لارڈ لوتھین کا خطبہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


جنوری کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ (جدید اور قدیم دونوں) اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل و دماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو دور سے نہیں دیکھا ہے بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی یورپین ہے‘ آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ راؤنڈ ٹیبل جیسے مشہور رسالے کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور قریب قریب ۲۱ سال سے سلطنتِ برطانیہ کے مہمات امور میں ذمہ دارانہ حصہ لیتا ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظر نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور وہ ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں‘ کس وجہ سے ہیں اور اس کے گھر کے لوگ اس وقت درحقیقت کس چیز کے پیاسے ہو رہے ہیں۔

ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اور ان کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق ہی تریاق نہیں ہے بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا وہ آج خود آپ کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا۔ یہ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا چکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود ایک تریاق خالص کے محتاج ہیں۔ اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملا کر ہماری زہر آلود معجون کے مزے پر لگ جاؤ۔

دوسری حیثیت سے اس خطبے میں ہمارے علما اور مذہبی طبقوں کے لیے بھی کافی سامانِ بصیرت ہے۔ اس سے وہ اندازہ کرسکیں گے کہ اس وقت جس دنیا میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے سامنے اسلامی تعلیمات کے کن پہلوؤں کو روشنی میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کئی صدیوں سے مادہ پرستی کی تہذیب کا تجربہ کر رہی ہے اور اب اس سے تھک چکی ہے۔ صدیوں پہلے روحِ تحقیق اور آزادیِ فکر کا جو تریاق ہم نے اہلِ فرنگ کو بہم پہنچایا تھا‘ اس کو خود انھوں نے محض نادانستگی میں لامذہبی اور مادیت کے زہر سے آلود کر دیا اور دونوں کی آمیزش سے ایک نئی تہذیب کی معجون تیار کی۔ اس معجون کا تریاق اپنے زور سے انھیں ترقی کے آسمان پر اٹھا لے گیا‘ مگر اس کا زہر بھی برابر اپنا کام کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اب اس تریاق پر زہر کا اثر پوری طرح غالب ہو چکا ہے۔ اس کے تلخ نتائج کو خوب اچھی طرح بھگت لینے کے بعد اب وہ پھر تریاق کی مزید خوراک کے لیے چاروں طرف نظر دوڑا رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی معجون میں زہریلے اجزا کون کون سے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان اجزا کے ملنے سے ان کی زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ وہ اب یہ بھی صاف طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ ان اثرات کو دور کرنے کے لیے کس قسم کا تریاق انھیں درکار ہے، مگر صرف یہ بات ان کو معلوم نہیں کہ جس تریاق کے وہ طالب ہیں‘ وہ اسلام کے سوا دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں ہے اور یہ آخری خوراک بھی ان کو اسی دواخانے سے ملے گی جہاں سے پہلی خوراک ملی تھی۔

اس مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد بھی اگر وہ تریاق کے لیے بھٹکتے رہیں اور اسے نہ پا کر زہر سے ساری دنیا کو مسموم کیے چلے جائیں‘ تو اس گناہِ عظیم میں ان کے ساتھ علمائے اسلام بھی برابر کے شریک ہوں گے۔ علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔

ان وجوہ سے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اور علمادونوں لارڈ لوتھین کے اس خطبے کو غور سے ملاحظہ کریں۔ بیچ میں حسبِ ضرورت ہم مطالب کی تشریح کرتے جائیں گے تاکہ مغزِ کلام تک پہنچنے میں مزید سہولت ہو۔

لارڈ لوتھین اپنی بحث کی ابتدا اِس طرح کرتے ہیں:

“ایک اور امر تنقیح طلب ہے جس کی طرف آج میں آپ کی توجہ منعطف کرانا چاہتا ہوں۔ کیا ہندستان دور جدید کی سائنٹیفک اور عقلی تعلیم کے اس شدید نقصان سے بچ سکتا ہے جس میں یورپ اور امریکہ آج کل مبتلا ہیں؟”

مغرب میں حکمتِ جدید سے دو بڑے نتیجے رونما ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو اس نے فطرت اور اس کی طاقتوں پر انسان کی دست رس کو بہت زیادہ وسیع کر دیا۔ دوسری طرف اس نے یونی ورسٹیوں کے تعلیم پائے ہوئے لوگوں میں اور عموماً ساری دنیا میں متوارث مذہب کے اقتدار کو کمزور کر دیا۔ دنیائے جدید کی کم از کم آدھی خرابیاں انھی دو اسباب سے پیدا ہوئی ہیں۔ تہذیب یافتہ آدمی ان طاقتوں کے نشے سے چور ہوگیا ہے جو سائنس نے اس کو فراہم کر دی ہیں، مگر اس نے علم اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاص میں مساوی ترقی نہیں کی جو اس بات کی ضامن ہوسکتی تھی کہ یہ طاقتیں انسان کی تباہی کے بجائے اس کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔

اس تمہید میں فاضل خطیب نے دراصل انسانی تہذیب و تمدن کے بنیادی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سائنس مجرد سائنس ہونے کی حیثیت سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ تحقیق‘ اجتہاد اور تلاش و تجسس کی ایک لگن ہے جس کی بدولت انسان کو عالمِ طبیعی کی چھپی ہوئی قوتوں کا حال معلوم ہوتا ہے اور وہ ان سے کام لینے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ اس علم کی ترقی سے جو نئی طاقتیں انسان کوحاصل ہوتی ہیں‘ ان کو جب وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرنے لگتا ہے تو یہ تمدن کی ترقی کہلاتی ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں بجائے خود انسان کی فلاح کی ضامن نہیں ہیں۔ یہ جس طرح فلاح کی موجب ہوسکتی ہیں اسی طرح تباہی کی موجب بھی ہوسکتی ہیں۔ ہاتھ سے کام کرنے کے بجائے اگر انسان مشین سے کام کرنے لگا‘ جانوروں پر سفر کرنے کے بجائے اگر ریل اور موٹر اور بحری اور ہوائی جہازوں پر دوڑنے لگا‘ ڈاک چوکیوں کے بجائے اگر تار برقی اور لاسلکی سے خبررسانی ہونے لگی تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان پہلے سے زیادہ خوشحال ہوگیا۔ ان چیزوں سے جس قدر اس کی خوشحالی بڑھ سکتی ہے اسی قدر اس کی مصیبت اور تباہی بھی بڑھ سکتی ہے‘ کیونکہ جس دورِ تمدن میں انسان کے پاس صرف تیر و شمشیر کے آلات تھے‘ اس کے مقابلے میں وہ تمدن بدرجہا زیادہ مہلک ہوسکتا ہے جس میں اس کے پاس مشین گنیں اور زہریلی گیسیں‘ ہوائی جہاز اور تحت البحر کشتیاں ہوں۔ ترقیِ علم و تمدن کے موجب فلاح، یا موجب ہلاکت ہونے کا تمام تر انحصار اس تہذیب پر ہے جس کے زیر اثر علوم و فنون اور تمدن و حضارت کا ارتقا ہوتا ہے۔ ارتقا کا راستہ‘ انسانی مساعی کا مقصد اور حاصل شدہ طاقتوں کا مصرف متعین کرنے والی چیز دراصل تہذیب ہے۔ یہی انسان اور انسان کے باہمی تعلق کی نوعیت طے کرتی ہے‘ یہی اجتماعی زندگی کے اصول اور شخصی‘ قومی اور بین الاقوامی معاملات کے اخلاقی قوانین بناتی ہے اور فی الجملہ یہی چیز انسان کے ذہن کو اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے کہ علم کی ترقی سے جو طاقتیں اس کو حاصل ہوں انھیں اپنے تمدن میں کس صورت میں داخل کرے‘ کس مقصد کے لیے اور کس طرح ان کو استعمال کرے‘ مختلف استعمالات میں سے کن کو ترک اور کن کو اختیار کرے‘ عالم طبیعی (Physical World) کے مشاہدات اور قوانینِ طبیعی کے معلومات بجائے خود کسی اعلیٰ تہذیب کی بنیاد نہیں بن سکتے‘ کیونکہ ان کی رو سے تو انسان کی حیثیت ایک ذی عقل حیوان سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی مدد سے صرف وہی نظریہ حیات قائم کیا جاسکتا ہے جو مادہ پرستوں کا نظریہ ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کے لیے زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔اس زندگی میں اپنی حیوانی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ کمال کے ساتھ پورا کرنا اس کا منتہائے مقصود ہے اور کائنات میں جو تنازع اور انتخاب طبیعی اور بقائے اصلح کا قانون جاری ہے‘ ا سے ہم آہنگ ہو جانا اور گرد و پیش کی تمام مخلوقات کو کچل کر خود سب پر غالب ہو جانا ہی طاقت کا اصلی مصرف ہے۔ یورپ نے جو تہذیب اختیار کی وہ اسی نظریۂ حیات پر مبنی تھی اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم اور تمدن کی ترقی نے انسان کو جس قدر طاقتیں بہم پہنچائیں وہ سب انسانیت کی فلاح کے بجائے اس کی تباہی کے راستے میں صَرف ہونے لگیں۔ اب خود یورپ والوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کو حیوانی تہذیب سے بلند تر ایک انسانی تہذیب کی ضرورت ہے اور اس تہذیب کی اساس مذہب کے سوا اور کوئی چیز نہیں بن سکتی۔

آگے چل کر لارڈ لوتھین فرماتے ہیں

سائنٹیفک اسپرٹ (روحِ تحقیق) نے یہ تو ضرور کیا کہ رفتہ رفتہ پرانے توہمات کو دور کر دیا۔ علم کے دائرے کو پھیلا دیا اور اس طرح مردوں اور عورتوں کو ان بہت سی قیود سے آزاد کر دیا جن میں وہ پہلے جکڑے تھے، مگر اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا کہ انسان کو روحانی اور مذہبی صداقت کا شدت کے ساتھ حاجت مند بنا کر چھوڑ دیا اور اس صداقت تک پہنچنے کاکوئی راستہ فراہم نہ کیا۔ اکثر اہلِ مغرب کا یہ حال ہے کہ وہ بچوں کی طرح تیز رفتاری اور عجوبہ گری اور حواس کی لذتوں کے شوق میں منہمک ہیں‘ سادہ زندگی بسر کرنے کی صلاحیت اُن سے سلب ہوگئی ہے اور عملاً ان کا کوئی ربط اس لامحدود ازلی و ابدی حقیقت سے باقی نہیں رہا جسے مذہب پیش کرتا ہے۔



مذہب جو انسان کو ناگزیر رہنما‘ اور انسانی زندگی کو اخلاقی مقصد‘ شرف اور معنویت حاصل ہونے کا واحد ذریعہ ہے‘ اس کے اقتدار میں زوال آجانے کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی دنیا اُن سیاسی مسلکوں کی گرویدہ ہوگئی ہے جو نسلی یا طبقاتی بنیادوں پر قائم ہیں اور سائنس کی اس صورت پر ایمان لے آئی ہے جو محض مادی ترقی کو منتہائے مقصود قرار دیتی اور زندگی کو روز بروز پیچیدہ اور گراں بار بنائے چلی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی اس کا نتیجہ ہے کہ آج یورپ کے لیے اپنی روح اور اپنی زندگی میں اس اتحاد کا پیدا کرنادشوار ہو رہا ہے جو اس کو موجودہ دور کی سب سے بڑی مصیبت نیشنلزم سے نجات دلائے۔

اس کے بعد لارڈ لوتھین نے ہندستان کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا ہے

کیا ہندستان کے دو بڑے مذہب ہندو ازم اور اسلام‘ جدید دور کی تنقیدی اور تحقیقی روح کا مقابلہ مغرب کی مذہبی عصبیت کی بہ نسبت زیادہ کامیابی کے ساتھ کرسکیں گے؟ یہ اہم ترین سوال ہے اور اگر ہندستان کو ان مصائب سے بچانا ہے جو مغرب پر نازل ہو چکے ہیں تو اس ملک کے علمی اور مذہبی لیڈروں کو اسی سوال پر توجہ مرکوز کر دینی چاہیے۔ اس میں تو شک نہیں کہ روحِ تحقیق رفتہ رفتہ توہّم اور جاہلیت کے ان عناصر کو فنا کر دے گی جو اَب تک ہندستان کے عوام میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ بہت اچھا ہوگا‘ مگر کیا یہ چیز دونوں مذہبوں کے اصولِ اخلاق اور روحانیت کو بھی ان لوگوں کے دل و دماغ سے نکال دے گی جو آگے چل کر ہندستان کی سیاسی‘ تمدنی اور صنعتی زندگی کے لیڈر بننے والے ہیں؟ میں ہندو ازم اور اسلام کی اندرونی زندگی سے واقفیت کا مدعی نہیں ہوں‘ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایسے عناصر رکھتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کو یونی ورسٹیوں میں تعلیم پانے والے مردوں اور عورتوں پر قابو رکھنے کے قابل بنا سکیں گے۔ عیسائیت تو اپنی بعض ایسی غلط اعتقادی بندشوں کی وجہ سے اس میں ناکام ہو چکی ہے جنھوں نے اس مذہب کے جلیل القدر بانی کی پیش کردہ صداقتوں کو چھپا لیا۔

جیسا کہ لارڈ لوتھین نے خود اعتراف کیا ہے‘ حقیقتًا ان کو ہندو ازم اور اسلام کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ انھوں نے محض دور سے دیکھ کر چند چیزیں ہندو مذہب میں اور چند اسلام میں ایسی پائی ہیں جو اُن کے نزدیک جدید تنقید و تحقیق کی روح کے مقابلے میں تعلیم یافتہ لوگوں کو اخلاق و روحانیت کے بلند تر اصولوں پر قائم رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں، لیکن جو لوگ ان دونوں مذاہب‘ بلکہ ہندستان کے تمام مذاہب کا اندرونی علم رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ روحِ تنقید و تحقیق کے مقابلے میں اگر کوئی مذہب ٹھہر سکتا ہے‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں‘ اگر کوئی مذہب اس روح کے ساتھ اپنے پیروؤں کو لے کر آگے بڑھ سکتا ہے اور ترقی و روشنی کے دور میں پوری نوع انسانی کا مذہب بن سکتا ہے‘ تو وہ اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔

مسیحیت کیوں ناکام ہوئی۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ کوئی اجتماعی (Social)مسلک نہیں ہے بلکہ اجتماعیت کی عین نفی ہے۔ اس کو صرف فرد کی نجات سے بحث ہے اور اس کی نجات کا راستہ بھی اس نے یہ تجویز کیا ہے کہ دنیا سے منہ موڑ کر اپنا رخ آسمانی بادشاہت کی طرف پھیر لے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی قوموں نے ترقی کے راستے پر قدم بڑھایا تو مسیحیت ان کی مددگار ہونے کے بجائے مزاحم ہوئی اور انھیں اس کی بندشیں توڑ کر آگے بڑھنا پڑا۔ اسی سے ملتا جلتا حال ہندو ازم کا بھی ہے۔ اس کے پاس بھی کوئی ترقی پرور فلسفہ اور کوئی معقول قانون اخلاق‘ اور کوئی وسعت پذیر نظام اجتماعی نہیں ہے۔ سب سے بڑی طاقت جس نے اب تک ہندوؤں کو ایک سوشل سسٹم میں باندھے رکھا ہے اور دوسری تہذیبوں کا اثر قبول کرنے سے روکا ہے‘ وہ ان کا ورن آشرم (Caste System) ہے، مگر موجودہ دور کی روحِ تنقید و تحقیق کے سامنے اس بندھن کا ٹوٹنا یقینی ہے اور یہ ٹوٹ کر رہے گی۔ اس کے بعد کوئی چیز ہندو سوسائٹی کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکے گی اور اس کے مقفل دروازے بیرونی اثرات کے لیے چوپٹ کھل جائیں گے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہندوؤں کے قدیم قوانین معاشرت و تمدن اور ان کے پرانے بت پرستانہ توہمات اور ان کے غیر عقلی اور غیر علمی فلسفیانہ قیاسات‘ دور جدید کی علمی ترقی اور اجتماعی بیداری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ اب ہندو روز بروز ایک ایسے دوراہے کے قریب پہنچتے جارہے ہیں جہاں ان کی اور بڑی حد تک تمام ہندستان کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ یا تو وہ اسلام کے خلاف اسی تعصب میں گرفتار رہیں گے جس میں یورپ کی نشاۃ جدیدہ (Rennaissance) کے موقع پر مسیحی اہل یورپ گرفتار تھے اور اسی طرح اسلام سے منحرف ہو کر مادہ پرستانہ تہذیب کا راستہ اختیار کریں گے جس طرح اہل یورپ نے اختیار کیا، یا پھر فوج درج فوج اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گے۔

اس فیصلے کا انحصار بڑی حد تک مسلمانوں اور خصوصاً ان کے قدیم و جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے طرز عمل پر ہے۔ اسلام اپنے نام سے تو کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ اس کے اصول اگر محض کتاب میں لکھے رہیں تو ان سے بھی کسی معجزے کا صدور ممکن نہیں۔ جس انتشار اور بے عملی کی حالت میں مسلمان اس وقت مبتلا ہیں‘ جو جمود ان کے علما پر طاری ہے اور جس زنانہ انفعال و تاثر کااظہار ان کی نئی تعلیم یافتہ نسلوں سے ہو رہا ہے‘ اس سے ہندستان کی روح کو فتح کرنا تو درکنار‘ یہ بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ اسلام کے نام لیوا خوداپنی جگہ ہی پر قائم رہ جائیں گے۔ انقلاب کے تیز رَو سیلاب میں کسی جماعت کا ساکن کھڑا رہنا غیر ممکن ہے، یا اس کو رو میں بہنا پڑے گا‘ یا پوری مردانگی کے ساتھ اٹھ کر سیلاب کا منہ پھیر دینا ہوگا۔ یہ دوسری صورت صرف اسی طرح رونما ہوسکتی ہے کہ اول تو عام مسلمانوں کی اخلاقی حالت درست کی جائے اور ان میں اسلامی زندگی کی روح پھونک دی جائے۔ دوسرے علمائے اسلام اور نئے تعلیم یافتہ مسلمان مل کر اصول اسلام کے مطابق زندگی کے جدید مسائل کو سمجھیں اور علمی و عملی دونوں صورتوں میں ان کواس طرح حل کرکے بتائیں کہ اندھے متعصبیں کے سوا ہر معقول انسان کو تسلیم کرنا پڑ جائے کہ ایک ترقی پذیر تمدن کے لیے اسلامی تہذیب کے سوا اور کوئی اساس صحیح اور بے عیب نہیں ہوسکتی۔

ہندستان میں مذہب ۱؂ اور سائنس کی نزاع کا وہ تصور اب تک چلا جارہا ہے جو یورپ میں اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تھا، لیکن یورپ میں نقشہ بدل چکا ہے اور یورپ کا پس خوردہ کھانے والے ہندستان میں بھی عنقریب نقشہ بدل جانے والا ہے۔ لہٰذا وہ وقت قریب آرہا ہے جب ’’مذہب کے‘‘ خلاف کم ازکم علمی اور عقلی حیثیت سے یہ تعصب باقی نہ رہے گا۔ بشرطیکہ ہم اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے سے تیار ہوں۔ اس حقیقت کی طرف لارڈ لوتھین نے مختصر الفاظ میں یوں اشارہ کیا ہے

ساٹھ برس پہلے سائنس اور مذہب میں ایسا معرکہ جاری تھا جس کے ختم ہونے کی توقع نہ تھی۔ زندگی کے روحانی تصور اور مشینی تصور کے درمیان ایسی جنگ برپا تھی جس کے متعلق شبہ ہوتا تھا کہ یہ دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے پہلے ختم نہ ہوگی، مگر آج دونوں فریقوں نے ڈگیں ڈال دی ہیں۔ نہ سائنس داں‘ اور نہ دین دار ‘ دونوں میں سے کوئی بھی آج اس تحکم کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اس نے کائنات کا معمہ حل کرلیا ہے‘ بلکہ درحقیقت دل میں دونوں کے یہ شبہ پیدا ہو چکا ہے کہ آیا وہ اس معمے کے متعلق کچھ جانتے بھی ہیں یا نہیں۔ لہٰذا اب ایک ایسے امتزاج کا امکان ہو چکا ہے جو تحقیقِ علمی کے نئے نئے زور شور میں غیر ممکن نظر آتا تھا۔

لارڈ لوتھین بہرحال مذہب کے مسیحی تصور سے آزاد نہیں ہیں اور مذہب کا وہ عقلی تصور ان تک پہنچا ہی نہیں ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے‘ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہی سوچ سکتے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں اب کوئی امتزاج ہوسکتا ہے۔ لیکن ہم مذہب و سائنس کے امتزاج کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو حقیقی مذہب وہ ہے جو سائنس کی روح‘ اس کی رہنما طاقت بن جائے۔ اسلام درحقیقت ایسا ہی مذہب ہے اور آج اس کو سائنس کی روح بننے سے اگر کوئی چیز روکے ہوئے ہے تو وہ اس کا اپنا اندرونی نقص نہیں ہے بلکہ اس کے علم برداروں کی غفلت اور موجودہ سائنس کے علم برداروں کا جہل اور جاہلانہ تعصب ہے۔ یہ دو اسباب دور ہو جائیں‘ پھر یہ سائنس کے قالب میں جان ہی بن کر رہے گا۔

آگے چل کر فاضل خطیب نے اس امر پر بحث کی ہے کہ موجودہ دورکی علمی بیداری اورعقلی تنقید کے سامنے کس قسم کا مذہب ٹھہر سکتا ہے؟ انسان اس روشنی کے عہد میں جس مذہب کا طلب گار ہے اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ اور اس وقت انسان کی اصلی حاجات کیا ہیں جن کے لیے وہ مذہب کی رہنمائی ڈھونڈھ رہا ہے؟ یہ اس خطبے کا سب سے زیادہ قابل توجہ حصہ ہے

اگر میں صورتِ حالات کا غلط اندازہ نہیں کر رہا ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ جو امتحان اس وقت مذہب کو درپیش ہے‘ اس سے وہ صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے جب کہ نوخیز نسل اس کے اندرونی نظم کی جانچ پڑتال کرکے اس امر کا پورا اطمینان کرلے کہ زندگی میں جن عملی مسائل اور جن پریشانیوں اور پیچیدگیوں سے اس کو سابقہ پڑ رہا ہے ان کا بہترین حل اس مذہب میں موجود ہے۔ شخصی مذہب کا دور اب گزر چکا ہے۔ محض جذباتی مذہب کی بھی اب کسی کو حاجت نہیں۔ اس قسم کے مذہب کا زمانہ بھی اب نہیں رہا جو فرد کو صرف اس حد تک تسلی اور سہارا دے سکتا ہو کہ اس کے اخلاقی طرز عمل کے لیے کچھ ہدایات دے دے اور ایک ایسی نجات کی امید دلا دے جس کا حال مرنے کے بعد ہی کھل سکتا ہے۔ موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی تو ہرچیز کو‘ حتیٰ کہ خود صداقت کو بھی بین نتائج کی کسوٹی پر پرکھ کردینا چاہتا ہے۔ اگر اس کو مذہب کا اتباع کرنا ہے تو وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اس کو یہ بتائے کہ وہ اس کی زندگی کے عملی مسائل کا اپنے پاس کیا حل رکھتا ہے۔ بہت سے جنموں کے بعد آخر کار نروان حاصل ہونے کی امید‘ یا موت کے دروازے سے گزر جانے کے بعد آسمانی بادشاہت میں پہنچ جانے کی توقع ایسی چیز نہیں ہے کہ صرف اسی کی بنیاد پر وہ مذہب کو قبول کرے۔ اس کی فلسفیانہ جستجو کے لیے مذہب کو سب سے پہلے تو وہ کلید فراہم کرنی چاہیے جس سے وہ کائنات کے معمے کا کوئی قابلِ اطمینان حل پاسکے۔ پھر اسے ٹھیک ٹھیک سائنٹیفک طریقے پر علت اور معلول‘ سبب اور نتیجے کا بَیَّن تعلق ثابت کرتے ہوئے یہ دکھانا چاہیے کہ انسان ان طاقتوں کو کس طرح قابو میں لائے جو اس وقت بے قابو ہو کر نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے تباہ کر دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور کس طرح وہ بے روزگاری‘ غیر معقول عدمِ مساوات‘ ظلم و ستم‘ معاشی لوٹ‘ جنگ‘ اور دوسری اجتماعی خرابیوں کا انسداد کرے اور افراد کی باہمی کشمکش اور خاندانی نظام کی برہمی کو کس طرح روکے جس نے انسان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔

انسان آج صرف اس وجہ سے مذہب کی طرف دیکھ رہا ہے کہ سائنس نے اس کی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ بڑھا دیا ہے‘ اس لیے وہ مذہب سے اپنے شکوک اور اپنی مشکلات کا حل طلب کرنے میں اتنا بے چین ہے جتنا اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اب اگر مذہب اپنے مقام کی حفاظت اور اپنے کھوئے ہوئے میدان کی بازیافت چاہتا ہے تو اسے ان سوالات کا روحانی مگر سائنٹیفک جواب دینا چاہیے جس کی صحت کو نتائج کے معیار پر اسی دنیا میں جانچا اور پرکھاجاسکے‘ موت کے بعد دوسری دنیا پر نہ اٹھا رکھا جائے۔ ہم اہلِ مغرب جانتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا سوال ہے جو ہمارے اِس دور میں سامنے آیا ہے۔ کیا آپ ہندستان میں اس کا جواب دے سکتے ہیں؟

لارڈ لوتھین کی تقریر کا یہ حصہ پڑھتے وقت بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی پیاسا ہے جسے پانی کا علم تو نہیں مگر وہ اپنی پیاس کی کیفیات کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر رہا ہے اور بتاتا جاتا ہے کہ میرے جگر کی آگ کوئی ایسی چیز مانگتی ہے جس میں یہ صفات موجود ہوں۔ اگر پانی اس کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے تو اس کی فطرت فوراً پکار اٹھے گی کہ جس چیز کا وہ پیاسا ہے وہ یہی چیز ہے اور لپک کر اسے منہ سے لگا لے گا۔ یہ حال صرف ایک لارڈ لوتھین ہی کا نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ اور تمام دنیا میں جو لوگ موجودہ تہذیب و تمدن کی گرمی سے خوب تپ چکے ہیں‘ اور فلسفہ و سائنس کے صحرا میں کنارے کی شادابیوں سے گزر کر وسط کی بے آب و گیاہ پہنائیوں تک پہنچ چکے ہیں‘ ان سب کو آج یہی پیاس محسوس ہو رہی ہے۔ سب انھی صفات کی ایک چیز مانگ رہے ہیں جن کا ذکر لارڈ لوتھین نے کیا ہے اور ان سب کا یہی حال ہے کہ پانی کا نام نہیں جانتے۔یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں پایا جاتا ہے، مگر رہ رہ کر پکارتے ہیں کہ

جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شے لا!

پانی کا نام انھوں نے سنا تو ضرور ہے مگر اس نام سے یہ محض اس لیے گھبراتے ہیں کہ اصل شے کو انھوں نے خود دیکھا نہیں ہے اور اپنے جاہل و متعصب اسلاف سے سنتے یہی چلے آرہے ہیں کہ خبردار! پانی کے پاس نہ پھٹکنا‘ یہ ایک بڑی زہریلی چیز کا نام ہے۔ لیکن اب یہ اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر نام کو چھپا کر نفس شے کو ان کے سامنے رکھ دیا جائے تو بے اختیار کہہ دیں گے کہ ہاں ٹھیک یہی وہ چیز ہے جس کے ہم پیاسے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بتایا جائے گا کہ حضرت! یہ وہی ’پانی‘ ہے جس کے نام سے آپ گھبراتے تھے تو حیرت سے ان کا منہ کھلا رہ جائے گا اور کہیں گے کہ کیسا دھوکا تھا‘ جس میں ہم مبتلا تھے۔

موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی عیسائیت کو خوب چکھ اور پرکھ چکا ہے‘ اور یہ بات اس پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ وہ اس کے مرض کی دوا نہیں ہے۔ ہندو ازم اور بدھ ازم کے خیالی فلسفوں اور ان کی تاریخی قدامت پرستی کو دیکھ کروہ کبھی کبھی ان سے مسحور ہو جاتا ہے، مگر سائنٹیفک تنقید و تحلیل کے پہلے ہی امتحان میں ان کی ناکامی کھل کر رہتی ہے۔ بدھ مت تو قریب قریب عیسائیت کا بھارتی اڈیشن ہے۔ رہا ہندو ازم تو وہ خود ان مشکلات اور پیچیدگیوں کو پیدا کرتا ہے جن سے نکلنے ہی کے لیے موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی مذہب کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ انسان اور انسان میں غیر معقول نامساوات سب سے زیادہ اسی کے دائرے میں پائی جاتی ہے۔ معاشی لوٹ کی سب سے بدتر صورت‘ یعنی مہاجنی و سود خواری اس کے سسٹم کا ایک غیر منفک جز بن چکی ہے۔ جنگ کی اصلی وجہ یعنی انسان کی نسلی تقسیم اور نسلی منافرت اس کے عین اساس میں پیوست ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے جو نظام اس نے قائم کیا ہے وہ انسانوں کو ملانے والانہیں بلکہ بے شمار طبقوں اورگوتروں میں تقسیم کرنے والا ہے‘ اس کے قوانین معاشرت اتنے بوسیدہ ہیں کہ موجودہ علمی و عملی بیداری کے دور میں خود ہزاروں برس کے خاندانی ہندو ان قوانینِ کو توڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی بنیاد علم اورعقل پر نہیں بلکہ تعصبات اور توہمات پر ہے۔ ان دنیوی مسائل سے اوپر‘ اخلاقیات اور الہیات کے دائرے میں وہ اس سے بھی زیادہ ناقص پایا جاتا ہے۔ کائنات کے معمے کو اطمینان بخش طریقے پر حل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی کلید نہیں۔ اس کے عقائد اذعانی عقائد ہیں‘ علمی یا عقلی ثبوت ان میں سے کسی چیز کا نہیں دیاجاسکتا۔ اخلاقیات میں وہ دل خوش کن مفروضات کا ایک طلسم ضرور بناتا ہے‘ جیسا کہ مثال کے طور پر ایک طلسم مہاتما گاندھی نے بنا رکھا ہے مگر معقولات اور حکمت عملی (Practical Wisdom)سے اس کا دامن خالی ہے۔ موجودہ علمی بیداری کے دور میں اس کی ناکامی اگر کھلی نہیں تو عنقریب کھلی جائے گی۔

اس کے بعد میدان میں صرف اسلام رہ جاتا ہے‘ اور وہی ان معیاروں میں سے ایک ایک معیار پر پورا اترتا ہے جو آج کل کا ’’سائنٹیفک آدمی‘‘ اپنے مذہب مطلوب کے لیے پیش کر رہا، یا کرسکتا ہے۔

یہ بات کہ مذہب محض ایک شخصی معاملہ ہے اور محض انفرادی ضمیر ہی سے اس کا تعلق ہے اب ایک فرسودہ بات ہو چکی ہے۔ یہ انیسویں صدی کی بہت سی خام خیالیوں میں سے ایک تھی‘ جسے بیسویں صدی کی اس چوتھی دہائی میں بھی ہمارے ملک کے بعض وہ قدامت پسند اب تک رٹے جارہے ہیں جو ادعائے تجدد کے باوجود ہمیشہ دنیا سے پچاس برس پیچھے چلنے کے خوگر ہیں۔ اب قریب قریب یہ بات مُسَلَّم ہو چکی ہے کہ فرد کا تصور جماعت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص دوسرے سے بے شمار چھوٹے بڑے تعلقات میں جکڑا ہوا ہے اور سوسائٹی من حیث المجموع ایک جسم کاحکم رکھتی ہے جس میں افراد کی حیثیت زندہ جسم کے اعضا کی سی ہے۔ مذہب کی ضرورت اگر ہے تو وہ صرف فرد کو اپنے ضمیر کے اطمینان اور اپنی نجات بعد الموت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کو اپنی تنظیم اور اپنی دنیوی زندگی کے سارے کاروبار چلانے کے لیے ہے، اور اگر اس چیز کی ضرورت نہیں ہے تو فرد کو بھی نہیں اور جماعت کو بھی نہیں۔ یہ تصور سراسر ایک طفلانہ تصور ہے کہ اجتماعی زندگی کا نظام کچھ اور ہو، اور اس نظام سے بے تعلق ہو کر افراد کے مذہبی عقائد اور ان کے مذہبی اعمال کچھ اور ہوں۔ مذہبی عقائد اور مذہبی اعمال کا کوئی ربط اگر اجتماعی زندگی سے نہ ہو تو ایسے عقائد اور اعمال محض بے کار ہیں اور صرف بے کار ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے اجتماعی نظام میں ان کا مضمحل ہو جانا یقینی ہے، جس کے دوسرے اجزا کے ساتھ وہ تعامل (Inter action) قبول نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا دو صورتوں میں سے لامحالہ کوئی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے، یا تو پوری جماعت کا نظام سراسر لامذہبی ہو، اور مذہب کو قطعی طور پر انسان کی زندگی سے خارج کر دیا جائے جیسا کہ اشتراکیوں کا مسلک ہے‘ یا پھر اجتماعی نظام پورے کا پورا مذہبی ہو، اور علم اور تمدن دونوں کے لیے مذہب کو رہنما تسلیم کیا جائے جیسا کہ اسلام کا مقتضا ہے۔

پہلی صورت کا تجربہ دنیا بہت طویل مدت تک کر چکی ہے۔ اس سے وہی کڑوے پھل پیدا ہوسکتے تھے‘ وہی پیدا ہوئے اور وہی آئندہ بھی پیدا ہوں گے جن کا ذکر لارڈ لوتھین نے کیا ہے۔ اب دنیا کی نجات صرف دوسری صورت میں ہے اور اس کے بر وئے کار آنے کے مواقع روز بروز پیدا ہوتے جارہے ہیں، مگر جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں‘ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا، یا ان کو ہمیشہ کے لیے کھو دینا مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ واقعات کی رفتار دنیا کو‘ اور دنیا کا ایک جز ہونے کی حیثیت سے ہمارے ملک کو بھی ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں سے اس کے سفر کا رخ اسلام کی طرف بھی مڑ سکتا ہے اور مادہ پرستی اور فساد اخلاق کے اسفل السافلین کی طرف بھی۔ طبعاً اس کا رخ ابھی تک دوسرے راستے کی طرف ہے کیونکہ اس راستے پر دنیا ایک مدتِ دراز سے بڑھتی چلی آرہی ہے۔ اگرچہ اس راستے کے مہالک دیکھ دیکھ کر وہ سہم رہی ہے اور چاروں طرف گھبرا گھبرا کر دیکھتی ہے کہ کوئی بچاؤ کی راہ بھی ہے یا نہیں‘ مگر بچاؤ کی راہ خود اس کی اپنی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ وہ درحقیقت اس وقت ایسے لیڈروں کی محتاج ہے جو قوت کے ساتھ اٹھ کر اس کی نگاہوں پر سے پردہ اٹھا دیں اور اسلام کی صراط مستقیم کا واحد راہِ نجات ہونا ثابت و مُبرہن کر دیں۔ ایک ایسی مجاہد و مجتہد جماعت اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو مسلمان تمام دنیا کے پیشوا بن سکتے ہیں۔ ان کو وہی مقامِ عزت پھر حاصل ہوسکتا ہے، جس پروہ کبھی سرفراز تھے اور جس پر مغربی قوموں کو متمکن دیکھ کر آج ان کے منہ میں پانی بھرا چلا آرہا ہے، لیکن اگر اس قوم کے جمہور اسی طرح دون ہمتی و پست حوصلگی کے ساتھ بیٹھے رہے اگر اُس کے نوجوان یونہی غیروں کا پس خوردہ کھانے کو اپنا منتہائے کمال سمجھتے رہے،اگر اس کے علما اپنی اپنی پرانی فقہ و کلام کی فرسودہ بحثوں میں الجھے رہے‘ اگر ان کے لیڈروں اور سیاسی پیشواؤں کی ذلیل ذہنیت کا یہی حال رہا کہ لشکرِ اغیار کے پیچھے لگ چلنے کو مجاہدانہ عزیمت کا بلند ترین مرتبہ سمجھیں اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے فریب میں اپنی قوم کو مبتلا کرنا کمال دانش مندی خیال کریں‘ غرض اگر اس قوم کے دست و پا سے لے کر دل و دماغ تک سب کے سب تعطل یا خام کاری ہی میں گرفتار رہیں اور اس کروڑوں کے انبوہ سے چند مردانِ خدا بھی جہاد اور اجتہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر باندھ کر نہ اٹھ سکیں تو پھر دنیا جس اسفل السافلین کی طرف جارہی ہے، اسی طبقۂ جہنم میں یہ قوم بھی دنیا کی دم کے ساتھ بندھی بندھی جاگرے گی اور غضبِ خداوندی ایک مرتبہ پھر پکارے گا: اَلاَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ [دور ہوئی ظالم قوم]۔

(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۵۷ھ۔ مارچ ۱۹۳۸ء)