بی بی سی اردو | 23 اگست 2024
آج سے تقریباً چار دہائی قبل کراچی میں خطاطی اور پینٹنگ کا کام کرنے والے شفیق الزمان ایک ہورڈنگ بورڈ پر کام کر رہے تھے جب ایک عربی شیخ کی نظر ان پر پڑی اور پھر جیسے ان کی زندگی ہی بدل گئی۔
اس وقت اخبارات چھپائی کا کام، اشتہارات، ہورڈنگ بورڈ سب کچھ تقریباً ہاتھ سے کیا جاتا تھا اور شفیق اس ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔
شفیق الزماں نے یہ کام کسی سے براہِ راست نہیں سیکھا تھا لیکن خطاطی کے ماہر سمجھے جانے والے ترک خطاط حامد الامدی سے وہ بہت متاثر تھے اور آج بھی انھیں اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔
یہ علم اور ترک طرزِ خطاطی سے لگاؤ ان کے لیے کتنی اہمیت اختیار کر جائے گا یہ اس وقت وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔
تو پھر ہوا کچھ یوں کہ جب ایک عربی شیخ کراچی کی اس سڑک سے گزرے، جہاں وہ ہورڈنگ بورڈ پر کام کر رہے تھے تو انھوں نے شفیق الزماں کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔
یہ 1990 کی دہائی کے آغاز کی بات ہے اور مسجد نبوی کے نگران ادارے کو ایک خطاط کی ضرورت تھی۔ مسجد میں ترک دور کے گنبدوں اور اس پر کی جانے والی خطاطی خراب ہو چکی تھی یا ماند پڑ چکی تھی۔
شفیق الزماں بتاتے ہیں کہ فیصلہ ہوا کہ خطاط کے انتخاب کے لیے مقابلہ کروایا جائے اور اس کے لیے پوری دنیا سے 400 خطاط نے شرکت کی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ترکوں میں اس زمانے میں بھی اور ابھی تک خطاطی کا فن بڑا مشہور ہے اور ان کے پاس بڑے ماہر خطاط موجود تھے۔ اسی طرح عرب دنیا، مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی ماہر خطاط اس مقابلے میں شریک ہوئے۔
’میں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے اس کام کے لیے منتخب کر لیا گیا۔‘
اس مقابلے کے بعد تقریباً گذشتہ 35 سال سے مسجد نبوی میں خطاطی کا یہ کام شفیق الزماں سر انجام دے رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ان کے ساتھ فیصل آباد کے مبین احمد بھی یہ کام جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کر رہے ہیں۔
شفیق بتاتے ہیں کہ ’کبھی کوئی وقت ہوتا تھا کہ میں کراچی میں بیٹھ کر سوچا کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ میری خطاطی کے کام کا ایک کتبہ مسجد نبوی میں لگ جائے اور اب ایک ایسا وقت آ چکا تھا کہ پوری مسجد نبوی میں، میں ہی خطاطی کر رہا ہوں۔‘
’اس وقت بس میری آنکھوں میں آنسو تھے اور اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ شاید یہ میری قسمت میں تھا اور میری چاہت تھی کہ میں مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی کی خدمت کروں اور ایک ایسا تاریخی کام انجام دوں جو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یہ سعادت میرے اور پاکستان کے حصے میں آنا تھی۔‘
’گنبدوں کا کام نوے فیصد ہو چکا ہے‘
شفیق الزمان کے مطابق مسجد نبوی میں خطاطی کے کام کا آغاز پرانے حرم، جس میں سلطنت عثمانیہ کے گنبد تھے وہاں سے ہوا تھا۔
ان کے مطابق ’ڈیڑھ سو کے قریب گنبدوں پر خطاطی خراب ہو چکی تھی یا ماند پڑ چکی تھی جس کو اچھا اور بہتر کرنا تھا اور اس طرح کرنا تھا کہ آئندہ کئی سال تک اسے فرق نہ پڑے۔ اس کام کے دوران ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ میں ہی حرم میں باقی خطاطی کا کام بھی انجام دوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں اب حرم کی جو توسیع ہوئی، وہ کام بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھ سے پہلے بھی ان گبندوں پر کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح اس خطاطی کو بہتر کیا جائے جس کے لیے اس پر اسی طرح کچھ پینٹ وغیرہ کروایا گیا تھا جس سے بہتری نہیں ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت محنت طلب کام ہے اس میں جلدی نہیں کی جا سکتی۔ ایک ایک فن پارہ تیار کرتے ہوئے مجھے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور کم سے کم تین ماہ بھی لگے ہیں۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد ایک یا دو میٹر خطاطی ہی ممکن ہو سکتی ہے۔‘
شفیق الزماں کا کہنا تھا کہ ترک دور کے گنبدوں میں سارا کام خط ثلث میں ہوا۔ یہ تقریباً ویسا ہی کام ہے جو ترک دور کے اندر تقریباً تین سو سال پہلے کروایا گیا تھا۔ اس میں بس ایک فرق ہے کہ اس دور میں یہ کام املائی انداز میں ہوا تھا جبکہ اب رسم عثمانی میں کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فن خطاطی میں خط ثلث کو تمام خطوں میں سب سے بہتر بلکہ بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔‘
’یہ اصل میں عراق سے چلا اور پھر ترکوں نے اس پر بہت کام کیا۔ دنیا کی بیشتر مساجد میں خطاطی کے لیے خط ثلث کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘
’روضہ رسول پر کام ہو رہا ہے‘
شفیق الزماں کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ اب وہ روضہ رسول پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ کام گنبد پر کیے جانے والے کام سے مختلف ہے۔ گنبد پر سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے جبکہ ’مسجد نبوی کے اندر کا کچھ کام ہاتھ سے مکمل کرتا ہوں اور کچھ کام مشین سے مکمل کرواتا ہوں۔‘
شفیق الزماں بتاتے ہیں کہ مسجد نبوی کے دروازوں کے نام اور مختلف دفاتر کے بورڈز پر بھی انھوں نے ہاتھ سے کام کیا۔