عارف محمد خان
عہدہ,بی بی سی ہندی کے لیے
22 فروری 2022
مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔
ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں رہنے لگے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔
سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ یہ رسالہ اپنے انقلابی مضامین کی وجہ سے کافی زیر بحث رہا اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر اس کی سکیورٹی منی یعنی حفاظتی رقم ضبط کر لی اور بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کر دیا۔
آزاد کو سنہ 1916 تک بنگال چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور انھیں آج کی ریاست جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔
دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی
سیاسی منظرنامے میں ابھرنے کے بعد آزاد نے قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔ سنہ 1921 میں آگرہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران انھوں نے الہلال کے بنیادی مقاصد کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا پہلا مقصد ہندو مسلم اتحاد ہے۔ میں مسلمانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کریں تا کہ ہم ایک کامیاب قوم کی تعمیر کر سکیں۔‘
مولانا آزاد کے لیے قوم کا اتحاد آزادی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ سنہ 1923 میں کانگریس کے خصوصی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آج بھی اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمیں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔‘
’آزادی ملنے میں تاخیر سے ہمارا کچھ نقصان ضرور ہو گا لیکن اگر ہمارا اتحاد ٹوٹ گیا تو پوری انسانیت کا نقصان ہو گا۔‘
یہ وہ وقت تھا جب قومیت اور ثقافتی شناخت کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا تھا۔ ایسے میں مولانا آزاد ایک ایسی قوم کا تصور کر رہے تھے جہاں مذہب، ذات پات، فرقہ اور جنس کسی کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل نہیں ہوں گے۔
مسلم لیگ کی کھل کر مخالفت
ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار مولانا آزاد کبھی بھی مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کے حامی نہیں بنے۔ اور انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی تھی۔
15 اپریل 1946 کو کانگریس کے صدر مولانا آزاد نے کہا کہ ’میں نے پاکستان کی شکل میں مسلم لیگ کے الگ ملک کے مطالبے کو ہر زاویے سے دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ فیصلہ نہ صرف ہندوستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا بلکہ اس کا خمیازہ خود مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کسی حل کے بجائے یہ فیصلہ مزید مسائل پیدا کرے گا۔‘
مولانا آزاد نے تقسیم ہند کو روکنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی تھی۔
سنہ 1946 میں جب تقسیم ہند کی نئی شکل کافی حد تک واضح ہونے لگی اور دونوں پارٹیاں تقسیم پر متفق بھی ہو گئیں تو مولانا آزاد نے سب کو خبردار کیا تھا کہ آنے والے وقت میں ہندوستان کو اس تقسیم کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ نفرت کی بنیاد پر بننے والا یہ نیا ملک اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک یہ نفرت زندہ رہے گی، جب تقسیم کی یہ آگ ٹھنڈی ہونے لگے گی تو یہ نیا ملک بھی مختلف ٹکڑوں میں بٹنا شروع کر دے گا۔
مستقبل کے پاکستان سے متعلق پیشگوئیاں
مولانا آزاد نے جو منظر سنہ 1946 میں دیکھا تھا وہ قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی سنہ 1971 میں سچ ثابت ہوا۔ انھوں نے پاکستان سے متعلق بہت سی پیشیگوئیاں کی تھیں۔
قیام پاکستان سے قبل ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک متحد نہیں رہ سکے گا، سیاسی قیادت کے بجائے فوج کی حکومت ہو گی، یہ ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا اور اسے ہمسایہ ممالک سے جنگ کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے متنبہ کیا تھا کہ پاکستان میں امیر تاجر قومی دولت کا استحصال کریں گے اور عالمی طاقتیں اس پر تسلط جمانے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔
اسی طرح مولانا نے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو سمجھایا تھا کہ ان کے سرحد پار کرنے سے پاکستان مضبوط نہیں ہوگا ’بلکہ انڈیا کے مسلمان کمزور ہوں گے۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں پہلے سے مقیم لوگ اپنی علاقائی شناخت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے جبکہ انڈیا سے آنے والوں کو بِن بلایا مہمان سمجھا جائے گا۔
مولانا آزاد نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’اگرچہ مذہب کی بنیاد پر ہندو آپ سے مختلف ہیں لیکن وہ قوم اور حب الوطنی کی بنیاد پر مختلف نہیں ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں آپ کو دوسری قوم کے شہری کے طور پر دیکھا جائے گا۔‘
ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی اور وکیل مولانا آزاد 22 فروری سنہ 1958 کو دہلی میں انتقال کر گئے تھے۔