انسانی قانون اور الٰہی قانون - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


گزشتہ ماہ دسمبر ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں امریکہ کے قانونِ تحریمِ خمر (Prohibition Law) کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور تقریباً چودہ برس کے بعد نئی دنیا کے باشندوں نے پھر خشکی سے تری کے حدود میں قدم رکھا۔ جمہوریہ امریکہ کی صدارت پر مسٹر روز ویلٹ کا فائز ہونا خشکی پر تری کی فتح کا اعلان تھا۔ اس کے بعد پہلے تو اپریل ۱۹۳۳ء میں ایک قانون کے ذریعے سے ۲‘۳ فی صدی الکحل کی شراب کو جائز کیا گیا‘ پھر چند مہینے نہ گزرے تھے کہ دستورجمہوریہ امریکہ کی اٹھارہویں ترمیم ہی منسوخ کر دی گئی جس کی رو سے ریاست ہائے متحدہ کے حدود میں شراب کی خرید و فروخت‘ درآمدو برآمد اور ساخت و پرداخت حرام قرار دی گئی تھی۔

قانون کے ذریعے سے اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا یہ سب سے بڑا تجربہ تھا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کئی سال تک اینٹی سیلون لیگ (Anti Saloon League) رسائل و جرائد‘ خطابات‘ تصاویر‘ میجک لنیٹرن‘ سینما اور بہت سے دوسرے طریقوں سے شراب کی مضرتیں اہل امریکہ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اس تبلیغ میں اس نے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ تحریک کی ابتدا سے لے کر ۱۹۲۵ء تک نشر و اشاعت پر ساڑھے چھے کروڑ ڈالر صَرف ہوئے اور شراب کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع کیا گیا وہ تقریباً ۹ ارب صفحات پر مشتمل تھا۔

اس کے علاوہ قانونِ تحریم کی تنقیذ کے مصارف کا جس قدر بار گذشتہ چودہ سال میں امریکی قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے اس کی مجموعی مقدار ۴۵ کروڑ پونڈ بتائی جاتی ہے، اور حال میں ممالک متحدہ امریکہ کے محکمہ عدل نے جنوری ۱۹۲۰ء سے اکتوبر ۱۹۳۳ء تک کے جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ کے جرمانے عاید کیے گئے۔ چالیس کروڑ چالیس لاکھ پونڈ کی مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔

جان و مال کے یہ ہولناک نقصانات صرف اس لیے برداشت کیے گئے کہ بیسویں صدی کی اس ’’مہذب ترین‘‘ قوم کو جس کا آفتابِ علم نصف النہار پر پہنچا ہوا ہے، ام الخبائث کی بے شمار روحانی‘ اخلاقی‘ جسمانی اور مالی مضرتوں سے آگاہ کیا جائے، لیکن تحریم سے پہلے کئی سال کی مسلسل کوششیں‘ جن میں حکومت کی طاقت بھی شریک تھی‘ امریکی قوم کے عزم مے خواری کے آگے ناکام ہوگئیں اور ’’تاریخِ عالم کا بڑا اصلاحی جہاد‘‘ آخر کار بے سود ثابت ہوا۔

تحریمِ خمر کی یہ ناکامی اور قانونِ تحریم کی یہ تنسیخ کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ شراب کی وہ مضرتیں جن کو دور کرنے کے لیے پروپیگنڈا اور قانون کی طاقت استعمال کی گئی تھی‘ اب منفعتوں سے بدل گئی ہیں‘ یا کسی نئے علمی اکتشاف نے ان خیالات کو غلط ثابت کر دیا ہے جو پہلے قائم کیے گئے تھے۔ برعکس اس کے آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع و کثیر تجربات کی بنا پر یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ قحبہ گری‘ زنا‘ عمل قومِ لوط‘ چوری‘ قمار بازی‘ قتل و خون اور ایسے ہی دوسرے اخلاقی مفاسد اس ام الخبائث کے قریب ترین رشتہ دار ہیں، اور مغربی اقوام کے اخلاق‘ صحت‘ معیشت اور معاشرت کی تباہی میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن اس کے باوجود جس چیز نے آج حکومتِ امریکہ کو اپنا قانون واپس لینے اور حرام کو حلال کہہ دینے پر مجبور کر دیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ امتِ امریکیہ کی عظیم اکثریت کسی طرح شراب چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی اور وہی پبلک جس کے ووٹ نے اب سے چودہ برس پہلے یہ چیز حرام کی تھی اب اس کو حلال کرنے پر اصرار کرنے لگی۔

جہاں تک ہم کو معلوم ہے مے خواری کے نقصانات سے کسی بڑے سے بڑے حامیِ شراب نے بھی کبھی انکار نہیں کیا اور نہ کبھی مخالفینِ تحریم نے شراب کے محاسن کی کوئی ایسی فہرست پیش کی جو ان قبائح کے مقابلے میں کچھ بھی وزن رکھتی ہو۔ جس وقت امریکن کانگریس میں رائے عام کی تائید سے دستور کی اٹھارہویں ترمیم پیش ہوئی تھی‘ اُس وقت خشکی اور تری کے درمیان ہر طرح موازنہ کرلیا گیا تھا اور انھی تمام مضرتوں اور خرابیوں کا لحاظ کرتے ہوئے کانگریس نے وہ ترمیم منظور کی تھی۔۴۶ ریاستوں نے اس ترمیم کی توثیق کی تھی‘ دارالمبعوثین (House of Representatives) اور مجلس شیوخ (Senate) نے اس ترمیم کے مطابق قانونِ تحریم (Volstead Act)پاس کیا تھا۔ یہ سب کچھ امریکی قوم کی مرضی سے ہوا اور جب تک تحریم کا معاملہ کاغذ اور زبان تک رہا قوم خوشی خوشی اس کی تائید کرتی رہی مگر جونہی کہ یہ تحریم عالمِ معاملہ میں آئی‘ تمام امتِ امریکیہ کا رنگ بدل گیا۔ ام الخبائث کے ہجر میں پہلی رات بسر کرتے ہی دنیا کی سب سے زیادہ متمدن‘ ذی علم‘ ذی ہوش‘ حقائق پسند اور ترقی یافتہ قوم دیوانی ہوگئی‘ اور اس نے جوشِ جنون میں وہ حرکتیں شروع کر دیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ قوم مشرقی شاعری کے خیالی عاشقوں کی طرح فی الواقع اپنا سر پھوڑ ڈالے گی۔

اجازت یافتہ شراب خانوں کے بند ہوتے ہی تمام ملک میں لکھوکھا خفیہ شراب خانے (Speak easies and Blind pigs) قائم ہوگئے جن میں قانون کی گرفت سے بچ کر شراب پینے پلانے بیچنے اور خریدنے کے عجیب عجیب طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ کسی شخص کا اپنے کسی دوست یا عزیز کو کسی خفیہ شراب خانے اور اس کے مقررہ اشارے (Pass Word) کاپتہ بتا دینا ایک خاص مہربانی کا فعل سمجھا جاتا تھا۔ پہلے تو حکومت لائسنس یافتہ شراب خانوں کی تعداد‘ ان کی شرابوں کی نوعیت اور ان میں آنے جانے والوں کے حالات کی نگرانی کرسکتی تھی‘ مگر اب یہ بدکاری کے اڈے اس کی نگرانی کے حدودسے آزاد تھے۔ ان کی تعداد قبلِ تحریم کے اجازت یافتہ شراب خانوں سے کئی گناہ زیادہ ہوگئی۔ ان میں ہر قسم کی بدترین شرابیں فروخت ہونے لگیں جو صحت کے لیے غایت درجہ مضر تھیں۔ ان میں کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کی آمد ورفت بہت بڑھ گئی جس کے ہولناک نتائج سے ریاست ہائے متحدہ کے اہلِ فکر میں عام اضطراب برپا ہوگیا۔ شراب کی قیمت پہلے سے کئی گنی زیادہ ہوگئی۔ مے فروشی کا پیشہ ایک بڑا پر منفعت پیشہ بن گیا اور ہزاروں لاکھوں آدمی یہی کاروبار کرنے لگے۔ خفیہ مے خانوں کے علاوہ بکثرت پھیری لگانے والے مے فروش (Boot Leggers)پیدا ہو گئے جو گویا چلتے پھرتے مے خانے تھے۔ یہ لوگ مدرسوں‘ دفتروں‘ ہوٹلوں‘ تفریح گاہوں حتیٰ کہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ کر شراب بیچنے اور نئے نئے گاہک پیدا کرنے لگے۔ کم سے کم اندازہ یہ ہے کہ زمانہ قبل تحریم کی بہ نسبت زمانہ بعد تحریم میں امریکہ کے مے فروشوں کی تعداد دس گنی زیادہ ہوگئی۔ شہروں سے گزر کر دیہات تک میں یہ کاروبار پھیل گیا۔ گاؤں گاؤں شراب کشید کرنے کے خفیہ کارخانے قائم ہوگئے۔ تحریم سے پہلے امریکہ میں عرق کشی کے اجازت یافتہ کارخانوں کی تعداد کل چار سو تھی۔ تحریم کے بعد سات سال کے اندر ۷۹ ہزار ۴ سو ۳۷ کارخانے دار پکڑے گئے‘ ۹۳ ہزار ۸ سو ۳۱بھٹیاں ضبط کی گئیں اور پھر بھی شراب فروشی کے کاروبار میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ محکمہ تحریم کے ایک سابق کمشنر کا بیان ہے کہ ’’ہم کل کارخانوں اور بھٹیوں کا صرف دسواں حصہ پکڑ سکے ہیں۔ اسی طرح شراب کی مقدار میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ تخمینہ کیا گیا ہے کہ تحریم کے زمانے میں امریکہ کے باشندے ہر سال ۲۰ کروڑ گیلن شراب پینے لگے تھے۔ یہ مقدارِ استعمال‘ قبل تحریم کی مقدار سے بہت زیادہ تھی۔

جو شراب اس قدر کثیر مقدار میں استعمال کی جانے لگی تھی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی حد درجہ خراب اور مضرِ صحت تھی۔ اطبا کا بیان ہے کہ

اس چیز کو شراب کے بجائے زہر کہنا زیادہ صحیح ہے۔ اس کے حلق سے اترتے ہی معدے اور دماغ پر اس کے زہریلے اثرات مرتب ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور دو دن تک اعصاب اس سے متاثر رہتے ہیں۔ اس کے نشے میں انسان کسی خوش باشی اور خوش فعلی کے مطلب کا نہیں رہتا بلکہ اس کی طبیعت شورش اور ہنگامہ آرائی اور ارتکابِ جرم کی جانب مائل ہو جاتی ہے۔

اس قسم کی شرابوں کی کثرتِ استعمال نے اہلِ امریکہ کی جسمانی صحت کو تباہ کر ڈالا۔ مثال کے طور پر شہر نیویارک کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریم سے پہلے ۱۹۱۸ء میں الکحل کے اثر سے بیمار ہونے والوں کی تعداد ۳۷۴۱ اور مرنے والوں کی تعداد ۲۵۲ تھی۔ ۱۹۲۶ء میں بیمار ہونے والوں کی تعداد گیارہ ہزار اور مرنے والوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار تک پہنچ گئی۔ ان کے علاوہ جو لوگ بالواسطہ شراب کے اثرات سے متاثر ہو کرہلاک یا زندہ درگور ہوگئے ان کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح جرائم‘ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کے جرائم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ امریکہ کے ججوں کا بیان ہے کہ:

“ہمارے ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کبھی اتنی کثیر تعداد میں بچے بحالت نشہ گرفتار ہوئے ہوں۔”

جب کم سنی کے جرائم حد سے بڑھ گئے تو اس کی تحقیقات کی گئیں اور ثابت ہوا کہ ۱۹۲۰ء سے نوجوانوں کی مے خواری اور عربدہ جوئی میں سال سال زیادتی ہوتی جارہی ہے‘ حتیٰ کہ بعض شہروں میں ۸ سال کے اندر دو سو فی صدی اضافہ ہوا۔ ۱۹۳۳ء میں امریکہ کی نیشنل کرائم کونسل (National Crime Council) کے ڈائرکٹر کرنل موس(Col Moss)نے بیان کیا کہ اس وقت امریکہ کے تین آدمیوں میں سے ایک آدمی جرائم پیشہ ہے اور ہمارے ہاں قتل کے جرائم میں ساڑھے تین سو فی صدی اضافہ ہوا ہے۔

غرض چودہ سال کے اندر اندر امریکہ میں تحریمِ خمر کے جو نتائج ظاہر ہوئے اُن کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔قانون کا احترام دلوں سے اٹھ گیا اور سوسائٹی کے ہر طبقے میں خلاف ورزیِ قانون کی بیماری پھیل گئی۔

۲۔ تحریم خمر کا اصل مقصد بھی حاصل نہ ہوا‘ بلکہ اس کے برعکس یہ چیز حرام ہونے کے بعد اس سے بھی زیادہ استعمال ہونے لگی جتنی حلال ہونے کے زمانے میں استعمال ہوتی تھی۔

۳۔ قانونِ تحریم کی تنقیذ میں حکومت کا اور خفیہ طریقے سے شراب خریدنے میں رعایا کا بے حساب مالی نقصان ہوا اور ایک ملک کے معاشی حالات تباہ ہونے لگے۔

۴۔ امراض کی کثرت‘ صحت کی بربادی‘ شرح اموات میں اضافہ‘ اخلاقِ عامہ کا فساد‘ سوسائٹی کے تمام طبقات اور خصوصاً نوخیز نسلوں میں ذمائم اور قبائح کا بکثرت شائع ہونا‘ اور جرائم میں غیر معمولی ترقی‘ یہ اس قانون کے تمدنی و اخلاقی ثمرات تھے۔

یہ نتائج اُس ملک میں حاصل ہوئے جو بیسویں صدی کے روشن ترین زمانے میں مہذب ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ جس کے باشندے اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ ہیں۔ جن کے دماغ علم و حکمت کی روشنی سے منور ہیں۔ جو اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ نتائج اس حالت میں ظاہر ہوئے جب کہ کروڑہا روپیہ صَرف کرکے اور کئی ارب رسالے اور کتابیں شائع کرکے تمام قوم کو شراب کے نقصانات سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔یہ نتائج اس کے باوجود ظاہر ہوئے کہ امریکی قوم کی ایک بڑی اکثریت تحریم کی ضرورت کو تسلیم کر چکی تھی اور تحریم کا قانون اس کی مرضی سے پیش اور پاس ہوا تھا۔پھر ان نتائج کا ظہور ایسی حالت میں ہوا جب کہ امریکہ کی عظیم الشان سلطنت بیسویں صدی کی بہترین تنظیم کے ساتھ کامل چودہ سال تک شراب نوشی اور شراب فروشی کا قلع قمع کرنے پر تلی رہی۔

جب تک یہ نتائج ظاہر نہ ہوئے تھے حکومت اور رعیت دونوں کی اکثریت شراب کو حرام قرار دینے پر متفق تھی اس لیے شراب حرام ہوگئی، مگر جب معلوم ہوا کہ قوم کسی طرح شراب چھوڑنے پر راضی نہیں ہے اور زبردستی شراب چھڑانے کا نتیجہ پہلے سے بھی خراب نکلا ہے‘ تو اسی حکومت اور رعیت کی اکثریت نے شراب کو حلال کرنے پر اتفاق کرلیا۔

اب ذرا ایک نظر اس ملک کی حالت پر ڈالیے جو اَب سے ساڑھے تیرہ سو برس۱؂ پہلے کے تاریک ترین زمانے میں سب سے زیادہ تاریک ملک شمار ہوتا تھا۔ باشندے اَن پڑھ۔ علوم و فنون کا نام و نشان نہیں۔ تمدن و تہذیب کاپتہ نہیں‘ پڑھے لکھوں کی تعداد شاید دس ہزار میں ایک اور وہ بھی ایسے کہ آج کل کے کم سواد بھی ان سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے۔ موجودہ زمانے کے تنظیم ادارات اور وسائل یکسر مفقود‘ حکومت کا نظام بالکل ابتدائی حالت میں اور اس کو قائم ہوئے چند سال سے زیادہ نہ ہوئے تھے۔ باشندوں کا حال یہ کہ شراب کے عاشق۔ اُن کی زبان میں شراب کے تقریًبا ڈھائی سو نام پائے جاتے ہیں جن کی مثال شاید دنیا کی کسی زبان میں نہ ملے گی۔ یہ شراب کے ساتھ ان کے غیر معمولی شغف کا ثبوت ہے، اور اس کا مزید ثبوت ان کی شاعری ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، اور لازمۂ حیات سمجھی جاتی تھی۔اس حالت میں وہاں شراب کا مسئلہ پیش ہوتا ہے اوررسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ خدا کا ارشاد ہے:

یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط قُلْ فِیْھِمَآ اِءْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ز وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ط (البقرہ۲ ۲۱۹)

[یہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑی خرابی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔]

یہ کوئی حکم نہ تھا بلکہ محض شراب کی حقیقت بتائی گئی تھی کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں موجود ہیں‘ مگر برائی کا پہلو غالب ہے۔ اس تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ قوم کے ایک گروہ نے اُسی وقت سے مے خواری چھوڑ دی۔ تاہم اکثریت بدستور شراب کی خوگر رہی۔

پھر دوبارہ شراب کے بارے میں حکم پوچھا گیا کیونکہ بعض لوگ نشے کی حالت میں نماز پڑھتے اور غلطیاں کر جاتے تھے۔ اس پر رسول خدا نے اپنے خدا کی طرف سے یہ حکم سنایا:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔ (النساء ۴۴۳)

[اے ایمان لانے والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کر رہے ہو۔]

یہ حکم سنتے ہی لوگوں نے مے خواری کے لیے اوقات مقرر کرلیے اور عموماً فجر اور ظہر کے درمیان یا عشاء کے بعد شراب پی جانے لگی تاکہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے کی نوبت نہ آئے، یا نشے کی وجہ سے نماز نہ ترک کرنی پڑے، مگر شراب کی اصلی مضرت ابھی باقی تھی، نشے کی حالت میں لوگ فساد برپا کرتے تھے اور خون خرابے تک نوبت پہنچ جاتی تھی، اس لیے پھر خواہش کی گئی کہ شراب کے بارے میں صاف اور قطعی حکم دیا جائے۔ اس پر ارشاد ہوا:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْ قِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِج فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ o وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْاج فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔ (المائدہ ۵ ۹۰۔۹۲)

[اے ایمان لانے والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب شیطان کی ساختہ و پرداختہ گندگیاں ہیں، لہٰذا تم ان سے پرہیز کرو۔ امید ہے کہ اس پرہیز سے تم کو فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تم کو خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ کیا یہ معلوم ہوجانے کے بعد اب تم ان سے باز آؤ گے؟ اللہ کی اطاعت کرو‘ اور رسولؐ کی بات مانو اور باز آجاؤ، لیکن اگرتم نے سرتابی کی تو جان رکھو کہ ہمارے رسولؐ کاکام صرف اتنا ہی ہے کہ صاف صاف حکم پہنچا دے۔]

یہ حکم آنا تھا کہ وہی شراب کے رسیا اور دخت رز کے عاشق جو اس چیز کے نام پر جان دیتے تھے‘ یکایک اس سے نفور ہوگئے۔ تحریمِ شراب کی منادی سنتے ہی شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے۔ مدینے کی گلیوں میں شراب کے نالے بہہ گئے۔ ایک محفل میں مے نوشی ہو رہی تھی اور دس گیارہ اصحاب شراب کے نشے میں چُور تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آواز کانوں میں پہنچی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ اسی نشے کی حالت میں حکمِ خدا کا یہ احترام کیا گیا کہ فورًا شراب کا دور روک دیا گیا اور مٹکے توڑ ڈالے گئے۔ ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ شراب پی رہا تھا۔ منہ سے پیالا لگا ہوا تھا۔ کسی نے آکر تحریم خمر کی آیت پڑھی۔ فوراً پیالا اس کے لبوں سے الگ ہوگیا، اور پھر ایک قطرہ بھی حلق کے نیچے نہ اترا۔ اس کے بعد جس کسی نے شراب پی اس کو جوتوں‘ لکڑیوں‘ لات مکوں سے پیٹا گیا‘ پھر چالیس کوڑوں کی سزا دی جانے لگی۔ پھر اس جرم کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کر دی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عرب سے مے خواروں کا نام و نشان مٹ گیا۔ پھر اسلام جہاں پہنچا‘ اس نے قوموں کو آپ سے آپ ’’خشک‘‘ (پرہیزگار) بنا دیا حتیٰ کہ آج بھی جب کہ اسلام کا اثر بہت ضعیف ہو چکا ہے‘ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے بستے ہیں جو کسی قانونِ تحریم اور کسی نظام تعزیری کے بغیر شراب سے بالکل مجتنب ہیں۔ مسلمان قوم میں اگر مردم شماری کرکے دیکھا جائے کہ مے خواروں کی تعداد کافی صدی اوسط کیا ہے تو شاید یہ قوم اب بھی دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ پرہیز گار پائی جائے گی۔ پھر اس قوم میں جو لوگ شراب پیتے بھی ہیں وہ بھی اس کو گناہ سمجھتے ہیں‘ دل میں اپنے فعل پر نادم ہوتے ہیں‘ اور بسا اوقات خود بخود تائب ہو جاتے ہیں۔

عقل و حکمت کی مملکت میں آخری فیصلہ تجربے و مشاہدے پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ شہادت کبھی جھٹلائی نہیں جاسکتی۔ اب آپ کے سامنے ایک تجربہ امریکہ کا ہے اور دوسرا تجربہ اسلام کا۔ دونوں کا فرق بالکل ظاہر ہے۔ اب یہ آپ کاکام ہے کہ ان کا تقابل کرکے اس سے سبق حاصل کریں۔

امریکہ میں برسوں تک شراب کے خلاف تبلیغ کی گئی۔ کروڑوں روپیہ اس کی مضرتوں کے اعلان و اشتہار پر صَرف کیا گیا۔ فنِ طب سے‘ اعداد شمار کی شہادتوں سے‘ عقلی استدلالات سے‘ اس کے جسمانی‘ اخلاقی‘ معاشی نقصانات اس طرح ثابت کیے گئے کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تصویروں کے ذریعے سے شراب کی مضرتیں بِرَأْیِ العین مشاہدہ کرا دی گئیں اور پوری کوشش کی گئی کہ لوگ خوداس کی خرابیوں کے قائل ہو کر اس کو چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر قوم کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت (کانگریس) نے اکثریت کے ساتھ اس کی تحریم کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے قانون پاس کر دیا۔ پھر حکومت نے (اور اس حکومت نے جو اس وقت دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں سے ہے) اس کی خرید و فروخت‘ ساخت و پرداخت‘ درآمد و برآمد کو روکنے کے لیے اپنی ساری قوتیں صَرف کرڈالیں، مگر قوم (اور وہ قوم جو اس وقت تعلیم یافتہ اور روشن خیال قوموں کی صفِ اول میں ہے) اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ آخر کار چودہ پندرہ برس کی قلیل‘ مدت ہی میں قانون مجبور ہوگیا کہ حرام کو پھر حلال کر دے۔

دوسری طرف اسلام میں شراب کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ نہیں کیا گیا۔ نشر و اشاعت پر ایک پیسہ بھی صَرف نہ ہوا۔ کوئی اینٹی سیلون لیگ قائم نہیں کی گئی۔ اللہ کے رسولؐ نے بس اتنا کہا کہ اللہ نے تمھارے لیے شراب حرام کردی ہے‘ اور جونہی کہ یہ حکم اس زبان سے نکلا تمام قوم اور وہ قوم جو شراب کے عشق میں امریکہ سے بڑھ کر تھی مگر اصطلاحی علم و دانش میں ان سے کوئی نسبت نہ رکھتی تھی شراب سے باز آگئی اور ایسی باز آئی کہ جب تک وہ اسلام کے دائرے میں ہے اس کی ’خشکی‘ سے ’تری‘ کی جانب تجاوز کرنا ممکن نہیں ہے۔ ’خشکی‘ کے حصار میں بند رہنے کے لیے وہ کسی حاکمانہ قوت‘ کسی احتساب اور کسی نظامِ تعزیری کی محتاج نہیں ہے۔ اگر کوئی قوتِ جابرہ موجود نہ ہو تب بھی اس سے باز رہے گی۔ پھر یہ تحریم ایسی تحریم نہیں ہے جس کو کسی طرح تحلیل سے بدلا جاسکتا ہو۔ اگر تمام عالم کے مسلمان بالاتفاق شراب کی تائید میں ووٹ دے دیں تب بھی یہ حرام کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔

آپ اس عظیم الشان تفاوت کے اسباب پر غور کریں گے تو اس سے چند ایسی باتیں معلوم ہوں گی جو نہ صرف شراب کے معاملے میں‘ بلکہ قانون و اخلاق کے تمام مسائل میں اصولِ کلیہ کا حکم رکھتی ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسانی معاملات کی تنظیم میں اسلام اور دنیوی قوانین کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔ دنیوی قوانین کا انحصار سراسر انسانی رائے پر ہے، اس لیے وہ نہ صرف اپنے کلیات بلکہ ہر ہر جزئیے میں عوام یا خواص کی رائے کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں‘ اور انسانی رائے کا (خواہ وہ عوام کی ہو یا خواص کی) حال یہ ہے کہ وہ ہر آن داخلی میلانات و رجحانات‘ خارجی اسباب و عوامل‘ اور علم و عقل کے تغیر پذیر احکام سے (جو ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ صحیح ہوں) متاثر ہوتی رہتی ہے۔ ان تاثرات سے آرا و افکار میں تغیر ہوتا ہے۔ اس تغیر سے لازمی طور پر اچھے اور برے‘ صحیح اور غلط‘ جائز اور ناجائز‘ حرام اور حلال کے معیارات بدلتے رہتے ہیں‘ اور ان کے بدلنے کے ساتھ ہی قانون کو بھی بدل جانا پڑتا ہے۔ اس طرح اخلاق اور تہذیب کا کوئی پایدار‘ مستقل‘ ناقابل تغیر معیار قائم ہی نہیں ہونے پاتا۔ انسان کا تَلَوُّن قانون پر حکمرانی کرتا ہے‘ اور قانون کا تَلَوُّنّ ُ انسانی زندگی پر۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نو مشق موٹر چلا رہا ہو اور اس کے ناآزمودہ ہاتھ بے قاعدگی کے سات اسٹیرنگ کوکبھی اِدھر اور کبھی اُدھر گھما رہے ہوں۔ اس کی ان بے قاعدہ گردشوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موٹر کی حرکت بھی بے قاعدہ اور غیر مستقیم ہوگی‘ وہ استقلال کے ساتھ کسی ایک مُعَیّن راستے پر نہ چل سکے گی‘ اور جب وہ آڑھی ترچھی رفتار سے چلے گی تو خود چلانے والے حضرت ہی پر اس کا اثر پڑے گا۔ کبھی وہ سیدھے راستے پر ہوں گے اور کبھی ٹیڑھے راستے پر۔ کہیں کسی گڑھے میں جاگریں گے‘ کہیں کسی دیوار سے ٹکرائیں گے‘ اور کہیں نشیب و فراز کے دھچکے کھائیں گے۔

بخلاف اس کے اسلام میں قانون و اخلاق کے کلیات تمام تر اور جزئیات بیش تر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں‘ انسانی رائے کو ان میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے اور جزئیات میں کسی حد تک دخل ہے بھی تو وہ صرف اس قدر ہے کہ زندگی کے تغیر پذیر حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کلی احکام اور جزئی نظائر سے حسبِ موقع نئے جزئیات مستنبط کرتے رہیں‘ جن کو لازماً اصولِ شرع کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس الٰہی قانون سازی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اخلاق اور تہذیب کا ایک مستقل اور غیر تغیر پذیر معیار موجود ہے۔ ہمارے اخلاقی و مدنی قوانین میں تَلَوُّن کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کل کا حرام، آج حلال اورکل پھر حرام نہیں ہوسکتا۔ یہاں تو جو حرام کر دیا گیا وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے‘ اور جو حلال کر دیا گیا وہ قیامت تک حلال ہے۔ ہم نے اپنی موٹر کار کا اسٹیرنگ ایک ماہر کامل کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اب ہم مطمئن ہیں کہ وہ موٹر کو سیدھے رستے پر چلائے گا:

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِج وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ (ابراہیم۱۴ ۲۷)

[ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔]

اس میں ایک دوسرا اہم نکتہ بھی ہے۔ دنیوی طاقتیں انسانی زندگی کے لیے ضوابط بنانے اور اخلاق‘ معاشرت اور تمدن کی اصلاح کرنے کے لیے ہمیشہ اس کی محتاج رہتی ہیں کہ ہر جزئی معاملے میں پہلے عوام کو اصلاح کے لیے راضی کریں، پھر عمل کی جانب قدم بڑھائیں۔ ان کے قوانین کی ہر دفعہ اپنے نفاذ کے لیے عامہ خلائق کی رضا پر منحصر ہوا کرتی ہے اور جس اصلاحی یا تنظیمی قانون کا نفاذ عوام کی رضا کے خلاف کر دیا گیا ہو اُسے بعد از خرابی ہائے بسیار منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہ صرف امریکہ کا تجربہ ہے، بلکہ دنیا کے تمام تجربات اس بات پر شہادت دے رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی قوانین درحقیقت اصلاحِ اخلاق و معاشرت کے معاملے میں قطعاً ناکارہ ہیں۔ وہ جن بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں انھی کی رضا پر ان قوانین کا منظور یا نامنظور ہونا اور نافذ یا منسوخ ہو جانا منحصر ہے۔

اسلام نے اس اشکال کو ایک دوسرے طریقے سے حل کیا ہے۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مشکل کا کوئی حل بجز اس کے نہیں ہے۔ وہ تمدن‘ معاشرت اور اخلاق کے مسائل کو چھیڑنے اور قوانینِ شریعت کی اطاعت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انسان کو دعوت دیتا ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئے۔ یہ بات یقیناًانسان کی رضا پر منحصر ہے کہ وہ ایمان لائے یا نہ لائے، مگر جب وہ ایمان لے آیا تو اس کی رضا و عدم رضا کا کوئی سوال باقی نہ رہا۔ اب خدا کی طرف سے اس کا رسولؐ جو حکم بھی دے اور خدا کی کتاب جو قانون بھی مقرر کرے وہ اس کے لیے واجب الاطاعت ہے۔ اس ایک اصل کے قائم ہو جانے کے بعد شریعتِ اسلامی کے تمام قوانین اس پر نافذ ہو جائیں گے اور کسی جزئی یا کلی مسئلے میں اس کی رضامندی یا نارضامندی کا دخل نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں جو کام کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے صَرف اور بے نظیر تبلیغ و اشاعت اور حکومت کی زبردست کوششوں کے باوجود نہ ہوسکا وہ عالمِ اسلامی میں خدا کی جانب سے رسولؐ خدا کی صرف ایک منادی سے ہوگیا۔

تیسری سبق آموز بات یہ ہے کہ کوئی انسانی جماعت خواہ کتنی ہی علوم و فنون کی روشنی سے بہرہ ور ہو‘ اور خواہ عقلی ترقیات کے آسمان ہی پر کیوں نہ پہنچ جائے‘ اگر وہ الٰہی قوانین کی تابع فرمان نہ ہو، اور ایمان کی قوت نہ رکھتی ہو تو کبھی ہوائے نفس کے چنگل سے نہیں نکل سکتی۔ اس پر خواہشاتِ نفسانی کا غلبہ اتنا شدید رہے گا کہ جس چیز پر اس کا نفس مائل ہوگا اُس کی مضرتیں اگر آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر کے دکھا دی جائیں‘ اگر اس کے خلاف سائنس (یعنی پرستارانِ عقل کے معبود) کو بھی گواہ بنا کر لاکھڑا کیا جائے‘ اگر اس کے مقابلے میں اعداد و شمار کی بھی شہادت پیش کر دی جائے (جو ارباب حکمت کی نگاہ میں ہرگز جھوٹی نہیں ہوسکتی)، اگر اس کی خرابیاں تجربے و مشاہدے سے بھی ثابت کر دی جائیں‘ تب بھی وہ کبھی اپنے نفس کے معشوق کو نہ چھوڑے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں حاسّہ اخلاقی پیدا کرنا اور اس کے ضمیر کی تشکیل کرنا اور اس میں اتنی طاقت بھر دینا کہ وہ نفس پر غالب آجائے‘ فلسفہ و سائنس کے بس کی بات ہے اور نہ عقل و خرد کی۔ یہ کام بجز ایمان کے اور کسی چیز کے ذریعے سے انجام نہیں پاسکتا۔

(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۲ھ۔ جنوری ۱۹۳۴ء)