ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر پردۂ تخیل پر روشنی کا ایک ہالہ سا ابھرتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ شکلیں بنتی اور بگڑتی ہیں، کبھی مانوس، کبھی اجنبی۔ ایک دروازہ کھلتا ہے، اور ہم کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ یہ خواب کی دنیا ہے – حقیقت کے قریب مگر حقیقت سے ماورا۔ خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسانی ذہن، بیک وقت روشنی اور دھند میں لپٹا، حقیقت اور تصور کے سنگم پر حیرت انگیز مناظر تخلیق کرتا ہے۔
انسانی ذہن ایک پیچیدہ طلسمی قلعہ ہے، جس کے کئی دروازے ہیں۔ کچھ دروازے حقیقت کی جانب کھلتے ہیں، جہاں تجربات، مشاہدات اور منطق کی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔ مگر کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جو خوابوں، تخیل، اور ماورائی کیفیات کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دونوں دروازے آپس میں یوں جُڑ جاتے ہیں کہ حقیقت اور خواب کی لکیر مدھم ہو جاتی ہے۔ ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ خواب ہے یا حقیقت؟
یہی تو وہ نکتہ ہے جہاں انسانی ذہن سب سے زیادہ پراسرار معلوم ہوتا ہے۔ ہم نیند میں ہوتے ہیں، مگر خیالات بیدار رہتے ہیں۔ حواس خاموش ہوتے ہیں، مگر اندر ایک کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ رنگ بکھرتے ہیں، آوازیں گونجتی ہیں، اور ہم ایک اور جہان میں پہنچ جاتے ہیں۔ بعض اوقات خواب کسی گہرے راز سے روشناس کراتے ہیں، کسی چھپی حقیقت کی جھلک دکھاتے ہیں، جو بیداری کی دنیا میں نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے۔
لیکن کیا یہ خواب محض دماغ کی ایک الجھن ہیں؟ یا یہ کسی اور دنیا کی جھلک ہیں؟ صدیوں سے فلسفی، شاعر، اور مفکرین اس سوال پر غور کرتے آئے ہیں۔ یونانی فلاسفہ سے لے کر صوفیائے کرام تک، سبھی نے خوابوں کو ایک ماورائی حقیقت سے جوڑا ہے۔ مشہور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ نے خوابوں کو انسانی لاشعور کی ترجمانی کہا، تو کارل ینگ نے انہیں اجتماعی لاشعور کی علامتیں قرار دیا۔
کبھی کبھار، خواب ہمیں مستقبل کی جھلک دکھاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جہاں کسی خواب نے کسی حقیقت کا پیش خیمہ ثابت کیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا پھر ہمارے ذہن میں کوئی ایسی قوت موجود ہے جو وقت کی سرحدوں سے ماورا ہے؟ یہ وہ معمہ ہے جسے آج تک مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا۔
خواب اور حقیقت کے درمیان سرحد کا تصور ہر دور میں انسانی ذہن کو محوِ فکر کرتا رہا ہے۔ یہ سرحد کبھی دھندلی ہوتی ہے، کبھی واضح۔ ہم میں سے ہر شخص نے کبھی نہ کبھی ایسے خواب دیکھے ہیں جو حقیقت سے بھی زیادہ جاندار اور حقیقت کے قریب محسوس ہوئے ہوں۔ یہ حقیقت اسی وقت آشکار ہوتی ہے جب خواب کی دنیا میں گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے، جسے سمجھنا صرف ایک خواب دیکھنے والے کے بس میں ہوتا ہے۔
قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کی روشنی میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ خواب محض ذہنی تصورات نہیں بلکہ روحانی پیغامات بھی ہو سکتے ہیں۔ حضرت یوسف کا خواب، جس میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند ان کے سامنے سجدہ ریز ہو رہے تھے، نہ صرف ان کی تقدیر کا پیش خیمہ تھا بلکہ اس میں اللہ کی طرف سے ایک نشان تھا۔ جب یوسف علیہ السلام نے اپنے والد، حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس خواب کا ذکر کیا تو حضرت یعقوب نے اسے ایک عظیم پیش گوئی سمجھا۔ یوسف کا خواب نہ صرف ایک مستقبل کا منظر تھا بلکہ اس میں ایک غمگین حقیقت بھی پوشیدہ تھی، جو ان کی زندگی میں آنے والی آزمائشوں کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
یہ خواب حقیقت کی ایک عکاسی تھا، جس نے یوسف علیہ السلام کو اپنی زندگی کی پیچیدہ راہوں کو سمجھنے میں مدد دی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ خواب صرف ایک ذہنی تخلیق نہیں ہوتے، بلکہ یہ حقیقت کے دروازے کھولنے والے ہوتے ہیں، جہاں انسان اپنے اندر کی گہری بصیرت کو دیکھ سکتا ہے۔ حقیقت اور خواب کی سرحد پر کھڑا انسان کبھی کبھی یہ محسوس کرتا ہے کہ دونوں کا فرق محض ایک مٹھی بھر فاصلہ ہے، جو بس وقت اور توجہ کا محتاج ہے۔
انسانی ذہن کی یہ صلاحیت کہ وہ ایک ہی وقت میں حقیقت کی زمین پر کھڑا ہوتا ہے اور خواب کی فضاؤں میں پرواز کرتا ہے، یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم محض جسم اور مادہ نہیں ہیں۔ ہمارے اندر ایک ایسا جہان موجود ہے جو بیداری میں بھی خواب دیکھ سکتا ہے، اور خواب میں بھی حقیقت کو محسوس کر سکتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جو شاعری، فنون لطیفہ، اور فلسفے کی بنیاد ہے۔
خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسان ہمیشہ حیران رہے گا، کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس ختم ہوتی ہے اور اسرار کی دنیا شروع ہوتی ہے۔ شاید یہی حیرت ہماری اصل حقیقت ہے، اور شاید یہی خواب ہماری سب سے بڑی حقیقت!
(احمد طیب)
یہ بھی پڑھیں !