میلادی روایات۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

میلادی روایات - عبد الماجد دریابادی 
بعض پچھلے نمبروں میں بہ ذیل مراسلات، میلادی روایات کی صحت پر گفتگو آچکی ہے، آج کی صحبت میں پھر اس پر ایک نظرکرنا ہے۔

کلام مجید میں ذکر متعدد انبیاء کرام کا آتا ہے، لیکن صرف چند انبیاء کرام اور ان کے متعلقین ہیں، جن کی پیدائش یا ولادت کا ذکر آیا ہے۔ اس مختصرفہرست میں سب سے پہلے نام حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ آپ کی پیدائش خوارق عادات ایک مجموعہ تھی، اور فطرت کے عام دستور کے بالکل مخالف ہوئی۔ اوّل تو آپ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا گیا، پھر فرشتوں سے آپ کی تعظیم کرائی گئی، اور جس مخلوق نے آپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ہوگیا۔

آپ کو تمام اسماء کا علم کرادیا گیا، آپ کی پیدائش سے قبل فرشتوں سے خاص طور پر گفتگو فرمائی گئی اور پیدائش کے بعد ہی فرشتوں کے علم کا آپ کے علم کے مقابلہ میں امتحان لیا گیا، جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا سلسلہ واقعات عام انسانوں کی پیدائش کے قبل و بعد وجود میں لاتے رہنے کا دستور نہیں۔ زوج آدم علیہ السلام حضرت حوّا کی پیدائش کے بابت کوئی تصریح کلام مجید میں وارد نہیں، لیکن اس قدر ہے کہ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا (اسی نفس واحد، یعنی آدم علیہ السلام سے اس کے زوج کو پیدا کیا) اور اکثر مفسرین مثلًا امام ابن جریر، حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی وغیرہم نے قتادہؓ، سدیّ و ابن عباسؓ کے حوالہ دے کر یہ معنی لکھے ہیں، کہ آپ کی پیدائش فطرت معنی بالکل صحیح ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنا اشارہ تو کلام مجید سے بھی ہوتا ہے، کہ آپ کی پیدائش فطرت کے عام دستور سے ہٹ کر کسی اور طریق پر ہوئی تھی۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ میں کلام مجید سے ثابت ہے کہ بشارت دینے فرشتے، انسان کی صورت میں مرئی ہوکر آئے، جنھیں آپ کی والدہ نے، جو نبی نہ تھیں دیکھا، اور ان سے گفتگوکی اور ان فرشتوں نے انھیں حضرت اسحاق علیہ السلام کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بھی بشارت دی، اور ان کے دل کو تسلّی اور ڈھارس دی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت پر، ان کی والدہ پر، باوجود ان کے نبی نہ ہونے کے، وحی نازل ہوئی۔ ان کے دل کو تسلّی و تشفی دی گئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ بتایا گیا، ان کے محفوظ رہنے اورآئندہ پیمبر بننے کا علم جو اب تک پردہ غیب میں تھا، ان کی والدہ کو عطا کیا گیا۔ پھر سمندر میں ڈالے جانے کے بعد معجزانہ انداز سے آپ کی پرورش فرعون و اہل فرعون سے کرائی گئی، اور رضاعت پر آپ کی والدہ ماجدہ ہی کو مقر رکیا گیا۔ یہ ساری تصریحات کلام مجید ہی میں ہیں، احادیث میں اور زائد تفصیلات موجود ہیں۔ یہ سارے واقعات خوارق عادت ہیں یعنی فطرت کے عام دستور کے خلاف ہیں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت اس وقت ہوئی، جب آپ کے والد ماجد اپنے کو بوجہ ضعیفی تولید کے ناقابل اور آپ کی والدہ کو عقیمہ سمجھ چکے تھے۔ پھر اس مبارک ولادت کی بشارت فرشتوں نے پکار پکار کردی۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت تو ایک مجموعہ عجائب ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کا بغیر کسی مرد کے حاملہ ہوجانا، باوجود نبی نہ ہونے کے فرشتوں کا آپ سے گفتگو کرنا اور اپنے بطن سے ایک نبی مرسل کے تولد ہونے کی بشارت ملنا، وضع حمل کے وقت ایک چشمہ کا جاری ہوجانا، تازہ پھلوں کا خود بخود آکر گرنا، پھر حضرت مسیح علیہ السلام کا بچپن ہی میں بولنے لگنا، اور اپنی والدہ مکرّمہ کی پاک دامنی کی شہادت دینا۔ ہروقعہ بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ خود حضرت مریم کے پاس اپنے بچپن میں بغیر کسی ظاہری ذریعہ کے کھانا پہونچ جانا قرآن ہی میں درج ہے اور احادیث میں خوارق عادات کے مزید جزئیات مل جاتے ہیں۔

بہر حال اللہ کے جتنے نیک اور برگزیدہ بندوں اور بندیوں کی پیدائش کا ذکر کلام مجید میں ہے، ان سب میں یہ امر مشترک ہےکہ ان میں سے ہر ایک کی پیدائش کے وقت یا قبل یا بعد کچھ خوارق عادت کا ظہور ہوا ہے، یعنی ایسے واقعات برابر پیش آئے ہیں، جنہیں انسان اپنے محدود تجربہ میں، فطرت کے عام دستور کے خلاف پاتا اور سمجھتا ہے۔ خصوصا ماؤں کو غیبی بشارتیں ملنا، تو حضرت مسیح علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام، تینوں کی ولادتوں کے متعلق (باوجود ان کے نبی نہ ہونے کے ) ثابت ہے۔ پھر اگر رسولوں کے سردارؐ اور پیمبروں کے سرتاج کی ولادت کی بشارتیں فرشتوں نے پکار پکار کر دی ہوں، اگر اس آفتاب کے طلوع پر عالم ملکو ت میں غلغلہ شادمانی و مسرت برپا ہوا ہو، اگر اس نور مجسم ؐ کی والدہ ماجدہ کے لیے انوار غیب مرئی ہوگئے ہوں، اگر اس خوش نصیب و قابل رشک خاتون کے شہود میں بعض لطائف ملکوت لے آئے گئے ہوں، تو کیا کسی مسلمان کو اس پرحیرت ہونی چاہئے؟

کہا جاتا ہے کہ صحیح حدیثوں میں ان عجائب و خوارق کا ذکر نہیں، جو عموما میلاد ناموں میں درج ہیں۔ حدیثوں میں ان واقعات کا ذکر تو کثرت سے ہے، اس سے کسی گروہ کو بھی انکار نہیں۔ بحث صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح و قابل استناد بھی ہیں، یا ضعیف و موضوع؟ اس کے جواب کا حق عوام کو نہیں، بلکہ صرف ماہرین فن کو ہے، قانون، طب، فلسفہ، ادب، دنیا کے ہر علم و فن کی طرح فنِ حدیث بھی ایک مخصوص فن ہے، اور حدیثوں کا پَرکھنا، صحیح کو ضعیف سے الگ کرنا، صرف انھیں بزرگوں کا کام ہوسکتا ہے، جنھوں نے مخصوص اس فن کی تحصیل و تکمیل میں اپنی عمریں صرف کی ہوں، اور جن کا محدث و نقاد حدیث ہونا اہل فن کو مُسلم ہو۔

یہ سچ ہے، کہ بعض محدثین نے ان میلادی روایات کی تضعیف کی ہے، لیکن جن بزرگوں نے انھیں قبول کر کے اپنی تصانیف میں درج کیا ہے، اور ان سے استناد کیا ہے، ان کا علم وفضل، ان کا تبحر و دائرہ نظر بھی کچھ کم قابل احترام نہیں۔ ایسی حالت میں ہم عامیوں کے لیے ان روایات سے یکسر انکار کر بیٹھنا کہاں تک زیبا ہے؟ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ دورمتاخرین میں شاید محدثین کے سرتاج ہوئے ہیں۔ کسب میلاد کی تصنیف میں آپ کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن خود شاہ صاحبؒ نے جو فارسی میلاد نامہ تالیف فرمایا ہے، اس میں ان روایات سے انکار نہیں، بلکہ بعض کا اندراج موجود ہے۔ فرماتے ہیں :۔

’’ شب ولادت آنحضرت صلعم درحرکت آمد کوشک کسری تاآنکہ شنیدہ شد آواز وے وافتاداز آنجا چہاردہ کنگرہ، دبمرد آتش فارس و نمردہ بود پیش ازاں بہز ارسال وخشک شد چشمہ ساوہ‘‘ …سرور المخرون، صفحہ ۳ مجتبائی، دہلی…

آنحضرت صلعم کی شب ولادت کسری کے محل میں لرزہ پڑا جس کی آواز سنی گئی، اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور آتش فارس جو ایک ہزار سال سے برابر روشن تھی بجھ گئی، اور چشمہ ساوہ خشک ہوگیا۔

یہ روایتیں عام طور سے میلاد ناموں میں بیان کی گئی ہیں اورشاہ صاحبؒ کا انھیں قبول کرلینا ہم عامیوں کے لیے کافی تشفی بخش ہوجانا چاہئے۔

آج سے ساڑھے تین سوسال قبل، ہندوستان کے ایک اور فاضل، حضرت شاہ عبد الحقؒ دہلوی فن حدیث کے ایک ممتاز و مستند عالم گزرے ہیں، آپ کا ایک رسالہ عربی میں ماثبت بالسنّۃکے نام سے ہے، جس کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس رسالہ کے صفحہ۳۷ سے لے کر صفحہ۴۰ تک میلاد مبارک کے سلسلہ میں جو عجائب وخوارق عام میلاد ناموں میں مذکور ہیں، تقریبا سب کے سب درج ہیں، مثلا قریش کا پہلے سے خشک سالی میں مبتلا ہونا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب ولادت کی برکت سے کھیتوں کا سرسبز ہوجانا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کو حمل کی گرانی نہ محسوس ہونا، ہر مہینے رؤیا میں بشارتیں ملتے رہنا، وضع حمل کے وقت نورانی پرندوں کا نظر آنا، فضاء میں بیویوں کا چاندی کے لوٹے لیے ہوئے دکھائی دینا، زمین کے مشرق ومغرب کے انتہائی سرے تک نظرکے سامنے آجانا، ایک عَلم کا مشرق میں، ایک عَلم کا مغرب میں، اور ایک علم کا پشت کعبہ پر نصب ہونا، ایوان کسری میں زلزلہ پڑنا، اور چودہ ستونوں کا گرجانا، آتش عجم کا ہزارسالہ روشنی کے بعد بجھ جانا وغیرہ وغیرہ، اور پھر کچھ یہ نہیں، کہ اس رسالہ میں رطب ویابس سب ہی کچھ جمع کردیا گیا ہے، بلکہ عجائب و خوارق میلاد کی ابتداء میں محقق مصنف نے تصریح کردی ہے کہ اس میں صرف وہی اخبار درج کیے گئے ہیں، جو روایات احادیث کے مسلّم و متعارف طریقوں سے صحیح ثابت ہوچکے ہیں! واَوردنا من الاخبار ما وَرد صحّ من الطریق المتعارفِ فی روایۃ الاحادیث … صفحہ۳۷ نولکشوری…

اور صرف اسی رسالہ میں نہیں بلکہ سیرت نبوی ؐ پر مدارح النبوۃ کے نام سے حضرت شیخ ؒ کی جو مشہور کتاب فارسی میں ہزار ڈیڑھ ہزار صفحات کی ضخامت کی ہے، اس میں بھی ان واقعات کو اور زیادہ تفصیل کے ساتھ دوہرایا ہے۔ …جلد دوم، صفحہ ۱۵تا۲۳مطبوعہ فخر المطابع ۱۲۷۱ھ؁… حضرت شیخ کا ان روایات کو نقل کرنا اور ان کی تصحیح، توثیق کرنا۔ کسی عامی کا نقل کرنا نہیں۔

ان دونوں بزرگوں سے بھی بڑھ کر شہادت قاضی عیاض مالکیؒ کی ہے، جو پانچویں اور چھٹی صدی کے ایک نامور محدث اور صحیح مسلم کے مشہور شارح گزرے ہیں اور فن حدیث میں ان کا یہ مرتبہ ہے، کہ بخاری و مسلم کے مشہور شارحین، امام نوویؒ، علامہ ابن حجرؒ وغیرہ سب ان سے استناد کرتے ہیں۔ ان کی کتاب الشفا فی تعریف حقوق المصطفے، کی بابت صاحب کشف الظنون کہتے ہیں ’’وہو کتابٌ جلیلٌ عظیمٌ النفع، کثیر البرکۃ لم یولَّفَ مثلہ فی فنہ فی الاسلام‘‘ اورشاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ’’ایں کتاب از عجائب کتب مصنفہ ایں باب است دخیلے مقبول افتادہ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ودرحق آں کتاب علماء وشعراء اطالت مدح و ثنا نمودہ اند …بستان المحدثین، صفحہ۱۳۰، ۱۲۹ مطبع محمدی لاہور… اس کتاب جلیل کی جلد اول کی ’’قسم رابع‘‘کے آخر میں ایک مستقل فصل، آیات وقت ولادت مبارک پر ہے۔ اس کے الفاظ ذیل ملا حظہ ہوں:۔

ومن ذلک ماظہر من الایات عند مولدہ وما حکتہ امّہ ومن حضرہ من العجائب وکونہ رافعا راسہ عند ما وضعتہ شاخصا ببصرہ الی السماء وما رأتہ من النور الّذی خرج معہ عند ولادتہ وماراتہ اذ ذاک ام عثمان ابن ابی العاص من تدنی النجوم وظہور النور عند ولادتہ حتی ما تنظر الاّ النور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وما جری من العجائب لیلۃ مولدہ صلعم من ارتحاج ایوان کسریٰ وسقوط شرفاتہٖ وخیض بحیرہ طبریۃ وخمود نار فارس وکان لہا الف عام لہ تخمد اوراسی طرح کے معجزات میں وہ آیات و عجائب بھی ہیں جو آپ کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئیں اور جنہیں آپ کی والدہ نے اور ان لوگوں نے بیان کیا جو وہاں موجود تھے۔ اوروہ یہ ہیں کہ جب آپ دنیا میں ظاہر ہوئے، توآپ اپنا سر (گویا دعا کے لیے) بلند کیے ہوئے تھے، اور آسمان کی طرف نظر فرمارہے تھے۔ نیز وہ امر جسے عثمان بن ابو العاص کی والدہ نے دیکھا تھاکہ آپ کی ولادت کے وقت ستارے جھک کر آپ سے قریب ہوگئے تھے، اور آپ سے ایک ایسا نور عظیم ظاہر ہوا، کہ ان کو کچھ نظر نہیں آتاتھا بجز اُس نُور کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو عجائب آپ کی شب ولادت میں ظاہر ہوئے مثلا ایوان کسریٰ کا زلزلہ اور اس کے ستونوں کا گرپڑنا، اور بحیرہ طبریہ کا خشک ہو جانا اور آتش عجم کا جو ہزار سال سے روشن تھی بجھ جانا۔

یہ شہادتیں ان بزرگوں کی تھیں، جو حدیث و سنّت کی پرکھ رکھنے والے اور فن حدیث کے جاننے والے تھے۔ انہوں نے ان روایات کو رد نہیں کیا، بلکہ قبول کرکے اپنے صفحات میں جگہ دی۔ باقی جن محدثین کرام نے اوّل بار ان روایات کو شائع کیا اور اپنے مجموعہ تالیفات میں جگہ دی، بیہقی و حاکم، ابو نعیم و طبرانی وغیرہم۔ ان میں کوئی بھی کذب و غلط بیانی کے ساتھ متہم نہیں۔ صرف اتنا ہے کہ ان بزرگوں کا معیار روایت اس طرح بلند نہیں، جتنا بخاریؒ و مسلمؒ وغیرہ کا تھا۔ یہ ہرگز مقصد نہیں کہ ان روایات کو جزو دین بنالیا جائے، اور ان کے رد و قبول کو کفر و اسلام کا معیار قرار دے دیا جائے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی زیادتی ہے کہ ان روایات کو سرے سے ناقابل قبول سمجھ کر ان سے یکسر انکار کر دیا جائے اور اس انکار کو اپنی تحقیق و روشن خیالی کی دستاویز قرار دیا جائے۔