لیں !بلا لحاظ عواقب، بلاخیال نتائج، دعوت حق وتبلیغ رسالت میں لگے رہو، یہ تمہیں ضدی کہیں ، جنگجو کہیں ، غیر مصلحت اندیش کہیں ، جو چاہیں کہیں ، ان کی مروت و خاطرمیں خود نرم پڑ جانے کا خیال تک دل میں نہ لانا۔

ہر نورکے مقابلہ میں ظلمت، ہر ہدایت کے مقابلہ میں ضلالت، ہر راستی کے مقابلہ میں کجی، فطرت کا دستور شروع سے چلا آرہا ہے، لطافت و پاکیزگی کے اس سر چشمہ، نیکی و خلوص کے اس سمندر، خوبی و محبوبی کے اس آفتاب کے مقابلہ میں لازمی تھاکہ دوسری طرف شرارت و نفاق، گندگی اور پلیدی، زشتی و خباثت کا ڈھیر بھی اسی درجہ کاہو، اسی لئے فورا ہی ارشادہوتا ہے، کہ کس کے ساتھ مصالحت کروگے؟ کس کی جانب اتحاد عمل کا ہاتھ بڑھاؤگے؟ کیا ایسوں کے ساتھ جن کی یہ خصوصیات ہو؟ کیا ان کی طرف جن کے یہ اوصاف ہوں؟ چھوٹے لپاڑئے، وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّا فٍ مُّھِیْنٍ ھَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِیْمٍ، مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ عُتُلٍ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ، اَنْ کَانَ ذَا مَالِ وَّبَنِیْنَ بات بات پربے ضرورت قسمیں کھانے والے ذلیل و خوار جنہیں اپنی عزت نفس کا ذرا خیال نہیں ، عیب لگانے والے، طعن کرنے والے، اِدھر سے اُدھر جاجاکر لگائی بجھائی کرنے والے، نیک کاموں میں روڑے اٹکانے والے، اپنی عقل کے غرّہ پر اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑنے والے، گناہوں کی گندگی میں لتھڑے رہنے والے، جھگڑے بکھیڑے کرنے والے اور پھرجس قوم و طبقہ میں شامل نہیں اسکی جانب نسبت کرنے والے اور یہ ساری اکڑ کیوں؟ اس لیے کہ اپنے مال اور اولاد پر فخر، اپنی جائیداد اور جتھے پر ناز ہے!

اسوہ رسولؐ

رسول ؐ آج چشمہ ظاہر سے مستور ہیں ، لیکن اسوہ رسولؐ مستور نہیں، وہ قدم، جس سے پریشانیوں کا رگڑنا ہمارے لیے اوج سعادت تھا، آج ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ، لیکن ’’نقش قدم‘‘ موجود ہیں۔ صاحب خُلق عظیم آج ’’رفیق اعلی‘‘ کی رفاقت میں ہے، لیکن ’’خلق عظیم‘‘ کی امانت انسانوں کے سپنوں اور کتب خانوں کے سفینوں میں آج بھی محفوظ ہے۔ پیمبر کا پیام زندہ ہے، کام زندہ ہے، نام زندہ ہے، اور آج خاک کا ہر پتلہ اپنے ظرف اور بساط کے مطابق، اس گنجئے نور سے کسب فیض کر سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح باطل پرستی کی بھی راہ آج بھی بند نہیں ، جس طرح صاحب ’’خلق عظیم‘‘ کی عُلوی نسبت زندہ و قائم ہے، اسی طرح ’’حلّاف مھین‘‘ کا سفلی سلسلہ بھی منقطع نہیں ہوا ہے۔ بے ضرورت حلف نامے شائع کرنے والے، غیر اللہ کی قسمیں کھانے والے، اسے کمال انشاء پردازی کا نمونہ سمجھ کر اس پر فخر کرنے والے، اپنے فوری مقاصد کے حصول کے لئے اپنے ہاتھوں اپنی عزت و شرافت ظرف کا خون کر ڈالنے والے، بیگانوں کے سامنے اپنوں کی مخبری و جاسوسی کرنے والے، نیک کاموں میں شرکت اور چندے سے مختلف حیلوں حوالوں سے روکنے والے، پردہ اور سود کے متعلق اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کو اپنی روشن خیالی کے زعم میں توڑ ڈالنے والے، ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھ کر ان پر فخر کرنے والے، لڑائی جھگڑوں کو طرح طرح کے پُر فریب طریقوں سے طول دینے والے، اپنی بڑائی کا نقارہ اپنے ہاتھ سے پیٹنے والے، پاک و پاکیزہ گروہوں کی جانب بلا استحقاق اپنی نسبت دینے والے، اور پھر یہ ساری زیادتیاں محض اپنے جتھے اور اپنے سرمایہ، اپنی پارٹی اور اپنے فنڈ کے بل پرکرنے والے، جب تک روئے ارض پر موجود ہیں ، کون کہہ سکتا ہے، کہ صبح سعادت کی پوری نورانیت و ذوفشانی کے ساتھ شب باطل بھی اپنی پوری تیرگی و سیاہی کے ساتھ موجود نہیں؟

ان بدنصیبوں کی بڑی شامت یہ ہوتی ہے، کہ انہیں جب اللہ کی نشانیوں پر توجہ دلائی جاتی ہیں، جب انہیں انہیں کے کرتوتوں کے نتائج پر آگاہ کیا جاتاہے، جب انہیں احکام الہی پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، تو یہ بے توجہی سے منہ پھیر لیتے ہیں وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِ اٰیٰاتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ اَلْاَوَّلِیْنَ اور بجائے توجہ والتفات کے کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو وہی سنی سنائی، پرانی کہانیاں ہیں! پستی و گمراہی کا یہ آخری مرتبہ ہوتا ہے، جب نصیحت یا موعظت بھی تلخ معلوم ہونے لگتی ہے، جب راستی سے بے تعلقی و بیزاری اس حد تک پہونچ جاتی ہے، جب حق و صداقت سے سارا رشتہ ٹوٹ کر پورا اعتماد صرف اپنی زکاوت و ذہانت اور اپنے جتھے اور سرمایہ پر رہ جاتا ہے تو اس وقت عذاب الہی، اس شکل میں نازل ہوتا ہے، کہ بدبخت کی ناک پر داغ سَنَسِمُہُ عَلَی اَلْخُرْطُوْمِ، لگا دیا جاتا ہے، اور اس کے چہرے کو داغ دار کردیا جاتا ہے، اور اسکی توہین و رسوائی کا سامان دنیا و آخرت دونوں عالموں میں کردیا جاتا ہے! آخرت میں ناک پر جس پر داغ لگایا جائے گا، اس کا حال وہی معلوم ہوسکتا ہے، البتہ دنیا میں ناک پر داغ لگنے کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شے جو انسان کو ایسا بدنام وہ رسوا کردے، کہ پھر وہ رسوائی اس سے دفعہ نہ ہوسکے۔ ہر وہ شے جو کسی کی سفیدی میں سیاہی لگادے، ہروہ شے جو کسی کے ایسے شرمناک جرم کو منظرعام پر لے آئے، جس کے بعد مجرم منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اس کے لیے وسم علی الخرطوم اس کی ’’ناک کا داغ‘‘ہے۔ حافظ حقیقی ایسے ناک کے داغ سے ہرمسلمان کو محفوظ رکھے ۔ (آمین!)