امریکہ اور روس کا بنگلہ دیش میں نیا مورچہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اقبال احمد 

بی بی سی اردو 

24 دسمبر 2022ء 

یوکرین کے حوالے سے روس اور امریکہ تو پہلے سے ہی آمنے سامنے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ روس اور امریکہ نے بنگلہ دیش میں ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔

بدھ کو بنگلہ دیش میں روسی سفارت خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک کارٹون پوسٹ کیا گیا۔ اس کارٹون کے ذریعے بظاہر روس نے امریکہ اور مغربی ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ

کارٹون میں ایک بڑے پرندے کو کھمبے کے اوپر بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ اس پرندے کے ساتھ امریکی جھنڈا بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بڑے پرندے کا مطلب امریکہ ہے۔ امریکہ کے نیچے بیٹھا پرندہ برطانیہ کے طور پر دکھایا گیا ہے، اس کے نیچے یورپی یونین ہے اور سب سے نیچے یوکرین کو پیش کیا گيا ہے۔

کارٹون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سب مل کر یوکرین پر گندگی گرا رہے ہیں۔لیکن اس کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ بنگلہ دیش میں پچھلے دو ہفتوں میں کیا ہوا ہے۔ 

معاملہ کیا ہے؟

رواں ماہ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں نے 10 دسمبر کو حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

اس دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور حکومت نے کئی اپوزیشن لیڈروں اور مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔

خیال رہے کہ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی سربراہی میں موجودہ حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔

اپوزیشن کی ریلی میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروائے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بڑھتے ہوئے مبینہ واقعات کا خاتمہ کرے۔

حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں لوگوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے کہا کہ اپوزیشن کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کے ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ ہم آزادی اظہار کو سلب کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش 1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ ​​کے بعد ایک ملک کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کا تحفظ تھا۔‘ابھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے کہ 14 دسمبر کو بنگلہ دیش میں امریکی سفیر پیٹر ڈی ہاس نے اپوزیشن جماعت کے رہنما ساجد الاسلام شمعون کے گھر کا دورہ کیا اور وہاں انھوں نے ساجد الاسلام کی بہن سنجیدہ سے ملاقات کی۔

ساجد گذشتہ ایک دہائی سے لاپتہ ہیں۔ جب امریکی سفیر ساجد کے گھر پر تھے تو وہاں ایک بھیڑ اکٹھی ہو گئی۔

ہجوم کا کہنا تھا کہ وہ امریکی سفیر کو ایک یادداشت دینا چاہتے ہیں جس میں بی این پی کے بانی ضیاء الرحمان کے دور حکومت میں سنہ 1977 کے کریک ڈاؤن میں ہلاک ہونے والوں کے نام شامل تھے۔ سکیورٹی وجوہات کے باعث امریکی سفیر کو فوری طور پر وہاں سے جانا پڑا۔

اس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے بنگلہ دیش کے سفیر محمد عمران کو فون کیا اور سفارت کاروں کے تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن اور وزیر داخلہ اسد الزماں خان کا بیان بھی سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش تمام سفارت کاروں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور 14 دسمبر کو امریکی سفیر کی سکیورٹی میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔

روس کی دخل اندازی

یہاں سے روس اس معاملے میں داخل ہوتا ہے۔

منگل 20 دسمبر کو بنگلہ دیش میں روسی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے امریکہ اور مغربی ممالک پر بلیک میلنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کا الزام لگایا۔

روسی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کسی بھی ملک کی جانب سے عدم مداخلت کے اصول کی خلاف ورزی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔وہ ممالک جو خود کو ترقی یافتہ جمہوریت کہتے ہیں نہ صرف دوسرے آزاد ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ انھیں بلیک میل کرتے ہیں اور ان پر غیر قانونی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔

روس نے امریکہ یا کسی دوسرے ملک کا نام نہیں لیا تاہم ان کے اس بیان سے واضح ہے کہ وہ کن ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ روس نے اپنے بیان میں ان ممالک کو ویانا کنونشن پر عمل کرنے اور میزبان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کی اہمیت بھی یاد دلائی۔

روس کے بیان کے جواب میں ڈھاکہ میں امریکی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں پوچھا کہ کیا تیسرے ممالک میں عدم مداخلت کا اصول یوکرین پر بھی لاگو ہوتا ہے؟

امریکی سفارت خانے کی ٹویٹ کے بعد پھر روسی سفارت خانے نے مذکورہ کارٹون ٹویٹ کیا۔

روس اور امریکہ بنگلہ دیش میں کیا چاہتے ہیں؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بنگلہ دیش کی موجودہ سیاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ شیخ حسینہ کی سربراہی میں عوامی لیگ وہاں سنہ 2008 سے برسراقتدار ہے۔

بنگلہ دیش میں اب تک ایسا ہوا کرتا تھا کہ انتخابات کے وقت ایک غیر جانبدار نگران حکومت ہوتی تھی جس کی نگرانی میں انتخابات ہوتے تھے۔ شیخ حسینہ نے اس بندوبست کو ختم کر دیا۔

نتیجتاً پوری اپوزیشن نے سنہ 2014 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور عوامی لیگ دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سنہ 2014 کے انتخابات کی وجہ سے امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے بنگلہ دیش کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن انڈیا، روس اور چین نے شیخ حسینہ کی حمایت کی۔

سنہ 2018 میں ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن نے حصہ لیا لیکن اس الیکشن کے دوران حکمران عوامی لیگ پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگے۔

شیخ حسینہ کی حکومت اپوزیشن اور میڈیا کو ہراساں کرنے کے سنگین الزامات کا سامنا کرتی رہی۔امریکہ اور مغربی ممالک نے وقتاً فوقتاً بنگلہ دیش کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن انڈیا، روس اور چین شیخ حسینہ کی حمایت کرتے رہے۔

یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش اس وقت انڈیا، روس اور چین کے زیادہ قریب ہے لیکن شیخ حسینہ کی حکومت امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

شیخ حسینہ اب تک تعلقات میں توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔

لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔

بنگلہ دیش نے مارچ میں اقوام متحدہ میں یوکرین پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن پھر اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ووٹ دیا۔

امریکہ میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر ایم ہمایوں کبیر سے ہم نے پوچھا کہ وہ روس اور امریکہ کی اس سرگرمی کو کیسے دیکھتے ہیں۔

'روس کا بیان غیر ضروری'

ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ روس کو ایسا بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بنگلہ دیش کی حکومت اور امریکی سفیر کے درمیان معاملہ تھا اور سچ پوچھیں تو یہ حکومت کا نہیں بلکہ امریکی سفیر اور کچھ لوگوں کا معاملہ تھا۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ، سیکریٹری خارجہ اور امریکہ میں ہمارے سفیر نے یقین دہانی کروائی کہ امریکی سفیر سمیت تمام سفارت کاروں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت یا اسے بین الاقوامی بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔‘

سابق سفیر کبیر کے مطابق بنگلہ دیش کسی ایک بلاک میں شامل نہیں ہونا چاہتا، بنگلہ دیش کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور 1971 میں آزادی ملنے کے بعد سے بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی یہی رہی ہے۔

لیکن معاملہ صرف 14 دسمبر کے واقعے کا نہیں ہے۔ امریکی سفیر ہاس گذشتہ کئی ماہ سے سرخیوں میں ہیں کیونکہ وہ بنگلہ دیش میں انتخابی شفافیت کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔رواں سال جون میں وہ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کے دفتر گئے اور الیکشن کمشنر قاضی حبیب الاوال سے ملاقات کی اور کہا کہ بنگلہ دیش میں شفاف انتخابات ہونے چاہییں۔ بنگلہ دیش میں 2023 کے آخر میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔

یورپی یونین اور جاپان بھی انتخابات کے حوالے سے متعدد بار بیانات دے چکے ہیں۔

جاپانی سفیر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عوامی لیگ نے سنہ 2018 کے انتخابات سے ایک رات پہلے بیلٹ بکس بھر دیے تھے۔

یہ بیان حسینہ سرکار کو پسند نہیں آیا لیکن عوامی سطح پر کچھ نہیں کہا۔ حالانکہ حسینہ حکومت اور الیکشن کمیشن ایسے کسی بھی الزام کو یکسر مسترد کرتے رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے سابق سیکریٹری خارجہ توحید حسین کے مطابق یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شیخ حسینہ حکومت امریکی سفیر کی سرگرمیوں سے زیادہ خوش نہیں ہے، اس لیے روس کو لگا کہ انھیں کچھ کہنے کا موقع مل گیا ہے۔

بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست

لیکن اس کے جواب میں کہ کیا بیرونی طاقتیں بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں، توحید حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت مشکل سوال ہے، مغربی ممالک پہلے ہی ایسے مسائل پر بات کر رہے ہیں جن پر انھیں لگتا ہے کہ انھیں اپنا ایک مؤقف لینا چاہیے۔‘

توحید حسین کے مطابق یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آتے ہیں بہت سے ممالک مزید متحرک ہو جاتے ہیں۔

بی بی سی بنگلہ کے نامہ نگار اکبر حسین سے بات چیت کے دوران ڈھاکہ یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر تنظیم الدین خان نے کہا کہ بنگلہ دیش کے معاملے میں روس نے امریکہ کے خلاف مؤقف اختیار کیا، اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ان کے مطابق پہلی وجہ معاشی ہے۔ روس بنگلہ دیش کے روپ پور میں جوہری پلانٹ بنا رہا ہے۔

پروفیسر تنظیم الدین خان کا مزید کہنا ہے کہ ’روس کی طرف سے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی حمایت کی ایک سیاسی وجہ یہ بھی ہے کہ روس میں خود ایک طرح کی آمرانہ حکومت ہے، وہ دوسری جگہوں پر بھی آمریت کی حمایت کر رہا ہے۔‘

پروفیسر تنظیم الدین خان کے مطابق اس کے لیے بین الاقوامی سیاست کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں اور بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں، جو اقتدار میں ہیں اور جو اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں، دونوں ہی طاقتور بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔‘

اس سب میں انڈیا کہاں ہے؟

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں۔ سنہ 1971 میں انڈین فوج نے مشرقی پاکستان میں مسلح تحریک چلانے والی مکتی باہنی کی مدد کی اور پاکستانی فوج کو شکست دی۔ بنگلہ دیش 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد پیدا ہوا۔

شیخ مجیب الرحمان جنھیں بنگلہ دیش کا بانی کہا جاتا ہے ان کی پارٹی عوامی ليگ اسی وجہ سے انڈیا کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ اس تاریخی رشتے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد شیخ حسینہ نے کئی ایسے فیصلے کیے جن سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کافی اضافہ ہوا۔

بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات

شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ تاریخی وجوہات کی بنا پر انڈیا کے بہت قریب رہی ہے

خالدہ ضیا کی بی این پی کو ہند مخالف سمجھا جاتا رہا ہے

بی این پی کے دور حکومت میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر رہے ہیں

چین نے گذشتہ چند سالوں میں بنگلہ دیش میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے

دوسری طرف امریکہ بھی بنگلہ دیش کو سٹریٹیجک لحاظ سے اہم سمجھتا ہے

پڑوسی ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں ہر واقعے کا براہ راست اثر پڑتا ہے

انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں میں شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث کئی تنظیموں کے سینیئر رہنما بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ بی این پی کی حکومت میں انھیں مکمل آزادی تھی۔ لیکن شیخ حسینہ نے ان تمام انتہا پسندوں کو پکڑ کر انڈیا کے حوالے کر دیا۔

سابق سفارت کار توحید حسین کے مطابق امریکہ اور چین نے بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں پاکستان کی مدد کی تھی مگر اقتصادی وجوہات کی بنا پر چین اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات کافی بہتر ہو گئے ہیں اور چین نے یہاں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ 

مغربی بنگال کی جادھوپور یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ایمانکلیان لہری کے مطابق انڈیا کے لیے شیخ حسینہ واجد کا اقتدار میں رہنا بہتر ہے۔ 

بی بی سی سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ’جس طرح امریکہ اور مغربی ممالک یوکرین میں مداخلت کر رہے ہیں، اسی طرح وہ جنوبی ایشیا میں بھی مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اپوزیشن (بی این پی) کی حمایت کر رہے ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش دونوں کے لیے ہی یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘

 انڈیا کی پالیسی 

ان کے مطابق خالدہ ضیا کی بی این پی حکومت (1991 تا 1996، اور 2001 تا 2006) میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ 

پر کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک دوست ملک کے طور پر کیا یہ انڈیا کے مفاد میں نہیں کہ وہاں آزادانہ انتخابات ہوں اور انسانی حقوق کی پاسداری ہو، اس جواب پر پروفیسر لہری کہتے ہیں کہ ’انڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ وہاں آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں مگر بنگلہ دیش کو یہ مشورہ امریکہ اور مغربی ممالک کے بجائے انڈیا سے ملنا چاہیے۔‘ 

اُن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا مخالف تنظیموں‘ مثلاً جماعتِ اسلامی اور دیگر ’شدت پسند تنظیموں‘ سے لڑنا انڈیا کی ذمہ داری ہے۔ 

اُنھوں نے کہا کہ اگر بی این پی نے اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تو مغربی ممالک بشمول چین کی مداخلت میں اضافہ ہو گا۔ 

مگر انڈیا کیسے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کسی اور ملک میں کون سی جماعت جیتے یا ہارے۔ اس پر پروفیسر لہری کہتے ہیں کہ ’جیت جس کی بھی ہو، انڈیا کو اس سے بات چیت کرنی ہو گی پر اگر شیخ حسینہ ہار گئیں تو بنگلہ دیش میں خون بہے گا۔ کرپشن کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے انڈیا کو اُنھیں سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے۔‘