نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر



بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کا عبوری سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ 84 سالہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل حسینہ واجد کئی ہفتوں سے جاری بدامنی کے بعد ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئی تھیں۔

اگرچہ پروفیسر یونس کو مائیکرو لونز کے استعمال پر سراہا جاتا رہا ہے، لیکن حسینہ واجد نے انھیں عوام دشمن قرار دیا اور حال ہی میں ایک مقامی عدالت نے انھیں سیاسی محرکات پر مبنی کیس میں قید کی سزا سنائی۔

مظاہروں کی قیادت کرنے والے طالب علموں کا کہنا تھا کہ وہ فوج کی قیادت والی حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور انھوں نے پروفیسر یونس کو عبوری انتظامیہ کی قیادت کرنے پر زور دیا تھا۔

پروفیسر یونس کو چیف ایڈوائزر نامزد کرنے کا فیصلہ صدر محمد شہاب الدین، فوجی رہنماؤں اور طلبہ رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد کیا گیا۔

پروفیسر یونس کہ کہنا تھا کہ ’جب اتنی قربانیاں دینے والے طلبہ مجھ سے اس مشکل موڑ پر قدم رکھنے کی درخواست کر رہے ہیں، تو میں انکار کیسے کر سکتا ہوں؟

ان کے ترجمان نے بتایا کہ وہ پیرس سے ڈھاکہ واپس آرہے ہیں جہاں ان کا معمولی طبی معائنہ کیا جا

پروفیسر محمد یونس کون ہیں؟


83 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو، جو عالمی سطح پر ’غریبوں کے بینکر‘ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، مائیکرو فنانس قرضوں کا ایک ایسا نظام قائم کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے جس کی مدد سے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے میں مدد ملی ہے۔

یہ بینک، جسے پروفیسر یونس نے 1983 میں شروع کیا تھا، غریب لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹے اور طویل مدتی قرضے فراہم کرتا ہے۔ 2006 میں اس کام پر پروفیسر یونس کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔

جہاں دنیا پروفیسر یونس کی مداح ہے وہیں پیر کو مستعفی ہونے والی بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد انھیں عوام دشمن سمجھتی رہی ہیں۔ انھوں نے پروفیسر یونس کو بار بار غریبوں کا ’خون چوسنے والا‘ قرار دیا اور ان کے گرامین بینک پر بہت زیادہ شرح سود وصول کرنے کا الزام لگایا۔

حسینہ واجد کے دور میں رواں برس جنوری میں بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے محمد یونس کو ملک کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر چھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

پروفیسر یونس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پروفیسر یونس کی جانب سے 2007 میں فوج کی حمایت یافتہ نگران حکومت کی بظاہر حمایت سے ایک سیاسی جماعت بنانے کی کوشش نے حسینہ واجد کو ناراض کر دیا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ وہ اس وقت جیل میں تھیں۔


محمد یونس نے بعدازاں سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔