حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : خلافت اور فتوحات - شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ

 خلافت اور فتوحات

حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتد ین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کاآغاز ہوچکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی سنہ ۱۲ ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرۃ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ ۶۳۴ء ۱۳ھ میں شام پر حملہ ہو ا اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں۔ یہ بتانا ضرور ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔

عرب کانہایت قدیم خاندان جوعرب بائدہ کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ تاہم اس قدر مشہور ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جویمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانے میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے اورسلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔

رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونا شرو ع ہوئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا اور بیت المقدس کی بربادی نے اس کے نام کو شہرت دے دی ہے جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور ا س تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقدمات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیادپڑ گئی اور چونکہ اس زمانہ میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی۔ عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جذیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عد ی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا اس نے حیرۃ کو دارالسلطنت قرار دیا اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس دور میں اس قدر تمدن پیداہو گیاتھا کہ ہشام کلبی کا بیان ہے ۱؎ کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالا ت اور فارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کیے جو حیرۃ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں۔ اسی زمانے میں اردشیر بن بابک نے طوائف الملوکی مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمر و بن عدی کو باجگزار بنا لیا۔ عمرو بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا لیکن درحقیقت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔

۱؎  ہشام کلبی نے یہ تصریح کتاب التیجان میں کی ہے۔

شاہ پور بن اردشیر جوسلسلہ ساسانیہ کا دوسرا فرمانروا تھا اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں باجگزار ہو گئے اورامراء القیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہو کر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا اس لیے جب کبھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپاہو جاتی تھی۔ چنانچہ سابورذی الاکتاف جب صغر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبدالقیس نے خو د فارس پر حملہ کر دیا اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لیے۔ شاہ پور بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبدالقیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ رئوسائے عر ب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے‘ ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہ عرب میں ذوالاکتاف کے لقب سے مشہور ہوا۔

سلاطین حیرۃ سے نعمان بن منذر نے جو کسریٰ پرویز کے زمانے میں تھا‘ عیسوی مذہب قبول کر لیا اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویزنے اس کو قید کر لیا اورقید ہی میں اس نے وفات پائی۔ نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پا س امانت رکھوا دیے تھے جو قبلہ بکر کا سردار تھا۔ پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں اورجب اس نے انکار کر دیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لائے۔ بکر کے تمام قبیلے ذی قار ایک مقام پر بڑے ساز وسامان کے ساتھ جمع ہوئے اور سخت معرکہ ہوا۔ فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف رکھتے تھے اورآپ نے فرمایا کہ:

ھذا اول یوم انتصفت العرب من العجم

’’یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا‘‘۔

عرب کے تمام شعراء نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ ۶ ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو دعو ت اسلام کے خطوط لکھے تو باوجو د اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے ۔ اس پر بھی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کر کے دربار میں لائے۔ اتفاق سے اسی زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹے نے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔

رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا کہ عرب کے چند قبیلے سلبح و غسان و جذام وغیرہ کے سرحدی اضلاع میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کر کے شام کے بادشاہ کہلانے گے تھے لیکن یہ لقب خود ان کا خانہ ساز لقب تھا ورنہ جیسا کہ مورخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے کہ درحقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔

ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت پیداہو گئی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے۔ ۶ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا اور دحیہ کلبی(جو خط لے کر گئے تھے) واپس آتے ہوئے ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے دحیہ پر حملہ کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن عمیرؓ کو خط دے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمر بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۸ھ میں لشکرکشی کی اورغزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارثہؓ ، حضرت جعفر طیارؓ، عبداللہ بن رواحہؓ جو بڑے رتبہ کے صحابہ تھے شہید ہوئے اور گو خالدؓ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ درحقیقت شکست کھا تھا۔

۹ھ میں رومیوں نے خاص مدینے پر حملے کی تیاریاں کیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اس وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پرچڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات ؓ کو طلاق دے دی ہے تو ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے جا کر کچھ کہا تم نے سنا! حضرت عمرؓ نے فرمایا کیوں کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔

اسی حفظ ماتقدم کے لیے سنہ ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ بن زیدؓ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا اورچونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ اور بڑے بڑے نامور صحابہؓ مامور ہوئے کہ فو ج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ ؓ بھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیمار پڑ کر انتقال فرمایا۔ غرض جب ابوبکرؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے مدافع عن الدین ہو گا یعنی دین کواس کے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے جو کا م شروع کیا اور حضرت عمرؓ نے جس کی تکمیل کی‘ اس کے کیا اسباب تھے؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شرع کرتے ہیں۔

فتوحات ۱؎ عراق ۲؎

فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے‘ نوشیروان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسی کاپوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی تھی۔ لیکن ا س کے مرنے کے ساتھ ہی دفعتہ ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر ۷ برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے افسر نے اس کوقتل کر دیا اورآپ بادشاہ بن کر بیٹھ گیا۔ یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کوقتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا اوروہ ایک برس کے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تاج و تخت کا مالک ہو گا۳؎۔

۱؎  جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کیے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے اس کو عرا ق عرب اورجو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں عرا ق کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں جزیرہ‘ جنوب میں بحر فارس‘ مشرق میں خورستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔

۲؎  ہمارے مورخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتاہے مثلاً وہ ایران کی فتوحات لکھتے آئے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو سنہ کے تمام واقعات لکھنے میں اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے‘ شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے اس لیے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے۔

۳؎  شیرویہ کے بعد سلسلہ حکومت کی ترتیب اورناموں کی تعیین میں مورخین اس قدر مختلف ہیں کہ دو مورخ بھی باہم متفق نہیں ۔ فردوسی کا بیان سب سے الگ ہے۔ میں نے بلحاظ قدیم العہد اور فارسی النسل ہونے کے ابوحنیفہ ینوری کے بیان کو ترجیح دی ہے۔

پرویز کے بعدجو انقلابات حکومت ہوتے رہے‘ اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی۔ چنانچہ پوران کے زمانے میں یہ مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تخت و تاج نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کی شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں مثنی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد حیرۃ وابلہ کی طرف غارت گری شروع کی ۱؎۔ یہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد سیف اللہؓ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ مثنیؓ نے حضر ت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی مثنیؓ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بت پرست تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں واپس آ کر انہوںنے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ ۲؎ ان نومسلموں کا ایک بڑا گروہ لے کر عراق کا رخ کیا ۔ ادھر حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ کو مدد کے لیے بھیجا۔ خالدؓ نے عراق کے تمام سرحدی مقامات فتح کر لیے اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے اور چونکہ یہاںنعمان بن منذر نے خورنق ایک مشہور محل بنا یا تھا۔ وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔

عراق کی یہ فتوحات خالدؓ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ خالدؓ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شو ر سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھیں اس کے مقابلہ میں وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ربیع الثانی سنہ ۱۳ ہجری سنہ ۶۳۴  ۳؎ میںخالدؓ کوحکم بھیجا کہ فورا ً شام کو روانہ ہوں اور مثنیٰ کو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ خالدؓ ادھر روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہ رک گئیں۔

حضرت عمرؓ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پرتوجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بے شمار آدمی آئے تھے اور تین دن تک ان کا تانتا بندھ رہاتھا۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا او ر مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ  تخت ہے اور وہ خالد ؓ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ نے کئی دن تک وعظ کیا لیکن کچھ اثرنہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے۔ مثنی شیبانی نے اٹھ کر کہا مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیںہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں‘‘۔

۱؎  الاخبار الطول ابو حنیفہ دنیوری۔

۲ ؎  فتح البلدان بلاذری صفحہ ۲۴۱۔

۳؎  بلاذری صفحہ ۲۵۰

 حاضرین میں سے ابوعبید ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہورسردار تھے‘ وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا لھذا یعنی اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔ ابو عبید کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ اور مضافات ۱؎ سے ہزار آدمی انتخاب کیے اور ابوعبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔

ابوعبید ہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاص نہ تھا یعنی صحابہ نہ تھے۔ اس وجہ سے اس کی افسری پر کسی کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ عمرؓ صحابہ ؓ میں سے کسی کو ی منصب دو۔ فوج میں سینکڑوںصحابہ ؓ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابیؓ ہی ہو سکتاہے۔ ھضرت عمرؓ نے صحابہؓ کی طرف دیکھا اور کہا تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقال کی وجہ سے تھا لیکن ا س شرف کو تم نے خود کھا دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لوگ لڑنے سے جی چرائیں وہ افسر مقرر کے جائیںَ تاہم چونکہ صحابہؓ کی دلجوئی ضروری تھی ابوعبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کا ادب ملحوظ رکھنا ار ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔

حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا ا س نے ایرانیوں کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر کا خراسان کا بیٹا تھا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا‘ دربار میں طلب کیا اور وزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ و سپید کا مالک ہے یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا اور درباریوں کو ج میں تمام امراء اور اعیان سلطنت شامل تھے‘ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہیںکریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نااتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے نہوںنے دل سے ان احکام کی اطاعت کی ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کرلی جو ہر مز اور پرویز کے زمانے میں ا س کو حاصل تھی۔

رستم نے پہلی تدبیر یہ کی کہ ضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑا دیے جنہوںنے مذہب حمیت کاجوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کے تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوںکے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پورا ن دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج تیار کی اور نرسی و جاپانی کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاپان عراق کا مشہور رئیس تھا اور عرب سے س کو خاص عداوت تھی ۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا اور عراق کے بعض اضلاع قدیم سے اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عرا ق کی طرف بڑھے۔ ادھر ابوعبید و مثنیٰ حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاپان نمارق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔

۱؎  بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دنیوری نے ۵ ہزار تعداد لکھی ہے۔

ابو عبید نے اس اثنا میں فوج کو سروسامان سے آراستہ کر لیا اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمارق پر دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں۔ جاپان کے میمنہ و میسرہ پر جوش شاہ اورمردان شاہ دو مشہور اسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اورعین معرکہ میں گرفتا ر ہوئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔لیکن جاپان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا تھا۔ جاپان نے اس سے کہا کہ میں اس بڑھاپے میں تمہارے کس کام کا ہوں مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد کو لوگوں نے جاپان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیںچاہتے لیکن ابو عبید نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔

ابو عبید نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا جہاں نرسی فوج لیے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقابل ہوئیںَ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور خو د کسریٰ کے دو مامو ں زاد بھائی بندویہ اور ترویہ میمنہ اورمیسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی بندویہ اور تیرویہ میمہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑاء یمیں دیر کر رہاتھا کہ پای تخت سے امدادی  فوجیں روانہ ہو چکی تھیںَ ابوعبید کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوںنے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکہ کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابوعبیدہ نے خود سقاطیہ میں مقام کیا اور تھوڑی تھوڑی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔

فرخ اور فراوانداد جو بار وسما اور زوابی کے رئیس تھے مطیع ہو گئے۔ چنانچہ اظہار خلوص کے لیے ایک دن ابوعبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابوعبید نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لیے ہے یا صرف میرے لیے۔ فرخ نے کہا اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیںہو سکتا تھا۔ ابوعبید نے دعوت کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مسلمانوں میں اییک کو دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں ہے۔

اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا اور جس کو نوشیروان نے تقدس کے لحاظ سے بہمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ ا س سامان کے ساتھ روانہ کیا کہ درفش کا دیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا اور فتح و ظفر کا دیباچہ سمجھاجاتا تھا اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا ‘ دونوں حریف صف آراء ہوئے چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا بہمن نے کہلا بھیجا کہ ہم کو اسی طرف رہنا چاہیے لیکن ابو عبید جوشجاعت کے نشے میں سرشار تھے سمجھے کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں سے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا اس نے کہا ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ عرب مرد میدا ن نہیں ہیںَ اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا اور ابوعبید نے اسی وقت فوج کو کمربندی کر کے حکم دیا مثنیٰؓ اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسر ان فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابوعبید سے بڑھ کر تھا۔ جب ابوعبید نے اصرار کیا تو ان لوگوں ںے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقینہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو گی تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا اس لیے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔

ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنٹے لٹکے تھے اور بڑے زو ر سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوںپر آہنی پاکھریںتھیںَ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھ۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے ابوعبید نے دیکھا کہ ہاتھوں کے سامنے کچھ زور نہیںچلتا تو گھوڑے سے کودپڑے اور ساتھیو کو للکارا کہ جانبازو ہاتھیوں کو بیچ میں لے لے اور ہودوں کو سواروں سمیٹ الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ سب گھوڑوں سے کود پڑے اورہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا لیک ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابوعبید یہ دیکھ کر کہ پیل سفید پر جو سب ک سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مشک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پائوں رکھ دیے ہڈیاں چور چورہو گئیں۔

ابوعبید کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اسنے ابوعبید کی طرح ا س کو بھی پئوں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آڈمیوں نے جو سب کے سب ابوعبید کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے باری باری ہاتھ میں لیے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنیٰؓ نے علم لیا لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکاتھا اور فوج میں بھاگڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہواکہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دے کہ کوئی شخص بھاگ کر نہ جانے پائے لیکن لوگ اس طرھ بدحواس ہو کر بھاگے تھے کہ پل کی طرف سے راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنیٰؓ نے دوبارہ پل بندھوایا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوںکو اطمینان سے پار اتار دے خو د بچی کھچی فوج کے ساتھ دشمن کا آگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوںکو دباتے دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہ حساب کیا تو معلو م ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزا ر رہ گئی ۔

اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار کرنا بہت شاذ اور نادر وقوع میں آیا ہے او ر اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو ااس کاعجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی تھی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے اورشرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے تھے اور لوگوںسے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس  کرتے تھے اور روتے تھے۔ جو لوگ مدینہ منورہ میں پہنچ کر گھروں میںروپوش ہو گئے تھے اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس جا کر ان کو تسلی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم او متحیزا الی فئۃ (۸؍الانفال: ۱۶) میں داخل ہو لیکن ااس کو اس تاوی سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔

یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان سنہ ۱۳ ہجری میں واقع ہوا۔ ا س لڑائی میں نامور صحابہؓ میں سے لوگ شہد ہوئے۔ وہ سلیط‘ ابوزد انصٓری عقبہ و عبداللہ پسران قبطی بن قیس‘ زید بن قیس الانصاری‘ ابو امیتہ الفرازی ؓ وغیرہ تھے۔

واقعہ بویب رمضان ۱۴ ھ (۶۳۵ء)

اس شکست نے حضرت عمرؓ کو سخت برہم کیا اور نہایت زور و شورسے حملہ کی تیاریاں کیں۔ تمام عرب میں خطبا اور نقیب بھیج دیے جنہوںنے پر جوش تقریروں سے تمام عرب میں ایک آگ لگا دی اور ہر طرف سے عرب کے قبائل امنڈ آئے۔ قبیلہ اذد کا سردار مخنف بن سلیم سات سو سواروں کو ساتھ لے کر آیا۔ بنو تمیم کے ہزار آدمی حصین بن معبد کے ساتھ آئے۔ حاتم طاء کے بیٹے عدی ایک جمعیت کثیر لے کر پہنچے ۔ اسی طرح قبیلہ رباب بنو کنانہ قثعم بنو حنظلہ بنو ضبہ کے بڑے بڑے جتھے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ آئے۔ یہ جوش یہاں تک پھیلا کہ نمرو تغلب کے سرداروںنے جو مذہباً عیسائی تھے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں ان دونوں سرداروں کے ساتھ ان کے قبیلے کے ہزاروں آدمی تھے اور عجم کے مقابلہ کے جوش میں لبریز تھے۔

اتفا ق سے انہی دنوں جریر بجلی ؓ دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ یہ یک مشہور سردار تھا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ پنے قبیلے کا سردار مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ درخواست منظور کر لی تھی لیکن تعمیل کی نوبت نہیں آئی تھی۔ حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا تو انہوںنے عرب کے تمام عمال کے نا م احکام بھیج دیے کہ جہاں جہاں اس کے قبیلے کے آدمی ہوں تاریخ معین پر اس کے پاس پہنچ جائیں جریر ؓ یہ جمعیت اعظم لے کر دوبارہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے۔

ادھر مثنیٰؓ نے عراق کے تما م سرحدی مقامات میں نقبا بھیج کا ایک بڑی فوج جمع کر لی تھی۔ ایرانی جاسوسوں نے یہ خبری شاہی دربار میں پہنچائیں ۔ پوران دخت نے حکم دیا کہ فوج خاصہ سے بارہ ہزار سوار انتخاب کیے جئایں اور مہران بن مہرویہ ہمدانی افسر مقرر کیا جائے۔ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ہاس نے خود عرب میں تربیت پائی تھی۔ اور اس وجہ سے وہ عرب کے زور و قوت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ کوفہ کے قریب بویب نام ایک مقام تھا اسلامی فوجوں نے یہاںپہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ مہران پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریائے فرات کو بیچ میں ڈا ل کر خیمہ زن ہوا صبح ہوئے فرات سے اتر کر بڑے سروسامان سے لشکر آرائی شروع کی ۔ مثنیٰ ؓ نے بھی نہایت ترتیب سے صف درست کی۔ فوج کے مختلف حصے کر کے بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیے۔ چنانچہ میمنہ پر مزعور‘ میسرہ پر نسیر‘ پیدل پر مسعود‘ و لسیر پر عاصم‘ گشت ک فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثنیٰ ؓ نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا اور ایک ایک علم کے پاس کھڑے ہو کر کہا بہادرو دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آ جائے۔

اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردارتین مرتبہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثنیٰؓ نے دوسری تکبیر ابھی نہیںکہی تھی کہ ایرانیوںنے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کر سکے اور کچھ لوگ جوش میں آ کر صف سے نکل گئے۔ مثنیٰؓ نے غصے میں آ کر داڑھی دانتوں میں دبا لی ارو پکارے کہ اللہ کے لیے اسلا م کو رسوا نہ کرو اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آ کرجم گیا۔ چوتھی تکبیر کہہ کر مثنیٰؓ نے حملہ کیا۔

عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ میدان جنگ گونج اٹھا۔ مثنیٰؓ نے فوج کو للکاراکہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے۔ عیساء سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگرچہ عیسائی ہو لیک ہم قوم ہو اورآج قوم کامعاملہ ہے میں مہران پر حملہ کرتا ہوں تم ساتھ رہنا۔ انہوںنے لبیک کہا۔ مثنیٰ ؓ نے ان سرداروں کو دونوں بازوئوں پر لے کردھاوا بول دیا۔ پہلے ہی حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مثنیٰؓ نے للکارا کہ مسلمانو! کہاں جاتے ہو؟ میں یہ کھڑا ہوں۔ اس آوازکے ساتھ سب پلٹ آئے ۱؎۔ مثنیٰؓ نے ان کو سمیٹ کر پھر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثنیٰؓ کے بھائی تھے اورمشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔

۱؎  الاخبار الطوال لا بی حنیفہ الدنیوری

ان کی رکاب کی فوج بے دل ہو ا چاہتی تھی۔ مثنیٰؓ نے للکارا کہ مسلمانوں میرا بھائی مرا گیا تو کچھ پرواہ نہیں شرفا یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔ خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا۔

دیر تک بڑی گھمسان لڑائی رہی۔ انس بن ہال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا‘ زخم کھاکر گرا۔ مثنیٰؓ نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گودمیںلیا اور اپنے بھائی مسعود کے ساتھ لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف سے بڑے بڑے افسر مارے گئے۔ لیکن مثنیؓ کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ سی طرف بھاری رہا ۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا مگر کل کا کل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔ تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا اور بڑی بہادری سے تیغ بکف لڑ رہا تھا کہ قبیلہ تغلب کے ایک نوجوان نے تلوار سے ا س کا کام تمام کر دیا۔ مہران گھوڑے سے گر ا تو نوجوان اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھا اور فخر کے لہجہ میں پکارا۔ میں ہوں تغلب کا نوجوان اور رئیس عجم کا قاتل۔ ۱؎

مہران کے قتل پر لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ عجم نہایت ابتری سے بھاگے۔ مثنیٰؓ نے فوراًپل کے پاس پہنچ کررستہ روک لیا اور عجم بھاگ کر نہ جانے پائیںَ مورخین کا بیان ہے کہ کسی لڑائی میں اس قدر بے شمار لاشیں اپنی یادگار نہیں چھوڑیں۔ چنانچہ مدتوں کے بعد جب مسافروں کا ادھر سے گزر ہوا تو انہوںنے جابجا ہڈیوں کے انبار پائے۔ اس فتح کا ایک خاص اثریہ ہوا کہ عربوں پر عجم کا جو رعب چھایا ہواتھا جاتا رہا۔ ان کو یقین ہو گیا کہ اب سلطنت کسریٰ کے اخیر دن ہو گئے ہیں۔ خود مثنیٰؓ کا بیان ہے کہ اسلام سے پہلے میں بارہا عجم سے لڑ چکا ہوں اس وقت سوعجمی ہزار عرب پر بھاری تھے۔ لیکن آج ایک عرب دس عجمی پر بھاری ہے۔

اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل گئے۔

جہاں اب بغداد آباد ہے ا س زمانے میں وہاں بہت بڑا بازار لگتاتھا۔ مثنیٰؓ نے عین بازار کے دن حملہ کیا۔ بازاری جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور بے شمار نقد اور اسباب ہاتھ آیا۔ پایہ تخت میں یہ خبریں پہنچیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ زنانہ حکومت اور آپس کا اختلاف کا یہی نتیجہ تھا۔اسی وقت پوران دخت کو تخت سے اتار کر یزدگرد کو جو سوالہ برس کاجوان تھا ۲؎ اور خاندان کسریٰ کا وہی ایک نرینہ یادگار رہ گیا تھا تخت نشین کیا۔

۱؎  طبری بروایت سیف

۲؎  یہ ابوحنیفہ دنیوری کی روایت ہے طبری نے ۲۱ برس کی عمر بیان کی ہے۔

(یہ ابوحنیفہ دنیوری کی روایت ہے طبعری نے ۲۱ برس کی عمر بیان کی ہے) رستم اور فیروز جو سلطنت کے دست و بازو تھے اور آپس میں عناد رکھتے تھے‘ درباریوں نے ان سے کہا کہ اب بھی اگر تم دونوں متفق ہو کر کام نہیں کرتے تو ہم خود تمہارا فیصلہ کیے دیتے ہیں۔ غرض یزدگرد کی تخت نشینی کے ساتھ سلطنت میں نئے سرے سے جان آ گئی۔ ملکی اور فوجی افسر جہاں جہاں جس کام پر تھے مستعد ہو گئے ۔ تمام قلعے اور فوجی چھائونیاں مستحکم کر دی گئیںَ عراق کی آبادیاں جو فتح ہو چکی تھیں عجم کا سہارا پا کر وہاں بھی بغاوت پھیل گئی او ر تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔

حضرت عمرؓ کو یہ خبریںپہنچیں تو فوراً مثنیٰؓ کو حکم بھیجا کہ فوجوںکو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آئو اور ربیعہ و مضر کے قبائل کو جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ  معین پر جمع ہوجائیں۔ اس کے ساتھ خود بڑے ساز و سامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طر ف نقیب دوڑائے کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی بہادر‘ رئیس صاحب تدبیر شاعر خطیب اہل الرائے ہو فوراً دربار خلافت میں آئے چونکہ حج کا زمانہ آ چکاتھا خود مکہ مکرمہ کو روانہ ہوئے اور حج سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہر طر ف سے قبائل کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن وقاصؓ نے تین ہزار آدمی بھجے جن میں سے ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا۔ حضرموت ‘ صدف‘ مزحج‘ قیس‘ عیلان‘ کے بڑے بڑے سرداروں کی جمعیت لے کر آئے۔ مشہور قبائل میں سے یم کے ہزار بنوتمیم کو رباب کے چار ہزار بنو اسد کے تین ہزار آدمی تھے۔

حضرت عمرؓ حج کر کے واپس آئے توجہاں تک نگاہ جاتی تھی آدمیوں کا ایک جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب  سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ  سالار بن کر چلوں گا۔ چنانچہ ہر اول طلحہؓ میمنہ پر زبیرؓ اورمیسرہ پر عبدالرحمن بن عوفؓ کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو کر چلی تو حضرت علیؓ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کیے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیںَ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا اور یہاس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیر المومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لیے صرار میں فوج کو مع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب ک۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا امیر المومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سر نہ ہو گی لیکن بڑے بڑے صحابہؓ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف رائے دی ۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی اور عوام کی طرف خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہاری رائے پر عمل کرنا چاہتا تھا لیکن اکابر ؓ اس رائے سے متفق نہیں۔ غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمرؓ خود سپہ سالار بن کرنہ جائیں لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیںملتاتھا۔ ابوعبیدہ و خالدؓ شام کی مہمات میں مصروف تھے حضر ت علیؓ سے درخواست  کی گئی لیکن انہوںنے انکار کر دیا۔ لوگ اسی حیص و بیص میں تجھے کہ دفعتہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے اٹھ کر کہا میں نے پا لیا۔ حضرت عمرؓ نے فر مایا کون ؟ بولے سعد بن ابی وقاصؓ۔

سعدؓ بڑے رتبہ کے صحابی اور رسول اللہ ؓ کے ماموںتھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کی قابلیتوں کی طرف سے اطمینا ن نہ تھا۔ اس بنا پر حضرت عمرؓ کو پھر بھی کچھ تردد تھا لیکن جب تمام حاضرین نے عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے کی تائید کی تو چار و ناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیںَ چنانچہ ان معرکوںمیں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت‘ حمل کا بندوبست لشکر کی ترتیب فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ وقتاً فوقتاً احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام بھی ان کی خاص ہدایت کے بغیرانجام نہیںپا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینہ سے عراق تک فوج کی منزلیں بھی خود حضرت عمرؓ نے نامزد کر دی تھیںَ چنانچہ مورخ طبری نے نام بنا م ان کی تصریح کر دی ہے۔

غرض سعد ؓ نے لشکر کا نشان چڑھایا اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ ۱۷۔۱۸منزلیں طے کرکے ثعلبہ پہنچے ۱؎ اور یہاں قیام کیا ثعلبہ کوفہ سے تین  منزل پر ہے اور پانی اور افراط اور موقع کی خوبی کی وجہ سے یہاں مہینے کے مہینے بازار لگتا تھا۔ تین مہینے یہاں قیام کیا۔ مثنیٰؓ موضع ذی وقار میں آٹھ ہزار آدمی لیے ہوئے پڑے تھے ۔ جن میں خاص بکر بن واء کے چھ ہزار جوان تھے۔ مثنیٰؓ کو سعدؓ کی آمد کا انتظار تھا کہ سات ہو کر کوفہ بڑھیں لیکن جسر کے معرکے میں جو زخم کؤھائے تھے بگڑتے گئے اور آخر اسی کے صدمے سے انتقال کیا ۔ سعدؓ نے ثعلبہ سے چل کر مشراف میں ڈیرے ڈالے۔ یہاں مثنیٰؓ کے بھائی معنی ان سے آ کر ملے اور مثنیٰؓ نے جو ضروری مشورے دیے تھے سعدؓ سے بیان کیے چونکہ حضرت عمرؓ کا حکم تھا کہ جہا فوج کا پڑٓئو ہو وہاں کے تمام حالات لکھ کر آئیں۔ سعدؓ نے اس مقام کا نقشہ لشکر کا پھیلائو فرودگاہ کا ڈھنگ رسد کی کیفیت ان تمام حالات سے ان کو اطلاع دی۔ وہاں سیایک مفصل فرمان آیا جس میں بہت سی ہدایتیں اور فوج کی ترتیب کے قواعد تھے سعدؓ نے ان احکام کے موافق پہلے تمام فوج کا جائزہ لیا جو کم و بیش تیس ہزار ٹھہری پھر میمنہ و میسرہ وغیرہ کی تقسی کر کے ایک پر جدا جدا افسر مقرر کیے۔ فوج کے جدا جدا حصوں اوران کے افسروں کی تفصیل طبری کے بیان کے موافق ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گی:

۱؎  بلاذری نے ثعلبہ اور طبری نے زردو لکھا ہے یہ دونوں مقام آپس میں نہایت متصل اوربالکل قریب ہیں۔

حصہ

نام افسر                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 مختصر حال                                                                                                                                    ہر اول

زہرہ بن عبداللہ بن قتاوہ             جاہلیت میں یہ بحرین کے بادشاہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے وکیل ہو کر آئے تھے اور اسلام لائے تھے۔

میمنہ(دایاں حصہ) 

عبداللہ بن المعتصمؓ

صحابی تھے

میسرہ(بایاں حصہ)

شرجیل بن السمط

نوجوان آدمی تھے مرتدین کی جنگ میں نہایت شہرت حاصل کی تھی۔

ساقہ(پچھلا حصہ)

عاصم بن عمرو التمیمی

 طلایع(گشت کی فوج)

سواد بن مالک

مجرد(بے قاعدہ فوج)

سلمان بن ربیعۃ الباہلی

پیدل

حمال بن مالک الاسدی

شتر سوار

عبداللہ بن ذی السمین

قاضی و خزانچی

عبدالرحمن بن ربیعۃ الباہل

راید یعنی رسد وغیرہ کا بندوبست کرنے والے

سلمان فارسیؓ

مشہور صحابی ہیں فارس کے رہنے والے تھے۔

مترجم

ہلال ہجری

منشی

زیاد بن ابی سفیان

طبیب ۱؎

۱؎  افسوس ہے کہ طبری نے طبیبوں کے نام لکھے صر ف اسی قدر لکھاہے کہ حضرت عمرؓ نے فوج کھے ساتھ طبیب بھیجے

امرائے اعشار میں سے ستر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میںشریک تھے۔ تین سو وہ جو بیعتہ رضوان میں حاضر تھے۔ اسی قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے۔ سات سو ایسے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ ؓ کی اولاد تھے۔

سعدؓ شراف ہی میں سے تھے۔ کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑ ھ کر قادسیہ ۱؎ میںمقا م کرو اور اس طرح مورچے جمائو کہ سامنے عجم کی زمین اورپشت پر عرب کے پہاڑ ہوں تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جائو اور اگر اللہ نہ کرے کہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوںمیں پناہ میں آ سکو۔

قادسیہ نہایت شاداب اورنہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمرؓ جاہلیت میں ان مقامات میں سے اکثر گزرے تھے۔ اور اس موقع کی ہئیت سے واقف تھے۔۔ چنانچہ سعدؓ کوجو فرمان بھیجا اس میںقادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا سعدؓ کولکھا کہ قادشیہ پہنچ کر سرزمین کا پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میںنے بعض ضروری باتیں اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقع اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعدؓ نے نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔

چنانچہ سعدؓ شراف سے چل کر غدیب پہنچے یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا اور وہ مفت ہاتھ آیا۔ قادسیہ پہنچ کر سعدؓ نے ہر طر ف ہرکارے دوڑائے کہ غنیم کی خبر لائیں انہوںنے آ کر بیان دیا کہ رستم( پسر فرخ زاد) جو آرمینہ کا رئیس ہے سپہ سالار مقرر ہوا ہے اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع د۔ وہاں سے جواب آیاکہ لڑائی سے پہلے کچھ لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیںَ سعدؓ نے سردار ان قبائل میںسے چودہ نامور اشخاص انتخاب کیے جومختلف صفتوں کے لحا ظ سے تمام عرب میں منتخب تھے۔ عطارد بن حاجب ‘ اشعث بن قیس‘ حارث بن حسان‘ عاصم بن عمر‘ عمرو معدی کرب‘ مغیرہ بن شعبہ اور معنی بن حارثہ ؓ قدوقامت اور ظہارہ رعب و ادب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن بسر بن ابی رہم حملہ بن جویۃ حنظلہ بن الربیع التمیمی‘ فرات بن حا الغہجلی‘ عدی بن سہیل‘ اور مغیرہ بن زرارہ ؓ عقل و تدبیر اور حز و سیاست میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے۔

۱؎  یہ کوفہ سے ۳۵میل پر ایک چھوٹا سا شہر تھا۔

ساسانیوں کا پایہ تخت قدیم زمانے میں اصطخر تھا لیکن نوشیروان نے مدائن کو دارالسلطنت قرار دیاتھا وہ اس وقت سے وہی پایہ تخت چلا آ رہا تھا۔ یہ مقام سعدؓ کی فرودگاہ یعنی قادسیہ سے ۳۰۔۴۰ میل کے فاصلے پر تھا۔ سفراء گھوڑے اڑاتے ہوئے سیدھے مدائن پہنچے۔ راہ میں جدھر سے گزر ہوتاتھا تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تکک کہ آستان سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھہرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت  یہ تھی کہ گھوڑو ں پر زین اور ہاتھوں میںہتھیار تک نہ تھا۔ تاہم بے باکی ار دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی۔ اورتماشائیوں پراس کا اثرپڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکل جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آوز یزدگرد کے کان تک پہنچی اوراس نے دریافت کیا کہ یہ آواز  کیسی ہے معلمو ہوا کہ اسلام کے سفراء آئے ہیںَ یہ سن کر بڑے سروسامان سے دربار سجایا اور سفراء کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے ہاتھوں میں کوڑے لیے موزے چڑھائے ہوئے دربار میں داخل ہوئے۔ پچھلے معرکوںمی تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزدگرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ایک ہیبت طاری ہوئی۔

ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے۔ یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے  ہیں انہوںنے کہا برد۔ اس نے (فارس معنی کے لحاظ سے) کہا کہ جہاں برد پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ سوط وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ پارس راسوختند ان بدفالیوں پر سارا دربار برہم ہوا جاتا تھا لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتاتھا۔ پھر سوال کیاکہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگروہ تھے۔ جواب دینے کے لیے آگے بڑھے پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کیے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں جزیہ یا تلوار۔ یزدگردنے کہا تم کو یاد نہیں کہ دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بدبخت قوم کوئی نہ تھی۔ تم جب کبھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جاتا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔

اس پر سب نے سکوت کیا لیکن مغیرہ بن زرارہ سے ضبط نہ ہو سکا اور اٹھ کر کہا کہ یہ لوگ (اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے) رئوسا عرب ہیں اور حلم و وقار کی وجہ سے زیادہ گوئی ہیںکر سکتے۔ نہوںنے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیںَ ان کو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت  اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا۔ اول اول ہم سب نے اس کی مخالفت ک ۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے وہ آگے بڑھتا تھا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے  لیکن رفتہ رفتہ اس کی بات نے دلوں پر اثر کیا اور جو وہ کچھ کہتا تھا اللہ کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتاتھا اللہ کے حکم سے کرتا تھا۔ اس نے ہم کو حک دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیاکے سامنے پیش کرو جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میںتمہارے برابر ہیں۔ جن کو اسلام سے انکار ہو اور جزی پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔ یزدگرد غصیسے بے تاب ہو گیا اور کہا کہ اگرقاصدوں کا قتل کرنا جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کرنہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا اورکہا کہ تم میں سے سب سے معزز کون ہیَ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا میں ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا۔ وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے سعدؓ کے پاس پہنچے کہ فتح مبارک! دشمن ے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔

اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامو رتھا۔ ساباط میں لشکر لیے پڑا تھا اور یزدگرد کی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جا رہاتھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے لیے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصے میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آ گئے۔ ان میں جوشنماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ س حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزدگرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جائے ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوئے جاتے ہیںَ چار ناچار رستم کو مقابلے کے لیے بڑھنا پڑا ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادشیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں ۔ تمام افسر شراب پی کر بدمستیاں کرتے تھے اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیا ل پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فناہوتی نظر آتی ہے۔

رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں سعدؓ نے ہر طرف جاسوس پھیلا دیے کہ دم دم کی خبریں پہنچتی رہیں۔ فو ج کا رنگ ڈھنگ لشکر کی ترتیب اتارنے کا رخ  ان باتوں کو دریافت کے لیے فوجی افسر متعین کیے گئے اس میں کبھ کبھی دشمن کا بھی سامنا ہو جاتا  تھا چنانچہ ایک دفعہ طلحہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے۔ ایک جگہ ایک بیش بہا گھوڑا تھان پر بندھا دیکھا۔ تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑ ے کی ڈور سے اٹکا لی۔ اس عرصے میں لو گ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا۔ گھوڑے کا ایک سوار مشہور افسر تھا اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا وار کیا انہوںنے خالی کر دیا وہ زمین پر گرا انہوںنے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو اور سوار تھے ان سے ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں۔ اتنے عرصے میں تمام فوج میں ہل چل پڑ گئی ار لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نک آئے اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی رہ گئی۔ قیدی نے سعدؓ کے سامنے آ کر اسلام قبو ل کیا اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے میرے ابن اعم تھے اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ اسلا کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اوراس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوئے جو اور کسی طرح معلو م نہ ہو سکتے تھے۔ وہ بعد کے تمام معرکوں میںشریک رہا اور موقع پر ثابت قدم اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔

رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا۔ ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی  معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعدؓ نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہئیت س چلے عرق گیر کی زرہ بنائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار میان  پر چیتھڑے لپیٹ لیے۔ اس ہئیت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے ادھر ایرانیوں نے بڑے سروسامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین گائو تکیے‘ حریر کے پردے۔ صدر میں مرصع تخت ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گائو تکیے سے اٹکا دیا۔

درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا انہوں نے کہا میں بلایا ہوا آیا ہوں تم کو اس طرح میرا آن منظور نہیں تو میں الٹٓ پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم یس عرض کی اس نے اجازت دے دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا اس کی انی کو اس طرح فرش پر چبھوتے جاتے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جا بجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر نیزہ مارا جو فرش کو آر پار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس مللک میںکیوں آئے؟ انہوںنے کہا کہ اس لیے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے۔ رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ہتھیار دیکھتے تھے اورکہتے تھے کہ اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں سے بجلی سی کوند گئی اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لیے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ برابر جاری رہا۔

اخیر سفارت میں مغیرہؓ گئے اس دن ایرانیوں نے برے ٹھاٹھ سے دربار جممایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج زر پہن کر کرسیوں پر بیٹھے۔ خیمے میں دیبا و سنجاب کا فرش بچھایا گیا اور خدام اور منصب دار قرینے سے دوریہ پر ے جما کر کھڑے ہو ئے مغیرہؓ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر کی رف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانو ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لیے مہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص رب بن کر بیٹھے اور تما م لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں ۔ مترجم نے جس کا نام عبود تھا اورحیرۃ کا باشندہ تھا اس تقریر کاترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہو ا اور بعض بعض بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قو م کو ذلیل سمجھتے تھے۔

رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا پھر بے تکلفی کے طورپر مغیرہ کے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میںلے کرکہا کہ ان تکلوں سے کیا ہو گا؟ مغیرہ نے کہا کہ آگ کی لوگ گو چھوٹی ہو پھر بھی آگ ہے۔ رستم نے ان کی تلوار کانیام دیکھ کر کہا کہ کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوںنے کہا ہاں تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے۔ اس نوک جھوک ککے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رست نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جائو تو ہم کو کچھ ملال نہیںبلکہ کچھ انعام دلایا جائے گا۔ مغیرہ نے تلوارکے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اگر اسلام و جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا۔ رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہ کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کر دوں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آئے اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہوگیا۔

٭٭٭