مغربی تہذیب کی خود کشی - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان قوموں کی ترقی لازوال ہے‘ دنیا پر ان کے غلبے اور تسلط کا دائمی فیصلہ ہو چکا ہے‘ ربع مسکون۱؂ کی حکومت اور عناصر کی فرماں روائی کا انھیں ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، اور ان کی طاقت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی ہے کہ کسی کے اکھاڑے نہیں اکھڑ سکتی۔

ایسا ہی گمان ہر زمانے میں ان سب قوموں کے متعلق کیا جاچکا ہے جو اپنے اپنے وقت کی غالب قومیں تھیں۔ مصر کے فراعنہ‘ عرب کے عاد و ثمود‘ عراق کے کلدانی‘ ایران کے اکاسرہ‘ یونان کے جہانگیر فاتح‘ روم کے عالم گیر فرماں روا مسلمانوں کے جہاں کشا مجاہد‘ تاتار کے عالم سوز سپاہی‘ سب اس کرہ خاکی کے اسٹیج پر اسی طرح غلبہ و قوت کے تماشے دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے جس جس کے کھیل کی باری آئی‘ اس نے اپنی چلت پھرت کے کرتب دکھا کر اسی طرح دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر قوم جب اٹھی ہے تو وہ اسی طرح دنیا پر چھا گئی ہے۔ اسی طرح اس نے چار دانگ عالم میں اپنی شوکت و جبروت کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اسی طرح دنیا نے مبہوت ہو کر گمان کیا ہے کہ ان کی طاقت لازوال ہے، مگر جب ان کی اجل پوری ہوگئی اور حقیقت میں لازوال طاقت رکھنے والے فرماں روا نے ان کے زوال کا فیصلہ صادر کر دیا‘ تو وہ ایسے گرے کہ اکثر تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے، اوربعض کا نام و نشان اگر دنیا میں باقی رہا بھی تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے محکوموں کے محکوم ہوئے‘ اپنے غلاموں کے غلام بنے‘ اپنے مغلوبوں کے مغلوب ہو کر رہے

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۷)

[تم سے پہلے بہت سے دَور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر دیکھ لو کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جنھوں نے (اللہ کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا۔]

کائنات کا نظام کچھ اس طور پر واقع ہوا ہے کہ اس میں کہیں سکون اور ٹھہراؤ نہیں ہے۔ ایک پیہم حرکت‘ تغیر اور گردش ہے جو کسی چیز کو ایک حالت پر قرار نہیں لینے دیتی۔ ہر کون کے ساتھ ایک فساد ہے‘ ہر بناؤ کے ساتھ ایک بگاڑ ہے‘ ہر بہار کے ساتھ ایک خزاں ہے‘ ہر چڑھاؤ کے ساتھ ایک اتار ہے‘ اور اسی طرح اس کا عکس بھی ہے۔ ایک ماشہ بھر کا دانہ آج ہوا میں اڑا اڑا پھرتا ہے‘ کل وہی زمین میں استحکام حاصل کرکے ایک تناور درخت بن جاتا ہے‘ پرسوں وہی سوکھ کر پیوندِ خاک ہو جاتا ہے اور فطرت کی نمو بخشنے والی قوتیں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے بیج کی پرورش میں لگ جاتی ہیں۔ یہ زندگی کے اتار چڑھاؤ ہیں۔ انسان جب ان میں سے کسی ایک حالت کو زیادہ طویل مدت تک جاری رہتے ہوئے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ حالت دائمی ہے۔ اگر اتار ہے تو سمجھتا ہے کہ اتار ہی رہے گا۔ اگر چڑھاؤ ہے تو خیال کرتا ہے کہ چڑھاؤ ہی رہے گا، لیکن یہاں فرق جو کچھ بھی ہے دیر اور سویر کا ہے۔ دوام کسی حالت کو بھی نہیں ہے

وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ (آل عمران۳ ۱۴۰)

[یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔]

دنیا کے حالات ایک طرح کی دَوری حرکت میں گردش کر رہے ہیں۔ پیدائش اور موت‘ جوانی اور بڑھاپا‘ قوت اور ضعف‘ بہار اور خزاں‘ شگفتگی اور پژمردگی‘ سب اسی گردش کے مختلف پہلو ہیں۔ اس گردش میں باری باری سے ہر چیز پر ایک دورِ اقبال کا آتا ہے جس میں وہ بڑھتی ہے‘ پھیلتی ہے‘ قوت اور زور دکھاتی ہے، حسن اور بہار کی نمائش کرتی ہے حتیٰ کہ اپنی ترقی کی انتہائی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر ایک دوسرا دور آتا ہے جس میں وہ گھٹتی ہے‘ مرجھاتی ہے‘ ضعف اور ناتوانی میں مبتلا ہوتی ہے‘ اور آخر کار وہی قوتیں اس کا خاتمہ کر دیتی ہیں جنھوں نے اس کی ابتدا کی تھی۔

یہ اپنی مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کی سنت ہے‘ اور دنیا کی سب چیزوں کے مانند یہی سنت انسان پر بھی جاری ہے‘ خواہ اس کو فرد کی حیثیت سے لیاجائے یا قوم کی حیثیت سے‘ ذلت اور عزت‘ عُسر اور یُسر‘ تنزل اور ترقی‘ اور ایسی ہی دوسری تمام کیفیات اسی دَوری حرکت کے ساتھ مختلف افراد اور مختلف قوموں میں تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ باری باری سے سب پر یہ دور گزرتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس تقسیم میں کلیتہً محروم رکھا گیا ہو‘ یا جس پر کسی ایک کیفیت کو دوام بخشا گیا ہو۔ عام اس سے کہ وہ اقبال کی کیفیت ہو یا ادبار کی

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔ (الاحزاب۳۳ ۶۲)

[یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔]

روئے زمین کے چپے چپے پر ہم کو ان قوموں کے آثار ملتے ہیں جو ہم سے پہلے ہو گزری ہیں۔ وہ اپنے تمدن و تہذیب‘ اپنی صنعت و کاریگری‘ اپنی ہنر مندی و چابک دستی کے ایسے نشانات دنیا میں چھوڑ گئی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کی ترقی یافتہ اور غالب قوموں سے وہ کچھ کم نہ تھیں بلکہ اپنے ہم عصروں پر ان کا غلبہ کچھ ان سے زیادہ تھا

کَانُوْآ اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَّ اَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْھَا اَکْثَرَمِمَّا عَمَرُوْھَا۔(الروم۳۰ ۹)

[وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، انھوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انھوں نے نہیں کیا ہے۔]

مگر پھر ان کا حشر کیا ہوا؟ اقبال سامنے دیکھ کر وہ دھوکا کھا گئے۔ نعمتوں کی بارش نے ان کو غرہ میں ڈال دیا۔ خوش حالی ان کے لیے فتنہ بن گئی۔ غلبے اور حکومت سے مغرور ہو کر وہ جبار و قہار بن بیٹھے۔ انھوں نے اپنے کرتوتوں سے اپنے نفس پر آپ ظلم کرنا شروع کر دیا۔

وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۔ (ھود ۱۱ ۱۱۶)

[ظالم لوگ تو انھی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کا سامان انھیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔]

خدا نے ان کی سرکشی کے باوجود ان کو ڈھیل دی

وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَھَا وَھِیَ ظَالِمَۃٌ۔ (الحج ۲۲ ۴۸)

[کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں میں نے انھیں مہلت دی۔]

اور یہ ڈھیل بھی کچھ معمولی ڈھیل نہ تھی۔ بعض قوموں کو صدیوں تک یوں ہی ڈھیل دی جاتی رہی

وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ (الحج۲۲۴۷)

[تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمھارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔]

مگر ہر مہلت ان کے لیے ایک نیا فتنہ بن گئی۔ وہ سمجھے کہ خدا ان کی تدبیروں کے مقابلے میں عاجز آگیا ہے‘ اور اب دنیا پر خدا کی نہیں ان کی حکومت ہے۔ آخر کار قہر الٰہی بھڑک اٹھا۔ ان کی طرف سے نظر عنایت پھر گئی۔ اقبال کے بجائے ادبارہ کا دور آگیا۔ ان کی چالوں کے مقابلے میں خدا بھی ایک چال چلا، مگر خدا کی چال ایسی تھی کہ وہ اس کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے، پھر اس کا توڑ کہاں سے کرتے؟

وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکْرَنَا مَکْرًا وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔ (النمل ۲۷۵۰)

[یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔]

خدا کی چال سامنے سے نہیں آتی‘ خود انسان کے اندرسے اس کے دماغ اور دل میں سرایت کرکے اپنا کام کرتی ہے‘ وہ انسان کی عقل‘ اس کے شعور‘ اس کی تمیز‘ اس کی فکر‘ اس کے حواس پر حملہ کرتی ہے‘ وہ اس کے سینے کی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے۔ وہ اس کو آنکھوں کا اندھا نہیں بلکہ عقل کا اندھا بنا دیتی ہے

فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَ بْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔ (الحج۲۲۴۶)

[حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔]

اور جب اس کے دل کی آنکھیں پھوٹ جاتی ہیں تو ہر تدبیر جو اپنی بہتری کے لیے سوچتا ہے‘ وہ الٹی اس کے خلاف پڑتی ہے۔ ہر قدم جو وہ کامیابی کے مقصود کی طرف بڑھاتا ہے‘ وہ اس کو ہلاکت کے جہنم کی طرف لے جاتا ہے‘ اس کی ساری قوتیں خود اس کے خلاف بغاوت کر دیتی ہیں‘ اور اس کے اپنے ہاتھ اس کا گلا گھونٹ کر رکھ دیتے ہیں

فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِھِمْلا اَنَّا دَمَّرْنٰھُمْ وَقَوْمَھُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ (النمل ۲۷۵۱)

[اب دیکھ لو کہ اُن کی چال کا انجام کیا ہوا، ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور اُن کی پوری قوم کو۔]

اس اقبال و ادبار کا ایک مکمل نقشہ ہم کو آل فرعون اور بنی اسرائیل کے قصے میں ملتا ہے۔ اہل مصر جب ترقی کے انتہائی مدارج کو پہنچ گئے تو انھوں نے ظلم و سرکشی پر کمر باندھی۔ ان کے بادشاہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا‘ اور ایک کمزور قوم بنی اسرائیل کو جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں وہاں جاکر آباد ہوگئی تھی حد سے زیادہ جور و ستم کا تختہ مشق بنایا۔ آخر کار اس کی اور اہل مصرکی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ارادہ کیا کہ ان کو نیچا دکھائے اور اسی ضعیف قوم کو سربلند کرے جس کو وہ ہیچ سمجھتے تھے۔ چنانچہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ اُس ضعیف قوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ان کو خود فرعون کے گھر میں خود اس کے ہاتھوں سے پرورش کرایا گیا اور انھیں اس خدمت پر مامور کیا گیا کہ اپنی قوم کو مصریوں کی غلامی سے نجات دلائیں۔ انھوں نے فرعون کو نرمی کی راہ سے سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ خدا کی طرف سے فرعون اور اس کی قوم کو مسلسل تنبیہیں کی گئیں، قحط پر قحط پڑے، طوفان پر طوفان آئے‘ خون برسا‘ ٹڈی دل ان کے کھیتوں کو چاٹ گئے، جوؤں اور مینڈکوں نے ان کو خوب ستایا، مگر ان کے تکبر میں فرق نہ آیا

فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ۔ (الاعراف۷ ۱۳۳)

[وہ سرکشی کیے چلے گئے، اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔]

جب تمام حجتیں ایک ایک کرکے ختم ہو چکیں تو عذاب الٰہی کا فیصلہ نافذ ہوگیا۔ خدا کے حکم سے حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل گئے۔ فرعون اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا اور مصر کی طاقت ایسی تباہ ہوئی کہ صدیوں تک نہ ابھر سکی

فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہ‘ فَنَبَذْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ ج فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo (القصص۲۸ ۴۰)

[آخر کار ہم نے اُسے اور اُس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ اُن ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔]

پھر بنی اسرائیل کی باری آئی۔ مصری قوم کو گرانے کے بعد کائنات کے حقیقی فرماں روا نے اس قوم کو زمین کی حکومت بخشی جو دنیا میں ذلیل و خوار تھی

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ۵لا بِمَا صَبَرُوْا۔ (الاعراف۷ ۱۳۷)

[اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔]

اور اس کو دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت عطا فرمائی

وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔ (البقرہ۲ ۴۷)

[اور میں نے تمھیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔]

مگر یہ فضیلت اور وراثت ارضی حسن عمل کی شرط کے ساتھ مشروط تھی۔ حضرت موسیٰ کی زبان سے پہلے ہی کہلوا دیا گیا تھا کہ تم کو زمین کی خلافت دی تو ضرورجائے گی‘مگر اس بات پر بھی نظر رکھی جائے گی کہ تم کیسے عمل کرتے ہو کَیْفَ تَعْمَلْوْنَ۔ (الاعراف۷ ۱۲۹)، اور یہ وہ شرط ہے جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ جس قوم کو بھی زمین کی حکومت دی جاتی ہے اس پر یہی شرط لگا دی جاتی ہے

ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰءِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۔ ( یونس۱۰ ۱۴)

[ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں اُن کی جگہ دی ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔]

پس جب بنی اسرائیل نے اپنے رب سے سرکشی کی‘ اس کے کلام میں تحریف کی‘ حق کو باطل سے بدل دیا‘ حرام خوری‘ جھوٹ‘ بے ایمانی اور عہد شکنی کا شیوہ اختیار کیا‘ زرپرست‘ حریص‘ بزدل اور آرام طلب بن گئے‘ اپنے انبیا علیہم السلام کو قتل کیا، حق کی طرف بلانے والوں سے دشمنی کی‘ آئمۂ خیر سے منہ موڑا‘ آئمہ شر کی اطاعت اختیار کی تو رب العالمین کی نظر ان کی طرف سے پھر گئی۔ ان سے زمین کی وراثت چھین لی گئی۔ ان کو عراق‘ یونان اور روم کے جابر سلاطین سے پامال کرایا گیا۔ ان کو گھر سے بے گھر کر دیا گیا۔ ان کو ذلت و خواری کے ساتھ ملک ملک کی خاک چھنوائی گئی۔ انتظام ان سے چھین لیا گیا۔ دو ہزار برس سے وہ خدا کی لعنت میں ایسے گرفتار ہوئے ہیں کہ دنیا میں ان کو عزت کا ٹھکانا نہیں ملتا۱؂

وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط (البقرہ۲ ۶۱)

[ذلت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مُسلّط ہو گئی اور اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔]

آج اسی سنت الٰہی کا اعادہ پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ جس شامتِ اعمال میں پچھلی قومیں گرفتار ہوئی تھیں اسی شامت نے آج مغربی قوموں کو آن پکڑا ہے۔ جتنی تنبیہیں ممکن تھیں وہ سب ان کو دی جاچکی ہیں۔ جنگ عظیم کے مصائب‘ معاشی مشکلات‘ بے کاری کی کثرت‘ امراض خبیثہ کی شدت‘ نظام عائلی کی برہمی‘ یہ سب کھلی ہوئی روشن آیات ہیں جن سے وہ اگر آنکھیں رکھتے تو معلوم کرسکتے تھے کہ ظلم‘ سرکشی‘ نفس پرستی‘ اور حق فراموشی کے کیا نتائج ہوتے ہیں، مگر وہ ان آیات سے سبق نہیں لیتے۔ حق سے منہ موڑنے پر برابر اصرار کیے جارہے ہیں۔ ان کی نظر علتِ مرض تک نہیں پہنچتی۔ وہ صرف آثارِ مرض کو دیکھتے ہیں اور انھی کا علاج کرنے میں اپنی ساری تدابیر صرف کر رہے ہیں۔ اسی لیے جوں جوں دوا کی جاتی ہے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب حالات کہہ رہے ہیں کہ تنبیہوں اور حجتوں کا دور ختم ہونے والا ہے اور آخری فیصلے کا وقت قریب ہے۔

قدرتِ الٰہی نے دو زبردست شیطان مغربی قوموں پر مسلط کر دیے ہیں جو ان کو ہلاکت اور تباہی کی طرف کھینچے لیے جارہے ہیں

o ایک قطع نسل کا شیطان ہے

o اور دوسرا قوم پرستی کا شیطان۔

پہلا شیطان ان کے افراد پر مسلط ہے اور دوسرا ان کی قوموں اور سلطنتوں پر۔ پہلے نے ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کی عقلیں خراب کر دی ہیں۔ وہ خود ان کے اپنے ہاتھوں سے ان کی نسلوں کا استیصال کرا رہا ہے وہ انھیں منعِ حمل کی تدبیریں سجھاتا ہے۔ اسقاطِ حمل پر آمادہ کرتا ہے۔ عمل تعقیم (Sterilization) کے فوائد بتاتا ہے جن سے وہ اپنی قوتِ تولید کا بیچ ہی مار دیتے ہیں۔ انھیں اتنا شقی القلب بنا دیتا ہے کہ وہ بچوں کو آپ ہلاک کر دیتے ہیں۔ غرض یہ شیطان وہ ہے جو بتدریج ان سے خود کشی کرا رہا ہے۔

دوسرے شیطان نے ان کے بڑے بڑے سیاسی مدبروں اور جنگی سپہ سالاروں سے صحیح فکر اور صحیح تدبیر کی قوت سلب کرلی ہے۔ وہ ان میں خود غرضی‘ مسابقت‘ منافرت‘ عصبیت اور حرص و طمع کے جذبات پیدا کر رہا ہے۔ وہ ان کو مخاصم اور معاند گروہوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ انھیں ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھاتا ہے کہ یہ بھی عذابِ الٰہی کی ایک صورت ہے

اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍط (الانعام۶ ۶۵)



[یا تمھیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔]

وہ ان کو ایک بڑی زبردست خود کشی کے لیے تیار کر رہا ہے‘ جو تدریجی نہیں بلکہ اچانک ہوگی۔ اس نے تمام دنیا میں بارود کے خزانے جمع کر دیے ہیں اور جگہ جگہ خطرے کے مرکز بنا رکھے ہیں۔ اب وہ صرف ایک وقت کا منتظر ہے۔ جونہی کہ اُس کا وقت آیا وہ کسی ایک خزانۂ باروت کو شتابہ دکھا دے گا اور پھر آن کی آن میں وہ تباہی نازل ہوگی جس کے آگے تمام پچھلی قوموں کی تباہیاں ہیچ ہوجائیں گی۔

یہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس میں کسی قسم کا مبالغہ نہیں ہے‘ بلکہ یورپ‘ امریکہ اور جاپان میں آئندہ جنگ کے لیے جس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں ان کو دیکھ دیکھ کر خود ان کے اہلِ بصیرت لرز رہے ہیں‘ اور اس جنگ کے نتائج کا تصور کر کے ان کے حواس باختہ ہوئے جاتے ہیں۔ حال میں سرجل نیومان (Sergel Neuman) نے جو پہلے امریکہ کے ملٹری اسٹاف کا ایک رکن تھا‘ آئندہ جنگ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ آئندہ جنگ محض فوجوں کی لڑائی نہیں ہوگی بلکہ اسے ایک قتل عام کہنا چاہیے جس میں عورتوں اور بچوں تک کو نہ چھوڑا جائے گا۔ سائنس دانوں کی عقل نے جنگ کاکام سپاہیوں سے چھین کر کیمیاوی مرکبات اور بے روح آلات کے سپرد کر دیا ہے جو مقاتل (Combatants)اور غیر مقاتل (Non Combatants) میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ اب محارب طاقتوں کی لڑائی میدانوں اور قلعوں میں نہیں بلکہ شہروں اور بستیوں میں ہوگی کیونکہ جدید نظریے کے مطابق غنیم کی اصلی قوت فوجوں میں نہیں بلکہ اس کی آبادیوں‘ اس کی تجارتی منڈیوں اور صنعتی کارگاہوں میں ہے۔ اب ہوائی جہازوں سے طرح طرح کے بم برسائے جائیں گے جن سے آتش فشاں مادے‘ زہریلی ہوائیں‘ امراض کے جراثیم نکل کر وقت واحد میں ہزاروں لاکھوں کی آبادی کو نیست و نابود کردیں گے۔ ان میں سے ایک قسم کے بم (Lewisite Bombs) ایسے ہیں جن کا ایک گولہ لندن کی بڑی سے بڑی عمارت کو پارہ پارہ کرسکتا ہے۳؂ ۔ایک زہریلی ہوا (Green cross gass)کے نام سے موسوم ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس کو سونگھے گا وہ ایسا محسوس کرے گا کہ گویا پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ایک دوسری قسم کی زہریلی ہوا (Yellow cross gas) میں سانپ کے زہر کی سی خاصیت ہے اور اس کے سونگھنے سے بالکل وہی اثرات ہوتے ہیں جو سانپ کے کاٹے سے ہوتے ہیں۔ اسی قسم کی بارہ زہریلی ہوائیں اور بھی ہیں جو تقریباً غیر مرئی ہیں۔ ان کے اثرات ابتداءً بالکل محسوس نہیں ہوتے اور جب محسوس ہوتے ہیں تو تدبیر علاج کے امکانات باقی نہیں رہتے۔ ان میں سے ایک خاص ہوا ایسی ہے جو بہت بلندی پر پہنچ کر پھیل جاتی ہے اور جو ہوائی جہاز اس کے حلقے سے گزرتا ہے اس کا چلانے والا یکایک اندھا ہو جاتا ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے بعض زہریلی ہوائیں اگر ایک ٹن کی مقدار میں شہر پیرس پر چھوڑ دی جائیں تو ایک گھنٹے کے اندر اُسے کلیتہً تباہ کیاجاسکتا ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کو انجام دینے کے لیے صرف سو ہوائی جہاز۱؂ کافی ہیں۔

حال میں ایک برقی آتش فشاں گولہ ایجادکیا گیا ہے جس کا وزن صرف ایک کلوگرام ہوتا ہے مگر اتنے سے گولے میں یہ قوت ہے کہ جب کسی چیز سے اس کا تصادم ہوتا ہے تو دفعتہ تین ہزار درجہ فارن ہیٹ کی حرارت پیدا ہوتی ہے اور اس سے ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو کسی چیز سے بجھائی نہیں جاسکتی۔ پانی اس کے حق میں پٹرول ثابت ہوا ہے اور ابھی تک سائنس اس کے بجھانے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں کرسکا ہے۔ خیال یہ ہے کہ ان کو شہروں کے بڑے بڑے بازاروں پر پھینکا جائے گا تاکہ اِس سرے سے اُس سرے تک آگ لگ جائے۔ پھر جب لوگ سراسیمہ ہو کر بھاگنے لگیں گے تو ہوائی جہازوں سے زہریلی ہواؤں کے بم برسائے جائیں جن سے تباہی کی تکمیل ہو جائے گی۔

ان ایجادات کو دیکھ کر ماہرینِ فن نے اندازہ لگایا ہے کہ چند ہوائی جہازوں سے دنیا کے بڑے سے بڑے اور محفوظ دارالسلطنت کو دو گھنٹوں میں پیوندِ خاک کیا جاسکتا ہے۔ لاکھوں کی آبادی کو اس طرح مسموم کیا جاسکتا ہے کہ رات کو اچھے خاصے سوئیں اور صبح کو ایک بھی زندہ نہ اٹھے۔ زہریلے مادوں سے ایک پورے ملک میں پانی کے ذخائر کو مسموم‘ مواشی اور حیوانات کو ہلاک‘ کھیتوں اور باغوں کو غارت کیا جاسکتا ہے۔ ان تباہ کن حملوں کی مدافعت کا کوئی موثر ذریعہ ابھی ایجادنہیں ہوا ہے بجز اس کے کہ دونوں محارب فریق ایک دوسرے پر اسی طرح حملے کریں اور دونوں ہلاک ہو جائیں۔

یہ آئندہ جنگ کی تیاریوں کا ایک مختصر بیان ہے۔ اگر آپ تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کتاب What would be The Character of A New Warملاحظہ کیجیے جو جنیوا کی انٹر پارلیمنٹری یونین نے باقاعدہ تحقیقات کے بعد شائع کی ہے۔ اس کو پڑھ کر آپ اندازہ کرلیں گے کہ مغربی تہذیب نے کس طرح اپنی ہلاکت کا سامان اپنے ہاتھوں فراہم کیا ہے۔اب اس کی عمر کا امتدادِ صرف اعلان جنگ کی تاریخ تک ہے۵ ؂جس روز دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ چھڑی اسی روز سمجھ لیجیے کہ مغربی تہذیب کی تباہی کے لیے خدا کا فیصلہ صادر ہو چکا، کیونکہ دو بڑی سلطنتوں کے میدان میں اترنے کے بعد کوئی چیز جنگ کو عالم گیر ہونے سے نہیں بچا سکتی، اور جب جنگ عالم گیر ہوگی تو تباہی بھی عالم گیر ہوگی

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ (الروم۳۰ ۴۱)

[لوگوں کے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کرتوتوں سے خشکی اور تری میں فساد رونما ہوگیا ہے تاکہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔ شاید وہ اب بھی رجوع کریں۔]

بہرحال اب قریب ہے کہ وراثتِ ارضی کا نیا بندوبست ہو، اور ظالمین و مسرفین کو گرا کر کسی دوسری قوم کو (جو غالبًا مستفعفین ہی میں سے ہوگی) زمین کی خلافت پر سرفراز کیا جائے۔ دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ حضرتِ حق کی نظرِ انتخاب کس پر پڑتی ہے۔

ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ آئندہ کون سی قوم اٹھائی جائے گی۔ یہ اللہ کی دین ہے جس سے چاہتا ہے چھینتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ ز

مگر اس معاملے میں بھی اس کا ایک قانون ہے جسے اس نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرما دیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک قوم کو جب وہ اس کے برے اعمال کی وجہ سے گراتا ہے تو اس کی جگہ کسی ایسی قوم کو اٹھاتا ہے جو اس مغضوب قوم کی طرح بدکار اور اس کے مانند سرکش نہ ہو

وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَایَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ۔ (محمد ۴۷ ۳۸)

[اگر تم نے روگردانی کی تو تمھارے بجائے کسی اور قوم کو اٹھائے گا پھر وہ لوگ تمھاری طرح نہ ہوں گے۔]

اس لیے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل جو کمزور اور مغلوب النفس قومیں مغربی تہذیب کی نقالی کر رہی ہیں اور فرنگی اقوام کے محاسن کو (جو تھوڑے بہت ان میں باقی رہ گئے ہیں) اختیار کرنے کے بجائے ان کے معائب کو اختیار کر رہی ہیں (جو ان کے مغضوب ہونے کی علت ہیں) ان کے لیے آئندہ انقلاب میں کامیابی و سرفرازی کا کوئی موقع نہیں ہے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۲ء۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء)