فری میسنز سے جڑی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی تاریخ اور فرانس میں ان کی باقیات

ایڈیسن نیوجنٹ
بی بی سی، پیرس
31 جولائی 2019
پیرس کے علاقے ماریز میں آج بھی پہلی صلیبی جنگ کے دوران وجود میں آنے والی پراسرار جنگجوؤں کی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی باقیات خوبصورت گلیوں کے بیچ و بیچ آسانی سے مل سکتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ یورپ میں ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

تنظیم کی علامتی نشان
معروف فلم ’انڈیانا جونز‘ سے لے کر ’دی ڈاونشی کوڈ‘ تک، ہمارے جدید تخیل میں نائٹس ٹیمپلر کے افسانوی کردار چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کرداروں کے پس پشت کئی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جو ایک سے زیادہ براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے۔

یہ کہانی فرانس کے دارالحکومت پیرس پر اختتام پذیر ہوئی جہاں نائٹس ٹیمپلر کے آخری برسوں کی نشانیاں مل سکتی ہیں۔ لیکن یہ نشانیاں صرف انھیں نظر آتی ہیں جو انھیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔

نائٹس ٹیمپلر کون تھے؟

نائٹس ٹیمپلر کی کہانی 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران شروع ہوتی ہے جب یورپ سے تعلق رکھنے والے مسیحی فرقے رومن کیتھولک کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا۔ نتیجے میں یورپ کے زائِرِین بڑی تعداد میں اس 'مقدس زمین' میں بس گئے۔

لیکن کئی لوگوں کو مسلمانوں کے قبضے والے علاقوں سے گزرتے ہوئے لوٹ مار یا قتل کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سنہ 1118 کے آس پاس فرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے اپنے علاوہ آٹھ فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن رکھا گیا۔ یہ گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلر کہلایا۔

نائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹرز یروشلم کے مقدس ماؤنٹ ٹیمپل پر بنایا گیا۔ ان کا بنیادی مقصد شہر میں مسیحی زائِرِین کی حفاظت کرنا تھا۔

اگر افسانوی کہانیوں کو مانا جائے تو یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنھوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسن نامی تنظیم شروع کی۔

فرانس میں ’ریاست کے اندر ریاست‘

سنہ 1139 میں پوپ انوسنٹ دوئم نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت نائٹس ٹیمپلر کی طاقت وسیع ہوگئی اور اس کے فوجی یروشلم کے پار بھی متحرک ہوگئے۔ انھیں غیر معمولی چھوٹ بھی دی گئی جس میں ان پر دنیا بھر میں ٹیکس یا مذہبی فرائض میں دیے جانے والا چندہ جمع کرانا اب فرض نہیں تھا۔

ان کو اجازت تھی کہ وہ مقدس شہر میں ایسے تحفے تحائف اپنے پاس رکھ سکتے تھے جو زائِرِین نے انھیں اپنی شکر گزاری میں دیے ہوں۔

اسی سال بادشاہ لووی ہفتم نے نائٹس ٹیمپلر کو پیرس کی دیواروں کے شمال مشرقی کونے میں ایک زمین عطیہ کی جہاں ان جنگجوؤں کا ایک گروہ بس گیا۔ اس گروہ کے ممبران یورپ میں دوسری تنظیموں سے الگ تھے تاہم نائٹس ٹیمپلر ایک فرانسیسی ادارہ تھا جس کا ایک فرانسیسی بانی تھا۔

اس کی تاریخ کا ہر سپریم لیڈر یا گرینڈ ماسٹر فرانسیسی نسل سے تعلق رکھتا تھا جس کی بدولت یورپ میں فرانس کو نائٹس ٹیمپلر کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

کتاب نائٹس ٹیمپلر فار ڈمّیز کے مصنف اور نائٹس ٹیمپلر سے متعلق پیرس میں تفریحی سفر کے میزبان ٹیری ڈو ایسپیراٹو نے بتایا کہ 'پیرس نے ان (نائٹس ٹیمپلر) کی یادیں مختلف جگہوں کے نام رکھ کر محفوظ کر لی ہیں، جیسے سکویر ڈو ٹیمپل، بلیورڈ ڈو ٹیمپل، رو ڈو ٹیمپل، رو وییے ڈو ٹیمپل، رو ڈے فونٹین ڈو ٹیمپل، کیرو ڈو ٹیمپل، وغیرہ۔۔'

ان کی مرکزی جگہ تو بہت پہلے سے وقت کے ہاتھوں اپنی اصل حالت کھو چکی ہے۔ لیکن آپ آج بھی اس جگہ کا دورہ کر سکتے ہیں جو رو ڈے لوبو پر موجود تھی۔ یہ ہوٹل ڈی وِلے کے عقب میں واقعے ہے۔

ماضی میں اس حویلی کے اردگرد میلوں تک بنجر زمین اور دلدل تھا۔ اس علاقے کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے نائٹس ٹیمپلر کے جنگجوؤں نے دلدل کو خشک کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے یہ عمل 1240 میں کامیابی سے مکمل کر لیا۔ حالانکہ اب یہاں کوئی دلدل موجود نہیں ہے پھر بھی یہ جگہ ’لے ماریز‘ یا ’دی مارش‘ کہلاتی ہے۔

سکویر ڈو ٹیمپل کا پارک نائٹس ٹیمپلر کے یورپ کے تباہ حال مرکزی دفتر کے اوپر بنا ہوا ہے۔ اس مرکزی دفتر کا نام انکوز ڈو ٹیمپل تھا۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں جنگجو اپنے خزانے کا بڑا حصہ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ فرانس میں ایک مضبوط ریاستی طاقت یا ’ریاست کے اندر ریاست‘ بن کر ابھرے جو فرانس کے بادشاہوں کے سامنے خود مختار تھے۔

نائٹس ٹیمپلر کا زوال

حاکمیت کا یہ نظام کچھ عرصے تک اسی طرح چلتا رہا لیکن 1303 میں جب مسلمانوں کی افواج دوبارہ یروشلم پر قابض ہوگیئں تو سب بدل گیا۔ نائٹس ٹیمپلر کو زبردستی یروشلم کے ٹیمپل ماؤنٹ کی جگہ فرانس کے انکوز ڈو ٹیمپل نامی یورپی دفتر کو اپنا مرکز بنانا پڑا۔

اس وقت کے فرانسیسی بادشاہ فلپ دی فلیئر نائٹس ٹیمپلر کی ریاستی طاقت سے خوش نہیں تھے جس کی وجہ سے انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہر صورت اس نظام تبدیل کرنا ہو گا۔

بادشاہ فلپ کے اس فیصلہ کی بازگشت آج بھی ہوتی ہے۔ اکثر سکالر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے یہ فیصلہ مالی بنیادوں پر کیا۔

نائٹس ٹیمپلر کی تاریخ پر لکھی ایک کتاب کی مصنفہ اور کیمبرج یونیورسٹی سے منسلک تاریخ دان ڈاکٹر ہیلن نکولسن کہتی ہیں کہ ’فلپ چاہتے تھے کہ وہ پیرس میں ٹیمپلرز کے خزانے سے وصول کردہ چاندی کا سکہ استعمال کریں تاکہ فرانس کے سکوں کا گرتا ہوا معیار بہتر بنایا جا سکے۔‘

سچ تو یہ ہے کہ بادشاہ ہونے کی حیثیت سے فلپ پر لازم نہیں تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی وضاحت دیں۔ 13 اکتوبر 1307 کو انھوں نے نائٹس ٹیمپلر کے گرینڈ ماسٹر جاک ڈی مولے سمیت جنگجوؤں کی بڑی تعداد پر شیطان کو پوجنے، پت پرستی، اور ہم جنس پرستی جیسے الزامات لگا کر گرفتار کروا لیا۔

اس میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ آج بھی ماریز کو جنسی حقوق یا ایل جی بی ٹی برادری کے ضلعے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ایک زمانے میں سکویر ڈو ٹیمپل کے چھوٹے سے ساحل پر، جہاں آج لوگ دھوپ سیکتے لطف اندوز ہوتے ہیں، ایک اونچی سی دیوار ہوا کرتی تھی جس کے اندر جنگجوؤں کا بسیرا تھا۔

انکلوز ڈو ٹیمپل کی تمام عمارتیں آج وجود نہیں رکھتیں۔ سنہ 1853 میں ان میں سے کئی عمارتیں نپولین سوئم نے تباہ کر دیں تھیں جب وہ پیرس کو ایک نئی شکل دینے کے لیے بیرن ہوسمین کے منصوبے پر عمل کر رہے تھے۔

لیکن اگر آپ چاہیں تو اب بھی علاقے بھر میں نائٹس ٹیمپلر کے جنگجوؤں کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں۔

رو ڈو ٹیمپل میں نمبر 158 وہ جگہ ہے جہاں انکلوز کا شاہی داخلی راستہ ہوا کرتا تھا۔ افواہوں کے مطابق 32 رو ڈے پکارڈے کے تہ خانے میں اب بھی ان کے مینار کے باقیات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب یہاں لے شویٹ نامی ایک سجیلا ریستوران اور بار ہے۔

ٹیمپلرز میں دلچسپی لینے والے لوگ پیرس کے قریب شاٹو دی ونسین کا دورہ کر سکتے ہیں۔ یہاں انکلوز ڈو ٹیمپل میں گروس ٹاور یعنی عظیم منزل نامی عمارت کے بڑے دروازے رکھے گئے ہیں۔

سکویر ڈو ٹیمپل کی سرحد پر کارو ڈو ٹیمپل نامی ایک بازار ہے۔ سنہ 2007 میں جب اس عمارت کی بحالی کا کام جاری تھا تب یہاں ٹیمپلر کے قبرستان کے باقیات ملے تھے۔ اس قبرستان میں جنگجوؤں کی ہڈیوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے تھے جن کی موت فرانس میں ہوئی۔

نائٹس ٹیمپلر کے حریف جنگجو

رو ڈو ٹیمپل کے قریب ایک گرجا گھر میں دو بڑے جھنڈے دیکھے جا سکتے ہیں جن پر سفید رنگ کے کراس بنے ہیں۔ یہ نائٹس ٹیمپلر کی علامت کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ لیکن نائٹس ٹیمپلر کی علامت اس سے کچھ مختلف یعنی سفید رنگ پر لال کراس ہوا کرتی تھی۔

چرچ کے پادری کے مطابق اس کا نام اگلیسا سینٹ الیزیبتھ ڈے ہنگری ہے اور اس پر موجود بینرز آرڈر آف مالٹا کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آرڈر آف مالٹا ایک ایسا حکم نامہ تھا جس کے تحت نائٹس آف سینٹ جان یا نائٹس ہوسپٹیلر وجود میں آئے۔ جنگجوؤں کا یہ گروہ نائٹس ٹیمپلر کا حریف تھا۔

پادری کے بند کمرے میں اس عمارت کا چھوٹا مجسمہ موجود ہے۔ ان کے مطابق کچھ عرصے تک نائٹس ٹیمپلر اور نائٹس ہوسپیٹلر ایک دوسرے کے حریف رہے۔ نائٹس ہوسپیٹلر کو نائٹس ٹیمپلر کے اختیارات سے اعتراض تھا۔ ٹیمپلرز کے نظام کے اختتام کے بعد ان کے کئی جنگجوؤں کو ایک انضمام کے تحت ہوسپیٹلر کا جنگجو بنا دیا گیا تھا۔

پوپ کلیمنٹ پنجم نے نائٹس ٹیمپلر کے زوال اور جنگجوؤں کی گرفتاریوں کے بعد نائٹس ہوسپیٹلر کو انکوز ڈو ٹیمپل کے اختیارات دے دیے تھے۔

چرچ میں اس مرکز کی عمارت کی کئی تصاویر بھی ہیں۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ ماضی کے ایک بالکل مختلف پیرس کو دیکھ رہے ہوں۔

’آخری گرینڈ ماسٹر کی بد دعا‘

چرچ کے قریب آپ ایک ایسی عمارت دیکھ سکتے ہیں جہاں تاریخ دان ڈو ایسپیراٹو کے مطابق ٹیمپلرز کے کئی جنگجوؤں کو قید میں رکھا گیا تھا۔ اس عمارت کا نام موزے ڈے آرٹس اے مٹیرز ہے۔ یہ ایک سائنس اور انجینیرینگ کا میوزیم ہے لیکن پہلے یہاں سینٹ مارٹن ڈے چیمپز پرایوری کی عمارت ہوا کرتی تھی۔

نائٹس ٹیمپلر کی کہانی سکویر ڈو ویر گلانٹ پر اختتام پذیر ہوئی جو مریز میں دریائے سین کے پاس ایک ہری بھری چوٹی پر واقع ہے۔

سکویر ڈو ٹیمپل کی طرح سکویر ڈو ویر گلانٹ ایک پر سکون جگہ ہے جہاں پیرس کے رہائشی اور سیاح سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ یہ جگہ شاید ایسی لگے جیسے فرانسیسی پینٹر رینوار کی کسی تصویر کا منظر ہو۔

لیکن 18 مارچ 1314 کو یہ کسی ڈراؤنی فلم کا سین بنا ہوا تھا۔ کیونکہ اس دن ٹیمپلرز کے گرینڈ ماسٹر جاک ڈی مولے کو سات سال قید کے بعد زندہ جلا دیا تھا۔

پارک کے داخلی دروازے پر لکھا ہے کہ: ’یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹیمپلرز کے آخری گرینڈ ماسٹر جاک ڈی مولے کو جلایا گیا۔‘

کہا جاتا ہے کہ مرتے وقت جاک ڈی مولے نے پوپ کلیمنٹ پنجم، بادشاہ فلپ اور ان کے آنے والی نسلوں کو بد دعا دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگلے ایک سال میں دونوں مر جائیں گے اور بادشاہ فلپ کی نسل فرانس پر حکمرانی نہیں کر پائے گی۔

اور ہوا بھی کچھ اسی طرح۔ پوپ کلیمنٹ اور بادشاہ فلپ دونوں اسی سال وفات پا گئے اور اگلے 14 برسوں کے دوران بادشاہ فلپ کی نسل کے تمام وارث چل بسے۔ اس سے وہ نسل جس نے تین صدیوں تک فرانس پر حکمرانی کی برباد ہوگئی۔

ہم شاید یہ کبھی معلوم نہ کر سکیں کہ آیا جاک ڈی مولے نے واقعے بادشاہ اور پوپ کو ند دعا دی تھی یا نہیں۔ سچائی جو بھی ہو اب ماریز کی خوبصورت گلیوں تلے پیرس کے دیگر بے شمار راز سمیت دب چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں !

الیومناٹی: تاریخ کی ’پراسرار ترین‘ خفیہ تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟