رات: خامشیوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب

 رات ایک راز ہے۔ ایک ایسی کتاب جو دن کی روشنی میں کھلتی نہیں، مگر جیسے ہی اندھیرے کا پہرہ چھاتا ہے، یہ دھیرے دھیرے اپنے صفحے پلٹنے لگتی ہے۔ ہر صفحہ خاموشی میں ڈوبا ہوا، ہر لفظ کسی سُر میں بولا گیا، اور ہر جملہ دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ۔

جب سورج اپنی آخری سانس لیتا ہے اور آسمان پر چاند اپنے دھندلے لباس میں نمودار ہوتا ہے، تب فطرت کی زبان بدل جاتی ہے۔ پرندے سو جاتے ہیں، درختوں کی شاخیں ساکت ہو جاتی ہیں، اور فضاء میں خاموشی ایسے تیرنے لگتی ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو سکون کی چادر میں لپیٹ دیا ہو۔

رات ہمیں خود سے ملواتی ہے۔ دن کی ہنگامہ خیزیوں میں کھویا ہوا انسان، رات کے سناٹے میں اپنے دل کی آواز سنتا ہے۔ یہ وہ ساعت ہے جب یادیں دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں، خواب چپکے سے آنکھوں میں اترتے ہیں، اور ضمیر کسی پرانے خط کی طرح کھلتا ہے۔

چاندنی رات تو جیسے شاعر کا کاغذ ہے، اور چاند اس پر چلتی روشنائی۔ کوئی چاند کو یادوں کا آئینہ کہتا ہے، کوئی تنہائی کا ساتھی۔ جب ستارے آسمان پر جگنو بن کر بکھرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے آسمان نے اپنے سب راز روشن کر دیے ہوں — لیکن بغیر بولے، بغیر شور کیے، خاموشی کی زبان میں۔

رات صرف سونا نہیں، سوچنے کا وقت ہے۔ کبھی کسی کے بغیر کہے الفاظ سننے کا وقت، کبھی کسی یاد کے گلے لگنے کا وقت، کبھی صرف آنکھیں بند کرکے آسمان کی طرف دیکھنے کا وقت۔

کچھ لوگوں کے لیے رات خوف ہے، تنہائی ہے؛ اور کچھ کے لیے رات سکون ہے، الہام ہے۔ کچھ اس میں کھو جاتے ہیں، کچھ اس سے ڈرتے ہیں، مگر کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

اور جب اذانِ فجر کی آواز شب کے سناٹے کو چیرتی ہے، تو لگتا ہے رات نے اپنی کہانی ختم کر لی — اب دن کا نیا باب شروع ہونے والا ہے۔

(احمد طیب)