تخلیقات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تخلیقات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"

جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

 جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

تو آسمان کی وسعتوں سے آواز آئی: "تو وہ ہے جو رب کو پہچاننے کے لیے پیدا کیا گیا۔"
جب روح نے سرگوشی کی: "میں کہاں سے آئی ہوں اور کہاں جا رہی ہوں؟"
تو صدائے ازل نے جواب دیا: "تو اس راستے کی مسافر ہے جس کا سنگ میل ایمان ہے، اور زادِ سفر عمل۔"
انسان ازل سے ہی روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے — وہ روشنی جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ وہ جو لفظوں میں نہیں، احساس میں سماتی ہے۔ وہ جو دلیل سے نہیں، یقین سے جگمگاتی ہے۔ یہی روشنی ایمان ہے۔ اور یہی روشنی جب عمل سے جڑتی ہے، تو ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے جو بندگی کی پہچان بن جاتا ہے۔

یہ روشنی (نور) کہاں سے آئے گا؟
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اتنے بے سکون، بے چین کیوں ہیں؟ ہمارے دل کیوں تاریک ہیں؟ گھروں میں روشنی ہے، گلیوں میں بلب جگمگا رہے ہیں، موبائل کی اسکرینیں چمک رہی ہیں، لیکن پھر بھی زندگی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس کا ایک ہی جواب ہے: ہم نے اصل "نور" کو چھوڑ دیا ہے۔

سب سے خطرناک خاموشی۔۔۔۔۔!

یونیورسٹی کی شام تھی۔
بوسٹن کی ہوا میں خزاں کا پہلا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ کیمپس کے درخت پیلے اور نارنجی پتوں سے لَدی شاخوں کے ساتھ کھڑے تھے، جیسے وہ بھی کسی آفت کا انتظار کر رہے ہوں۔ ایلَن جیمز نے لائبریری کے باہر بنچ پر بیٹھے بیٹھے اپنا موبائل فون کھولا، اور سکرولنگ شروع کر دی — ایک عادت، جو بےفکری کا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے۔

لیکن آج کی اسکرین پر کچھ اور تھا۔

ایک تصویر۔
ایک بچہ — مٹی میں لت پت، خون آلود، اور اُس کی آنکھیں... بند۔
نیچے لکھا تھا: "غزہ — گزشتہ رات کے حملے میں یہ پانچ سالہ یوسف اپنی ماں کی گود میں شہید ہو گیا۔"

ایلن کی انگلیاں رک گئیں۔ دل میں ایک انجانی گھبراہٹ سی محسوس ہوئی، جیسے کسی نے اُس کے اندر ایک بند کمرے کا دروازہ کھولا ہو جہاں برسوں سے دھول جمی ہو۔ اس نے فوراً فون بند کر دیا، لیکن وہ چہرہ... اُس کی آنکھوں میں رہ گیا۔

اُسی رات یونیورسٹی کی کینٹین میں فلسطینی طلبہ کی جانب سے ایک تعزیتی و احتجاجی تقریب ہو رہی تھی۔
ایلن وہاں جا پہنچا — نہ کسی دعوت پر، نہ کسی ہمدردی کے دعوے کے ساتھ، بلکہ ایک بےچین سوال کے ساتھ:
"یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور ہم خاموش کیوں ہیں؟"

تقریب میں ایک طالبہ بول رہی تھی — اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن آواز میں لوہے کی سی سختی:
"ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ آپ فلسطین کے لیے بولیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ضمیر کے لیے جاگیں!"

یہ جملہ، ایلَن کے دل کے پردے پر کیل کی طرح لگا۔
اسے یاد آیا — اُس کے فلسفے کے پروفیسر نے ایک بار کہا تھا:
"The most dangerous silence is the silence of those who know the truth."
(سب سے خطرناک خاموشی اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سچ جانتے ہیں۔)

اُس رات وہ دیر تک سڑکوں پر چہل قدمی کرتا رہا۔
آسمان پر بادل چھائے تھے، اور نیچے زمین پر — اُس کے دل میں بھی۔

قلب کی حضوری

 رب کائنات کی ربوبیت کی لطیف روشنی، جو دل کے نہاں خانوں میں کسی قندیل کی مانند جلتی ہے، اکثر ہماری غفلت کی گرد میں دب جاتی ہے۔ روزمرہ کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں، جہاں وقت سانسوں کی لڑی میں یوں الجھ جاتا ہے کہ لمحے بھی گنتی سے نکل جاتے ہیں، ہم اس حسین اور دائمی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ، ہر جنبش، ہر خیال، کسی ایک ربِ مہربان کی ربوبیت کے سائے میں پروان چڑھ رہا ہے۔

ربِ کائنات… وہی جو خاموش پتوں میں سرگوشی کرتا ہے، جو بارش کے پہلے قطرے کو زمین کی پیاس کا پتہ دیتا ہے، جو پرندے کے دل میں رزق کی راہ رکھتا ہے، جو سورج کو ہر دن نیا حکم دیتا ہے کہ مشرق کی پیشانی چومے۔ اور ہم… اس کے بندے، اس کی صناعی میں گم، مگر اس کے قرب سے غافل!

کیا ہی عجیب بات ہے کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ بھی اسی کے حکم سے رواں ہے۔ وہ پتہ جو درخت کی شاخ سے گرتا ہے، اس کی گرنے کی ساعت بھی اسی کے علم میں لکھی ہوئی ہے۔ وہ رب جس نے کائنات کی ہر شے کو ایک نظم، ایک قانون میں باندھ رکھا ہے، کیا وہ ہماری زندگیوں کو بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتا ہے؟

خیر و شر کے سنگم پر کھڑا انسان

کبھی آپ نے کسی دریا کے سنگم کو دیکھا ہے؟ جہاں دو مختلف رنگوں، رفتاروں اور ذائقوں والے پانی ایک ساتھ بہہ رہے ہوں، مگر مکمل مدغم بھی نہ ہوں؟
ایسا ہی کچھ انسان کی فطرت کے ساتھ بھی ہے۔ وہ خیر و شر، روشنی و تاریکی، جذبہ و خواہش، عقل و جبلّت کے سنگم پر کھڑا ہے۔
ایک پل اسے جنت کی ہوا چھو کر گزرتی ہے، اور دوسرے لمحے جہنم کی آندھی میں اس کی بصیرت دھندلا جاتی ہے۔
یہی انسان کا کرب ہے، اور یہی اس کا کمال۔

فطرت کی الہامی گواہی


قرآن مجید کہتا ہے:

"فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا" (الشمس: 8)
"پھر اس (نفس) کو بدی اور پرہیزگاری کی سمجھ دی"

یعنی انسان کوئی خالی تختی نہیں جس پر فقط ماحول ہی کچھ لکھے۔ اس کے اندر ایک الہامی آواز ہے، جو اسے بار بار خبردار کرتی ہے — "یہ راہ ظلم کی ہے، یہ راہ نور کی۔"
اس شعور کو ضمیر کہتے ہیں، یہی اولین وحی ہے جو ہر انسان کو عطا کی گئی۔


 آزادی اور امتحان کا فلسفہ


یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ربِ کائنات نے انسان کو چاہنے کی آزادی دی — چاہے وہ خیر کو چنے یا شر کو۔
یہی آزادی جنت اور جہنم کے دروازے کھولتی ہے۔
انسانی تاریخ کا ہر قصہ — آدمؑ کا اجتباء، ابلیس کا انکار، ہابیل و قابیل کی کہانی، فرعون کا تکبر، موسیٰؑ کا انکسار — دراصل خیر و شر کے بیچ کھڑے انسان کے انتخاب کی تمثیل ہے۔

کفیل — ایک اجنبی کی قید

یوسف نے جب سعودی عرب کی زمین پر پہلا قدم رکھا، تو اس کے ہاتھ میں ایک خواب تھا — اور کمر پر ایک کفیل کا نام۔جہاز سے اترا تو سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ نہ مسکراہٹ، نہ سلام۔بس سوال:"کفیل کون ہے؟"یوسف نے اقامہ نکالا۔
گارڈ نے اقامہ کو دیکھا، یوسف کو نہیں۔یوں لگا جیسے وہ انسان نہیں، ایک رجسٹرڈ پیکج ہو۔

یوسف کو کیمپ کے ایک کمرے میں پہنچایا گیا، جہاں سورج کی روشنی بھی اجازت لے کر آتی تھی۔ کام شروع ہوا — مزدوری کا، خامشی کا، اور وقت کے ساتھ ساتھ…ضمیر کا۔
کفیل کے دفتر میں ایک بورڈ لگا تھا: "بغیر اجازت نکلنا منع ہے، بیمار ہونا اطلاع کے بغیر جرم ہے، موبائل رکھنے پر تفتیش ہوگی۔" یوسف نے سوچا:"یہ کفالت ہے… یا قید؟"

رات کے سناٹے میں یوسف نے دیکھا: دیوار پر کسی نے ناخن سے ایک جملہ کھودا تھا: "ہم یہاں نہیں جیتے، صرف سانس لیتے ہیں۔" ہر اینٹ جیسے کہانی کہتی تھی— کسی نے یہاں ماں کی بیماری کی خبر سنی، کسی نے یہاں بیٹی کی شادی مس کردی، کسی نے یہاں موت کو اکیلا قبول کیا۔ یوسف نے دیوار کو چھوا —اس کے ہاتھ پر گرد نہیں، تاریخ تھی۔

ایک دن ایک بنگالی ورکر، فہد، نے کہا: "میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں — ان دیکھے قیدیوں پر۔" یوسف نے حیرت سے دیکھا، "لیکن ہم تو آزاد ہیں؟" فہد نے مسکرا کر کہا: "کبھی کبھی قید زنجیر سے نہیں، اجازت سے ہوتی ہے۔"

وہی فہد، ایک رات سب کو جمع کر کے بولا: "ہم یہاں صرف کام نہیں کرتے، ہم انسان بھی ہیں۔ چلو کوئی بات کریں — اپنے نام سے، اپنے حق سے۔" یوسف نے پہلی بار خود کو خاموشی کے شور سے باہر آتے محسوس کیا۔ ایک گہرا سانس — جیسے دل نے پہلی بار سانس لیا ہو۔

اگلی صبح بیس افراد ہاتھ میں ایک پرچی لیے کھڑے تھے: "ہم انسان ہیں، املاک نہیں۔" گارڈز آئے، پہلے مسکرائے، پھر چیخے، پھر پکڑ لیا۔ فہد کو الگ لے جایا گیا، یوسف کو الگ قید میں ڈالا گیا۔ اسی رات کسی نے دروازے کے نیچے وہی کتاب سرکائی۔ پہلا صفحہ کھولا —نیا جملہ لکھا تھا: "بعض اوقات بغاوت کامیاب نہیں ہوتی، لیکن وہ خواب جگا دیتی ہے جو صدیوں سے دفن ہو۔"

یوسف کو اگلے ہفتے ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ نئے ورکر نے کمرے میں آ کر پوچھا:
"یہ یوسف کون تھا؟" کسی نے کچھ نہ کہا، لیکن دیوار پر ایک چابی کا نشان کھداتھا—نیچے لکھا تھا: "قفل ٹوٹتے ہیں —جب کوئی پہلی سانس لے، پہلی بغاوت کرے۔"

یہ صرف یوسف کی کہانی نہیں۔ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جس کے خواب کسی دوسرے کے دستخط سے مشروط ہیں۔

نور ایمان

(یہ کہانی ایک مومن کے روحانی سفر کو بیان کرتی ہے، جو اللہ کے نور سے منور ہو کر اپنے اندر کی حقیقت کو پہچانتا ہے اور پھر ایمان اور سچائی کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔)

 شہر کے شور شرابے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں، احمد اپنے گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ ایک مومن تھا، لیکن اپنی زندگی میں ایک کمی محسوس کرتا تھا۔ وہ ہر روز قرآن پڑھتا، نماز ادا کرتا، مگر اس کا دل ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ کچھ غائب ہے، کچھ ایسا جسے وہ پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، مگر وہ اسے سمجھ نہیں پاتا۔

ایک دن، جب وہ قرآن کے مطالعے میں غرق تھا، ایک آیت نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی:
"اللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ..."
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے..."
یہ الفاظ اس کے دل میں ایک گہرائی تک اُتر گئے۔ اس نے سوچا، "اللہ کا نور کیا ہے؟ اور میں اسے اپنے اندر کیسے جذب کر سکتا ہوں؟"

وہ رات بھر سوچتا رہا اور فیصلہ کیا کہ اب اسے ایک نئی راہ پر چلنا ہوگا۔ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرے گا۔ احمد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر کام میں اللہ کی رضا کو اولیت دے گا، ہر عمل کو خلوص نیت سے کرے گا، اور ہر لمحے میں اس کے نور کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی کوشش کرے گا۔

تخت و تقدس: حضرت سلیمانؑ کی سلطنت، حکمت اور بندگی کا قرآنی منظرنامہ

 آسمان کے نیلے گنبد تلے، بادیہ کی گرم ہواؤں میں ایک پرندہ پرواز کر رہا تھا۔ وہ ہدہد تھا، ایک ننھا مسافر، مگر اپنے مشاہدے میں بے مثال۔ وہ سلیمانؑ کے لشکر کا ایک ادنیٰ سپاہی تھا، مگر اپنی پرواز میں آزاد اور اپنی نگاہ میں گہرا۔ وہ بادشاہ سلیمانؑ کی جانب سے زمین کی سلطنتوں کا حال معلوم کرنے پر مامور تھا، اور اسی جستجو میں وہ ایک ایسی سرزمین پر جا پہنچا جو حیرت انگیز شان و شوکت کی حامل تھی۔ یہ سبا کی سلطنت تھی، اور اس کی ملکہ بلقیس، جس کا جاہ و جلال اپنی مثال آپ تھا۔

ہدہد نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو سورج کی پرستش کرتی تھی۔ وہ حیران ہوا کہ کس طرح ایک دانش مند حکمران اور اس کی رعایا روشنی کے دھوکے میں حقیقت سے منہ موڑ چکی تھی۔ اس نے فوراً سلیمانؑ کی بارگاہ میں واپسی کا قصد کیا۔ جب وہ سلیمانؑ کی خدمت میں پہنچا، تو سر جھکایا اور عرض کیا:

"میں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں سبا کی ایک عظیم سلطنت سے آیا ہوں جہاں ایک عورت حکمرانی کر رہی ہے۔ اسے ہر چیز دی گئی ہے، ایک عظیم تخت بھی رکھتی ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو سورج کو سجدہ کرتے پایا، جبکہ شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما بنا دیے ہیں اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے ہیں۔"

سلیمانؑ نے غور سے سنا، پھر فرمایا:

"ہم دیکھیں گے آیا تم نے سچ کہا یا تم جھوٹے ہو۔ میرا یہ خط لے جا اور ان کے پاس ڈال دے، پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔"

ہدہد برق رفتاری سے سبا پہنچا اور خط محل کے اندر جا گرایا۔ ملکہ بلقیس تخت پر براجمان تھی، اس نے خط اٹھایا اور بلند آواز میں پڑھا:

"بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ سُلَیْمٰنَ کی طرف سے ہے اور یہ کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس آ جاؤ۔"

نزولِ حرفِ کن

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے، جو علم کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر حق کو پالینا چاہتا تھا، مگر جتنا زیادہ وہ تلاش کرتا گیا، اتنا ہی وہ بھٹکتا چلا گیا۔ یہ ایک جستجو کی داستان ہے، جو ایک علمی تجسس سے شروع ہوتی ہے اور روحانی بیداری پر منتج ہوتی ہے۔

 تلاش

سنہ 1752، مغلیہ سلطنت کے زوال کا دور تھا۔ ہندوستان کی گلیوں میں بے چینی تھی۔ کہیں مغرب کے نظریات سر اٹھا رہے تھے، کہیں مدرسوں میں روایت پرستی کا غلبہ تھا، اور کہیں تصوف کے چراغ ٹمٹما رہے تھے۔

دہلی کے ایک مشہور مدرسے میں ایک نوجوان طالب علم زاہد علی بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے مختلف تفسیریں کھلی پڑی تھیں:

  • تفسیرِ کبیر (فخر الدین رازی)

  • الکشاف (زمخشری)

  • مدارک التنزیل (نسفی)

ہر صفحہ پلٹنے کے ساتھ، اس کے ذہن میں سوالات بڑھتے جا رہے تھے۔ اس کے اساتذہ اسے یقین دلاتے کہ حق یہی ہے، مگر اس کا دل کسی اور سچائی کی تلاش میں تھا۔

"کیا قرآن کی حکمت کو محض تفاسیر میں مقید کیا جا سکتا ہے؟" وہ سوچتا۔

خاموش گواہ

 پیش لفظ 

آج نماز فجر کے بعد جب میں نے  سورۃ غافر کی وہ آیت پڑھی، جس میں ایک مردِ مومن اپنے دل کی روشنی کو زبان کی جرأت میں ڈھالتا ہے، تو مجھے یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ جیسے صدیاں پیچھے پلٹ کر مجھے ایک لمحے میں کھینچ لائیں — وہاں، فرعون کے ایوان میں، ساز و رقص کی گونج میں، خوف اور غرور کی بُو میں، ایک آدمی خاموشی سے کھڑا ہے۔ بولنا چاہتا ہے، ڈرتا ہے، پھر بول پڑتا ہے — اور وقت گواہ بن جاتا ہے۔

میں دیر تک سوچتا رہا: کیا ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک مردِ مومن چھپا ہوا ہے؟ وہ جو سچ جانتا ہے مگر مناسب لمحے کا انتظار کرتا ہے؟ اور کیا سچ کی سب سے خوبصورت صدا وہی نہیں جو ظلم کی گونج میں گم ہو کر بھی تاریخ کا چراغ بن جاتی ہے؟

یہ ناولچہ — خاموش گواہ — میرے دل کے ایک گہرے گوشے سے نکلی ہوئی تحریر ہے۔ یہ فقط ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ میرے احساس کا وہ عکس ہے جو میں نے قرآن کی تلاوت کے دوران محسوس کیا۔ جب میں نے مردِ مومن کی باتیں پڑھیں، تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے مخاطب ہے — جیسے کہہ رہا ہو:
"ڈرو مت، کہو سچ، چاہے تمہیں اکیلا ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔"

میں نے اس داستان کو افسانوی روپ دیا، مگر دل میں اس کی حقیقت کی روشنی برابر جلتی رہی۔ میں چاہتا ہوں کہ قاری نہ صرف اسے پڑھے، بلکہ محسوس کرے — یوں جیسے وہ خود ایوانِ فرعون میں کھڑا ہو، یا خاموش گواہ کی زبان سے بول رہا ہو۔

یہ پیش لفظ نہیں، ایک دعائیہ عرض ہے:
اے اللہ! ہمیں بھی اُن لوگوں میں شامل فرما جو سچ بولتے ہیں، چاہے وقت کے فرعونوں کی تلواریں ہماری طرف ہی کیوں نہ اٹھی ہوں۔ آمین۔

احمد طیب 

۷ اپریل ۲۰۲۵ 

واہ کینٹ 

گدھ (افسانہ) کا تجزیہ

افسانہ نگار : آصف محمود 

زیتون کے پودے کی چھاؤں میں گڑیا سے کھیلتی میری بیٹی چلائی: بابا! بابا!

میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تو دیکھا، کھیت کی منڈیر پرایک آنکھ والا کریہہ صورت گدھ بیٹھا تھا۔ اس کے چھ پنجے تھے جو زمین میں اندر ہی اندر کسی آسیب کی طرح گھستے چلے جا رہے تھے۔

”میرے کھیت میں کیوں گھس آئے ہو“؟۔ میں نے اسے للکارا۔

 اس نے حقارت سے قہقہہ لگایا،  تمہارا کھیت؟“

”ہاں میرا کھیت۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اس مٹی میں جتنے زیتون کے درخت ہیں اس سے زیادہ میرے قبیلے کی قبریں ہیں“۔ 

گدھ بولا: ”ا ب تیرا یہاں کچھ بھی نہیں۔ گدھوں کی پنچایت نے یہ سب مجھے دے دیا ہے۔یہ کھیت، وہ صحرا، یہ اونٹنیاں، وہ کنویں، یہ باغ، وہ نخلستان، سب میرا ہے۔ تب اب ریت کے ذروں کی طرح بے توقیر ہوچکے ہیں۔ تمہارے گھروں میں صحرا کی ریت اڑے گی اور تمہاری بستیاں اجاڑ بیابان ہو جائیں گی “۔

 ”ٹھہر، اے دور کی زمینوں کے آسیب!“۔ میں تلوار سونت کر اس کی جانب بڑھا  لیکن وہ بھدی سی آواز میں شور مچاتا بھاگ گیا۔ 

رات: خامشیوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب

 رات ایک راز ہے۔ ایک ایسی کتاب جو دن کی روشنی میں کھلتی نہیں، مگر جیسے ہی اندھیرے کا پہرہ چھاتا ہے، یہ دھیرے دھیرے اپنے صفحے پلٹنے لگتی ہے۔ ہر صفحہ خاموشی میں ڈوبا ہوا، ہر لفظ کسی سُر میں بولا گیا، اور ہر جملہ دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ۔

جب سورج اپنی آخری سانس لیتا ہے اور آسمان پر چاند اپنے دھندلے لباس میں نمودار ہوتا ہے، تب فطرت کی زبان بدل جاتی ہے۔ پرندے سو جاتے ہیں، درختوں کی شاخیں ساکت ہو جاتی ہیں، اور فضاء میں خاموشی ایسے تیرنے لگتی ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو سکون کی چادر میں لپیٹ دیا ہو۔

رات ہمیں خود سے ملواتی ہے۔ دن کی ہنگامہ خیزیوں میں کھویا ہوا انسان، رات کے سناٹے میں اپنے دل کی آواز سنتا ہے۔ یہ وہ ساعت ہے جب یادیں دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں، خواب چپکے سے آنکھوں میں اترتے ہیں، اور ضمیر کسی پرانے خط کی طرح کھلتا ہے۔

چاندنی رات تو جیسے شاعر کا کاغذ ہے، اور چاند اس پر چلتی روشنائی۔ کوئی چاند کو یادوں کا آئینہ کہتا ہے، کوئی تنہائی کا ساتھی۔ جب ستارے آسمان پر جگنو بن کر بکھرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے آسمان نے اپنے سب راز روشن کر دیے ہوں — لیکن بغیر بولے، بغیر شور کیے، خاموشی کی زبان میں۔

شام: دھیمی روشنیوں کی گود میں

جب دن تھک کر سانس لیتا ہے، اور سورج اپنی لالی سمیٹ کر آسمان کے کنارے پر جا بیٹھتا ہے، تب فضا میں ایک انوکھی نرمی، ایک دھیمی سی سرگوشی جاگتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دن اور رات کی سرحد پر وقت کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر سا جاتا ہے۔

شام کوئی ایک رنگ نہیں، بلکہ ایک کینوس ہے جس پر قدرت ہر دن نیا منظر پینٹ کرتی ہے۔ آسمان کبھی سنہری ہوتا ہے، کبھی نارنجی، کبھی گلابی، اور کبھی نیلا ہوتا ہوا کالا۔ ہر رنگ، ہر سایہ، ہر دھندلاہٹ اپنے اندر ایک کہانی رکھتی ہے۔

شام صرف روشنی کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ایک احساس ہے — جیسے کسی نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ہو: "بس کرو، اب آرام کر لو۔"

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگتے ہیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں گھر کی طلب اور سکون کی تمنا چھپی ہوتی ہے۔ جیسے کائنات ہمیں یاد دلا رہی ہو کہ زندگی صرف دوڑ کا نام نہیں، لوٹ آنے کا نام بھی ہے۔

شام میں ایک روحانی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ اذانِ مغرب کی صدا جب فضا میں گونجتی ہے، تو دل بے ساختہ جھک جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن، پریشانیاں، اُلجھنیں — سب ایک سجدے میں پگھلنے لگتی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی اصل فطرت، اپنی اصل منزل کو محسوس کرتا ہے۔

زندگی کی دھوپ

دن کے عین وسط میں، جب سورج آسمان کے کنگن میں سب سے اونچا ہوتا ہے، تب دنیا پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب زندگی اپنی پوری توانائی کے ساتھ دھڑک رہی ہوتی ہے — جیسے فطرت نے خود کو دھوپ کی شکل میں ظاہر کر دیا ہو۔

دھوپ صرف روشنی نہیں، ایک احساس ہے۔ یہ تپش میں چھپی محنت کی علامت ہے۔ دوپہر کا وقت ہمیں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کراتا ہے: "زندگی، ایک مسلسل کوشش کا نام ہے۔" یہ وہ لمحہ ہے جب انسان دفتر کی میز پر جھکا ہوا ہوتا ہے، کسان کھیت میں پسینے سے شرابور ہوتا ہے، ماں چولہے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، اور مزدور سڑک پر کسی دیوار کی چھاؤں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔

پرندے اب خاموش ہو چکے ہیں، درخت بھی اپنی شاخوں میں ایک عجب سکوت سمیٹے کھڑے ہیں۔ فطرت جیسے تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئی ہو، تاکہ انسان کو اس کی آزمائش یاد دلائی جا سکے۔ یہ وقت محنت، عزم، صبر اور برداشت کا ہے۔ اگر صبح نویدِ تازگی تھی، تو دوپہر امتحانِ زندگی ہے۔

دھوپ ہمیں جھلساتی ضرور ہے، لیکن یہ وہی دھوپ ہے جو فصلوں کو پکا دیتی ہے، زمین سے نمی کھینچ کر بادلوں کو جنم دیتی ہے، اور آخرکار بارش کا پیغام بن کر واپس آتی ہے۔ زندگی کی دھوپ بھی ایسی ہی ہے — تھکا دیتی ہے، لیکن پختہ بھی کرتی ہے۔

نسیمِ سحر کی سرگوشی

صبح کی نرم سی آہٹ ہے۔

سورج ابھی افق کے پیچھے چھپا ہے، جیسے کوئی شرمیلا بچہ پردے سے جھانک رہا ہو۔ آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی کا رس گھل رہا ہے۔ کمرے کی کھڑکی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا، جیسے کوئی نرم ہاتھ ماتھے پر پیار سے رکھ دے۔

درختوں پر پرندے جاگ چکے ہیں۔ کوئی کوّی کوکنے لگا ہے، کوئی چڑیا چہک رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فطرت نے اپنی زبان میں دن کا خیرمقدم کیا ہو۔ ہر شاخ پر نغمگی ہے، ہر پتا سرگوشی میں کچھ کہہ رہا ہے۔ زمین شبنم کی چادر اوڑھے خاموش کھڑی ہے، اور ہوا میں سبزے کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔

یہ صبح محض ایک وقت نہیں، ایک کیفیت ہے۔
دن کا آغاز… اور دل کا سکون۔
یہ لمحہ دل کو چھو جاتا ہے، جیسے قدرت نے اپنی انگلی سے روح پر کوئی نقش بنا دیا ہو۔

ایسے میں انسان خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسی چھوٹے پن میں ایک عظمت چھپی ہے۔
کیونکہ وہ دیکھتا ہے…
خالق کی کاریگری۔
ہر رنگ، ہر آواز، ہر خوشبو — اُسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

یہ صبح ہمیں ایک پیغام دیتی ہے:
زندگی ہر دن نئی ہوتی ہے، جیسے سورج روز نیا طلوع ہوتا ہے۔
غم کی رات کٹتی ہے، اور روشنی کی کرن پردہ چاک کر دیتی ہے۔

یادوں کی چھاؤں

یادیں زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جس میں ہم اپنے آپ کو ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جب ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ہمیں ایک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی پرانے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ لے رہے ہوں۔ کبھی کبھار، یہ یادیں خوشی کی ہوتی ہیں، تو کبھی غم کی، لیکن ہر یاد ہمیں اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔

یادیں جیسے دریا کی سیلابی لہریں ہیں، جو ایک وقت میں آپ کو ڈبو دیتی ہیں، تو دوسرے وقت میں آپ کو کنارے تک لے آتی ہیں۔ وہ لمحے جو کبھی اتنے واضح تھے، آج محض دھندلے نقوش کی صورت میں ہمارے دماغ میں رہ گئے ہیں۔ اور یہی دھندلے نقوش کبھی ہمیں ہنسا دیتے ہیں، کبھی رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

یادیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم کب خوش تھے، کب غمگین، اور کب ہم نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی جیت یا شکست سنی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یادیں، چاہے وہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہر لمحہ اہم ہے، اور ہر لمحے کی قدر کی جانی چاہیے۔

یادوں کا ایک اور پہلو ہے، جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ ہم اپنی یادوں کے ذریعے اپنے ماضی کو زندہ رکھتے ہیں، اور ان یادوں کے ساتھ ہم اپنی موجودہ زندگی کی ہمت اور امید کا سفر طے کرتے ہیں۔

سجدۂ کائنات: اللہ کی عظمت ورضا کا پیغام

کائنات کی ہر شے میں ایک بے آواز سرگوشی ہے، ایک پُر اسرار گواہی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ ساری عظمت، یہ ساری زندگی، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ آسمان، زمین، دریا، ہوا، درخت، پرندے، اور حتیٰ کہ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بھی ایک ہی ہنر میں جُڑی ہوئی ہیں—سجدہ۔ سجدہ، جو نہ صرف جسمانی عمل ہے، بلکہ ایک گہرا روحانی پیغام بھی ہے، جو ہمیں اپنی حقیقت اور اس کائنات کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے ہمیں یہ حقیقت بتائی ہے کہ "آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے" (سورۃ الرعد 15)۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کائناتی حقیقت ہے جس میں چھپے ہیں بے شمار راز اور پیغامات۔ ان رازوں کی گہرائی میں جا کر ہم ایک نئی حقیقت کو دریافت کرتے ہیں: اللہ کی حکمت، اس کا نظام، اور اس کی بے پناہ عظمت۔

خواب اور حقیقت کی سرحد پر – انسانی ذہن کی ماورائی کیفیات

ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر پردۂ تخیل پر روشنی کا ایک ہالہ سا ابھرتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ شکلیں بنتی اور بگڑتی ہیں، کبھی مانوس، کبھی اجنبی۔ ایک دروازہ کھلتا ہے، اور ہم کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ یہ خواب کی دنیا ہے – حقیقت کے قریب مگر حقیقت سے ماورا۔ خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسانی ذہن، بیک وقت روشنی اور دھند میں لپٹا، حقیقت اور تصور کے سنگم پر حیرت انگیز مناظر تخلیق کرتا ہے۔

انسانی ذہن ایک پیچیدہ طلسمی قلعہ ہے، جس کے کئی دروازے ہیں۔ کچھ دروازے حقیقت کی جانب کھلتے ہیں، جہاں تجربات، مشاہدات اور منطق کی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔ مگر کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جو خوابوں، تخیل، اور ماورائی کیفیات کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دونوں دروازے آپس میں یوں جُڑ جاتے ہیں کہ حقیقت اور خواب کی لکیر مدھم ہو جاتی ہے۔ ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ خواب ہے یا حقیقت؟

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۲)

 باب دوم: ایک یتیم کا بچپن

حلیمہ سعدیہ کا قافلہ

مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر ایک قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ اونٹوں کی گھنٹیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں صحرا کی خاموشی میں گھل رہی تھیں۔ بنی سعد کے چرواہے اور عورتیں اپنے اپنے اونٹوں پر سوار تھیں، وہ سب کسی ایسے بچے کی تلاش میں تھے جسے وہ دودھ پلانے کے لیے لے جائیں، مگر مکہ کے خوشحال خاندانوں کے بچے پہلے ہی منتخب ہو چکے تھے۔

حلیمہ سعدیہ کے پاس ایک کمزور اونٹنی تھی، جو چلنے سے قاصر تھی، جبکہ ان کا نومولود بیٹا بھوک سے بلک رہا تھا۔ ان کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ نے افسوس سے کہا:

“حلیمہ، اس سال قحط نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ ہمیں شاید خالی ہاتھ لوٹنا پڑے۔”

حلیمہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ مکہ پہنچنے پر انہیں ایک یتیم بچے کی خبر ملی، جس کی والدہ آمنہ تھیں اور والد عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ یتیم ہونے کی وجہ سے کوئی اس بچے کو لینے پر تیار نہ تھا۔

حلیمہ کا فیصلہ

حلیمہ نے بچے کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں تھا، چہرے پر ایک نورانیت تھی جو عام بچوں سے مختلف تھی۔ ان کا دل پگھل گیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا:

“میں اس مبارک بچے کو لوں گی۔ شاید یہی ہمارے گھر میں برکت لے آئے۔”

اللہ کی تسبیح میں ڈوبی کائنات

کائنات ایک ایسی نظم ہے جو ہر لمحہ اپنے خالق کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہر ستارہ، ہر درخت، ہر دریا، ہر بادل، اور حتی کہ خاموشی بھی اپنی تسبیح میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی گہری رات ہو، اور چاند کی چمک میں سچائی کی جھرمٹ چھپی ہو، ویسے ہی یہ پوری کائنات اپنی سچائی میں ڈوبی ہوئی ہے—اللہ کی تسبیح میں۔ ہم میں سے ہر ایک، جو اس کائنات کا جزو ہے، کسی نہ کسی طریقے سے اس عظمت کے سامنے جھکا ہوا ہے۔

میرے دل میں ایک عجیب سی بات چلی آتی ہے، جب میں صبح کے وقت سورج کی پہلی کرن کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتا ہوں، تو کیا یہ کرن بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے؟ کیا یہ درخت جو اپنے پتے ہوا کے ساتھ رقص کرتے ہیں، اور یہ دریا جو اپنی گہرائیوں سے چپ چاپ گزر رہے ہیں، اللہ کے کلام کی گواہی دے رہے ہیں؟ یہ سب تسبیح میں مصروف ہیں، اور شاید ہم ہی ہیں جو اس حقیقت سے غافل ہیں۔

کائنات کی ہر ذی روح، چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، ایک لحن میں ہم آواز ہے۔ بادلوں کی گرج میں، درختوں کی سرسراہٹ میں، اور ہواؤں کی سرگوشیوں میں اللہ کا ذکر چھپاہوا ہے۔ یہ تسبیح کوئی لفظی اذکار نہیں، بلکہ ایک مسلسل عبادت ہے جس میں پوری کائنات کی زبان خاموش ہے، اور صرف دل کی گہرائیوں سے ادا ہوتی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھیں، تو ہماری زندگی کی حقیقت تبدیل ہو جائے گی۔ شاید پھر ہم نہ صرف اپنی زندگی کی تسبیح کر سکیں، بلکہ ہر پل، ہر لمحہ، اور ہر عمل کو ایک عبادت بنا سکیں۔