توہين رسالت کى سزا پرجارى مباحثہ ، چند گزارشات- ابو عمار زاہد الراشدى

ماہنامہ الشريعہ ، گوجرانوالہ
 تاريخ اشاعت ، اکتوبر 2011ء
توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے بارے میں امت میں عمومی طور پر یہ اتفاق تو پایا جاتا ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے لعین و شقی شخص کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کی فقہی اور عملی صورتوں پر فقہائے امت میں اختلاف ہر دور میں موجود رہا ہے کہ
مسلمان کہلانے والے گستاخِ رسول کو موت کی یہ سزا مستقل حد کی صورت میں دی جائے گی یا ارتداد کے جرم میں اسے یہ سزا ملے گی؟ اور اس کے لیے توبہ کی سہولت و گنجائش موجود ہے یا نہیں؟
اسی طرح غیر مسلم گستاخِ رسول کو یہ سزا تعزیر کے طور پر دی جائے گی یا اس کی فقہی نوعیت کچھ اور ہوگی؟ اور ایک ذمی کا عہد اس قبیح جرم کے ارتکاب کے بعد قائم رہ جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟

ان اختلافی صورتوں پر ہمارے دور کے علمائے کرام کے درمیان بھی بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف دینی جرائد میں ان عنوانات پر تحقیقی مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ ’’الشریعہ‘‘ کے آغاز سے ہی ہمارا یہ ذوق اور موقف چلا آ رہا ہے کہ اس نوعیت کے مسائل پر علمی مباحثہ کھلے دل کے ساتھ ہونا چاہیے اور کسی مسئلہ کے تمام پہلو اہلِ علم کے سامنے رہنے چاہئیں تاکہ انہیں رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ ’’الشریعہ‘‘ خود اس قسم کے مباحثوں کا مستقل فورم ہے جس پر ہمیں بعض حلقوں کی طرف سے طعن و اعتراض بلکہ بعض مواقع پر طنز و استہزا کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر اس کے باوجود ہم ایسے مسائل پر کھلے علمی و تحقیقی مباحثہ کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری رکھنے کے موقف و عزم پر قائم ہیں۔

مذکورہ مسئلہ پر ملک کے جن اہلِ علم نے سنجیدگی سے قلم اٹھایا ہے ان میں دیگر علماء کرام کے علاوہ مولانا مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی، مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا مفتی ڈاکٹر عبد الواحد، مولانا مفتی محمد زاہد، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، پروفیسر مشتاق احمد اور حافظ محمد عمار خان ناصر بطور خاص قابل ذکر ہیں، اور ہم ان سب حضرات کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک علمی مباحثہ کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ دی اور اس میں حصہ لیا۔ البتہ اس مباحثہ کے حوالے سے راقم الحروف کے کچھ ذاتی تحفظات ہیں جن کی طرف ارباب علم و دانش کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔

پہلی گزارش یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والے لعین شاتمِ رسول کے لیے توبہ کی گنجائش کے مسئلہ پر علامہ ابن عابدین شامیؒ نے اب سے پونے دو سو برس قبل خلافتِ عثمانیہ کے دور میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ چونکہ ارتداد ہے اور کسی بھی مرتد کے لیے توبہ کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے اسے ارتداد کے احکام کے تحت توبہ کا موقع ملنا چاہیے۔ اور متقدمین حنفی فقہاء کا موقف بھی ابن عابدین شامیؒ کے بقول یہی ہے۔ حالیہ مباحثہ میں ہمارے ایک فاضل دوست نے اسے علامہ شامی کا ’’تسامح‘‘ قرار دیا ہے اور دوسرے فاضل دوست نے اسے ’’مغالطہ‘‘ کہہ کر علامہ شامیؒ کے موقف کو پس منظر میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ علامہ شامیؒ نے یہ بات چلتے چلتے کسی جگہ سرسری انداز میں نہیں کی بلکہ اسے مستقل موضوعِ بحث بنا کر اس پر کلام کیا ہے اور اس پر تفصیلی دلائل پیش کیے ہیں۔

مثلاً انہوں نے ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ میں لکھا ہے کہ بعض مسائل عام طور پر احناف کے موقف کے طور پر مشہور ہو گئے ہیں حالانکہ وہ احناف کا موقف نہیں ہیں۔ ان میں علامہ شامیؒ نے یہ مسئلہ بھی ذکر کیا ہے کہ مشہور یہ ہے کہ احناف کے ہاں شاتمِ رسول کے لیے توبہ کی گنجائش نہیں ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ احناف اسے ارتداد سمجھتے ہیں اور مرتد کے لیے توبہ کی گنجائش موجود ہے۔ پھر علامہ شامیؒ نے اپنی کتاب ’’العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ‘‘ میں یہ مسئلہ بیان کیا اور اس پر اس وقت کے مفتی حمص علامہ عبد الستار آفندیؒ نے کچھ اشکالات پیش کیے تو ان کے جواب میں علامہ شامیؒ نے ’’تنبیہ الولاۃ والحکام‘‘ کے نام سے مستقل رسالہ لکھا جس میں انہوں نے پوری وضاحت اور دلائل کے ساتھ یہ موقف پیش کیا ہے۔ یہ بات بطورِ خاص قابلِ توجہ ہے کہ علامہ شامیؒ نے، جو خلافتِ عثمانیہ کے دور میں احناف کے سب سے بڑے ترجمان اور مفتی تھے، حتٰی کہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور بھارت پر مشتمل پورے خطے میں حنفی مفتیان کرام (دیوبندی اور بریلوی دونوں) کے فتاوٰی کا سب سے قریبی اور بڑا ماخذ وہی چلے آ رہے ہیں، انہوں نے یہ رسالہ ’’تنبیہ الولاۃ والحکام‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے حکّام سے مخاطب ہیں اور قانون سازی اور حکومتی پالیسی کے حوالے سے ان کی راہنمائی کر رہے ہیں۔

علامہ شامیؒ نے اپنے موقف کی حمایت میں جو تفصیلی دلائل دیے ہیں وہ اس رسالہ میں پڑھے جا سکتے ہیں، مگر ہم اس سلسلے میں تفصیلات میں جانے کی بجائے صرف دو تین حوالوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ شامی اپنے موقف میں تنہا نہیں ہیں بلکہ بعض اکابر ائمہ احناف کی صریح حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ مثلاً امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ ص ۱۸۲ میں لکھا ہے کہ جو مسلمان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرے وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کی بیوی اس سے بائن ہو جاتی ہے ’’فان تاب والا قتل‘‘ اگر وہ توبہ کر لے تو فبہا ورنہ اسے قتل کر دیا جائے۔ اسی طرح امام طحاویؒ نے بھی ’’مختصر الطحاوی‘‘ ص ۲۶۲ میں یہی موقف بیان کیا ہے کہ ہمارے نزدیک ایسا شخص مرتد ہے اور اس پر مرتد کے تمام احکام لاگو ہوں گے۔ جبکہ امام طحاویؒ ص ۲۵۸ پر مرتد کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’فان تاب والا قتل‘‘ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ یہ تو ائمہ احناف ہیں اور اگر اس سے ذرا پیچھے اور اوپر کی طرف نظر ڈالیں تو امام القیم نے ’’زاد المعاد‘‘ ج ۵ ص ۶۰ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی موقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ایما مسلم سب اللہ ورسولہ او سب احدا من الانبیاء فقد کذب برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہی ردۃ یستتاب فان رجع والا قتل‘‘۔

مجھے اس پر اصرار نہیں ہے کہ آپ یہ موقف ضرور قبول کریں، آپ کو اس سے اختلاف کا حق ہے۔ اگر آپ دوسرے فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے دلائل پر اطمینان رکھتے ہیں تو اسے ترجیح دیں لیکن ابن عابدینؒ کے موقف کو، جس پر انہوں نے تفصیلی دلائل دیے ہیں اور جس میں انہیں امام ابو یوسفؒ، امام طحاویؒ اور سب سے بڑھ کر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی صریح حمایت حاصل ہے، اسے ابن عابدینؒ کا تسامح یا مغالطہ قرار دے کر اس کی علمی اہمیت کو کم کرنے کا آپ کو بہرحال حق حاصل نہیں ہے۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے ایک انتہائی عزیز فاضل نے ابن عابدین شامیؒ کے اس موقف کی حمایت کو ’’حنفیت کے نام پر غامدیت کی ترجمانی‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا ہے جو خلافِ واقعہ اور علمی دیانت کے خلاف ہے۔ جہاں تک جاوید احمد غامدی صاحب کا تعلق ہے، میں خود ان کے ناقدین میں سے ہوں، ان کے طرزِ استدلال و استنباط اور ان کے بعض نتائجِ فکر دونوں سے میں نے اختلاف کیا ہے اور اس پر نقد کیا ہے۔ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، روزنامہ اوصاف اسلام آباد اور روزنامہ پاکستان لاہور میں اس سلسلے میں میرے ایک درجن کے لگ بھگ مضامین شائع ہو چکے ہیں جو کتابی مجموعہ کی صورت میں الگ بھی طبع ہوئے ہیں۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں ’’غامدیت‘‘ کے حوالے سے گفتگو قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور میں یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس، امام ابو یوسفؒ، امام طحاویؒ اور ابن عابدین شامیؒ کے موقف کو ’’غامدیت‘‘ قرار دینے سے ان بزرگوں کے موقف کا استخفاف مقصود ہے یا غامدی صاحب کو یہ کہہ کر حوصلہ دلایا جا رہا ہے کہ وہ پریشان نہ ہوں، ان کا اختیار کردہ موقف اس قدر مؤثر بلکہ مؤثر بہ ماضی ہے کہ ان کی ولادت سے ایک ہزار سال پہلے کے ائمہ بھی ان کی حمایت کر کے گئے ہیں۔ غامدی صاحب کا جو موقف ماضی کے مسلمہ اہل علم سے مختلف ہے یا شریعت کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے، اس پر ضرور تنقید کیجیے، میں خود ان کے اور ان کے رفقائے فکر کے مختلف مضامین پر نقد کر چکا ہوں، لیکن اگر وہ ماضی کے مسلّمہ اہلِ علم کی کسی بات کو اپنے موقف کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اسے ’’غامدیت‘‘ سے تعبیر کرنا علمی اور اخلاقی دونوں حوالوں سے محلِ نظر ہے۔ میں اس لہجے میں بات کرنے کا عادی نہیں ہوں، لیکن اگر یہ لہجہ ضروری سمجھ لیا گیا ہے تو میں اسے ’’غامدیت کے طعنے کی آڑ میں ائمۂ احناف کے موقف کا استخفاف‘‘ قرار دینے کو ترجیح دوں گا جو بہرحال کسی صاحبِ علم کے شایان شان نہیں ہے۔

تیسری گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ اختلاف رائے کے مختلف دائرے ہیں اور ہر دائرے کے الگ الگ احکام ہیں۔ مثلاً (۱) تکفیر (۲) تضلیل (۳) تفسیق (۴) تجہیل (۵) تخطۂ اور (۶) ترجیح کے مستقل دائرے ہیں جن کے الگ الگ تقاضے اہلِ علم کے ہاں مسلّم ہیں اور ہر دور میں ان کا احترام کیا جاتا رہا ہے۔ مگر ہم نے ان مختلف دائروں کو اس طرح آپس میں گڈمڈ کر رکھا ہے کہ کچھ پلے نہیں پڑتا کہ کون صاحب کس دائرے کی بات کر رہے ہیں اور بسا اوقات ؏ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کی کیفیت نظر آنے لگتی ہے۔ بات راجح و مرجوح کی ہوتی ہے اور ہم ناسخ و منسوخ کے لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں، زیر بحث مسئلہ تعبیر و تشریح کا ہوتا ہے مگر ہم تکفیر و تضلیل کے ہتھیار اٹھا کر اس کا تیاپانچہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور صورت مسئلہ صواب و خطا کے دائرے کی ہوتی ہے مگر اسے حق و باطل کا معرکہ بنائے بغیر ہماری تسلی نہیں ہوتی۔ مثلاً شاتمِ رسول کے لیے توبہ کی گنجائش کے زیربحث مسئلہ کو لیجیے۔ اگر اس میں متاخرین فقہائے احنافؒ کے اس ارشاد کو بھی لے لیا جائے کہ توبہ کی گنجائش نہیں ہے اور شاتمِ رسول کو ہر صورت میں قتل ہی کیا جائے گا، بلکہ اس کے ساتھ حضرت امام محمدؒ کی طرف منسوب ایک قول بھی شامل کر لیا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ بات یہ ہوگی کہ احناف کے ہاں یہ راجح و مرجوح کا مسئلہ قرار پائے گا، اور فقہائے زمانہ کے لیے دونوں طرف کی گنجائش موجود ہوگی کہ وہ اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بحث کفر و اسلام کے معرکہ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اختلاف کرنے والوں کے لیے ہمارے پاس لادینیت اور گمراہی سے کم کوئی فتوٰی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی بات جس درجہ اور سطح کی ہو، اسے اسی دائرے میں رکھا جائے تو اس کا حسن اور وزن دونوں ہر صاحبِ نظر کو محسوس ہوتے ہیں، لیکن اگر طعن و تشنیع اور الزام تراشی کے تیز مسالوں کے ساتھ اسے چٹخارہ دار بنانے کی کوشش کی جائے تو اس کا حسن اور وزن، دونوں ان چٹخاروں میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

چوتھے نمبر پر یہ عرض ہے کہ مجھے محترم ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کے اس ارشاد سے ایک حد تک اتفاق ہے کہ جب جمہوری اصولوں کے مطابق ایک مسلمان ملک کے مسلمان باشندوں کو اپنے مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا حق حاصل ہے، اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کو جرم قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے ان کا سزائے موت مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اصولوں کے مطابق ہے اور اس سزا کی شرعی بنیادیں بھی موجود ہیں، اور حالات میں کوئی ایسی تبدیلی بھی نہیں آئی جو خود کسی ترمیم کا تقاضا کرتی ہو، اور نہ ملک کے مذہبی وابستگی رکھنے والوں کی طرف سے کسی ترمیم کا مطالبہ ہوا ہے، تو پھر الگ تحقیق لانے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ ملک کے جمہور مسلمانوں کو اس تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ تو حسبِ حال قانون بنا چکے ہیں اور اس پر وہ مطمئن بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اس ارشاد کی فی الجملہ تائید کرتے ہوئے گزارش ہے کہ میرے نزدیک اس مسئلے پر غور و خوض اور بحث کا اصل دائرہ یہی ہے کیونکہ یہ مسئلہ حق و باطل کا نہیں بلکہ ترجیحات کا ہے، اور شرعی دلائل کے تقابل کا نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا ہے۔ کیونکہ فقہائے کرام دونوں طرف موجود ہیں اور دلائل بھی دونوں کے پاس وافر ہیں۔ اصل غور طلب بات یہ ہے کہ آج کے دور میں تحفظِ ناموسِ رسالت کی معروضی کشمکش اور مصلحتِ عامہ کی صورتحال کیا ہے؟ اس لیے اس بات پر بحث کی ضرورت ہے کہ امتِ مسلمہ کی موجودہ صورتحال، آج کے عالمی تناظر میں حق و باطل کے عالمی معرکہ، تحفظِ ناموسِ رسالت کے ناگزیر تقاضوں، اور مغرب کی فکری و ثقافتی یلغار کا راستہ روکنے کے لیے آج کے حالات میں کون سا موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟

دونوں میں سے جو موقف بھی آپ اختیار کریں گے وہ شرعی موقف ہی ہوگا کیونکہ فقہائے کرام کے علمی و فقہی اختلافات میں حسن و کمال کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ وقت کے تقاضوں اور حالات کی ضروریات کے مطابق آپ کے پاس گنجائش موجود رہتی ہے کہ آپ مصلحتِ عامہ اور مِلی مفاد کی خاطر ان میں سے کوئی موقف بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس لیے اپنے ہی بزرگوں اور اسلاف میں سے کسی کے اختیار کردہ موقف کو باطل ثابت کرنے کی بے محل بحثوں میں الجھے رہنے کی بجائے اپنی علمی صلاحیتیں اور توانائیاں یہ واضح کرنے پر صرف کریں کہ آج جس انداز میں مغرب کی ثقافتی یلغار ہماری دینی اقدار اور مِلی روایات کو پامال کرنے میں مصروف ہے، توہینِ رسالت کا مسئلہ نارمل صورتحال میں رہنے کی بجائے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی عالمی مہم کی صورت اختیار کر گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مسلمانوں کی بے لچک جذباتی وابستگی کو جس شرمناک طریقے سے چیلنج کیا جا رہا ہے، اس کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا کو سخت سے سخت کیا جائے اور اس معاملہ میں کوئی لچک روا نہ رکھی جائے۔ جبکہ بہت سے فقہاء کے ہاں حکومتِ وقت کو سیاستاً حد سے بھی زیادہ سخت اور سنگین سزا مقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس سادہ اور واضح استدلال کے ہوتے ہوئے توہین رسالت پر سزائے موت کے حوالے سے غیر ضروری فقہی اور فنی مباحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟