بغاوت کا ظہور - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے

• ایک طبقہ عوام

• دوسرا طبقہ خواص

طبقہ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:

وَجَعَلَٰنھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ۔(الانبیاء ۔۲۱۷۳)

[اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔]

اورجب کسی قوم کی تباہی کا زمانہ آتا ہے تو اس کے بگاڑ کی ابتدا اُس کے خواص سے ہوتی ہے جن کی گمراہی اور فساد اخلاق سے آخر کار ساری قوم ضلالت اور بدعملیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے:

وَاِذاَ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا۔ (بنی اسرائیل ۱۷۱۶)

[جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۱؂ ]

قرآن کی اصطلاح میں خواص قوم کو ’مترفین‘ کہا گیا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے خوب سرفراز کیا ہو۔ خداوند کریم کی شہادت کے مطابق ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پہلے یہ مترفین بستیوں میں فسق و فجور اور ظلم و عدوان اختیار کرتے ہیں‘ پھر ساری کی ساری بستیاں بدی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اس شہادت کے صادق ہونے میں کیا کلام ہے؟ ہماری اپنی قوم کا حال دیکھ لو۔ اس کا بگاڑ بھی ہمارے مترفین ہی سے ہوا ہے۔ ان لوگوں نے اُس طریقے کو جو احکام الٰہی کے مطابق ہدایت کرنے والے ائمہ کا طریقہ تھا چھوڑ دیا اور شیطانی طریقوں کی پیروی شروع کر دی۔ انھی نے نفس پرستی کے لیے شریعت کی بندشیں ڈھیلی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انھی نے فراعنہ اور قیاصرہ کی طرح خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرانی شروع کی اور اپنی قوم کو خدا پرستی کی جگہ بادشاہ پرستی اور امراء پرستی کا خوگر بنایا۔ انھی نے ان گردنوں کو بندوں کے آگے جھکنا سکھایا جنھیں صرف خدا کے آگے جھکنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ انھی نے خوش نما لباسوں اور شان دار محلوں میں معاصی اور جرائم کا ارتکاب کرکے اپنی قوم کے لیے معاصی و جرائم کو خوش نما بنایا۔ انھی نے حرام کے مال کھا کر اپنی قوم کو حرام کھانے اور حرام کھلانے کی عادت ڈالی۔ انھی نے علم کو ضلالت کے لیے‘ عقل و فکر کو شرارت کے لیے‘ ذہانت کو مکر و فریب اور سازشوں کے لیے‘ دولت کو ایمان خریدنے کے لیے‘ حکومت کو ظلم و جور کے لیے اور طاقت کو استکبار کے لیے استعمال کیا۔ پھر یہی ہیں جنھوں نے حقوق اور منافع تک پہنچنے اور ترقی کرنے کے اکثر جائز راستے بند کر دیے اور لوگوں کو مجبور کر دیا کہ خوشامد‘ رشوت‘ جھوٹ‘ سازش اور ایسے ہی دوسرے ذلیل راستوں سے اپنے مقاصد کو پہنچیں۔ غرض اخلاق و اعمال کا کوئی فساد ایسا نہیں ہے جس کا آغاز ان مترفین سے نہ ہوا ہو۔ ان کو اللہ نے جو نعمتیں عطا کی تھیں ان کو انھوں نے غلط طریقوں سے استعمال کیا۔ خود بھی بگڑے اور اپنے ساتھ قوم کو بھی بگاڑا ، ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا۔

یہ سب کچھ صدیوں سے ہو رہا تھا اور اخلاقی فساد کا گھن مسلمانوں کی قومی طاقت کو اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا، مگر اس کے باوجود دلوں میں کم از کم ایمان کی روشنی موجود تھی۔ احکام خدا اور رسولؐ کی پابندی چاہے نہ ہو مگر خدا اوررسولؐ کی عظمت دلوں میں باقی تھی‘ قانون اسلام کی خلاف ورزی چاہے کتنی ہی کی گئی ہو مگر قانون کے احترام سے دل خالی نہ ہوئے تھے‘ اسلام کی حکومت سے انحراف خواہ کتنا ہی بڑھ گیا ہو مگر اس کے مقابلے میں بغاوت کی جرأت کبھی نہ ہوئی تھی۔ جس کو اسلام نے حق کہا تھا‘ اس کو حق ہی مانا جاتا تھا اگرچہ اس کو چھوڑ کر باطل کی پیروی میں کتنا ہی غلو کیوں نہ کیا گیا ہو۔ یہ جسارت کسی میں نہ تھی کہ اسلام کے بتائے ہوئے حق کو باطل‘ باطل کو حق‘ فرض کو لغو و مہمل‘ جائز کو مکروہ‘ حرام کو حلال بلکہ مستحسن اور گناہ کو صواب کہا جاتا یا سمجھا جاتا۔ گناہوں کا ارتکاب بے شک ہوتا تھا۔ جرائم سے بلاشبہ امن آلودہ ہوتے۔ شریعت کی حدود سے بہت کچھ تجاوز کیا جاتا۔ قوانین اسلام کی خلاف ورزی حد سے گزر جاتی، مگر دل ان پر شرمسار بھی ہوتے تھے‘ ندامت سے گردنیں جھک بھی جاتی تھیں‘ کم از کم دل اس کے معترف ہوتے تھے کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ عقائد کی کمزوری اور اعمال کی خرابی کے باوجود مسلمانوں کی تہذیب انھی قوائم و ارکان پر قائم تھی جو اسلام نے تعمیر کیے تھے۔ یونان و ایران کے افکار کی درآمد نے اگرچہ بہت کچھ گمراہی پھیلائی، لیکن انھیں کبھی اتنی کامیابی نہ ہوئی کہ مسلمانوں کے زاویۂ نگاہ ہی کو پھیر دیتے، ان کی ذہنیت کے سانچے کو اسلام سے بالکل ہی منحرف کر دیتے، اور اُن کی عقل و فکر و تمیز کی قوتوں کو یہاں تک متاثر کر دیتے کہ وہ مسلمان کی سی نظر سے دیکھنا اور مسلمان کے سے دماغ سے سوچنا بالکل چھوڑ ہی دیتے۔ اسی طرح تمدن و تہذیب کا ارتقا اگرچہ بیرونی اثرات کے تحت اسلام کی متعین کی ہوئی راہوں سے بہت کچھ منحرف ہوا لیکن جن اصولوں پر اس تہذیب و تمدن کی بنا رکھی گئی تھی وہ بدستور اس کی بنیاد میں موجود تھے‘ اور کسی دوسری مخالف تہذیب و تمدن کے اصولوں نے ان کی جگہ نہ لی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم کا نظام بہت کچھ بگڑا‘ مگر علوم دینی کو اس میں بہرحال ممتاز جگہ حاصل تھی اور کوئی تعلیم یافتہ مسلمان اسلامی عقائد اور احکام شریعت اور ملی روایات کے کم از کم ابتدائی علم سے بے بہرہ نہ ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی عملی زندگی پر قانون اسلام کی بندشیں بہت کچھ ڈھیلی ہوئیں‘مگر پھر بھی مسلمانوں کے جملہ معاملات پر ایک ہی قانون نافذ تھا‘ اور وہ اسلام کا قانون تھا۔ غرض تمام خرابیوں کے باوجود مسلمانوں کے تخیلات‘ اخلاق‘ اور اعمال پر اسلام کا ایک گہرا اثر تھا‘ اس کے اصولوں پر وہ یکسوئی کے ساتھ ایمان رکھتے تھے‘ کم از کم ان کے ایمان کی سرحد میں مخالف اسلام اصولوں کو داخل ہونے کا موقع نہ ملا تھا‘ اور اخلاق و اعمال کی جو قدریں (Values) اسلام نے متعین کی تھیں وہ اس حد تک متغیر نہ ہوئی تھیں کہ بالکل منقلب ہو جاتیں اور ان کے خلاف کچھ دوسری قدریں ان کی جگہ لے لیتیں،لیکن انیسویں صدی میں حکومت کو ہاتھ سے کھو دینے کے بعد، جب ہماری قوم کے مترفین نے دیکھا کہ حکومت کے ساتھ جاہ و منزلت‘عزت و حرمت‘ مال و منال سب ہی کچھ ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں اور غلامی کی حالت میں ان کو محفوظ رکھنے اور مافات کی تلافی کرنے کا کوئی ذریعہ، بجز مغربی تہذیب اور علوم سے آراستہ ہونے کے نہیں ہے‘ تو ان کی روش میں ایک دوسرا تغیر ہوا جو صحیح معنوں میں محض تغیر ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب تھا۔

تغیر کے معنی محض بدلنے کے ہیں‘ مگر انقلاب الٹ جانے کو کہتے ہیں، اور فی الواقع دوسری کروٹ میں وہ ایسے الٹ گئے کہ ان کا قبلۂ مقصود الٹ گیا‘ ان کی ذہنیت الٹ گئی‘ ان کی نظریں الٹ گئیں اور ان کا رخ اسلام سے فرنگیت کی طرف پھر گیا جو اسلام کے عین مخالف سمت میں واقع ہوئی ہے۔

یہ انقلاب جب شروع ہوا تو وہ شرمساری اور ندامت آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگی جو قوانین اسلامی سے انحراف کرتے وقت پہلے محسوس کی جاتی تھی‘ بلکہ سرے سے یہ احساس ہی مٹنے لگا کہ شریعت کی حدود سے تجاوز کرکے وہ کسی گناہ اور کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ شرمندگی و ندامت کی جگہ ڈھٹائی اور بے حیائی نے لے لی۔ علانیہ ہر قسم کی قانون شکنی کی جانے لگی اور شرم کے بجائے اس پر فخر کا اظہار ہونے لگا، مگر انقلاب کی رَو اس حد پر بھی جا کر نہ رکی۔ اب جو باتیں فرنگیت مآب لوگوں کی مجلسوں میں سنی اور دیکھی جارہی ہیں وہ بے حیائی سے گزر کر اسلام کے خلاف صریح بغاوت کے آثار ظاہر کرتی ہیں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ ایک شخص جو اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے جرم پر نادم ہونے کے بجائے الٹا اس شخص کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس پرانے قانون کی اب تک پابندی کیے جارہا ہے۔ گویا اب مجرم اور گناہ گار وہ نہیں ہے جو اسلامی قانون کو توڑتا ہے‘ بلکہ وہ ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ اب صرف نماز روزے سے پرہیز ہی نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے‘ ترکِ صوم و صلوۃ کی تبلیغ کی جاتی ہے‘ روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ پابند صوم و صلوٰۃ لوگ (خصوصاً جب کہ وہ تعلیم یافتہ ہوں) اپنے فعل پر الٹے شرمندہ ہوں گے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نماز روزے کو چھوڑنا نہیں بلکہ اس کی پابندی کرنا وہ عیب ہے جس پر کسی کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کا کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو بڑے طنزیہ لہجے میں کہا جاتا ہے کہ آخر وہ حضرت نمازی ہیں نا‘ یعنی اس شخص سے عیب کے سرزد ہونے کا اصلی سبب کچھ اور نہیں بلکہ صرف وہ عمل ہے جس کو اللہ نے مانعِ فحشاء و منکر قرار دیا ہے اور جسے رسول اللہ نے تمام اعمال سے افضل ٹھہرایا ہے۔

یہ بغاوت صرف نماز روزے تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ قریب قریب زندگی کے تمام معاملات میں پھیل گئی ہے۔ اب اسلامی احکام کی پابندی کو’ملائیت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ’ملائیت‘ ہمارے نئے زمانے کی اصطلاح میں تنگ نظری‘ تاریک خیالی‘ جہالت‘ دقیانوسیت اور بے عقلی کے سب سے زیادہ شدید مرکب کا نام ہے۔ گویا یوں سمجھیے کہ راسخ العقیدہ اور متبع شریعت مسلمان کا نام ملا ہے‘ اور ملا وہ ہے جو تہذیب اور روشن خیالی سے کوسوں دور ہو‘ مہذب سوسائٹی میں کسی طرح کھپ ہی نہ سکتا ہو۔ یہ سوگالیوں کی ایک گالی ہے‘ اور اظہار نفرت کے لیے بہت سے الفاظ بولنے کے بجائے ہمارے کالے فرنگی اپنے تمام جذبات کو سمیٹ کر صرف ایک لفظ ملا میں بھر دیتے ہیں جو تمام عیوب کا جامع ہے۔

آج کسی قول یا فعل کی تائید میں یہ دلیل کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ غیر مسلم نہیں بلکہ ایک مسلمان جو بدقسمتی سے ’’تعلیم یافتہ اور روشن خیال‘‘ ہوگیا ہے‘ بلا تکلف قرآن و حدیث کی سند کو رد کر دیتا ہے اور اس پر ذرا نہیں شرماتا، بلکہ توقع رکھتا ہے کہ اسلامی قانون کی سند لانے والے کو الٹا شرمندہ ہونا چاہیے۔ قرآن و حدیث کا مستند ہونا تو درکنار ہم نے تو یہ حال دیکھا ہے کہ جس بات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اس کے خلاف فوراً ایک تعصب سا پیدا ہو جاتا ہے۔ وہی بات اگر عقلی استدلال کے ساتھ پیش کی جائے‘ یا کسی مغربی مصنف کے حوالے سے بیان کی جائے تو آمَنَّا وَصَدَّقْنَا، لیکن اسلام کا نام آتے ہی ہمارے فرنگیت ماب مسلمانوں کے دماغوں میں اس کے خلاف طرح طرح کے شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں اور انھیں شک ہو جاتا ہے کہ اس بات میں ضرور کوئی کمزوری ہو گی۔ گویا اب قرآن و حدیث کی سند ان لوگوں کی نظر میں کسی بات کو قوی نہیں کرتی بلکہ الٹا کمزور اور محتاج دلیل بنا دیتی ہے۔

چند سال پہلے یہ وبا صرف ہمارے مردوں میں پھیلی ہوئی تھی‘ اور ہماری عورتیں اس سے محفوظ تھیں۔ کم از کم اسلامی تہذیب کی حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’حرم‘ وہ آخری جائے پناہ ہے جہاں اسلام اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتا ہے۔ عورت کو جن مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے حجابِ شرعی میں رکھا ہے ان میں سے ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم از کم وہ سینہ تو نور ایمان سے منور رہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے‘ کم از کم وہ گود تو کفر و ضلالت اور فساد اخلاق و اعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک بچہ پرورش پاتا ہے۔ کم از کم اس گہوارے کے اردگرد تو خالص اسلامی فضا چھائی رہے جس میں مسلمان کی نسل اپنی زندگی کی ابتدائی منزلوں سے گزرتی ہے۔ کم از کم وہ چار دیواری تو بیرونی اثرات سے محفوظ رہے جس میں مسلمان بچے کے سادہ دل و دماغ پر تعلیم و تربیت اور مشاہدات کے اولین نقوش ثبت ہوتے ہیں۔ پس ’حرم‘ دراصل اسلامی تہذیب کا سب سے زیادہ مستحکم قلعہ ہے جس کو اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ یہ تہذیب اگر کبھی شکست کھا کر پسپا بھی ہو تو یہاں پناہ لے سکے، مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔ فرنگیت کی وبا اب گھروں کے اندر بھی پہنچ رہی ہے۔ ہمارے فرنگیت ماب مترفین اب اپنی خواتین کو بھی کھینچ کھینچ کر باہر لا رہے ہیں تاکہ وہ بھی انھی زہریلے اثرات سے متاثر ہوں جن سے وہ خود مسموم ہوچکے ہیں۔ ہماری قوم کی لڑکیاں اب ان تعلیم گاہوں میں گمراہی اور بد اعتقادی اور فسادِ اخلاق اور فرنگی تہذیب کے سبق لینے کے لیے بھیجی جارہی ہیں جو اس سے پہلے ہمارے لڑکوں کو یہ سب کچھ سکھا کر اسلام سے باغی بنا چکی ہے۔

یہ آخری حرکت ہمارے نزدیک اس انقلاب کی تکمیل کر دینے والی ہوگی جس کا ابھی ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ ہمارا صرف قیاس ہی نہیں ہے بلکہ تکمیلِ انقلاب کے آثار کو یہ بدنصیب آنکھیں دیکھ چکی ہیں، اور یہ بدقسمت کان سن چکے ہیں۔ اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ ایک مسلمان عورت قرآن و حدیث کے صریح احکام کی خلاف ورزی کر کے اپنی زینت کا اظہار کرتی ہوئی نکلتی ہے‘ انگریزی ہوٹلوں میں جاکر لنچ اور ڈنر کھاتی ہے‘ سنیما ہال میں جاکر مردوں کے درمیان بیٹھتی ہے‘ بازاروں میں پھر کر شاپنگ کرتی ہے‘ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قانون اسلامی کے خلاف یہ تمام افعال کرنے پر شرمندہ اور نادم ہونے کے بجائے فخر کے ساتھ اپنے ان کاموں کو بیان کرتی ہے اور الٹا اس بے چاری عفیفہ کو قابل ملامت ٹھہراتی ہے جس نے پہلے تو قانون اسلام کی پیروی میں حجاب شرعی کو چھوڑنے سے انکار کیا‘اور جب اس کا شوہر زبردستی باہر کھینچ ہی لایا تو اس کو مردوں کے درمیان بے حجابانہ تماش بینی کرتے ہوئے شرم آئی‘ اور اسے بازاروں کے چکر لگانا‘ تاج اور گرین کے مزے چکھنا‘ سیرگاہوں کی ہوائیں کھانا اس چار دیواری کی بے لطفیوں کے مقابلے میں پسند نہ آیا جس کی حدود میں رہنے کا اس کے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے خلاف بغاوت کی اسپرٹ مردوں سے گزر کر عورتوں تک میں بھی پہنچتی جا رہی ہے، اور وہ بھی اسلام کے قوانین کی خلاف ورزی کو نہیں بلکہ اس کی پیروی کو اس قابل سمجھنے لگی ہیں کہ ایک مسلمان عورت اس پر شرمندہ نادم ہو۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

خدارا، بتاؤ کہ پرانی دین دار خاتونوں کی گود میں پرورش پانے کے باوجود جب تمھارا یہ حال ہوا ہے تو جب تمھاری عورتیں بھی غیرتِ ایمانی سے بیگانہ اور اطاعت خدا اوررسولؐ کی حدود سے باہر ہو جائیں گی تو ان نسلوں کا کیا حشر ہوگا جو ان نئی فرنگیت مآب خواتین کی گودوں میں پرورش پاکر نکلیں گی؟ جو بچے آنکھ کھولتے ہی اپنے گرد و پیش فرنگیت ہی فرنگیت کے آثار دیکھیں گے‘ جن کی معصوم نگاہیں اسلامی تہذیب و تمدن کی کسی علامت سے آشنا ہی نہ ہوں گی‘ جن کے کانوں میں کبھی خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پڑیں گی ہی نہیں‘ جن کے دل و دماغ کی لوحِ سادہ پر ابتدا ہی سے فرنگیت کے نقوش ثبت ہو جائیں گے‘ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات‘ خیالات‘ اخلاق‘ اعمال‘ غرض کسی حیثیت سے بھی مسلمان ہوں گے؟

• جرم کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے مگر اس کو جرم سمجھے اور اس پر شرمندہ ہو۔ اس قسم کا جرم محض اپنی حیثیت کے لحاظ سے سزا کا مستوجب ہوتا ہے بلکہ توبہ اور اظہار ندامت سے معاف بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا جرم صرف انسان کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔

• جرم کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے اور اس کو عیب کے بجائے خوبی سمجھے اور فخر کے ساتھ اس کا علانیہ اظہار کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس شخص کے دل میں اس قانون کا کوئی احترام نہیں ہے جو اس فعل کو جرم قرار دیتا ہے۔

• جرم کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف ایک قانون کے خلاف جرم کا ارتکاب کرے، بلکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے قانون کے لحاظ سے اس جرم کو جائز اور عین ثواب سمجھے‘ اور جو قانون اس فعل کو جرم ٹھہراتا ہے اُس کا مذاق اڑائے اور اس کی پیروی کرنے والوں کو خطا کار سمجھے۔ ایسا شخص صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی تحقیر کرتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔

ہر شخص جس میں تھوڑی سی عقل سلیم بھی ہوگی‘ یہ تسلیم کرے گا کہ جب انسان اس آخری مرتبے پر پہنچ جائے تو وہ اس قانون کی حدود میں نہیں رہ سکتا جس کے خلاف اس نے علانیہ بغاوت کی ہے، مگر کس قدر مردود ہے وہ شیطان جو تم کو یقین دلاتا ہے کہ تم اسلامی قانون کی تحقیر کرکے‘ اس کا مذاق اڑا، کر اس کی پیروی کو عیب ٹھہرا کر‘ اور اس کی خلاف ورزی کو ثواب قرار دے کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو۔ ایک طرف تو تمھارا یہ حال ہے کہ خدا اور رسولؐ جس کو اچھا کہیں اس کو تم برا کہو‘ وہ جس کو برا کہیں اس کو تم اچھا کہو‘ وہ جس کو گناہ ٹھہرائیں اس کو تم ثواب قرار دو‘ وہ جس کو ثواب ٹھہرائیں اس کو تم گناہ سمجھو‘ وہ جو حکم دیں اس کا تم مذاق اڑاؤ، وہ جو قانون بنائیں اس کی خلاف ورزی پر شرمانے کے بجائے تم الٹا اس شخص کو شرمانے کی کوشش کرو جو ان کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ دوسری طرف تمھارا یہ دعویٰ کہ تم خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو‘ اور ان کی عظمت تمھارے دل میں ہے‘ اور ان کے پسندیدہ دین یعنی اسلام کے تم پیرو ہو۔ کیا کوئی صاحب عقل انسان تسلیم کرسکتا ہے کہ اس طرز عمل کے ساتھ یہ دعویٰ صحیح ہے؟ اگر ایمان کے ساتھ انکار جمع ہو سکتا ہے‘ اگر تعظیم کے ساتھ تحقیر جمع ہوسکتی ہے‘ اگر یہ ممکن ہے کہ کسی کا احترام بھی دل میں ہو، اور اُس کا مذاق بھی اڑایا جائے۔ اگر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خلاف ورزی پر فخر کرنے والا اور پیروی کوملامت کے قابل سمجھنے والا بھی پیرو اور مطیع ہو‘ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ بغاوت ہی عین اطاعت ہے‘ اور تحقیر ہی عین تعظیم ہے‘ اور انکار ہی کا نام ایمان ہے۔ جو تمھیں ٹھوکر مارتا ہے وہی دراصل تمھاری تعظیم کرتا ہے‘ جو تمھارا مذاق اڑاتا ہے وہی دراصل تمھارا احترام کرتا ہے‘ اور جو تمھیں جھوٹا کہتا ہے وہی دراصل تمھاری تصدیق کرنے والا ہے۔

اسلام بجز اطاعت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے‘ اور حقیقی اطاعت ایمان کے بغیر متحقق نہیں ہوتی اور ایمان کا اولین اقتضا یہ ہے کہ آدمی کو جب خدا اور رسول کا حکم پہنچے تو اس کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکے:

اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓ ا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاط وَاُولٓءِٰکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (النور۔۲۴۵۱)

[مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔]

پھر یہ گردن جھکانا بھی بکراہت نہیں بطوع و رغبت ہونا چاہیے‘ حتیٰ کہ حکمِ خدا و رسولؐ کے خلاف دل میں بھی کوئی تنگی اور ناراضی چھپی ہوئی نہ ہو۔ جس شخص کی گردن محض ظاہر میں جھک جائے، مگر دل میں اس کے خلاف تنگی محسوس کر رہا ہو وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۔۔۔ فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (النساء۔۴ ۶۱،۶۵)

[اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسولؐ کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تمھاری طرف آتے ہوئے جی چراتے ہیں۔ پس قسم ہے تیرے پروردگار کی! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں‘ پھر جو کچھ تو فیصلہ کرے اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔]

لیکن جو شخص علانیہ حکم ماننے سے انکار کر دے اور خدا اور رسولؐ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کی پیروی کرے اور انھی قوانین کو درست اور حق سمجھے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے خدا اور رسولؐ کے قانون کا مذاق اڑائے اور اس کی اطاعت کو عیب ٹھہرائے وہ تو کسی طرح بھی مومن نہیں ہوسکتا‘ خواہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور مسلمانوں کے سے نام سے موسوم ہو، اور مردم شماری میں اس کو مسلمان لکھا گیا ہو۔ انسان گناہ کرکے مومن رہ سکتا ہے بشرطیکہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اس پر نادم ہو، اور اس قانون کو تسلیم کرے جس کے خلاف محض اپنی فطری کمزوری سے اس نے ایک فعل کا ارتکاب کیا ہے، لیکن جب گناہ کے ساتھ بے شرمی اور ڈھٹائی بھی ہو‘ اور اس پر فخر بھی کیا جائے‘ اور اس کو ثواب ٹھہرا کر اس شخص کو ملامت بھی کی جائے جو اس کا ارتکاب نہیں کرتا‘ تو خدا کی قسم ایسے گناہ کے ساتھ ایمان کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبے میں داخل ہونے سے پہلے ہی آدمی کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیاوہ مسلمان رہنا چاہتا ہے، یا اسلام سے نکل کر اس قانون کی اطاعت میں داخل ہو جانا پسند کرتا ہے جس کی پیروی میں اس کو شرح صدر حاصل ہو رہا ہے۔

خدا کے فضل سے ابھی تک مسلمانوں کے عوام اس فرنگیت اور ملحدانہ بغاوت کی رَو سے محفوظ ہیں۔ ابھی تک ان کے دلوں میں خدا اور رسولؐ کے احکام کا احترام باقی ہے اور قوانینِ اسلامی کی پابندی تھوڑی بہت انھی میں نظر آتی ہے، لیکن خواص کی روش جس طرح پہلے ان کے اخلاق اور معاملات پر اثر انداز ہو چکی ہے اسی طرح اندیشہ ہے کہ نئی روش کہیں ان کے ایمان پر بھی رفتہ رفتہ اپنا مہلک اثر نہ ڈال دے۔ عامۃ مسلمین میں جس رفتار کے ساتھ ترکِ صوم و صلوۃ‘ منکرات و منہیات کا ارتکاب‘ فرنگی اطوار کی تقلید کا شوق اور فرنگی تہذیب کو خوش نما بنا کر دکھانے والے کھیل تماشوں کی طرف میلان بڑھ رہا ہے وہ دراصل اس آنے والے خطرے کا الارم ہے۔ اگر ہمارے مترفین کے خیالات کی اصلاح نہ ہوئی اور اسلام کی صراط مستقیم سے ان کا انحراف اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ساری قوم اس ضلالت میں مبتلا ہو جائے گی اور اللہ کی یہ سنت پوری ہو کر رہے گی:

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْ مِیْرًا۔ (بنی اسرائیل۱۷۱۶

[جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اُسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔]

(ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)