مبنیٰ ۱
مقدر مقدمات کا استعمال تمام زبانوں میں سماجی، ذہنی، لسانی اور اخلاقی مبانی پر منحصر رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ یعنی مقدرات ہمارے تسلیم شدہ مقدمات پرمبنی ہوتے ہیں۔ مقدرات کے یہ مبنیٰ ہم نے عرض کیا تھا کہ آفاقی (universal) بھی ہوتے ہیں اور علاقائی (local) بھی۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ مقدرات کبھی الل ٹپ نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہمارے اکتسابی و جبلی علم و تصورات پر قائم ہوتے ہیں۔ آفاقی تصورات تمام انسانوں کے مشترکہ محسوسات اور مشترکہ جبلی امور پر قائم ہوتے ہیں ۔
مصنف: ساجد حمید |
مثلاً، ہماری علمی فطرت میں تقابل و موازنہ ایک عمومی طرز تجزیہ و فکر ہے۔ بلکہ حکما اسے ایک جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’تعرف الأشیاء بأضدادہا‘۔ مردوعورت، زمین وآسمان، ظلمت و نور، گھٹیا و اعلیٰ اسی طرح کے تقابل کا بیان ہیں۔ تقابل کے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں باہم مقابلے و موازنے میں لائی جائیں، خواہ متضاد ہوں خواہ ہم آہنگ۔ مثلاً قلم وقرطاس تحریر کے میدان میں دو ہم آہنگ مقابل ہیں، جب کہ آگ اور پانی عام زندگی میں دو متضاد مقابل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہماری فطرت کا علمی شعبہ دیگرطریقوں کے ساتھ ساتھ موازنے کے طریقے پر بھی چیزوں کو سمجھتا ہے ۔اسی سے زبان و کلام میں تقابل کا اسلوب جنم لیتا ہے۔ہر بولنے والا اس جبلت کے سہارے پر چیزوں کو مقابل میں پیش کرتا اور بلاتبصرہ ہماری جبلت کو دعوتِ موازنہ دے دیتا ہے ۔ اسی طرح تمام مقدرات ایسے ہی مسلّم مقدمات اور طریقوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ غوروفکر کے طریقے کی طرح زبان میں بھی تقابل ایک بین الالسنۃ مانا ہوا لسانی اسلوب ہے۔ صنعتِ تضاد ۲ کی اصطلاح اسی طرح کے ایک اسلوب کو بیان کرتی ہے۔
درج ذیل سطور میں ہم قرآن سے چند مثالیں دیکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے اندر کے مقدمات کی لسانی اور علمی و فکری بنیادیں واضح کریں۔
پہلی مثال
قرآن نے کلمۂ طیبہ کو شجرِ طیبہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے:
کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۲۴)
’’شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ — استقرار پائے ہوئے ہے اور جس کی شاخ آسمان میں — ہے۔‘‘
ترجمہ میں خالی جگہوں پر غور کریں۔ جڑیں کہاں استقرار پائے ہوئے ہیں، مذکور نہیں ہے۔ تمام انسان اپنے تجربات سے جانتے ہیں کہ ہر درخت کی جڑیں زمین میں گڑی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ آفاقی حسی مشاہدہ ہے جو مقدر کا کردار ادا کررہا ہے۔ لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔دوسری خالی جگہ میں بھی غور کریں کہ درخت کا تنااور شاخیں آسمان میں بلند ہوتی ہیں۔ بالکل معلوم و معروف بات ہے۔ لہٰذا بیان نہیں کیا۔ اب اسی آیت کے مفہوم کو میں یوں لکھوں تو غلط نہیں ہوگا:
خط کشیدہ الفاظ نے خالی جگہوں کو پر کیا ہے۔ اب یہاں عربی اسلوب کے پہلو سے غور کیجیے، کیونکہ ہم لسانی مقدرات کو بھی واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ دونوں مقامات پر ایک ہی نوع کی چیز کو مقدر چھوڑا گیا ہو۔ یعنی پہلی خالی جگہ میں ظرف حذف ہوا ہے، یعنی زمین کا ذکر نہیں ہوا، جب کہ دوسری خالی جگہ میں ظرف، یعنی آسمان کا ذکر ہے، مگر شاخیں آسمان میں کس صورت میں ہیں، اس کو بیان نہیں کیا گیا ہے۔ نحوی اصطلاحات میں بات کریں تو پہلے جملے کی خبر مذکور ہے اور اس کا متعلق مقدر ہے، جب کہ دوسرے جملے میں خبر مقدر ہے اور اس کا متعلق مذکور ہے۔ ذیل کے گوشوارے میں دیکھیں:
مبتدا خبر متعلقِ خبر
اَصْلُہَا ثَابِتٌ —
وَفَرْعُہَا — فِی السَّمَاء
یہ وہ بات ہے جو عربی اسلوب میں خاص ہے۔ یعنی بجاے اس کے کہ دونوں کی ایک ہی چیز محذوف کی جائے، بلکہ حذف من خلاف کیا جائے، یعنی ایک کا پاؤں دوسرے کا ہاتھ۔ ایک زاویہ سے یہ بھی تقابل ہے۔ یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ کلام مختصر بھی ہوجاتا ہے، مگر دونوں جگہوں کو پر کرنے کاموقع بھی متکلم کے ہاتھ سے نہیں نکلتا ۔ مثلاً اوپر گوشوارہ پر دوبارہ نظر ڈالیں۔ ’اَصْلُہَا‘ کی خبر ’ثابتٌ‘ آئی ہے۔ ’فَرْعُہَا‘ کی خبر ’ثابتٌ‘ کی روشنی میں ہی متعین ہوگی، لیکن وہ جو ’فَرْعُہَا‘ کے لیے مناسب ہواور خبر کا متعلق ’فِی السَّمَآءِ‘ بھی اسے قبول کرتا ہو۔ یعنی اب ’فَرْعُہَا‘ کی خبر مثلاً ’جمیلٌ‘ نہیں لا سکتے، اس لیے کہ وہ ’ثابتٌ‘ اور ’فِی السَّمَآءِ‘ کی رعایت سے درست نہیں لگتی، اگرچہ تنے اور شاخوں کے لیے عام حالت میں مناسب ہے۔ ’اَصْلُہَا ثابتٌ‘ جڑ کی مضبوطی ، گہرائی اور ثبات کے معنی دے رہا ہے، تو شاخوں کے لیے بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، جو ان کی صحت اور پایداری کے معنی دے رہا ہو۔ اب اس رعایت سے ’فَرْعُہَا‘ کی جو خبریں ہوسکتی ہیں، وہ ’بلند‘ اور ’پھیلی ہوئی‘ ہی ہو سکتی ہیں۔ ’جمیلٌ‘ اس جملے کی خبر بنے گا تو مضمون اسے قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہ واضح ہے کہ مقدرات کا عمل ہمارے علمی شعور، ہمارے عمومی تجربات، اور ہمارے لسانی شعور کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
لسانی مقدر کی یہاں پر ایک اور مثال ہے، وہ اسلوب کی نہیں، بلکہ معنی سے متعلق ہے۔ ہم اپنے علمی طرز فکر میں یہ کام بہت کرتے ہیں کہ ایک چیز دیکھتے ہیں تو اس کے لازم تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثلاً ، دھواں دیکھ کر آگ کا خیال آنا، صاف ستھرا لباس اور چہرے کی چمک دمک دیکھ کر آدمی کی رفاہیت کا خیال آنا، اسی طرز فکر کا اظہار ہے۔ یہی عمل ہم لسانی کنایہ نما اسالیب میں بھی کرلیتے ہیں۔ مثلاً مضمحل ہو گئے قویٰ غالب، میں قویٰ کے اضمحلال سے غالب کے بوڑھا ہونے کا پتا چل رہا ہے۔ اسی اصول پر شجر طیبہ کی مثال پر غور کریں۔ وہ درخت جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوں، اور شاخیں بلند وبالا ہوں ، تو درخت کی مذکورہ صفات کا لازمی نتیجہ ہے کہ یہ درخت صحت مند ہے۔ درخت کی صحت مندی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ پائیدار ہوگا اوراگر وہ پھل دار ہے تو ثمر آور ہو گا۔ چنانچہ اگلا جملہ (آیت ۲۵) اور تمثیل (آیت۲۶) انھی دونوں نتائج پر مربوط ہوئی ہیں۔ وہ جملہ یوں ہے:
تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا....(ابراہیم ۱۴: ۲۵)
’’یہ شجر طیبہ، اپنے رب کے اذن سے ،ہر وقت پھل دیتا ہے...۔‘‘
یہ درخت کی مذکورہ صفات کا پہلا نتیجہ ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ اس جڑاور تنے کے مضبوط اور تناور درخت ہونے کا ایک مطلب یہ ہوا کہ یہ پھل دے گا،اور دوسرا مقدر نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ پایدار ہے، جسے آندھی طوفان آسانی سے گرا نہیں سکتے۔ شجر طیبہ کی صفات کا یہ نتیجہ مقدر رکھا گیا تھا ،لیکن ذیل کی تمثیل — جو پہلی تمثیل کے مقابل میں آئی ہے — نے اس مقدر کو نمایاں کر دیا ہے:
وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ.(ابراہیم ۱۴: ۲۶)
’’کلمۂ خبیثہ کی مثال اس شجر خبیثہ کی طرح کی ہے، جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جاتا ہے، جسے کوئی قرار نہیں ہے۔‘‘
اب دیکھیے کہ شجرِ طیبہ کی جڑیں مضبوط تھیں، شاخیں اور تنا فضا میں بلند تھے۔ یہ پایداری اور ثمر آوری، دونوں پر دلالت کررہا تھا ۔ ثمر آوری کا نتیجہ لفظوں میں بیان کردیا اور پایداری کو مقدر چھوڑ دیا تھا، البتہ ’اَصْلُہَا ثَابِتٌ‘ میں اس کی پایداری کی طرف واضح اشارہ تھا ۔ اب شجر خبیثہ کو لیا تو اس کے ناپایدار ہونے کو بیان کردیا اور اس کے غیر ثمربار ہونے کو مقدر چھوڑ دیا ۔دیکھیے یہ بالکل ویسا ہی اسلوب ہے جو ہم نے ’اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ‘ میں دیکھا تھا۔ یعنی ایک کی خبر اور دوسرے کا متعلق حذف تھا۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ شجر طیبہ کی پایداری بیان نہیں ہوئی، لیکن اس کی جڑوں کے ثابت ہونے سے اشارہ ہو گیا تھا، اور شجرخبیثہ کی عدم پایداری بیان ہوگئی، لیکن ثمرباری بیان نہیں ہوئی۔ جس کی طرف ’اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ‘ کے الفاظ سے کنایہ ہو گیا تھا۔ اب دونوں کا موازنہ گوشوارے میں دیکھیے بات کھل کر سامنے آجائے گی:
تمثیلات مقدر و مبیّن نتائج
شجر صفات ثمر آوری پایداری
کَشَجَرَۃٍ طَیبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍم بِاِذْنِ رَبِّہَا —
کشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ — مَا لَہا مِنْ قَرَارٍ
اب اگر ہم اس تقابل کی تفسیر کریں گے تو ہم کہیں گے کہ شجر طیبہ پایدار ہے اور ہر وقت انسان کو اپنے پھل سے نوازتا رہتا ہے۔ لیکن خباثت کا پیڑ نہ پایدار ہے اور نہ پھل دیتا ہے۔
ایک اور مزے دار بات دیکھیے کہ ممثل لہٗ، یعنی جن چیزوں کے لیے یہ تمثیلات آئی ہیں، ان پر یہ منطبق کیسے ہوں گی، کو بیان ہی نہیں کیا گیا ۔ دنیا کے تمام کلام ایسے ہی کرتے ہیں۔یہ بھی لسانی مقدر ہی کی مثال ہوگی۔ ان تمثیلات کو ممثل لہٗ اشیا پر لوٹائیے جن کے لیے یہ تمثیلات بیان ہوئی ہیں تو آپ مدعا کو پا لیں گے،یعنی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی زمین اور آسمان تلاش کریں اور ان کے ثمرات اور پایداری کا اطلاق کریں تو آپ کلمۂ طیبہ کے دوام و ثمر باری کے تعینات سے واقف ہو جائیں گے اور ایسے ہی کلمۂ خبیثہ کے خبث سے بھی۔
اب جو نہ یہ تعینات کرے، اور نہ تقابل کے اس اسلوب کو سامنے رکھے تو وہ ان آیات کا نظم نہیں پا سکے گا۔
دوسری مثال
الفاظ بھی اپنے مصداق کے اوصاف کو مقدرات کے طور پر ساتھ رکھتے ہیں۔ مثلاً ’چینی‘ کے لفظ کا مصداق ہمارے کھانوں اور مشروبات کو میٹھا بنانے والی ایک چیز ہے۔اس چینی کے دانوں کی سفیدی، دانے داری، اور مٹھاس وغیرہ کا مفہوم اس کی علامت، یعنی لفظِ چینی میں مقدرات کے طور پر موجود رہتا ہے۔مثلاً جب پوچھا جائے کہ چائے میں چینی نہیں ڈالی! تو چائے بنانے والے کا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ چائے پھیکی بنی ہے۔ گویا ’چینی نہیں ڈالی‘ کا مفہوم چائے کے پھیکا ہونے پر دال ہے۔ اگرچہ پھیکا ہونا لفظوں میں بولا نہیں گیا، لیکن چینی کے اوصاف کے طور پر مقدر ضرور تھا۔زبان کا یہ عمل ہماری عملی زندگی کے طرزعمل کے بالکل مشابہ ہے۔چینی ملانے سے چائے میٹھی ہوتی ہے۔ یہ ہمارا عملی تجربہ ہے۔ یہی لفظوں میں ہوتا ہے۔ اگر کسی کہانی میں لکھا ہو کہ میزبان نے چائے بنائی اور چینی ملا کر مہمان کو پیش کی۔پھر تھوڑی دیر بعد کہانی نویس یہ لکھے کہ مہمان پھیکی چائے سے بے مزہ ہوا ،تو ہم اسے مصنف کی غلطی کہیں گے۔یعنی اب کہانی میں بھی چائے پھیکی نہیں ہو سکتی۔اگرچہ وہ واقعہ جھوٹا قلم بند ہورہا تھا۔
ایسے ہی سایہ دیکھ کر گرمی میں راہ چلنے والے کا راحت محسوس کرنا، سایے سے جڑی خنکی کے حصول کو جس طرح ہم عملی زندگی میں سمجھتے ہیں ، ویسے ہی زبان میں بھی سمجھتے ہیں۔ ذیل کے شعر میں دیکھیے راہ چلنے والے اور سایہ دار درختوں کا یہی تعلق ملحوظ ہے:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
بعض اوقات ایک چیز کے اوصاف میں سے بعض کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض دب جاتے ہیں۔ اہل نظر اس کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں۔مثلاً رحمت کا بالعموم شفقت اور مہربانی کا مفہوم غالب رہتا ہے۔اس کا عدل والا مفہوم بالعموم فراموش رہتا ہے، حالاں کہ حقیقی رحمت عدل کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا علیم وحکیم نے اس کے اس رخ کی طرف یوں توجہ دلائی ہے:
...کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ.(الانعام ۶: ۱۲)
’’اللہ نے اپنے اوپر رحمت لازم کررکھی ہے، وہ قیامت کے دن تم سب کو ضرور جمع کرکے رہے گا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ‘‘
گویا رحمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ عدل ہو، لہٰذا سب کو جمع کرکے فیصلہ سنایا جائے۔ اس روشنی میں اب سورۂ ملک کی درج ذیل تین آیات دیکھیے:
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ. ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ. وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ. (۶۷: ۳۔۵)
ان آیات میں ’خلق الرحمٰن‘ کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔ صفتِ رحمن کا خلق سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن خلق کے رحمن کے ساتھ متعلق ہوتے ہی صفتِ رحمت کے مقدرات اس ’خلق‘ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جس طرح چائے میں چینی ملاتے ہی اسے میٹھا ہونا چاہیے، ویسے ہی خلق کو رحمت سے جوڑتے ہی رحمت کے اوصاف اس میں جھلکنے چاہییں۔ گویارحمن کی تخلیق ایسی ہونی چاہیے جو شفقت اور عدل، دونوں کے خلاف اوصاف نہ رکھتی ہو۔ یعنی اگر مہربانی ایسی ہو کہ ظالم ظلم کرتے دندناتے پھرتے ہوں اور کوئی روکنے والا نہ ہو تو یہ شفقت و مہربانی نہ ہوئی ظلم ہوا۔ اب اگر کائنات پر نگاہ دوڑائیں تو صفتِ رحمت کے ایک اظہار کی اس دنیا میں بظاہر کمی پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا حتمی عدل سے خالی ہے۔ ڈھیلا ڈھالا نظام اگرچہ خیر ہی پر چلتا رہتا ہے۔ مگر مثلاً ہر ظالم اپنے جرائم کی کامل سزا نہیں پاتا، یا ہر مظلوم شخص لازمًا داد رسی نہیں پاتا۔
درج بالا آیات کے الفاظ میں اس عدم موافقت کو ’تفاوت‘ کہا گیا ہے۔ جو رحمت اور خلق میں باوّلِ وہلہ ۳ دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بغور دیکھو تمھیں کوئی ’فطور‘ تک نظر نہیں آئے گا۔ آگے اس کی تفصیل کی ہے۔ وہ یہ کہ رحمت کے تقاضے مہربانی کے اعتبار سے دیکھو تو ہم نے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجا دیا ہے، اور رحمت کے تقاضے عدل کے اعتبار سے دیکھو کہ اسی سجاوٹ کے سامان کو شیطانوں کی سرکوبی کے لیے دیدبان بنا دیا ہے، اور ان کے لیے دوزخ بھی تیار کررکھی ہے۔ یعنی صفتِ رحمت تخلیق کی رگ رگ میں موجود ہے۔ پھر آیت ۱۲ میں جا کر شفقت کے پہلو کو واضح لفظوں میں بھی بیا ن کردیا ہے۔ بلکہ اسی پانچویں آیت ہی میں خود تزیینِ آسمان بھی اسی مہربانی کے ایک پہلو کا اظہار ہے۔ اب جو یہاں رحمت کے اس مقدر کا خیال نہیں رکھے گا، وہ آیت تین تا پانچ کا ربط سمجھ نہیں سکے گا۔
یہ بھی لفظ کے مصداق کے اوصاف کی دلالت کی بنا پر مقدرات ہیں ۔گویاجب ایک لفظ کلام میں آتا ہے تو اس کے مصداق کا کوئی پہلو اپنے اوصاف فراہم کردیتا ہے کہ ان پر کلام کے مقدرات کو استوار کیا جائے۔ یہ عمل بھی ہماری عملی زندگی کے عین مطابق ہے۔
تیسری مثال
اوپر شجر طیب اور شجر خبیث کے تقابل میں تناقض و تضاد تھا، مگر تنافر نہیں تھا ۔ یعنی تقابل میں آنے کے باوجود ایک چیز دوسرے کو دھکیلتی نہیں تھی۔ مقدر کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ ان کا باہمی تعلق تنافر و مانع کا ہو تا ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل کی اس آیت میں دیکھیے کہ خیرات اور تبذیر اسی نوع کے مقابل ہیں:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا.(۱۷: ۲۶)
تبذیر کے معنی پیسے کو اللے تللے میں اڑانے کے ہیں۔ یہ چیز عزیزوں اور غریبوں پر خرچ کرنے میں مانع بن جاتی ہے۔ گویا اگرچہ کوئی تبذیر کے معنی سے واقف ہو، لیکن اس کے اس مقدر سے واقف نہ ہو کہ یہ رویہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں حارج بن جاتا ہے، تو وہ اس آیت کے دونوں جملوں میں ربط نہ جان سکے گا۔ دونوں کو الگ الگ حکم سمجھتا رہے گا۔ یہ ربط بھی ہماری عملی زندگی کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہماری عملی زندگی میں دھوپ گرمیوں میں باہر نکلنے کی مانع ہے۔ اب اس عمل کو لسانی تعبیر دیں، تو مثلاً ماں بیٹے سے کہے کہ ’شام کو جانا، دھوپ میں مت جانا‘۔ یہ ایک ہی حکم کے دو پہلو ہیں۔ ٹھیک یہی تعلق انفاق اور تبذیر کے درج بالا حکم میں ہے۔یہ تقابل تنافر والا ہے، جیسے گرمیوں کے سفر اور دھوپ میں تنافر ہے۔ گویا یہ آیت عملی زندگی کی تصویر کشی بھی کرتی ہے کہ جو شخص تبذیر کا عادی ہوگا ، اسے انفاق کی توفیق کم ہوگی۔
معاونین
مذکورہ مثالوں کو دینے سے مقصود یہ ہے کہ ہمارے لسانی مقدرات کا عمل ہمارے علمی وعملی وجود کا عین پرتو ہے۔ فکری وجود کے طرز فکر اور علمی زندگی کے رویوں ہی کی لسانی تعبیر کا نام کلام اور فہم کلام ہے۔ہم جب معلوم سے نامعلوم تک کا علمی سفر کرتے ہیں،سبب اور مسبب کا تعلق جوڑتے ہیں، عمل اور اس کے مانع کو جان لیتے ہیں تو انھی کے طفیل جملوں میں مذکور چیزوں کے ان تعلقات کو جان لیتے ہیں۔ جس طرح ہمیں پھیکی چائے بتاتی ہے کہ چینی نہیں ڈالی گئی ہے، ویسے ہی ہمیں جملہ بتاتا ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔جیسا یقین ہمیں پھیکی چائے میں چینی کے فقدان کا ہوتا ہے، ویسا ہی یقین ہمیں جملے کے معنی کا ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ان تمام چیزوں کے سہارے پر معنی آفرینی کرتا ہے جن میں سے بعض کا ہم نے ذکر کیا۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ زبان اکیلی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں انسانوں کا زندگی بھر کا علم ، عمل، تجربات ، حوادث ، اور تصورات اس طرح معاون بن کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے غلاموں کی ایک قطار جو اپنے آقا کے تعاون کے لیے ہر وقت مستعد ہو۔ہمارے باورچی خانے کی بوتلوں میں پڑی چینی ہماری لغات میں ثبت لفظ :چینی کے فہم و ادراک کی معاون ہے۔ مشروبات و ماکولات۴ میں چینی ملانے سے ان کے میٹھا ہونے کاروزانہ کا عمل چینی سے متعلق مقدرات کو سمجھنے میں معاون ہے۔ چینی کے بارے میں بولے جانے والے شب و روز کے جملے اور تبصرے ہر نئے جملے کے مفہوم کو متعین کرنے کے معاون ہیں۔غرض زبان زندگی سے اور زندگی زبان سے ہے۔زبان زندگی کے گہوارے میں جنم لیتی ، اس کی گود میں پروان چڑھتی ہے، اور اسی کے تناظر میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔
تمام انسان انھی معاونین کے لاشعوری سہارے کی بنا پر اسی زور کے ساتھ کلام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی فطرت کا لابدی۵ ظاہرہ ہے۔حد یہ ہے کہ کلام کی غیر قطعیت کا دعوی کرنے والے اپنے جن جملوں سے قطعیت کا انکار کررہے ہوتے ہیں،ان جملوں کے ابلاغ مدعا پراسی قدر یقین کررہے ہوتے ہیں جس قدر یقین ان کو اپنے منہ میں عضوِ زبان کے ہونے پر ہوتا ہے۔گویا ان کے قول کی ان کایہ عمل تکذیب کررہا ہوتا ہے۔
مدرسۂ فراہی کے لسانی تصور کے ناقدین ، دراصل ،قدیم منطقی تصورات کے تحت بنے علم کی روشنی میں زبان کو زندگی سے جدا ایک چیز سمجھتے ہیں۔جو نطق سے زیادہ منطق کے قریب ہے، اس لیے وہ جب بھی تنقید کرتے ہیں تو ان کے ہاں یہ بات ضرور ملے گی کہ لغت دیکھ کر تفسیر کیسے ممکن ہے؟ فہم قرآن کے لیے قرآن سے باہر جانا ہی پڑتا ہے، یہ تو اپنی عقل کو ماننا ہے۔ زبان کا یہ تجریدی تصور کسی مردہ زبان کے بارے میں بھی ممکن نہیں ہے، چہ جائے کہ عربی جیسی زندہ و پایندہ زبان کے بارے میں ہو۔ جس طرح چینی کا لفظ زندگی کے تمام تر تناظرات کے ساتھ میرے حافظے میں ہے، ویسے ہی قرآن کا ہر لفظ زندگی میں اس کے تمام تر ’مالہ ومامنہ‘ کے ساتھ ہمارے حافظے کا حصہ ہے۔
زبان کے گردا گرد کھڑے ان معاونین کی قوت اتنی زیادہ ہے کہ بچہ پہلے ہی تین چار سال میں زبان سیکھ لیتا ہے۔وہ زندگی کی لغت میں معنی دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ہمارے کسی بچے نے کبھی ’’علمی اردو لغت‘‘ کھول کر نہیں دیکھی ہوتی۔البتہ وہ زندگی کی علمی، عملی اورلسانی لغت ہر لمحہ اپنے سامنے موجود پاتا ہے۔ زبان کا یہ تصور اتنا واضح ہے کہ اس میں اشتباہ کا دخل شاذ ۶ ہوتا ہے۔
کلام میں معانی کو پرونا ، اور اس سے معنی کا استخراج ایک قسم کی ریاضی ہے ۔ یہ ریاضی ہماری فطرت میں اس قدر راسخ ہے کہ وہ ایک کھیل کے مانند آسان اور دل پسند عمل ہے ۔ہمارا چارپانچ سال کا بچہ کامل مہارت سے دونوں کام کررہا ہوتا ہے۔وہ اپنے مدعا کو الفاظ کے حوالے کرتا اور ہمارے جملوں سے معنی کو وصول کرتا ہے۔ اگلے پانچ سال تک وہ اس میں مزید ماہر ہوجاتا ہے۔ وہ لسانی انحرافات کو سمجھتا، اپنے سے چھوٹے بچوں کی غلطیاں نکالتا اور ان کے ناقص جملوں پرہنستا اور مذاق اڑاتا ہے۔ گویا گویائی اور سماعت محض لفظی گورکھ دھندہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہمارے علمی اور عملی وجود کا وہ مجموعی مظہرہے کہ جس کے ساتھ پوری زندگی کے تجربہ و علم کے معاونین کلام کی بنیادوں کو استوار کرتے اور اس میں معنی کی پختہ عمارت تعمیر کردیتے ہیں۔
ایک دوسرے کی لسانی غلطیوں پر ہنسنا اور مذاق اڑانا اسی تیقن کی بنا پر ممکن ہے جو ہمیں زبان اور اس کے معاونین کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔یہ ہماری فطرت کا وہ خاصہ ہے کہ جو نارمل انسا ن سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔
لسانی تواتر انھی علمی، عملی مقدرات اور معاونین کی اہل زبان کے ہاں چلت پھرت کا نام ہے۔قرآن کے حوالے سے دیکھیں تو سنتِ متواترہ،ہماری علمی ، دینی اور سماجی زندگی سب مل کر انھی تواترات کو وجود بخشتے ہیں، جن میں اتر کر زبان کی جڑیں اپنی حیات کا پانی کشید کرتی ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تواتر عملی میں لسانی تواتر کو وجود بخشتے ہیں۔ یوں ہم لسانی دائرے سے باہر نہیں جاتے ، بلکہ لغت ہی کے تواتر میں رہتے ہوئے قرآن سے اخذ معنی کی سعادتیں سمیٹتے ہیں۔ نہ یہ مجردعقل کی حاکمیت ہے اور نہ قرآ ن کا خارج و داخل ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ نقل پر کامل ترین انحصار ہے۔
قرآن مجید ان مقدرات، ان کی طرف ذہن کو منتقل کرنے والے تمام قرائن اور لسانی و معنوی اشارات اور عملی و فکری زندگی کے مصداق کے مقدمات کو پرو کر ایک کلام سامنے رکھ دیتا ہے۔جو قرآن کھولنے اور بند کرنے کے بعد، آپ کے کھول کر پڑھنے اور میرے کھول کر پڑھنے میں ایک سا رہتا ہے۔جس کا ہر اسم ہمیشہ اسم اورفعل ہمیشہ فعل رہتا ہے۔ دلالت میں قرآن تب غیر قطعی ہوتا، جب اس کے کلام میں صبح وشام تغیر ات آتے رہتے۔ قرائن اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہوتے، اہل زبان کے ہاں لفظ ہر روز نئے معنی کا پہناوا اوڑھ لیتے ہوتے اور الفاظ کے مصداقات اپنے اوصاف روز بدل لیتے ہوتے۔
جب ایسا نہیں تو قرآن تو اپنے الفاظ و قرائن کے ساتھ ازل تا ابد ویسا ہی لکھا ہوا ہے۔ تو پھر وہ غیر قطعی کیوں ہے؟ یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ میں نے کن قرائن کو پایا، اور کن کو زیادہ وقعت دے دی، کن مقدرات کو فراموش کیا اور کن مقدرات کو پالیا ۔ یہ سرتاسر اجتہادی عمل ہے۔ سارے فہم کلام کا عمل اسی ریاضی پر کھڑا ہے۔ یہیں اختلاف ہو جاتا ہے۔میرے مطالعہ کی حد تک اس کا سب سے بڑا سبب وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں ہم کلام کو سمجھتے ہیں۔مثلاً قرآن کے معنی کی تعیین میں قرآن کے الفاظ اور اس کا سیاق و سباق حاکم ہیں یا حدیث کی مرویات حاکم ہیں ، تنہا یہی دو اصولوں کا ترک و اختیار قرآن کو غیر قطعی بنانے کے لیے کافی ہے۔ جہمیہ معطلہ کے اصول لے لیں تو ایک ایک آیت مشتبہ ہو جائے گی ۔مثلاً فقہا بالعموم ’ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓءٍ‘۷ میں ’ثَلٰثَۃ‘ کو قطعی مانتے ہیں۔ لیکن اس میں اگر فرقہ جہمیہ کے احتمالاتِ عشر۸ کو مانا جائے تو ان کا ایک احتمال مجاز و حقیقت بھی ہے۔ تو اب یہ عموماً قطعی مانے جانے والا عدد بھی قطعی نہیں رہے گا، کیونکہ اس کے مجازی ہونے کا احتمال ہر وقت موجود ہے،اس لیے کہ بہرحال عدد کا استعمال مجازًا بھی ہوتا ہے۔یعنی یہ تین کا عدد ویسا بھی ہو سکتا ہے جیسا وضو میں ہے کہ اعضا کو تین تین دفعہ دھویا کرو۔ یہ فرضیت کا نہیں، بلکہ افضلیت کے لیے ہے کہ وضو بہتر سے بہتر ہو۔یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جوہر کلام کو احتمالات عشر کی روشنی میں دیکھتا ہو۔جس فطرت پر کلام بنتا اور معنی آفرینی کرتا ہو، اس کو پیش نظر نہ رکھتا ہو۔
یہ بھی پڑھیں !
________
۱ مبنیٰ : بنیاد، اس کی جمع مبانی آتی ہے۔
۲ صنعت کے معنی بناوٹ کے ہیں، یعنی شاعر و ادیب لفظوں کو بناوٹ دیتے ہیں ۔ صنعتِ تضاد میں دو متضاد الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے تکافو اورطباق بھی کہتے ہیں۔مثلاًذیل کے شعر میں آگ اور پانی صنعتِ تضاد ہے، پھر لف ونشر سے آگ کو دل اور پانی کو دیدہ کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ اپنے اس محل میں دیدہ و دل بھی متضاد ہوئے:
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
۳ پہلی نگاہ ڈالنے پر، in first glance۔
۴ کھانے کی چیزیں۔
۵ Necessary ۔
۶ rare۔
۷ البقرہ ۲: ۲۲۸۔
۸ ہر کلام میں دس احتمالات کا ہر وقت امکان ہے۔ مثلاً نقل لغات کا ظن، مجاز و حقیقت، تقدیم و تاخیر، لفظ کا اشتراک وغیرہ۔
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2018