باب سوم: مکہ کی گلیوں میں ایک سچا نوجوان
رات کے سائے میں چلنے والا ایک منفرد نوجوان
مکہ کی گلیاں رات کے سائے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ستارے ٹمٹما رہے تھے اور ٹھنڈی ہوا خاموشی سے پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ ان ہی گلیوں میں ایک نوجوان اکثر چپ چاپ چلتا دکھائی دیتا، نہ کسی سے الجھتا، نہ بے مقصد گفتگو کرتا۔ وہ بازاروں میں بھی جاتا، مگر اس کی آنکھوں میں کوئی لالچ نہ ہوتا۔ سوداگری کا ہنر اسے خوب آتا تھا، مگر جھوٹ، دھوکہ، یا ناپ تول میں کمی؟ یہ سب اس کے لیے اجنبی چیزیں تھیں۔
یہ محمد بن عبداللہ ﷺ تھے۔
سچائی کا تاجر
وقت گزرتا گیا، اور محمد ﷺ کی ایمانداری، سچائی اور دیانت داری کی شہرت پورے مکہ میں پھیلنے لگی۔ تاجر انہیں اپنا مال دے کر مطمئن رہتے کہ نہ تو یہ نقصان اٹھائیں گے، نہ کسی کو دھوکہ دیں گے۔ مکہ کے لوگ انہیں "الصادق" (سچ بولنے والا) اور "الامین" (امانت دار) کے ناموں سے یاد کرنے لگے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب عرب کی تجارت کا مرکز شام اور یمن کے بازار تھے۔ قریش کے تاجر گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن کا سفر کرتے۔ ان ہی دنوں مکہ کی ایک مالدار، سمجھدار اور نیک دل خاتون، حضرت خدیجہؓ کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو ان کے تجارتی قافلے کو دیانت داری سے لے جائے۔
سفرِ شام اور ایک انوکھا مشاہدہ
محمد ﷺ کو حضرت خدیجہؓ کا پیغام ملا کہ وہ ان کا سامانِ تجارت لے کر شام جائیں۔ یہ ایک سنہری موقع تھا، مگر ان کے لیے تجارت صرف مال کمانے کا ذریعہ نہیں تھی، بلکہ سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کا ایک طریقہ بھی تھی۔
یہ قافلہ مکہ سے نکلا، ریگستان کے سنہری ذروں کے بیچ اونٹوں کی قطاریں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں۔ محمد ﷺ ہر چیز کا خیال رکھتے، ملازموں سے نرمی سے بات کرتے، راستے میں کسی مسافر کو تکلیف میں دیکھتے تو مدد کرتے۔
حضرت خدیجہؓ کا خاص غلام "میسرہ" بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ اس نوجوان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا، اور جو کچھ دیکھ رہا تھا، وہ حیرت انگیز تھا!
جب قافلہ "بصریٰ" پہنچا، جو شام کے قریب ایک بڑا تجارتی مرکز تھا، وہاں ایک قدیم خانقاہ تھی۔ اس خانقاہ میں ایک نصرانی راہب رہتا تھا، جو اہلِ کتاب کے علوم میں مہارت رکھتا تھا۔
محمد ﷺ ایک درخت کے سائے میں آرام کر رہے تھے۔ راہب کی نظر جیسے ہی ان پر پڑی، وہ چونک اٹھا۔ کچھ دیر وہ خاموش کھڑا رہا، پھر میسرہ سے کہا:
"یہ نوجوان کون ہے؟"
میسرہ نے جواب دیا: "یہ محمد بن عبداللہ ہیں، قریش کے معزز خاندان سے ہیں، اور مکہ کی ایک مالدار خاتون، حضرت خدیجہؓ کا مالِ تجارت لے کر آئے ہیں۔"
راہب کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس نے کہا:
"یہ وہی ہیں! میں نے ان کی علامات اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں۔ یہ نبی ہوں گے! دیکھنا، یہ نوجوان ایک دن دنیا کو روشنی عطا کرے گا!"
یہ سن کر میسرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے اس سفر میں محمد ﷺ کی کئی کرامات دیکھی تھیں، لیکن اب اس راہب کی پیشین گوئی نے اس کے دل میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کی متاثر کن شخصیت
جب تجارتی قافلہ واپس مکہ پہنچا، تو حضرت خدیجہؓ کو غیر متوقع خوشخبری ملی۔ ان کا مال کئی گنا زیادہ نفع کے ساتھ واپس آیا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ حیران کن بات وہ کہانیاں تھیں جو میسرہ نے سنائیں— ایمانداری، سچائی، دیانت داری، اور بصریٰ کے راہب کی حیران کن باتیں۔
حضرت خدیجہؓ ایک عام عورت نہ تھیں۔ وہ ذہین، سمجھدار اور بصیرت رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ محمد ﷺ کا کردار عام لوگوں سے مختلف ہے۔
ان کے دل میں ایک خیال آیا۔ کیا یہ وہی شخصیت نہیں، جس کا انتظار عرب کر رہا تھا؟ کیا یہ وہی نہیں جن کے ہاتھوں ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی؟
نکاح کی پیشکش
حضرت خدیجہؓ نے اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ کے ذریعے محمد ﷺ کو نکاح کی پیشکش بھجوائی۔
محمد ﷺ حیران ہو گئے۔
"مجھ سے؟ مگر میں تو یتیم ہوں، میرے پاس مال و دولت بھی نہیں!"
نفیسہ نے مسکرا کر جواب دیا: "خدیجہ کو دولت کی ضرورت نہیں، وہ تو تمہارے کردار سے متاثر ہیں۔"
یہ نکاح طے پا گیا۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ دیا، اور مکہ کی معزز ہستیوں کے درمیان ایک مبارک بندھن وجود میں آیا۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب کچھ محمد ﷺ کے سپرد کر دیا— اپنا مال، اپنا اعتماد، اپنی محبت۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ شخص عام نہیں، بلکہ عرب کی تقدیر بدلنے والا ہے۔
روشنی کے سفر کا اگلا مرحلہ
اب محمد ﷺ کی زندگی میں ایک نیا باب کھل چکا تھا۔ وہ شادی شدہ تھے، کامیاب تاجر بھی بن چکے تھے، مگر وہ جو بے قراری ان کے دل میں بچپن سے تھی، وہ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
وہ اکثر غارِ حرا کی طرف چلے جاتے، مکہ کی روشنیوں سے دور، دنیا کے شور سے الگ، کسی سچائی کی تلاش میں…
سوچنے کے لیے سوالات:
-
نبی کریم ﷺ کی ایمانداری اور سچائی نے ان کے تجارتی سفر کو کیسے منفرد بنا دیا؟
-
بصریٰ کے راہب نے محمد ﷺ کے بارے میں جو پیشین گوئی کی، اس کا کیا مطلب تھا؟
-
حضرت خدیجہؓ نے محمد ﷺ کو کیوں منتخب کیا، اور یہ نکاح اسلامی تاریخ میں کیوں اہمیت رکھتا ہے؟
-
محمد ﷺ کی شخصیت میں وہ کون سی صفات تھیں جنہوں نے انہیں عام لوگوں سے ممتاز بنا دیا؟
-
غارِ حرا کی طرف محمد ﷺ کا رجحان کس چیز کا اشارہ تھا؟