افسانہ نگار : آصف محمود
زیتون کے پودے کی چھاؤں میں گڑیا سے کھیلتی میری بیٹی چلائی: بابا! بابا!
میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تو دیکھا، کھیت کی منڈیر پرایک آنکھ والا کریہہ صورت گدھ بیٹھا تھا۔ اس کے چھ پنجے تھے جو زمین میں اندر ہی اندر کسی آسیب کی طرح گھستے چلے جا رہے تھے۔
”میرے کھیت میں کیوں گھس آئے ہو“؟۔ میں نے اسے للکارا۔
اس نے حقارت سے قہقہہ لگایا، تمہارا کھیت؟“
”ہاں میرا کھیت۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اس مٹی میں جتنے زیتون کے درخت ہیں اس سے زیادہ میرے قبیلے کی قبریں ہیں“۔
گدھ بولا: ”ا ب تیرا یہاں کچھ بھی نہیں۔ گدھوں کی پنچایت نے یہ سب مجھے دے دیا ہے۔یہ کھیت، وہ صحرا، یہ اونٹنیاں، وہ کنویں، یہ باغ، وہ نخلستان، سب میرا ہے۔ تب اب ریت کے ذروں کی طرح بے توقیر ہوچکے ہیں۔ تمہارے گھروں میں صحرا کی ریت اڑے گی اور تمہاری بستیاں اجاڑ بیابان ہو جائیں گی “۔
”ٹھہر، اے دور کی زمینوں کے آسیب!“۔ میں تلوار سونت کر اس کی جانب بڑھا لیکن وہ بھدی سی آواز میں شور مچاتا بھاگ گیا۔
دو موسم گزر گئے۔وہ گدھ نظر نہ آیا۔
پھر بہار کی رت میں ایک صبح، جب میری بیٹی گلاب چن رہی تھی، اور میں گھوڑے پر زین کس رہا تھا، وہ چلائی: بابا! بابا! وہ پھر آ گیا۔
میں نے دیکھا،وہی گدھ کھیت کی منڈیر پر بیٹھا تھا۔لیکن اب کی بار وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے پیچھے آسمان پر کالے سیاہ گدھوں کا ایک لشکر چلا آ رہاتھا۔
میں نے بیٹوں کو آواز دی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کمان اور تیر میں نے بیٹی کی طرف اچھال دیے اور عربوں کی بیٹیاں تیروں کو کمان پر یوں چڑھاتی ہیں جیسے ہار پرو رہی ہوں۔اس کے چلائے تیرکتنے ہی کریہہ صورت گدھوں کے سینے سے پار ہو گئے اور وہ کھیت تک پہنچنے سے پہلے ہی مردار ہو گئے۔
میں گھوڑے پر تلوار لیے آگے بڑھا۔ میرے گھڑسوار بیٹے بھی میرے پیچھے تھے۔ ان کے گھوڑے ہرنوں جیسے چابک دست اور شتر مرغ جیسی ٹانگوں والے تھے، وہ بھیڑیے کی طرح دوڑتے ہوئے اپنے سواروں کو لے کر کھیت کی منڈیر پر میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔
گدھوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جانے کن کن زمینوں کے گدھ تھے۔ یہ چیختے چنگھارتے چلے آ رہے تھے۔ ان کی بد صورت چونچوں سے آگ اگل رہی تھی، ان کے پروں میں آسیب تھا، یہ درختوں کے جس جھنڈ پر اترتے، وہ خشک ہو جاتا۔
”بھاگ جاؤ، بھاگ جاؤ“۔ گدھوں نے آواز لگائی۔
”اے کریہہ صورت گدھ ہم پہلے کبھی بھاگے ہیں جو اب بھاگ جائیں“؟
پھر خون کا رن پڑا۔ میرے بیٹے اسی طرح لڑے جیسے ماؤں نے انہیں لوریوں میں لڑنا سکھایا گیا تھا۔ یہ لڑائی بہت طویل تھی۔گھڑ سواروں پر کتنے ہی سورج طلوع ہوئے اور غروب ہو گئے۔ ہماری پور پور لہو ہو گئی مگر ہم نے پیٹھ پر کوئی زخم نہ کھایا۔ نیامیں ہم نے توڑ دیں اور ہم زرہوں کے بغیر لڑے۔ہمارے زخموں نے رجز کہے۔ہاں مگر ہم کم تھے، ہم گھائل ہو گئے۔ ہم نے شکست تو نہیں مانی، ہاں مگر ہم قتل ہو گئے۔ہم نے لہو سے انہیں سیراب کیا مگر ہاں، ہمارے کھیت صحرا ہو گئے۔ میرے بیٹوں کے لاشے یوں بکھر ے جیسے آندھی میں کھجور کا پھل گر جائے۔میری بیٹی کی کمان ٹوٹ گئی، اور اس کے جسم کے ٹکڑے گلاب کے پودں میں جا اٹکے۔
اب میں ہی بچ گیا تھا۔میرے جسم کو جگہ جگہ سے نوچا جا چکا تھا۔میں نہتا تھا، مگر میری تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹی تھی۔میرے بازو شل ہو چکے تھے، مگر وہ تیرچلا چلا کر شل ہو ئے تھے۔ میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں، مگر ان میں مزاحمت کے الاؤ سرد نہیں ہوئے تھے۔ کھیت کے بڑے حصے پر قبضہ ہو چکا تھا۔میں کنویں کے پاس زیتون کے ایک پودے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، میرے جسم سے خون رس رس کر زیتون کی جڑوں میں جذب ہو رہا تھا۔
گدھ میرے اوپر منڈلا رہے تھے۔ ان کی شکلیں مزید بد صورت ہو چکی تھیں۔ میں نے ایک چھڑی اٹھا لی کہ عرب جنگجو کو مزاحمت کے بغیر موت نہیں آتی۔
ساتھ والے کھیت میرے بھائیوں کے تھے۔ میری ٹوٹتی نگاہیں ادھر اٹھ گئیں۔
گدھ بولا: ”ادھر کیا دیکھتے ہو؟ یہ ہم گدھوں کا وقت ہے، اب کوئی ابابیل نہیں آئے گا۔یہ جوسب تیرے ہیں،یہ سب تیرے نہیں ہیں“۔
”اے بد صورت گدھ، وہ میرے بھائی ہیں۔وہ ضرور آئیں گے۔ وہ میرا انتقام لیں گے“۔
اتنے میں پڑوس کے کھیتوں سے شور اٹھا، اور تلواروں کے ٹکرانے کی آواز آئی۔”دیکھ میرے بھائی آ رہے ہیں۔ ان کی تلواروں کی آواز سن“۔
”یہ کند تلواریں ہیں، تیری مدد کو نہیں آ سکتیں۔ ان کی بجلیاں برفاب ہو چکیں، اب ان سے صرف رقص کیا جاتا ہے“۔گد ھ ہنستے ہوئے مزید بد صورت ہو گیا۔
میں نے گردن گھمائی، ساتھ والے کھیت میں کند تلواروں کا رقص ہو رہا تھا۔جھنکار بلندہوتی جا رہی تھی۔میں لڑکھڑا گیا، میری آنکھیں بند ہو نے لگیں۔میری سانسیں اب اکھڑ رہی تھیں۔میں نے ہمت جمع کی اور چھڑی ایک گدھ کی اکلوتی آنکھ میں پیوست کرد ی۔ باقی گدھ مجھ پر پل پڑے۔
جاں حلق تک آگئی تھی اور وہاں ایک سوال پھنسا تھا: یہ آگ کیا صرف میرے کھیت کو جلا کر ٹھنڈی ہو جائے گی؟ یہ گدھ کیا آگے نہیں بڑھیں گے؟
تبصرہ و تجزیہ
آصف محمود کا افسانہ "گدھ" علامتوں، استعاروں اور شعری طرزِ بیان میں لپٹا ہوا ایک سیاسی و تہذیبی احتجاج ہے، جو فلسطین کے مظلوم عوام کی جدوجہد، قربانی اور مزاحمت کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔
کہانی کا خلاصہ و فکری مرکز:
افسانے کا مرکزی کردار ایک فلسطینی کسان ہے، جو اپنی بیٹی اور بیٹوں کے ساتھ اپنے کھیت، اپنی زمین، اپنی تاریخ اور اپنے تشخص کی حفاظت کے لیے قابض "گدھوں" سے لڑتا ہے۔ یہ گدھ محض پرندے نہیں بلکہ استعمار، صیہونیت، اور وہ عالمی قوتیں ہیں جو کمزور اقوام کی زمینوں پر قبضہ کر کے اُن کی شناخت مٹا دینا چاہتی ہیں۔
گدھ نہ صرف زمین پر قبضہ کرتے ہیں بلکہ وہ ثقافت، نسل، پہچان اور مزاحمت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن کسان کا خاندان آخر دم تک لڑتا ہے — بیٹی کی شجاعت، بیٹوں کی قربانیاں، اور باپ کی زخمی حالت میں مزاحمت قاری کو بتاتی ہے کہ جنگ ہارنا اور شکست تسلیم کر لینا دو الگ باتیں ہیں۔
علامتی انداز اور استعارے:
-
گدھ: یہودی قابض، استعمار، عالمی بے حسی اور ظالم قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
-
زیتون کا درخت: فلسطین کی پہچان، ثقافت اور اس کی پائیدار مزاحمت کی علامت ہے۔
-
بیٹی اور بیٹے: نئی نسل کی وہ روحانی اور جسمانی طاقت ہے جو اپنی زمین کے لیے جان قربان کرتی ہے۔
-
کھیت: وہ سرزمین جو نسلوں کے خون سے سیراب ہوئی، جس پر قبضہ دراصل تاریخ اور شناخت پر قبضہ ہے۔
-
کند تلواروں کا رقص: مسلم دنیا کی بے عملی، نمائشی مزاحمت، اور بے اثر احتجاج کا آئینہ ہے۔
اندازِ بیان اور اسلوب:
آصف محمود نے نثر کو شاعری میں بدل دینے والی زبان استعمال کی ہے۔ جملے مختصر، لیکن دل چیرنے والے؛ مکالمے کم، لیکن صدیوں کی داستان سمیٹے ہوئے۔ اس افسانے کا اسلوب علامتی ادب کا اعلیٰ نمونہ ہے جہاں لفظ لفظ درد، مزاحمت اور سوال سے لبریز ہے۔
افسانے کا اختتامی سوال:
"یہ آگ کیا صرف میرے کھیت کو جلا کر ٹھنڈی ہو جائے گی؟ یہ گدھ کیا آگے نہیں بڑھیں گے؟"
یہ سوال صرف افسانے کے کردار کا نہیں، بلکہ مصنف کے قلم سے نکل کر قاری کے دل میں پیوست ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا سوال ہے کہ اگر ایک قوم کی زمین چھینی گئی، اس کے بچے شہید کیے گئے، اور ہم خاموش رہے، تو کیا کل یہ گدھ ہمارے کھیتوں پر نہیں اتریں گے؟
حاصلِ کلام:
"گدھ" ایک معمولی افسانہ نہیں بلکہ عصرِ حاضر کے ضمیر پر ایک ضرب ہے۔ یہ ایک چیخ ہے جو فلسطینی سرزمین سے اٹھتی ہے، اور ہر اُس انسان کو جھنجھوڑتی ہے جس کے دل میں انسانیت، آزادی، اور حق کی ایک رمق باقی ہے۔ آصف محمود نے اس افسانے میں ادب کو مزاحمت کی تلوار بنا دیا ہے — ایک ایسا بیانیہ جو صرف فلسطین نہیں بلکہ ہر مظلوم قوم کی آواز ہے۔