اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو تو ہمارے نظام زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ایک بڑی قیامت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، تو یہ زمین کے موجودہ فزیکل، ماحولیاتی، اور سوشل سسٹمز پر انتہائی گہرے اور ناقابلِ تصور اثرات مرتب کرے گا۔ آئیے اس ممکنہ تغیر کے سائنسی اور سماجی پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں:

1. سائنسی اور ماحولیاتی اثرات:

(الف) زمین کی گردش میں بنیادی تبدیلی

  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ممکنہ طور پر زمین کی محوری گردش کی سمت میں تبدیلی یا الٹاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

  • یہ تبدیلی زمین کے مقناطیسی میدان میں بڑے پیمانے پر خلل پیدا کرے گی، جو مواصلاتی نظام، برقی آلات، اور جی پی ایس پر انحصار کرنے والے نیویگیشن سسٹمز کو تباہ کر سکتی ہے۔

(ب) دن اور رات کے معمولات میں زبردست خلل

  • موجودہ دن رات کے چکر میں شدید بے ترتیبی ہوگی، جس سے موسمیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

  • درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلیاں متوقع ہیں، کیونکہ زمین کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا۔

(ج) موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

  • موسموں کا حساب کتاب بدل جائے گا، اور زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

  • سمندری طوفان، زلزلے، اور سونامی جیسے قدرتی مظاہر شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ زمین کا اندرونی توازن متاثر ہوگا۔

2. معاشرتی، تکنیکی، اور اقتصادی اثرات:

(الف) ہوائی اور بحری نیویگیشن

  • ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور زمینی سفر کے تمام نیویگیشن سسٹمز کو ازسرِ نو ترتیب دینا پڑے گا کیونکہ جی پی ایس اور کمپاسز کی سمتیں تبدیل ہو جائیں گی۔

  • مقناطیسی شمال اور جغرافیائی شمال کے درمیان تعلق متاثر ہوگا، جس سے سفری راستے اور نیویگیشن کے اصول مکمل طور پر بدل جائیں گے۔

(ب) بنکنگ سسٹم اور تجارتی امور

  • عالمی وقت کے نظام (UTC) کو مکمل طور پر نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا، کیونکہ ٹائم زونز کی ترتیب بدل جائے گی۔

  • اسٹاک مارکیٹ، بینکنگ اوقات، اور دیگر مالیاتی نظام متاثر ہوں گے کیونکہ عالمی معیشت ایک مستحکم وقت کے نظام پر منحصر ہے۔

(ج) انسانی نفسیات اور معاشرتی زندگی

  • انسانوں کے سونے، جاگنے، کام کرنے اور آرام کرنے کے روایتی معمولات مکمل طور پر متاثر ہوں گے۔

  • لوگوں کی ذہنی صحت پر اثر پڑے گا کیونکہ قدرتی روشنی اور جسمانی حیاتیاتی گھڑی (Circadian Rhythm) میں خلل آ جائے گا۔

  • مذہبی، ثقافتی، اور روحانی سطح پر اس واقعے کے اثرات شدید ہوں گے کیونکہ یہ ایک بڑی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

یقینا یہ تبدیلی زمین کے پورے حیاتیاتی، ماحولیاتی، اور تکنیکی نظام کو ناقابلِ یقین حد تک متاثر کر دے گی۔ اگرچہ سائنسی نقطۂ نظر سے یہ ایک غیر معمولی اور تقریباً ناممکن تغیر ہے، لیکن اگر ایسا ہوا تو زمین پر زندگی کا موجودہ طریقہ کار ناقابلِ شناخت ہو جائے گا، اور انسان کو اپنے تمام سسٹمز اور طرزِ زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔

یہ واقعہ اگرچہ سائنس کے دائرے سے زیادہ دین اور آخرت کے تناظر میں ایک بڑی تنبیہ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت رکھتا ہے، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں اس کا ذکر قیامت کی بڑی نشانیوں میں کیا گیا ہے۔

البتہ سائنس دانوں مطابق کہ سورج، زمین اور پوری کائنات مسلسل حرکت میں ہیں، اور جدید فلکیاتی تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہر ستارہ، کہکشاں اور یہاں تک کہ پوری کائنات میں وسعت ہو رہی ہے۔ اس تصور کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں:

1. سائنسی تجزیہ:

(الف) زمین اور سورج کی حرکت

  • زمین سورج کے گرد ایک متعین مدار میں گردش کر رہی ہے، جبکہ سورج بھی کہکشاں (Milky Way) کے مرکز کے گرد تقریباً 828,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے۔

  • زمین کا محوری جھکاؤ (Axial Tilt) وقت کے ساتھ بدلتا ہے، جو کہ لاکھوں سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں اور برفانی دور (Ice Ages) کی وجہ بنتا رہا ہے۔

  • زمین کے مدار میں معمولی تبدیلیاں تو ہوتی ہیں، لیکن کوئی ایسی سائنسی شہادت نہیں ملی جو زمین کے گردش کے مکمل الٹ جانے (Reversal) کی طرف اشارہ کرے۔

(ب) کائنات کی وسعت اور کہکشاؤں کی حرکت

  • سائنس دانوں نے "Big Bang Theory" کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، جسے Hubble’s Law کہا جاتا ہے۔

  • ہر کہکشاں دوسرے سے دور ہو رہی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خلا کی وسعت بڑھ رہی ہے، جس کی تصدیق Cosmic Microwave Background Radiation اور Redshift Phenomenon سے ہوتی ہے۔

  • اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
    "وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ" (الذاریات: 47)
    "اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم اسے وسعت دے رہے ہیں۔"
    اس قرآنی آیت کی تفسیر اور سائنسی تحقیقات میں حیران کن مطابقت نظر آتی ہے، کیونکہ جدید فلکیات بھی کائنات کے مسلسل پھیلنے کے نظریے کو تسلیم کرتی ہے۔

2. کیا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ممکن ہے؟

  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا زمین کے محوری گردش میں الٹاؤ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو بظاہر موجودہ سائنسی ماڈلز کے مطابق ممکن نہیں، لیکن کچھ سائنسی تھیوریز میں یہ امکان موجود ہے کہ اگر کوئی بڑی کائناتی تبدیلی (مثلاً شہابیے کی زوردار ٹکر، شدید کشش ثقل کا اثر یا زمین کے اندرونی نیوکلئس میں تبدیلی) ہو، تو زمین کی گردش کی سمت بدل سکتی ہے۔

  • ناسا کے سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ماضی میں زمین کے مقناطیسی قطبین کئی بار الٹ چکے ہیں، لیکن یہ تبدیلی لاکھوں سال میں ہوئی، نہ کہ اچانک۔ ناسا کے سائنس دان زمین کے مقناطیسی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، خاص طور پر جنوبی بحر اوقیانوس کے اوپر موجود "ساؤتھ اٹلانٹک ایناملی" نامی علاقے میں، جہاں مقناطیسی میدان کمزور ہو رہا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے سیٹلائٹس اور دیگر خلائی جہازوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ناسا کی یہ تحقیق زمین کے اندرونی کور کی حرکت اور اس کے نتیجے میں مقناطیسی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

  • قدیم درختوں کا مطالعہ: نیوزی لینڈ میں دریافت ہونے والے ایک قدیم درخت کے مطالعے سے 42,000 سال قبل زمین کے مقناطیسی میدان کی تبدیلیوں کے شواہد ملے ہیں۔ یہ درخت ان تبدیلیوں کے دوران ہونے والے ماحولیاتی اثرات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔

    مقناطیسی قطبین کی حرکت: زمین کے مقناطیسی قطبین مستقل حرکت میں ہیں۔ مثال کے طور پر، جنوبی مقناطیسی قطب کی پوزیشن میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ 2005 میں یہ قطب 64°48′31″ جنوبی اور 137°36′51″ مشرقی پر واقع تھا، جبکہ 2020 تک یہ 64°04′52″ جنوبی اور 135°51′58″ مشرقی پر منتقل ہو چکا تھا۔ یہ حرکت سالانہ تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر کی رفتار سے ہو رہی ہے۔

3. مذہبی اور فلسفیانہ پہلو

  • اسلام میں سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے، اور یہ ایک غیر معمولی اور ماورائی (Supernatural) واقعہ ہوگا جو اللہ کے حکم سے وقوع پذیر ہوگا۔

  • سائنسی بنیادوں پر موجودہ نظام میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں مسلسل تغیر و تبدل ہو رہا ہے، اور بڑے پیمانے پر فلکیاتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جن کی تفصیل ابھی سائنسی دائرہ کار سے باہر ہے۔

خلاصہ :

سائنسی تحقیقات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے اور تمام سیارے، ستارے اور کہکشائیں حرکت میں ہیں۔ تاہم، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا واقعہ عام سائنسی اصولوں کے تحت  ابھی ممکن نہیں، لیکن اللہ کی قدرت سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن اور جدید سائنس کے مابین جو حیران کن مطابقت ہمیں ملتی ہے، وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظام میں مسلسل تغیر ہے، اور جب وہ چاہے تو کوئی بھی غیر معمولی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔