ہندستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی



دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اول کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھاوہ ملک گیری اور حصول غنائم کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمے کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باج گزار بنانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انھیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آبادی یا اس کے سواد اعظم کو ملتِ حنیفی میں جذب کرلیا۔ علم و عمل کی قوت سے ان میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ کر دیا کہ وہ خود تہذیب اسلامی کے علم بردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک ہیں جو اگرچہ صدر اول کے بعد اُس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی‘ لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ان ممالک میں کلیتہً ایک قوی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کرلی۔

بدقسمتی سے ہندستان کا معاملہ ان دونوں قسم کے ممالک سے مختلف ہے۔ صدرِ اول میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصے پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے‘ ان کو باطنیت کے سیلاب نے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدر اول کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انھوں نے یہاں اشاعتِ اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت اور باج گزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندستان کا سوادِ اعظم غیر مسلم رہا۔ یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی‘ یہاں کے باشندوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا‘ نو مسلم جماعتوں میں قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے‘ اور خود باہر کے آئے ہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہل ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سی جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔

اسلامی ہند کی تاریخ اور اس کے موجودہ حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس زمانے میں اس ملک پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار پوری قوت سے چھایا ہوا تھا اُس زمانے میں بھی یہاں اسلام کے اثرات کمزور تھے اور یہاں کا ماحول خالص اسلامی ماحول نہ تھا۔ اگرچہ ہندوؤں کا مذہب اور تمدن بجائے خود ضعیف تھا اور محکوم و مغلوب قوم کا مذہب و تمدن ہونے کی حیثیت سے اور بھی زیادہ ضعیف ہوگیا تھا‘ لیکن پھر بھی مسلمان حکمرانوں کی رواداری اور غفلت کی بدولت وہ ملک کے سواد اعظم پر چھایا ہوا رہا، اور ہندستان کی فضا پر اس کے مستولی ہونے اور خود مسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے، یہاں کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے عقائد اور اپنی تہذیب میں بھی کبھی اتنا صحیح اور پختہ اور کامل مسلمان نہ ہوسکا جتنا وہ خالص اسلامی ماحول میں ہوسکتا تھا۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ پہلے مسلمانوں کی سلطنت متفرق ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوئی، پھر مرہٹوں اور سکھوں اور انگریزوں کے سیلاب نے ایک ایک کرکے اِن ریاستوں میں سے بیش تر کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد قضائے الٰہی نے انگریزوں کے حق میں اس ملک کی حکومت کا فیصلہ صادر کیا اور ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اس سر زمین میں مغلوب و محکوم ہوگئے جس پر انھوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔ انگریزی سلطنت جتنی جتنی پھیلتی گئی مسلمانوں سے اُن طاقتوں کو چھینتی چلی گئی جن کے بل پر ہندستان میں اسلامی تہذیب کسی حد تک قائم تھی۔ اس نے فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنایا۔ اسلامی قوانین کو منسوخ کیا‘ شرعی عدالتیں توڑ دیں‘ دیوانی اور فوج داری معاملات میں خود اپنے قوانین جاری کیے‘ اسلامی قانون کے نفاذ کو خود مسلمانوں کے حق میں صرف نکاح و طلاق وغیرہ تک محدود کر دیا اوراس محدود نفاذ کے اختیارات بھی قاضیوں کے بجائے عام دیوانی عدالتوں کے سپرد کر دیے جن کے حکام عموماً غیرمسلم ہوتے ہیں‘ اور جن کے ہاتھوں ’محمڈن لا‘ روز بروز مسخ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابتدا سے انگریزی حکومت کی پالیسی یہ رہی کہ مسلمانوں کو معاشی حیثیت سے پامال کرکے اُن کے اس قومی فخر و ناز کو کچل ڈالے جو ایک حاکم قوم کی حیثیت سے صدیوں تک ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا ہے۔ چنانچہ ایک صدی کے اندر اندر اس پالیسی کی بدولت اس قوم کو مفلس‘ جاہل‘ پست خیال‘ فاسد الاخلاق‘ اور ذلیل و خوار کرکے چھوڑا گیا۔

اس گرتی ہوئی قوم پر آخری ضرب وہ تھی جو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں لگی۔ اس نے مسلمانوں کی صرف سیاسی قوت ہی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ ان کی ہمتوں کو بھی توڑ دیا‘ ان کے دلوں پر مایوسی اور احساسِ ذلت کی تاریک گھٹائیں مسلط کر دیں‘ ان کو انگریزی اقتدار سے اتنا مرعوب کیا کہ ان میں قوی خودداری کا شائبہ تک باقی نہ رہا‘ اور ذلت و خواری کی انتہائی گہرائیوں میں پہنچ کر وہ ایسا سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں سلامتی حاصل کرنے کا ذریعہ انگریز کی اطاعت‘ عزت حاصل کرنے کا ذریعہ انگریز کی خدمت اور ترقی کرنے کا ذریعہ انگریز کی تقلید کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور ان کا اپنا سرمایۂ علم و تہذیب جو کچھ بھی ہے ذلیل‘ سببِ ذلت اور موجبِ نکبت ہے۔

انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب مسلمانوں نے سنبھل کر پھر اٹھنے کی کوشش کی تو وہ دو قسم کی کمزوریوں میں مبتلا تھے

* ایک یہ کہ وہ فکر و عمل کے اعتبار سے پہلے ہی اسلامی عقائد اور تہذیب میں پختہ نہ تھے اور ایک غیر اسلامی ماحول اپنے جاہلی افکار اور تمدن کے ساتھ اُن کو گھیرے ہوئے تھا۔

* دوسرے یہ کہ غلامی اپنے تمام عیوب کے ساتھ نہ صرف ان کے جسم پر بلکہ ان کے قلب و روح پر بھی مسلط ہو چکی تھی اور وہ اُن تمام قوتوں سے محروم کر دیے گئے تھے جن سے کوئی قوم اپنے تمدن و تہذیب کوبرقرار رکھ سکتی ہے۔

اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو انھیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اورکالجوں میں رکھ دی ہے۔ اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگرزی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ مرحوم سرسید احمد خاں کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اٹھی جس کے اثر سے تمام ہندستان کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی۔ دولت‘ عزت اور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصلی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انھوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا۔ ہندستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے۔ قوم کا تلچھٹ پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے‘ اور خوش حال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیے گئے تاکہ ان کے دل دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں۔

یہ انیسویں صدی کے آخری چوتھائی کا زمانہ تھا۔ یورپ میں اس وقت مادیت انتہائی عروج پر تھی۔ اٹھارہویں صدی میں سائنس پوری طرح مذہب کو شکست دے چکی تھی۔ جدید فلسفے اور نئے علومِ حکمت کی رہنمائی میں سیاسیات‘ معاشیات‘ اخلاقیات‘ اور اجتماعیات کے پرانے نظریے باطل ہو کر نئے نظریے قائم ہو چکے تھے۔ یورپ میں ایک خاص تہذیب پیدا ہو چکی تھی جس کی بنیاد کلیتہً انھی جدید نظریوں پر قائم تھی۔ اس انقلابِ عظیم نے زندگی کے عملی معاملات سے تو مذہب اور ان اصولوں کو جو مذہبی رہنمائی پرمبنی تھے‘ کلی طور پر خارج کر ہی دیا تھا‘ البتہ تخیل کی دنیا میں مذہبی اعتقاد کی تھوڑی سی جگہ باقی رہ گئی تھی‘ سو اَب اس کے خلاف زبردست جنگ جاری تھی۔ اگرچہ علومِ حکمت میں سے کسی علم نے بھی کائنات کے الٰہی نظریے کے خلاف کوئی ثبوت (جس کو ثبوت کہا جاسکتا ہو) بہم نہیں پہنچایا تھا مگر اہلِ حکمت بغیر کسی دلیل کے محض اپنے رجحانِ طبیعت کی بنا پر خدا سے بیزار اور الٰہی نظریے کے دشمن تھے اور چونکہ انھی کو اس وقت دنیا کی عقلی و علمی امامت کا منصب حاصل تھا اس لیے ان کے اثر سے خدا سے بیزاری (Theophobia) کا مرض ایک عام وبا کی طرح پھیل گیا۔ وجودِ باری کا انکار‘ کائنات کو آپ سے آپ پیدا ہونے والی اور آپ سے آپ قوانینِ طبیعی کے تحت چلنے والی چیز سمجھنا‘ خدا پرستی کو تَوَھُّم (Superstition) قرار دینا‘ مذہب کو لغو اور مذہبیت کو تنگ نظری و تاریک خیالی کہنا اور نیچریت (Naturalism) کو روشن خیالی کا ہم معنی سمجھنا اُس وقت فیشن میں داخل ہو چکا تھا۔ ہر شخص خواہ وہ فلسفہ و سائنس میں کچھ بھی دست گاہ نہ رکھتا ہو اور اس نے خود ان مسائل کی تحقیق میں ذرہ برابر بھی کوشش نہ کی ہو‘ صرف اس بنا پر ان خیالات کا اظہار کرتا تھا کہ سوسائٹی میں وہ ایک روشن خیال آدمی سمجھا جائے۔ روحانیت (Spiritualism)، یافوق الطبیعت (Super Naturalism) کی تائید میں کچھ کہنا اس وقت کفر کا درجہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان بھی اس قسم کے کسی خیال کا اظہار کرتا تو سائنٹیفک حلقوں میں اس کی ساری وقعت جاتی رہتی‘ اس کے تمام کارناموں پر پانی پھر جاتا اوروہ اس قابل نہ رہتا کہ اسے کسی علمی جماعت کی رکنیت کا شرف بخشا جائے۔

۱۸۵۹ء میں ڈارون کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species) شائع ہوئی جس نے نیچریت اور دہریت کی آگ پر تیل کاکام کیا۔ اگرچہ ڈارون کے دلائل جو اس نے اپنے مخصوص نظریۂ ارتقا کی تائید میں پیش کیے تھے‘کمزور اور محتاجِ ثبوت تھے۔ اس سلسلۂ ارتقا میں ایک کڑی نہیں بلکہ ہر موجود کڑی کے آگے اور پیچھے بہت سی کڑیاں مفقود تھی۔ اہلِ حکمت اس وقت بھی اس نظریے سے مطمئن نہ تھے حتیٰ کے خود اس کا سب سے بڑا وکیل ہکسلے (Huxley) بھی اس پر ایمان نہ لایا تھا مگر اس کے باوجود محض خدا سے بیزاری کی بنا پر ڈارونیت کو قبول کرلیا گیا۔ اس کی حد سے زیادہ تشہیر کی گئی اور مذہب کے خلاف ایک زبردست آلے کے طور پر اسے استعمال کیا گیا کیونکہ اس نظریے نے اہلِ حکمت کے زعمِ باطل میں اس دعوے کا ثبوت فراہم کر دیا تھا (حالانکہ دراصل اس نے ایک دعویٰ کیا تھا جو خود محتاجِ ثبوت تھا) کہ کائنات کا نظام کسی فوق الطبیعی قوت کے بغیر آپ سے آپ طبیعی قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ اہلِ مذہب نے اس نظریے کی مخالفت کی اور برٹش ایسوسی ایشن کے جلسے میں بشپ آف اکسفورڈ اور گلیڈاسٹن نے اپنی خطابت کا پورا زور اس کے خلاف صَرف کیا‘ مگر شکست کھائی اور آخر کار اہلِ مذہب سائنٹیفک دہریت سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ ۱۸۸۲ء میں جب ڈارون نے وفات پائی تو چرچ آف انگلینڈ نے وہ سب سے بڑا اعزاز اُس کو بخشا جو اس کے اختیار میں تھا یعنی اسے ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کرنے کی اجازت دی۔ حالانکہ وہ یورپ میں مذہب کی قبر کھودنے والوں کا سرخیل تھا اور اس نے افکار کو الحاد و زندقہ اور بے دینی کی طرف چلانے اور وہ ذہنیت پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا جس سے آخر کار بالشوزم اورفاشزم کو پھلنے پھولنے اور بار آورہونے کا موقع ملا۔

یہ زمانہ تھا جب ہماری قوم کے نوجوان انگریزی تعلیم اور فرنگی تہذیب سے استفادہ کرنے کے لیے مدرسوں اورکالجوں میں بھیجے گئے۔ اسلامی تعلیم سے کورے‘ اسلامی تہذیب میں خام‘ انگریزی حکومت سے مرعوب‘ فرنگی تہذیب کی شان و شوکت پر فریفتہ پہلے ہی سے تھے اَب جو انھوں نے انگریزی مدرسے کی فضامیں قدم رکھا تو اس کا پہلا اثر یہ ہوا کہ اُن کی ذہنیت کا سانچہ بدلا اور ان کی طبیعت کا رخ مذہب سے پھر گیا کیونکہ اس آب و ہوا کی اولین تاثیر یہ تھی کہ یورپ کے کسی مصنف یا محقق کے نام سے جو چیز پیش کی جائے اس پر وہ بے تامل آمٰنَّا وَصَدَّقْنَا کہیں اور قرآن و حدیث یا ائمہ دین کی طرف سے کوئی بات پیش ہو تو اس پر دلیل کا مطالبہ کریں۔ اس منقلب ذہنیت کے ساتھ انھوں نے جن مغربی علوم کی تعلیم حاصل کی، ان کے اصول و فروع اکثر و بیش تر اسلام کے اصول اور جزئیاتِ احکام کے خلاف تھے۔ اسلام میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ زندگی کا قانون ہے اور مغرب میں مذہب کا تصور یہ ہے کہ وہ محض ایک شخصی اعتقاد ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں پہلی چیز ایمان باللہ ہے اور وہاں سرے سے اللہ کا وجود ہی مُسلم نہیں۔ اسلام کا پورا نظام تہذیب وحی و رسالت کے اعتقاد پر قائم ہے، اور وہاں وحی کی حقیقت ہی میں شک اور رسالت کے مِنْ جانب اللہ ہونے ہی میں شبہ ہے۔ اسلام میں آخرت کااعتقاد پورے نظامِ اخلاق کا سنگِ بنیاد ہے اور وہاں یہ بنیاد خود بے بنیاد نظر آتی ہے۔ اسلام میں جو عبادات اور اعمال فرض ہیں وہاں وہ محض عہدِ جاہلیت کے رسوم ہیں جن کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اسلام کے اصولِ تمدن و تہذیب بھی مغربی تہذیب و تمدن کے اصول سے یکسر مختلف ہیں۔ قانون میں اسلام کا اصل الاصول یہ ہے کہ خود خدا واضعِ قانون ہے۔ رسولِ خدا شارحِ قانون اور انسان صرف متبعِ قانون، مگر وہاں خدا کو وضعِ قانون کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں۔ لیجسلیچر ] Legislature [ واضعِ قانون ہے اور قوم لیجسلیچر کو منتخب کرنے والی ہے۔ سیاسیات میں اسلام کا مطمح نظر حکومت الٰہی ہے اور مغرب کا مطمحِ نظر حکومت قومی۔ اسلام کا رخ بین الاقوامیت (Internationalism) کی طرف ہے اور مغرب کا کعبہ مقصود قومیت (Nationalism)۔ معاشیات میں اسلام اکلِ حلال اور زکوٰۃ و صدقہ اور تحریمِ سود پر زور دیتا ہے اور مغرب کا سارا نظامِ معاشی ہی سود اور منافع پر چل رہا ہے۔ اخلاقیات میں اسلام کے پیش نظر آخرت کی کامیابی ہے اور مغرب کے پیش نظر دنیا کا فائدہ۔ اجتماعی مسائل میں بھی اسلام کا راستہ قریب قریب ہر معاملے میں مغرب کے راستے سے مختلف ہے۔ سترو حجاب‘ حدود زن و مرد‘ تعدد ازدواج‘ قوانین نکاح و طلاق‘ ضبط ولادت‘ حقوق ذوی الارحام‘ حقوق زوجین اور ایسے ہی دوسرے بہت سے معاملات ہیں جن میں ان دونوں کا اختلاف اتنا نمایاں ہے کہ بیان کی حاجت نہیں، اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے اصول مختلف ہیں۔ ہمارے نوجوان نے مرعوب بلکہ غلامانہ ذہنیت اور پھر غیرمکمل اسلامی تعلیم و تربیت کے ساتھ جب ان مغربی علوم کی تحصیل کی اور مغربی تہذیب کے زیر اثر تربیت پائی تو نتیجہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی ہوا۔ ان میں تنقیدکی صلاحیت پیدا نہ ہوسکی۔ انھوں نے مغرب سے جو کچھ سیکھا اس کو صحت اور درستی کا معیار سمجھ لیا۔ پھر ناقص علم کے ساتھ اسلام کے اصول و قوانین کو اس معیار پر جانچ کر دیکھا اور جس مسئلے میں دونوں کے درمیان اختلاف پایا اُس میں کبھی مغرب کی، غلطی محسوس نہ کی بلکہ اسلام ہی کو برسرِ غلط سمجھا اور اس کے اصول و قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

جدید تعلیم نے معاشی اور سیاسی حیثیت سے ہندستان کے مسلمانوں کو خواہ کتنا ہی فائدہ پہنچایا ہو، مگر ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کسی فائدے سے نہیں ہوسکتی۔ 

(ترجمان القرآن، رجب ۱۳۵۳ھ۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء)