ایما سلیٹری
بی بی سی ہسٹری
21 جون 2021
الیومناٹی نام کی ایک خفیہ اور حقیقی سوسائٹی کا قیام 245 برس قبل ہوا تھا اور اسی نام کو ایک افسانوی تنظیم کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جس کا برسوں سے سازشی مفروضوں سے تعلق جوڑا اور سمجھا جاتا ہے۔
الیومناٹی کا علامتی نشان |
کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خفیہ، مگر پراسرار عالمی تنظیم ہے جس کا مقصد دنیا پر قبضہ کرنا ہے اور یہ دنیا میں ہونے والے بڑے انقلاب اور نامی گرامی افراد کے قتل میں ملوث ہے۔
لیکن الیومناٹی حقیقت میں کون تھے اور کیا وہ واقعی میں دنیا پر قابو پا چکے تھے؟ اس پراسرار سوسائٹی کے بارے میں ان 12 سوالات کی مدد سے جانیے کہ اُن کا مقصد کیا تھا اور اِس تنظیم میں کون لوگ شامل تھے۔
اصل الیومناٹی کیا تھی؟
الیومناٹی ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا قیام باوریا (موجودہ جرمنی) میں ہوا تھا۔ سنہ 1776 سے سنہ 1785 تک چلنے والی اس سوسائٹی سے منسلک افراد خود کو ’پرفیکٹبلسٹس‘ کہتے تھے۔
اس سوسائٹی کے بانی قانون کے پروفیسر ایڈم ویشپٹ تھے۔ ان کا مقصد تھا کہ وہ قانونِ منطق اور فلاح و بہبود کی تعلیم کو پھیلائیں اور معاشرے سے توہم پرستی اور مذاہب کے اثرات کو کم کریں۔ ایڈم ویشپٹ کی خواہش تھی کہ وہ یورپی ممالک میں نظام حکومت کو تبدیل کریں اور ریاستی اُمور سے مذہب کو ختم کریں اور لوگوں کو ’روشنی کی نئی راہ‘ دکھائیں۔
کہا جاتا ہے کہ الیومناٹی گروہ کی پہلی میٹنگ یکم مئی 1776 کو انگولسٹاڈٹ شہر کے قریب ایک جنگل میں ہوئی جس میں پانچ افراد نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں اس سوسائٹی کو چلانے کے امور طے کیے گئے۔
بعد میں اس گروپ کے مقاصد میں کچھ تبدیلی آئی اور انھوں نے ریاستی امور پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاسی فیصلوں پر اپنی توجہ مرکوز کی اور مذہب اور شاہی اثر و رسوخ کو کم کرنے پر زور دیا۔
اس سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے فری میسن سوسائٹی میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ وہ اپنے ممبران کی تعداد میں اضافہ کر سکیں۔
بعد میں ’برڈ آف منروا‘ نام کا ایک پرندہ اُن کی شناخت بن گیا۔
الیومناٹی کا فری میسن سے کیا تعلق ہے؟
فری میسن ایک ایسی تنظیم ہے جو کہ صدیوں قبل اینٹیں بنانے کا کام کرنے والوں اور گرجا گھروں کی تعمیر کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ کئی ممالک، بالخصوص امریکہ میں فری میسن کے بارے میں بہت خوف پایا جاتا ہے۔ سنہ 1828 میں تو امریکہ میں ایک سیاسی تحریک کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا یک نکاتی مقصد تھا کہ وہ فری میسن کی مخالفت کریں گے۔
اصل الیومناٹی نے کیونکہ فری میسن تنظیم کے افراد کو اپنی تنظیم میں شامل کیا تھا تو بعد میں ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا جاتا ہے۔
الیومناٹی میں شرکت کرنے کے لیے کیا کرنا ہوتا تھا؟
الیومناٹی میں کسی کو بھی شمولیت اختیار کرنے کے لیے تنظیم کے ممبران کی اجازت درکار ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ تنظیم میں شامل ہونے کے خواہشمند ممبران کے پاس نہ صرف مال و دولت ہونا ضروری تھا بلکہ معاشرے میں اچھی ساکھ بھی ضروری تھی۔
اس کے علاوہ سوسائٹی میں درجات کا نظام تھا جس کے تحت نئے ممبران کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ آگے بڑھتے۔
البتہ بعد میں ان درجات میں اضافہ کر کے اس نظام کو مزید پیچیدہ کر دیا گیا تھا اور تنظئم کا مکمل ممبر بننے کے لیے 13 مختلف شرائط کو پورا کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
کیا الیومناٹی مخصوص رسومات ادا کرتے تھے؟
یہ درست ہے کہ الیومناٹی رسومات ادا کرتے تھے لیکن وہ رسومات کیا تھیں ان میں سے زیادہ تر کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اس سوسائٹی میں شامل افراد کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کیا جاتا تھا تاکہ اُن کی شناخت خفیہ رہے۔
لیکن جن رسومات کے بارے میں ہمیں علم ہے اُن کے مطابق یہ پتہ چلتا ہے کہ سوسائٹی میں نئے شامل ہونے والے افراد اگلے درجے میں کیسے ترقی پاتے تھے۔
ان کو ان تمام کتابوں کی رپورٹ مرتب کرنی ہوتی تھی جو اُن کی ملکیت میں تھیں، اپنی کمزوریوں کی فہرست لکھنی ہوتی تھی اور اپنے دشمنوں کے نام لکھنے ہوتے تھے۔ پھر اس کے بعد نئے ممبر کو کہا جاتا کہ وہ عہد کرے کہ وہ معاشرے کے بہتری کے لیے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دے گا۔
چہار سُو دیکھنے والی آنکھ کیا ہے؟
’آئی آف پروویڈینس‘ ایک ایسا علامتی نشان ہے جس میں ایک تکون کے اندر آنکھ بنی ہوئی ہوتی ہے اور یہ نشان دنیا بھر میں مختلف گرجا گھروں میں، فری میسن عمارتوں اور حتیٰ کہ امریکہ کے ایک ڈالر کے نوٹ پر بھی موجود ہے۔
اس نشان کو نہ صرف فری میسن بلکہ الیومناٹی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اس گروپ کی دنیا بھر میں نگرانی کرنے اور سب کو قابو میں رکھنے کا علامتی نشان ہے۔
بنیادی طور پر یہ نشان ایک مسیحی نشان ہے اور یہ فن پاروں میں خدا کی انسانیت پر نظر رکھنے کے مظہر کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔
اس کے بعد 18ویں صدی میں اس نشان کو نئے طریقوں سے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔ اس کی ایک مثال فرانسیسی اسمبلی میں منظور کی جانے والی انسانی حقوق کے ایک دستاویز ہے جہاں اس نشان کو استعمال کیا گیا تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ کس طرح سے ایک نئی قائم ہونے والی جمہوریت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
اس نشان اور الیومناٹی کے درمیان کسی قسم کا کوئی باضابطہ تعلق نہیں ہے۔ ایسا ضرور ممکن ہے کہ اس نشان کو الیومناٹی سے ملانے کی وجہ یہ تھی کہ فری میسن گروپ کے لوگ اس نشان کو خدا کی علامات کے طور پر استعمال کرتے اور الیومناٹی اور فری میسن میں مماثلت تھی۔
کیا الیومناٹی دنیا پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئی؟
کئی لوگوں کو یہ یقین ہے کہ الیومناٹی دنیا کے امور پر قابض ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اتنی خفیہ سوسائٹی ہے کہ نہایت ہی کم تعداد میں لوگ ہیں جو اِس کی اصل حقیقت سے واقف ہیں۔
کیونکہ الیومناٹی کے کئی ممبران فری میسن گروپ میں شامل ہو گئے تھے اور فری میسن سے منسلک افراد نے الیومناٹی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تو یہ کہنا مشکل ہے کہ صرف الیومناٹی اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئی۔
تاہم تاریخ دانوں کی اکثریت کہتی ہے کہ الیومناٹی کے اصل گروپ کا اثر و رسوخ محدود رہا۔
الیومناٹی گروپ کے مشہور ممبران کون تھے؟
الیومناٹی گروپ کے ممبران کی تعداد سنہ 1782 تک 600 افراد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ ان میں سے ایک جرمن سوسائٹی کے اشرافیہ میں شمار کیے جانے والے بیرون ایڈولف وون نگے تھے جو کہ ماضی میں فری میسن گروپ سے منسلک تھے اور انھوں نے الیومناٹی کی معاشرے میں وسعت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
شروع شروع میں صرف ایڈم ویشپٹ کے طلبا الیومناٹی کے رکن تھے تاہم بعد میں ڈاکٹرز، وکلا اور معاشرے کے ذہین و فطین افراد نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1784 تک الیومناٹی کے دو سے تین ہزار اراکین تھے۔ کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ مشہور مصنف یوہان وولف گینگ وون گوئٹے بھی اس تنظیم کا حصہ تھے لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
الیومناٹی تنظیم کا باضابطہ خاتمہ کب ہوا؟
باوریا کے حکمران کارل تھیوڈور نے سنہ 1784 میں معاشرے میں نئی سوسائٹیوں کے بلااجازت قیام پر پابندی عائد کر دی اور اس کے اگلے برس انھوں نے ایک اور حکم نامہ جاری کیا جس میں صرف الیومناٹی کو ہدف بنایا گیا اور اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس زمانے میں الیومناٹی سے منسلک ہونے کے الزام میں جب ممبران کو حراست میں لیا جا رہا تھا تو کئی ایسی دستاویزات دستیاب ہوئی جس میں دہریت اور خود کشی کے دفاع کے بارے میں تحاریر تھیں اور ساتھ ایسی بھی دستاویزات تھیں جس میں اسقاط حمل کرنے کے طریقے درج تھے۔
ان دستاویزات سے اس شک کو مزید تقویت ملی کہ یہ گروپ ریاست اور مذہب دونوں کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے بعد سے کہا جاتا ہے کہ الیومناٹی منظر عام سے غائب ہو گئے جبکہ کئی کا خیال ہے کہ انھوں نے اپنی تنظیم کی کارروائی خفیہ طور پر جاری رکھی۔
ایڈم ویشپٹ کا کیا بنا؟
ایڈم ویشپٹ یونیورسٹی آف انگولسٹاڈٹ سے منسلک تھے تاہم انھیں بعد میں نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد پھر انھیں باوریا سے بھی ملک بدر کر دیا گیا اور انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی گوتھا میں گزار دی جہاں سنہ 1830 میں اُن کی موت ہوئی۔
تو الیومناٹی سے منسلک افواہیں اب تک کیوں جاری ہیں؟
الیومناٹی کے ختم ہونے کے فوراً بعد ہی ان کے بارے میں مختلف نوعیت کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ سنہ 1797 میں فرانسیسی پادری ایبے آگسٹن بارئیول نے اس خیال کا اظہار کیا کہ الیومناٹی جیسی خفیہ سوسائٹیز نے انقلابِ فرانس میں اہم کردار ادا کیا۔
اگلے برس امریکی صدر جارج واشنگٹن نے خط تحریر کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ انھیں یقین ہے کہ الیومناٹی سے پیدا ہونے والے خطرہ اب ختم ہو گیا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملی کہ یہ سوسائٹی اس وقت بھی زندہ تھی۔
اس کے بعد کتابوں اور خطابات کے ذریعے اس گروپ کی مذمت کی جاتی رہی اور تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ الیومناٹی کے رُکن ہیں۔
لوگ آج بھی الیومناٹی پر کیوں یقین رکھتے ہیں؟
دنیا پر الیومناٹی کی حکمرانی کا مفروضہ لوگوں کے ذہنوں سے کبھی مکمل طور پر خارج نہیں ہوا اور آج بھی اس بارے میں بات کی جاتی ہے۔
سنہ 1963 میں پرسپنیا ڈسکارڈیا کے نام سے ایک مقالہ تحریر کیا گیا جس میں ایک متبادل دین کو پیش کیا گیا جسے ’ڈسکارڈین ازم‘ کا نام دیا گیا۔ اس نظام کے منشور کے تحت جھوٹ اور دھوکہ دہی کی مدد سے انارکی اور شہری نافرمانی پھیلانے کے بارے میں بات کی گئی۔
ڈسکارڈین ازم کے ماننے والوں میں سے چند نے مختلف جریدوں میں جھوٹے خطوط بھیجے جس میں مختلف دعوے کیے گئے تھے جیسا کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی موت کے پیچھے الیومناٹی کا ہاتھ ہے۔
بعد میں ایک کتاب سامنے آئی جس کا نام ’دا الیومناٹس ٹرائلوجی‘ تھا اور وہ نہ صرف بہت مقبول ہوئی بلکہ اس کی مدد سے کئی فلمیں بھی بنیں اور سازشی مفروضوں کو فروغ ملا۔ ان میں سے ایک کتاب (اور بعد میں بننے والی فلم) اینجلز اینڈ ڈیمنز تھی۔
نیو ورلڈ آرڈر کیا ہے اور اس کا الیومناٹی سے کیا تعلق ہے؟
جو لوگ نیو ورلڈ آرڈر پر یقین رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کا ایک گروہ دنیا پر قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی سابق امریکی صدور اور کئی مشہور گلوکاروں کو بھی اسی فہرست میں گنا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں !