علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۲)

سید منظور الحسن

 احادیث  اور صحابہ کے بعد کا زمانہ

صحابۂ کرام سے آگے یہ احادیث تابعین، تبع تابعین ، تبع تبع تابعین اور بعد کے محدثین کے سلسلۂ روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ۱۱؎

دوسری صدی ہجری میں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کم و بیش ایک سو سال بعد علما میں حدیث کی جمع و تدوین کا شوق نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔چنانچہ انھوں نے احادیث کو حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے۔ لوگوں میں اس علمی رحلت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔  ۱۲؎

حدیث کے طالب علموں کے یہ سفر جہاں اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے اکتساب فیض کے شوق کو نمایاں کرتے ہیں، وہاں اِس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ محدثین کی یہ کاوشیں اصل دین کے حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ اُن کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا۔ ان کا مقصد ازدیادعلم تھا، دین کی تفہیم مزید تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل، یعنی اسوۂ حسنہ سے فیض یاب ہونا تھا۔ اگر اصل دین کے حصول کو ان کاوشوں کا محرک سمجھا جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کے سو ڈیڑھ سوسال تک مکمل دین یا اُس کی ضروری معلومات معاذ اللہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ یہ ماننا، ظاہر ہے کہ قرآن مجید کےبھی خلاف ہے اور تاریخی شہادت کے بھی مطابق نہیں ہے۔

احادیث کی جمع و تدوین کا اہتمام

حکومت و ریاست کی سرپرستی میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انجام دیا۔  وہ تابعی تھے اور خود بھی محدث تھے۔ اُن کا شمار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ وہ ۹۹ھ میں خلیفہ بنے اور اُنھوں نے مختلف علاقوں کے علما و محدثین کو احادیث جمع کرنے کےکام پر مامور کیا۔ اُنھیں ڈر تھا کہ کبار تابعین کی وفات سے حدیث کا علم ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جن شخصیات کو اس کام پر مقرر کیا ،اُن میں سب سے نمایاں نام ابن شہاب زہری کا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز صرف دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد ۱۰۱ ھ میں وفات پا گئے۔ ۱۳؎

درج بالا تفصیل سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے کہ حدیث کی جمع و تدوین کا کام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اڑھائی سو سال بعد شروع ہوا۔ تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ انھیں یاد رکھنے اور جمع کرنے کا کام بعض صحابۂ کرام نے زمانۂ رسالت ہی میں شروع کر دیا  تھا جو بلا انقطاع امت میں جاری رہا اور بہ تدریج ایک منضبط علم کے طور پر ترتیب پا گیا۔

اسی طرح یہ تاثر بھی درست نہیں ہےکہ زمانۂ رسالت میں یا صحابہ کے زمانے میں حدیث کی جمع و تدوین کا کام اہتمام کے ساتھ اور دین کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری کے طور پر کیا گیا ۔ خلفاے راشدین اور اُن کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور اِس اہتمام سے خالی ہے۔

احادیث کی ترتیب اور تہذیب کا جو کام ابن شہاب زہری نے شروع کیا تھا، اسے اُن کے شاگردوں نے آگے بڑھایا۔ اس میں سب سے نمایاں کام امام مالک بن انس اصبحی نے انجام دیا ۔ انھوں نے احادیث کو ابواب میں ترتیب دے کر”موطا“ کے نام سے پہلا مجموعۂ احادیث  مرتب کیا۔ اُنھوں نے اسے ۱۳۶ھ میں مرتب کرنا شروع کیا اور ۱۵۸ ھ میں کتابی صورت میں مکمل کیا ۔اس صدی ہجری میں حدیث کی جو کتابیں مرتب ہوئیں، اُن میں سنن ابو الولید (۱۵۱ھ)، جامع سفیان ثوری (۱۶۱ھ)، مصنف ابی سلمہ (۱۶۷ھ)، مصنف ابن سفیان (۱۹۷ ھ) اور جامع سفیان بن عیینہ (۱۹۸) نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ ابن جریج ، ابن اسحاق،  اوزاعی، معمر اور بعض دیگر علما نے بھی حدیث پر کام کیا۔

تاہم، اس دوسری صدی کے کام کا بیش تر حصہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ ۱۴؎

جھوٹی روایتوں کی کثرت

دوسری صدی ہجری میں جب احادیث کو جمع کرنے اور روایت کرنے کی اہمیت نمایاں ہونے لگی تو  بعض سیاسی اور مذہبی عوامل کی بنا پر جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اِسے ہماری تاریخ میں وضع حدیث کے فتنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس فتنے کی شدت کا اندازہ خلیفہ ہارون الرشید (۱۴۹ ھ -۱۹۳ ھ) کے ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو جھوٹی حدیثیں وضع کر کے انھیں لوگوں میں عام کرتا تھا۔ خلیفہ نے اس جرم کی پاداش میں اُس کے لیے سزاے موت کا حکم صادر کیا۔ اس پر اُس نے کہا کہ تم مجھے تو قتل کر دو گے، مگر اُن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جو میں گھڑ کر لوگوں میں پھیلا چکا ہوں اور جن میں سے ایک  بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے۔ ۱۵؎

جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں میں کئی طرح کے لوگ تھے جو مختلف مقاصد کے تحت حدیثیں تیار کیا کرتے تھے:

اِن میں اکثریت صالح اور عبادت گزار لوگوں پر مشتمل تھی۔وہ لوگوں کو عبادت کی طرف راغب کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں تشکیل دیتے تھے۔  ۱۶؎

سیاسی مقاصد کے لیے بھی بے شمار احادیث وضع کی گئیں۔ ان میں بنو امیہ اور بنو عباس کی حمایت و مخالفت اور حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی حکومتوں کے حوالے سے بھی روایات شامل تھیں۔  ۱۷؎

بعض دین سے گم راہ لوگ دین میں باطل بات کو داخل کرنے کے لیے حدیثیں وضع کرتے تھے۔ ۱۸؎

جھوٹی احادیث گھڑنے کا ایک سبب مذہبی تعصب بھی تھا۔ چنانچہ اس معاملے میں مخالف نظریے کی تردید اور موافق نظریے کی حمایت کے لیے بھی احادیث وضع کی جاتی تھیں۔ ۱۹؎

بعض اوقات حکمرانوں کی خوشنودی اور انعام کے حصول کے لیے احادیث گھڑ لی جاتی تھیں۔ ۲۰؎

اسی طرح واعظین بھی اپنے وعظ کو پر اثر بنانے کے لیے احادیث وضع کر لیتے تھے۔ ۲۱؎

یہ معاملہ اس سطح تک پہنچا ہوا تھا کہ بعض اوقات لوگ اپنی معمولی ضرورتوں کے لیے بھی حدیث گھڑ لیتے تھے۔  ۲۲؎

اس زمانے میں قصہ گوئی کا سلسلہ بھی بہت زور پکڑ گیا تھا، چنانچہ داستان گوئی کے لیے بھی روایتیں گھڑی جاتی تھیں۔ ۲۳؎

یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سنن ابوداؤد کے مصنف امام  ابوداؤد سجستانی کو اہل مکہ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھنا پڑا : 

’’سفیان اور وکیع جیسے عظیم ناقدین حدیث بڑی محنت و کاوش کے بعد ایک ہزار احادیث کے ذخیرہ میں سے صرف ایک حدیث مرفوع متصل نکال سکتے تھے۔“ (حجۃ اللہ البالغہ ۱ / ۱۴۸)

وضع حدیث کے اس فتنے نے محدثین کی احتیاط کو مزید بڑھادیا ۔ چنانچہ تابعین کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد راویوں کی جرح و تعدیل کے کام کا آغاز ہوا۔ ابتدائی طور پر اس معاملے میں یحیٰ بن سعید القطان (متوفی ۱۸۹ھ) اور عبدالرحمٰن بن مہدی (متوفی ۱۹۸) کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ ۲۴؎

یہ بھی پڑھیں !

حدیث و سنت کی حجیت: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱۱؎  حدیث کی روایت کرنے والے لوگوں میں سے ، مثال کے طور پر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صحابی ہیں، قتادہ اور ابن شہاب زہری تابعی ہیں، امام مالک ، امام بخاری تبع تابعی ہیں اور امام مسلم اور امام ترمذی تبع تبع تابعی ہیں۔

۱۲؎  حافظ ابن عبدالبر کی کتاب ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں ’’ذکر الرحلۃ فی طلب العلم‘‘ کا باب اسی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ خطیب بغدادی نے ابوالعالیہ (تابعی) کا یہ قول نقل کیا ہے : ’’ہم اصحاب رسول سے بالواسطہ احادیث سنا کرتے تھے۔ پھر ہمیں یہ اچھا لگا کہ ہم خود اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر حدیثیں سنیں۔‘‘

۱۳؎  تدریب الراوی ۷۳۔ تاریخ حدیث و محدثین ، ابو زہرہ۲۲۵-۲۲۹۔

۱۴؎  ابو زہرہ مصری ’’تاریخ حدیث و محدثین‘‘ میں لکھتے ہیں: ”مگر سوال یہ ہے کہ جو جامع تصانیف امام زہری اور ان کے بعد آنے والے محدثین نے مرتب کی تھیں، وہ کہاں گئیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم کتب نقل ہو کر ہم تک پہنچ سکی ہیں۔ مثلاً موطا امام مالک و مسند امام شافعی و کتاب الآثار محمد بن حسن شیبانی متوفی ۱۸۹ھ جو موطا امام مالک کے ایک راوی بھی ہیں“ (۳۰۹)۔

۱۵؎  حوالہ تہذیب التہذیب ۱/۱۳۷، ترجمہ: ۲۴۳۔ الاسرار المرفوعہ ۸۸-۹۰۔

۱۶؎  چنانچہ امام مسلم امام یحییٰ بن سعید القطان کا قول نقل کرتے ہیں:

لم نر الصالحین في شيء أكذب منهم في الحدیث. (مقدمہ صحیح مسلم ۱/۱۷-۱۸۔ المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل: ۱۳۳۔ شرح علل الترمذی ۱/ ۹۳)

”ہم نے حدیث کے بیان کرنے میں نیک و صالح لوگوں سے زیادہ خطا کرنے والا کسی اور کو نہیں دیکھا ہے۔“

حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں: 

”واضعین حدیث کی چند قسمیں ہیں، ان میں سے زیادہ ضرر رساں وہ لوگ ہیں جو زہد و تقویٰ کی طرف منسوب ہیں، جنھوں نے ثواب کے حصول کے لیے احادیث وضع کیں اور لوگوں نے ان کی ظاہری حالت اور ان سے عقیدت کی بنا پر ان کی موضوع روایتوں کو قبول کر لیا، پھر فن حدیث کے اعلیٰ ماہرین ان موضوعات کے عیب کھولنے اور ان کی عار مٹانے کے لیے اٹھے۔“ (مقدمۃ ابن الصلاح ۱۳۱)

میسرہ بن عبد ربہ کے متعلق خطیب بغدادی لکھتے ہیں:

”محمد بن عیسیٰ بن طباع کا بیان ہے کہ میں نے میسرہ بن عبد ربہ سے کہا، تم یہ حدیثیں کہاں سے لائے، جس میں مذکور ہے کہ جس نے فلاں فلاں سورۃ پڑھی اس کے لیے اتنا اتنااجر ہے؟ کہنے لگا: میں نے لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے گھڑی ہیں۔“ (تاریخ بغداد ۱۳  / ۲۲۳)

’’تدریب الراوی میں ہے کہ ایک راوی نوح ابن مریم سے پوچھا گیا: تم عکرمہ سے بہ سند ابن عباس رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی سورتوں کے فضائل کیسے بیان کرتے ہو؟ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ فضائل میرے خود ساختہ ہیں۔ جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو اُس نے کہا: میں نے لوگوں کو دیکھا کہ قرآن مجید سے دور ہٹتے جا رہے ہیں اور امام ابو حنیفہ کی فقہ اور ابن اسحاق کے مغازی میں منہمک ہو رہے ہیں، تو میں نے ان کا رخ کتاب اللہ کی طرف موڑنے کے لیے ایسا کیا ہے۔‘‘(تدریب الراوی ۱ /۲۳۹)

یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں:

”دین دار لوگ حدیثوں کے روایت کرنے میں جس قدر جھوٹے ہوتے ہیں اور کسی بات میں اتنے جھوٹے نہیں ہوتے۔“( توجیہ النظر ۳۵)

۱۷؎  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا گیا ہے کہ انھوں نے مروان بن حکم سے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ تمھارے باپ دادا سے فرما رہے تھے: ”الشجرة الملعونة“ سے تم (بنو امیہ) مراد ہو۔ اس ضمن میں ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ”میں نے بنو امیہ کو زمین کے منبروں پر دیکھا ہے۔ وہ تمھارے بادشاہ قرار پائیں گے۔ اور تم ان کو بدترین حاکم پاؤ گے “ (تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۳۳۰)۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”جب تیرے بیٹے سیاہ مکانوں میں رہیں، سیاہ لباس پہنیں اور اہل خراسان ان کے مددگار ہوں تو اقتدار ہمیشہ ان میں رہے گا، حتیٰ کہ وہ اسے عیسیٰ علیہ السلام کے سپرد کر دیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے بنو امیہ کو باری باری اپنے منبر پر چڑھتے دیکھا تو مجھے سخت ناگوار گزرا۔ پھر بنو عباس کو باری باری منبر پر چڑھتے دیکھا تو یہ دیکھ کر خوش ہوا۔“  

۱۸؎  ایک زندیق محمد بن سعید شامی تھا جسے زندقہ کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ اس نے ایک روایت وضع کی ہے: 

أنا خاتم النبیین لا نبي بعدي إلا أن یشاء اللّٰه. (تفسیر قرطبی۱ / ۱۱۳)

”میں انبیا کا خاتم ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں، مگر جسے اللہ چاہے۔“

امام حماد بن زید فرماتے ہیں:

 وضعت الزنادقة علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم اثنی الف حدیث. (الضعفاء الکبیر ۱ / ۱۴۔ النکت علی کتاب ابن الصلاح ۲ / ۸۵۱)

”زندیقوں اور بے دینوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بارہ ہزار حدیثیں وضع کی ہیں۔“

۱۹؎  مثلاً مامون بن احمد ہروی سے کسی نے کہا کہ تم دیکھتے نہیں کہ امام شافعی کے مذہب کے پیروکار خراسان میں کس قدر زیادہ ہو رہے ہیں، اس نے فوراً کہا: میں نے احمد بن عبداللہ سے سنا، اس نے عبداللہ بن معدان ازدی سے اور اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ:

”میری امت میں ایک شخص ہو گا جس کا نام محمد بن ادریس (شافعی) ہو گا جو میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ہو گا، جب کہ اس امت میں ایک دوسرا شخص ابو حنیفہ ہو گا، وہ میری امت کا چراغ ہو گا۔“ (الموضوعات ۱ / ۴۳، ۲ / ۴۸۔ المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل ۱۲۹۔ میزان الاعتدلال ۳ / ۴۳۰۔ لسان المیزان ۵  / ۷)

۲۰؎  غیاث بن ابراہیم نخعی کوفی تھا، وہ ایک دفعہ عباسی خلیفہ مہدی کے دربار میں حاضر تھا۔ مہدی نے کبوتر پال رکھا تھا اور اس کے ساتھ تفریح طبع کیا کرتا تھا، وہ کبوتر اس کے سامنے موجود تھا۔ غیاث بن ابراہیم سے کہا گیا کہ امیر المومنین کو کوئی حدیث سنائیے تو اس نے یہ حدیث سنائی:

لا سبق إلا في نصل أو خف أو حافر أو جناح. (المجروحین ۱ / ۶۶۔ الموضوعات ۱ / ۴۳)

”مقابلہ صرف تیر، اونٹ، گھوڑے اور پرندے میں جائز ہے۔“

حالاں کہ صحیح حدیث میں ”او جناح“ کا اضافہ موجود نہیں۔

(دیکھیے ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی السبق، حدیث ۲۵۷۴۔ ترمذی، کتاب الجہاد)

۲۱؎  امام ابن حبان ایک واعظ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں ایک مسجد میں گیا، نماز کے بعد ایک نوجوان کھڑا ہوکر کہنے لگا: مجھے ابو خلیفہ نے حدیث سنائی، اس نے ولید سے، اس نے شعبہ سے،اس نے قتادہ سے اور اس نے انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً سنا: ”جس نے اپنے مومن بھائی کی حاجت برآری کی تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا اجر دے گا۔“ اور ایک طویل حدیث بیان کی، جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اسے بلا کر کہا کہ آپ نے کب ابوخلیفہ کودیکھا ہے؟ اس نے کہا: میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، میں نے کہا: پھر اس سے روایت کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا: ہمارے ساتھ جھگڑنا بے مروتی کی دلیل ہے، مجھے یہی ایک سند یاد ہے، جب کوئی حدیث سناتا ہوں، اس کو اس سند کے ساتھ جوڑ دیتا ہوں“ (المجروحین ۱ / ۸۱)۔

۲۲؎  ایک راوی محمد بن عبدالمالک انصاری کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ نابینا تھا اور احادیث وضع کیا کرتا تھا ۔ اُس نے یہ حدیث وضع کی:

فمن قاد أعمیٰ أربعین خطوة وجبت له الجنة. (میزان الاعتدال ۳ / ۶۳۱)

”جو کسی نابینا کا ہاتھ پکڑ کر اسے چالیس قدم تک لے چلے، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔“

 ۲۳؎  محمد ابن الجوزی اپنی کتاب ”القصاص والمذکرین“ میں ابو الولید الطیالسی سے نقل کرتے ہیں کہ میں شعبہ کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک نوجوان ان کے پاس آیا اور ایک حدیث کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ شعبہ نے کہا: ”کیا آپ قصہ گو ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، شعبہ نے کہا کہ تو جائیے، ہم قصہ گو لوگوں کو حدیثیں نہیں سنایا کرتے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے: یہ لوگ ہم سے بالشت بھر حدیث لیتے ہیں اور اس کو ایک گز بنا دیتے ہیں“(تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۳۳۵)۔

یہ واعظ حضرات آدم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم کا قد اس قدر لمبا تھا کہ آسمان یا بادل سے ٹکرانے کی وجہ سے ان کے سر کے بال جاتے رہے۔ جب آدم زمین پر اترے تو جنت کی جدائی میں اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے دریا بہنے لگا اور اس میں کشتیاں چلنے لگیں۔حضرت داؤد علیہ السلام پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ واعظ بیان کرتے ہیں کہ آپ چالیس راتیں خدا کے آگے سجدہ میں پڑے رہے اور اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے گھاس اگ آئی۔ پھر سرد آہ بھری تو یہ گھاس ہلنے لگی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا عصا اتنا لمبا تھا جتنا لمبا ایک طویل کھجور کا درخت ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھ بجلی جیسی اور ان کی خوشبو فلاں قسم کی تھی۔ 

حضرت یونس علیہ السلام کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ لبنان کے پہاڑ پر آئے۔ آپ کے معتقدین میں سے ایک شخص ایسا تھا جو سال بھر رکوع کی حالت میں رہتا۔ اور ایک سال سجدہ میں گزارتا۔ اتنی مدت کے بعد کچھ کھاتا پیتا (تاریخ حدیث و محدثین،ابو زہرہ ۳۳۵)۔

۲۴؎  ابوزہرہ لکھتے ہیں: ’’اس دور میں نقد رجال کے سلسلہ میں دو شخصوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔ یہ دونوں عظیم حافظ حدیث تھے، یعنی یحییٰ بن سعید القطان (متوفی ۱۸۹ ھ) اور عبدالرحمٰن بن مہدی (متوفی ۱۹۸ھ) لوگ ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ چنانچہ جس راوی کو ان دونوں نے ثقہ قرار دیا، وہ مقبول ہوا اور جس کو ضعیف سمجھا، وہ مجروح ٹھیرا۔ اور جس راوی کی عدالت اور ضعف کے بارے میں یہ مختلف الخیال تھے، اس کو لوگوں نے اپنی دانست کے مطابق جس بات کو راجح سمجھا، اس پر عمل کیا‘‘ (تاریخ حدیث و محدثین ۱۴۲)۔