خاموش چیخیں

غزہ کی رات ہمیشہ ایسی ہوتی ہے جیسے کسی نادیدہ دشمن نے آسمان سے امید نوچ لی ہو۔ مگر سات سالہ ریان کے لیے یہ رات بھی ایک عام رات تھی۔ وہ اپنی بہن نور کے ساتھ کھیل رہا تھا، امی نے آج اس کے پسندیدہ کھانے بنائے تھے، اور بابا حسبِ معمول مغرب کے بعد مسجد سے لوٹے تھے۔

"امی، میرا نیا بستہ کہاں ہے؟ کل اسکول جانا ہے نا؟"

امِ احمد نے پیار سے اس کے گال تھپتھپائے۔ "میرے شہزادے، کل صبح تمہیں نیا بستہ دے دوں گی، ابھی سو جاؤ۔"

ریان نے ستاروں کو دیکھا۔ کتنے روشن اور قریب لگ رہے تھے! "امی، کیا میں ان ستاروں کو پکڑ سکتا ہوں؟"

امِ احمد نے مسکرا کر اسے سینے سے لگا لیا۔ "ہاں، میرے بچے۔ تم ایک دن ان ستاروں سے بھی آگے چمکو گے۔"

اچانک، زمین لرز اٹھی۔ دور سے سائرن کی خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔

بابا دوڑ کر کمرے میں داخل ہوئے۔ "سب زمین پر لیٹ جاؤ! باہر مت نکلنا!"

ایک سرخ روشنی آسمان پر لپکی، جیسے موت نے اپنے بازو پھیلا دیے ہوں۔ پھر ایک زوردار دھماکہ۔ دیواریں لرزنے لگیں۔ شیشے ٹوٹ کر فرش پر بکھر گئے۔ ایک لمحہ – اور سب کچھ دھماکوں میں گُم ہو گیا۔

ملبے کے نیچے دبے ریان نے آنکھیں کھولیں۔ گرد اور دھوئیں میں روشنی دھندلی تھی۔

"امی؟ بابا؟ نور؟ کہاں ہو؟"

کوئی جواب نہیں آیا۔

وہ اپنی ماں کا ہاتھ محسوس کر سکتا تھا، مگر وہ بالکل سرد ہو چکا تھا۔

اس کے ذہن میں اب بھی وہ بستہ تھا، جو اسے صبح ملنے والا تھا۔ مگر اب اسکول؟ گھر؟ کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔

اس کی آنکھوں کے سامنے دھندلی تصویریں ابھرنے لگیں – امی کا چہرہ، بابا کی آخری پکار، نور کی ہنسی۔ سب بکھر رہے تھے۔

صبح کا سورج نکلا تو ملبے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ دنیا نے ایک اور ہیڈ لائن دیکھی: "غزہ میں رات بھر بمباری، 20 شہید، درجنوں زخمی"۔

کسی نے نہیں لکھا کہ ایک بچہ رات بھر اپنی ماں کے بے جان ہاتھ کو تھامے رہا۔

کسی نے نہیں لکھا کہ اس کے بستے میں کل کے خواب تھے، جو ملبے میں دفن ہو گئے۔

کسی نے نہیں لکھا کہ ایک معصوم ہاتھ اب بھی ملبے سے جھانک رہا تھا، جو دنیا کے انصاف کو پکار رہا تھا۔