ڈاکٹر محمد عامر گزدر
کتبِ حدیث کے تمام اصلی مراجع عربی زبان میں ہیں جو زیادہ تر عرب دنیا سے شائع ہوتے ہیں۔صحیح بخاری ہو یا صحیح مسلم یا حدیث کی دوسری کوئی بھی کتاب؛ یہ سب کتب مختلف زمانوں میں متفرق شہروں اور پبلشرز کی خدمات سے عربی زبان میں بار با ر شائع ہوتی رہتی ہیں۔اِن اصل کتابوں کے مختلف ایڈیشنز میں احادیث کے نمبروں کا کچھ نہ کچھ فرق بھی قارئین کے سامنےآتا ہے۔
در اصل اِن کتابوں میں احادیث کو اِس طرح نمبر دینا خود ائمۂ محدثین کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدمت بعد میں لوگوں نے پرنٹنگ پریس کے دور میں آکر اِن کتابوں کی طباعت کرتے ہوئے حدیثوں کا حوالہ دینے کے لیے قارئین کی سہولت کے پیش نظر انجام دی ہے۔ اِس کام میں بھی اہلِ علم کی مدد لی گئی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے روایتوں کو گننے کے طریقوں میں علما کا طرزِ عمل مختلف ومتنوع رہا ہے۔ بعض حضرات کتاب میں وارد ہونے والی ہر ہر روایت کو بالترتیب شمار کرتے ہیں۔ بعض نے مکرر روایتوں کو شمار نہیں کیا۔ بعض مرسل احادیث کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں، جب کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے۔ بعض حضرات صرف مرفوع احادیث، یعنی نبی ﷺ کے قول وفعل کی روایتوں کو شمار کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ بعض موقوف ومقطوع روایتوں، یعنی صحابہ وتابعین کے آثار کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی بنا پر اصل مؤلفات کے مطبوعہ مختلف نسخوں میں احادیث کے نمبر ہمیں مختلف بھی ملتے ہیں۔
اب دور حاضر کے معتمد اہلِ علم حضرات حدیث کے اِن متنوع مراجعِ اصلیہ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی اپنی کتابوں میں جب بھی کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں تو جو ایڈیشن اور نسخہ جس صاحبِ علم کو میسر ہوتا ہے، وہ اپنی کتاب میں حدیثِ نبوی کا حوالہ نمبر بھی اُسی سے اخذ کرکے درج کرتا ہے۔
اِس تفصیل کی روشنی میں سمجھ لینا چاہیے کہ مختلف دینی کتابوں، ویب سائٹس، سافٹ وئیرز اور ایپلیکیشنز میں احادیث کے نمبروں کا کوئی اختلاف اگر عام قارئین کو دکھائی دیتا ہے تو وہ در حقیقت دنیا میں حدیث کے مراجع اصلیہ کے مختلف نسخوں اور ایڈیشنز میں روایتوں کو گننے اور نمبر دینے کے مختلف طریقوں کو اپنائے جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں حدیث کی کوئی اصل کتاب کتنے اجزا/جلدوں میں شائع کرنی ہے اور ہر جزو کتنے صفحات پر محیط ہونا چاہیے، اِس کا فیصلہ سر تا سر ایک انتظامی نوعیت کی چیز ہے جو ہر پبلشر کی اپنی صواب دید پر مبنی ہوتا ہے۔بعض اوقات ایک کتاب کوئی مکتبہ ایک جلد میں شائع کرتا ہے، جب کہ وہی کتاب کوئی دوسرا پبلشر دو جلدوں میں نشر کرتا ہے۔ چنانچہ واضح رہے کہ حدیث کے نمبروں کے علاوہ جزو اور صفحہ کے اختلاف کا پایا جانا بھی ایک معمول کی بات ہے۔ اِس سے بھی توحش نہیں ہونا چاہیے۔
اِسی طرح کا معاملہ اِن اصل کتابوں کے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے تراجم کا بھی ہے۔یعنی جو ترجمہ جس اصل نسخے کو معیار بناکر کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ اُس میں احادیث کی نمبرنگ بھی اُسی کی مناسبت سے درج کی گئی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ تراجمِ حدیث کے مجموعوں میں بھی احادیث کے ایک ہی طرح کےنمبروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔کسی بھی صاحبِ علم کی طرف سے دیے گئے حدیثِ نبوی کے کسی حوالے کو چیک کرنا ہو تو اِس کا سادہ طریقہ یہ ہے کہ اُس کی کتاب یا مقالے سے یہ معلوم کیا جائے کہ اُس نے وہ حوالہ اصل کتاب کے کس مطبوعہ نسخے سے اخذ کر کے دیا ہے۔
تاہم حدیثِ نبوی کا حوالہ کون دے رہا ہے، اِس معاملے میں لوگوں کو بہرحال حساس اور محتاط رہنا چاہیے، اِس لیے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا پر حدیثِ نبوی کے نام پر جھوٹی اوربے سر وپا باتیں نشر کرنے کا بہت رواج ہوچکا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بغیر علم وتحقیق کے کوئی بات بیان کرنے، اُسے لکھنے اور نشر کرنے سے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔