بیت المقدس637ء/ 16ھ
ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے جب شام پر چڑھائی کی تو ہر
ہر صوبہ پر الگ الگ افسر بھیجے۔ چنانچہ فلسطین عمرو بن العاص ؓ کے حصے میں آیا۔
عمرو بن العاصؓ نے بعض مقامات حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں فتح کر لئے تھے اور فاروقی
عہد تک تو نابلس، لد، عمواس، بیت جرین تمام بڑے بڑے شہروں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب
کوئی عام معرکہ پیش آ جاتا تھا تو وہ فلسطین چھوڑ کر ا بو عبیدہ ؓ سے جا ملتے تھے
اور ان کو مدد دیتے تھے لیکن فارغ ہونے کے ساتھ فوراً واپس آ جاتے تھے اپنے کام
میں مشغول ہو جاتے تھے۔ 1؎ یہاں تک کہ آس پاس کے شہروں کو فتح کر کے خاص بیت
المقدس کا محاصرہ کیا۔ عیسائی قلعہ بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت حضرت ابو عبیدہؓ
شام کے انتہائی اصلاح قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت
المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے
لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمرؓ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کیہاتھوں سے لکھا
جائے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری
پر موقوف ہے۔
1؎ فتوح البلدان صفحہ140
حضرت عمرؓ نے تمام معزز صحابہؓ کو جمع کیا اور مشورت کی۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ عیسائی مرعوب و شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی اس درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے لیکن حضرت علی ؓ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمرؓ نے انہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں1؎ حضرت علی ؓ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کئے 2؎ اور جب 16ھ میں مدینہ سے روانہ ہو گئے۔
ناظرین کو انتظار ہو گا کہ فاروق اعظمؓ کا سفر اور سفر بھی وہ جس سے
دشمنوں پر اسلامی جلال کا رعب بٹھانا مقصود تھا، کس سروسامان سے ہوا ہو گا لیکن
یہاں نقارہ نوبت، خدم و حشم، لاؤ لشکر ایک طرف، معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔
سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجرین و انصار ساتھ تھے۔ تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی
تھی کہ فاروق اعظمؓ نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے زمین دہل جاتی تھی۔
سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔
اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیانؓ اور خالد بن ولیدؓ وغیرہ نے یہیں استقبال کیا۔
شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے
سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر و دیبا کے چلتے اور پر تکلف
قبائیں تھیں اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت
عمرؓ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ
اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔
ان لوگوں نے عرض کہ قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں (یعنی سپہ گری کا جوہر
ہاتھ سے نہیں دیا ہے) فرمایا ’’ تو کچھ مضائقہ نہیں‘‘ 1؎ شہر کے قریب پہنچے تو ایک
اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ غوطہ کا دلفریب سبزہ زار اور دمشق
کے بلند اور شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا، عبرت کے لہجہ میں یہ
آیت پڑھی:
کم تر کوا من جنات وعیون (/44 الدخان25:)
پھر نابغہ کے چند حسرت انگیز اشعار پڑھے۔
1؎ یہ طبری کی روایت ہے یعقوبی نے حضرت علیؓ کے
بجائے حضرت عثمانؓ کا نام لیا ہے۔
2؎ یعقوبی (ص2402)
جابیہ میں دیر تک قیام رہا اوربیت المقدس کا معاہدہ بھی یہیں لکھا
گیا۔ وہاں کے عیسائیوں کو حضرت عمرؓ کی آمد کی خبر پہلے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ
رئیسان شہر کا ایک گروہ ان سے ملنے کے لئے دمشق کو روانہ ہوا۔ حضرت عمرؓ فوج کے
حلقے میں بیٹھے تھے کہ دفعتہ کچھ سوار نظر آئے جو گھوڑے اڑاتے آتے تھے اور کمر
میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لئے۔ حضرت عمرؓ نے
پوچھا ہے خیر ہے؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے فراست سے سمجھا
کہ بیت المقدس کے عیسائی ہیں فرمایا گھبراؤ نہیں یہ لوگ امان طلب کرنے آتے ہیں۔
غرض معاہدہ صلح لکھا گیا بڑے بڑے معزز صحابہؓ کے دستخط ہو گئے۔1؎
معاہدہ کی تکمیل کے بعد حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا۔ گھوڑا
جو سواری میں تھا اس کے سم گھس کر بیکار ہو گئے تھے اور رک رک کر قدم رکھتا تھا۔
حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر اتر پڑے۔ لوگوں نے ترکی نسل کا ایک عمدہ گھوڑا حاضر کیا۔
گھوڑا شوخ اور چالاک تھا حضرت عمرؓ سوار ہوئے تو الیل کرنے لگا۔ فرمایا کمبخت یہ
غرور کی چال تو نے کہاں سے سیکھی۔ یہ کہہ کر اتر پڑے اور پیادہ پا چلے۔ بیت المقدس
قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہؓ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمرؓ کا لباس
اور سروسامان جس معمولی حیثیت کا تھا، اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ
عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور عمدہ قیمتی پوشاک
حاضر کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی
عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔ غرض اس حال سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے
پہلے مسجد میں گئے۔ محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدہ داؤد کی آیت پڑھی اور سجدہ
کیا پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور ادھر ادھر پھرتے رہے۔
چونکہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے۔ کئی دن تک قیام
کیا اور ضروری احکام جاری کئے۔ا یک دن بلالؓ (رسول اللہ ﷺ کے موذن) نے آکر شکایت
کی کہ امیر المومنین ہمارے افسر پرند کا گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں لیکن
عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے افسروں کی طرف دیکھا۔
انہوں نے عرض کی کہ اس ملک میں تمام چیزیں ارزاں ہیں جتنی قیمت پر حجاز میں روٹی
اور کھجور ملتی ہے یہاں اسی قیمت پر پرند کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ
افسروں کو مجبور نہ کر سکے لیکن حکم دے دیا کہ مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر
سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔
1؎ یہ طبری کی روایت ہے بلاذری ازدی نے لکھا کہ
معاہدہ صلح بیت المقدس میں لکھا گیا۔ اس معاہدے کو بتمامہا ہم نے اس کتاب کے دوسرے
حصے میں نقل کیا ہے۔ دیکھو اس کتاب کا دوسرا حصہ۔
ایک دن نماز کے وقت بلالؓ سے درخواست کی کہ آج اذان دو۔ بلالؓ نے
کہا میں عزم کر چکا تھاکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہ دوں گا لیکن آج
(اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہؓ کو
رسول اللہ ﷺ کا عہد مبارک یاد آ گیا اور رقت طاری ہوئی۔ ابو عبیدہ معاذ بن جبل ؓ
روتے روتے بے تاب ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کی ہچکی لگ گئی اور دیر تک ایک اثر رہا۔
ایک دن مسجد اقصیٰ میں گئے اور کعب احبارؓ کو بلایا اور ان سے پوچھا
کہ نماز کہاں پڑھی جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک پتھر جو انبیاء سابقین کی یادگار ہے۔
اس کو مخرہ کہتے ہیں اور یہودی اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح مسلمان حجر
اسود کی۔ حضرت عمرؓ نے جب قبلہ کی نسبت پوچھا تو کعب ؓ نے کہا کہ ’’ صخرہ کی طرف‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم میں اب تک یہودیت کا اثر باقی ہے اور اسی کا اثر تھا کہ
تم نے صخرہ کے پاس آ کر جوتی اتار دی۔ 1؎ اس واقعہ سے حضرت عمرؓکا جو طرز عمل اس
قسم کی یادگاروں کی نسبت تھا ظاہر ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہماری اس کتاب کے دوسرے حصے
کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے۔
حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش17ھ638ء
یہ معرکہ اس لحاظ سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس سے جزیرہ اور
آرمیسیہ کی فتوحات کا موقع پیدا ہوا۔ ایران اور روم کی مہمیں جن اسباب سے پیش
آئیں وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں لیکن اس وقت تک آرمبیہ پر لشکر کشی کے لئے کوئی
خاص سبب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع تر ہو جاتی تھیں
اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے۔ ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف
پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ جزیرہ والوں نے قیصر کو لکھا
کہ نئے سرے سے ہمت کیجئے، ہم ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ چنانچہ قیصر نے ایک فوج کثیر
حمص کو روانہ کی۔ ادھر سے جزیرہ والے 30 ہزار کی بھیڑ بھاڑ کے ساتھ شام کی طرف
بڑھے۔ ابوعبیدہؓ نے بھی ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کے باہر صفیں جمائیں،
ساتھ ہی حضرت عمرؓ کو تمام حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں
میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں اور ہر جگہ چار چار ہزار گھوڑے فقط اس غرض
سے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ کوئی اتفاقیہ موقع پیش آ جائے تو فوراً ہر جگہ سے
فوجیں یلغار کر کے موقع پر پہنچ جائیں۔
1؎ تاریخ طبری، ص2408
ابوعبیدہؓ کا خط آیا تو ہر طرف قاصد دوڑا دیئے۔ قعقاع بن عمر جو
کوفہ میں مقیم تھے لکھا کہ فوراً چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں۔ سہیل بن عدی
کو حکم بھیجا کہ جزیرہ پہنچ کر جزیرہ والوں کو حمص کی طرف بڑھنے سے روک دیں۔
عبداللہ بن عتبان کو نصیبیں کی طرف روانہ کیا۔ ولید بن عقبہ کو مامور کیا کہ جزیرہ
پہنچ کر عرب کے ان قبائل کو تھام رکھیں جو جزیرہ میں آباد تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان
انتظامات پر بھی قناعت نہ کی بلکہ خود مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق میں آئے۔ جزیرہ
والوں نے جب سنا کہ خودان کے ملک میں مسلمانوں کے قدم آ گئے تو حمص کا محاصرہ
چھوڑ کر جزیرہ کو چل دیئے۔ عرب کے قبائل جو عیسائیوں کی مددکو آتے تھے وہ بھی
پچھتائے اور خفیہ خالدؓ کو پیغام بھیجا کہ تمہاری مرضی ہو تو ہم اسی وقت یا عین
موقع پر عیسائیوں سے الگ ہو جائیں۔ خالدؓ نے کہلا بھیجا کہ افسوس! میں دوسرے شخص
(ابوعبیدہؓ) کے ہاتھ میں ہوں اور وہ حملہ کرنا پسند نہیں کرتا ورنہ مجھ کو تمہارے
ٹھہرے اور چلے جانے کی مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ تاہم اگر تم سچے ہو تو محاصرہ چھوڑ کر
کسی طرف نکل جاؤ۔ ادھر فوج نے ابو عبیدہؓ سے تقاضا شروع کیا کہ حملہ کرنے کی
اجازت ہو۔ انہوں نے خالدؓ سے پوچھا۔ خالدؓ نے کہا میری جو رائے ہے معلوم ہے۔
عیسائی ہمیشہ کثرت فوج کے بل پر لڑتے ہیں۔ اب کثرت بھی نہیں رہی پھر کس بات کا
اندیشہ ہے، اس پر بھی ابوعبیدہؓ کا دل مطمئن نہ ہوا۔ تمام فوج کو جمع کیا اور
نہایت پر زور اور موثر تقریر کی کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیا وہ اگر زندہ
بچا تو ملک و مال ہاتھ آئے گا اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی۔ میں گواہی
دیتا ہوں (اور یہ جھوٹ بولنے کا موقع نہیں) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص
مرے اور مشرک ہو کر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ فوج پہلے ہی سے حملہ کرنے کے
لئے بے قرار تھی۔ ابو عبیدہؓ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا اور دفعتہ سب نے ہتھیار
سنبھال لئے۔ ابوعبیدہؓ قلب فوج اور خالد و عباس میمنہ اور میسرہ کو لے کر پڑھے۔
قعقاع جو کوفہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ مدد کو آتے تھے، حمص سے چند میل پر اہ میں
تھے کہ اس واقعہ کی خبر سنی۔ فوج چھوڑ کر سو سواروں کے ساتھ ابو عبیدہؓ سے ملے۔
مسلمانوں کے حملے کے ساتھ عرب کے قبائل (جیسا کہ خالدؓ سے اقرار ہو چکا تھا) ابتری
کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ ان کے ہٹنے سے عیسائیوں کا بازو ٹوٹ گیا اور تھوڑی دیر لڑ کر
اس بد حواسی سے بھاگے کہ مرج الدیباج تک ان کے قدم نہ جملے۔ یہ آخری معرکہ تھا جس
کی ابتداء خود عیسائیوں کی طرف سے ہوئی اور جس کے بعد ان کو پھر کبھی پیش قدمی کا
حوصلہ نہیں ہوا۔
حضرت خالدؓ کا معزول ہونا
شام کی فتوحات اور 17ھ (638ئ) کے واقعات میں حضرت خالدؓ کا معزول
ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام مورخین کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ
میں لینے کے ساتھ پہلا جو حکم دیا وہ خالدؓ کی معزولی تھی۔ ابن الاثیر وغیرہ سب
یہی لکھتے آئے ہیں لیکن یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ا فسوس ہے کہ ابن الاثیر کو خود
اپنی اختلاف بیانی کا بھی خیال نہیں۔ خود ہی سنہ 13ھ کے واقعات میں خالدؓ کا معزول
ہونا لکھا ہے اور خود ہی 17ھ کے واقعات میں ان کی معزولی کا الگ عنوان قائم کیا ہے
اور دونوں جگہ بالکل ایک سے واقعات نقل کر دیئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ خالدؓ کی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے مدت
سے ناراض تھے۔ تاہم آغاز خلافت میں ان سے کچھ تعرض کرنا نہیں چاہا لیکن چونکہ
خالدؓ کی عادت تھی کہ وہ کاغذات حساب دربار خلافت کو نہیں بھیجتے تھے، اس لئے ان
کو تاکید لکھی کہ آئندہ سے اس کا خیال رکھیں۔ خالدؓنے جواب میں لکھا کہ میں حضرت
ابوبکرؓ کے زمانے سے ایسا ہی کرتا آیا ہوں اور اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔ حضرت
عمرؓ کو ان کی یہ خود مختاری کیونکر پسند ہو سکتی تھی اور وہ بیت المال کی رقم کو
اس طرح بے دریغ کیونکر کسی کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ چنانچہ خالدؓ کو لکھا کہ ’’
تم اسی شرط پر سپہ سالار رہ سکتے ہو کہ فوج کے مصارف کا حساب ہمیشہ بھیجتے رہو۔‘‘
خالدؓ نے اس شرط کو نامنظور کیا اور اس بنا پر وہ سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر
دیئے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے کتاب الاصابہ میں حضرت خالدؓ کے حال
میں بتفصیل لکھا ہے۔
بایں ہمہ ان کو بالکل معزول نہیں کیا بلکہ ابو عبیدہؓ کے ماتحت کر
دیا۔ اس کے بعد سنہ 17ھ (638ئ) میں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالدؓ نے ایک شاعر
کو دس ہزار روپے انعام میں دے دیئے۔ پرچہ نویسوں نے اسی وقت حضرت عمرؓ کو پرچہ
لکھا۔ حضرت عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو خط لکھا کہ خالدؓ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا
تو اسراف کیا او ربیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورتوں میں وہ معزولی کے
قابل ہیں۔
خالدؓ جس کیفیت سے معزول کئے گئے وہ سننے کے قابل ہے۔ قاصد نے جو
معزولی کا خط لے کر آیا تھا مجمع عام میں خالدؓ سے پوچھا کہ یہ انعام تم نے کہاں
سے دیا؟ خالدؓ اگر اپنی خطا کا اقرار کر لیتے تو حضرت عمرؓ کا حکم تھا کہ ان سے
درگزر کی جائے لیکن وہ خطا کے اقرار کرنے پر راضی نہ تھے۔ مجبوراً قاصد نے معزولی
کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی اور ان کی سرتابی کی سزا کے لئے انہی
کے عمامہ سے ان کی گردن باندھی۔ یہ واقعہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ ایک ایسا سپہ
سالار جس کی نظیر تمام اسلام میں کوئی شخص موجود نہ تھا اور جس کی تلوار نے عراق و
شام کا فیصلہ کر دیا تھا، اس طرح ذلیل کیا جا رہا ہے اور مطلق دم نہیں مارتا۔ اس
واقعہ سے ایک طرف تو خالد ؓ کی نیک نفسی اور حق پرستی کی شہادت ملتی ہے اور دوسری
طرف حضرت عمرؓ کی سطوط و جلال کا اندازہ ہوتا ہے۔
خالدؓ نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی۔ تقریر میں
یہ بھی کہا کہ امیر المومنین عمرؓ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا اور جب میں نے
تمام شام کو زیر کر لیا تو مجھ کو معزول کر دیا۔ اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا
ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ! ان باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ خالدؓ نے کہا
ہاں! لیکن عمرؓ کے ہوتے فتنہ کا کیا احتمال ہے؟1؎
خالدؓ مدینہ آئے اور حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ عمرؓ
اللہ کی قسم تم میرے معاملہ میں نا انصاف کرتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ تمہارے پاس
اتنی دولت کہاں سے آئی؟ خالدؓ نے کہا کہ مال غنیمت سے اور یہ کہہ کر کہا کہ ساٹھ
ہزار سے جس قدر زیادہ رقم نکلے وہ میں آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ چنانچہ بیس ہزار
روپے زیادہ نکلے اور وہ بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ حضرت عمرؓ نے خالدؓ کی
طرف مخاطب ہو کر کہا کہ خالدؓ! واللہ تم مجھ کو محبوب بھی ہو اور میں تمہاری عزت
بھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر تمام عمالان ملکی کو لکھ بھیجا کہ میں نے خالدؓ کو ناراضی
سے یا خیانت کی بناء پر موقوف نہیں کیا لیکن چونکہ میں یہ دیکھتا تھا کہ لوگ ان کے
مفتون ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان کا معزول کرنا مناسب سمجھا تاکہ لوگ یہ
سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے۔ 2؎ ان واقعات سے ایک نکتہ بین شخص با آسانی
یہ سمجھ سکتا ہے کہ خالدؓ کی معزولی کے کیا اسباب تھے اور اس میں کیا مصلحتیں
تھیں۔