جب دن تھک کر سانس لیتا ہے، اور سورج اپنی لالی سمیٹ کر آسمان کے کنارے پر جا بیٹھتا ہے، تب فضا میں ایک انوکھی نرمی، ایک دھیمی سی سرگوشی جاگتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دن اور رات کی سرحد پر وقت کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر سا جاتا ہے۔
شام کوئی ایک رنگ نہیں، بلکہ ایک کینوس ہے جس پر قدرت ہر دن نیا منظر پینٹ کرتی ہے۔ آسمان کبھی سنہری ہوتا ہے، کبھی نارنجی، کبھی گلابی، اور کبھی نیلا ہوتا ہوا کالا۔ ہر رنگ، ہر سایہ، ہر دھندلاہٹ اپنے اندر ایک کہانی رکھتی ہے۔
شام صرف روشنی کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ایک احساس ہے — جیسے کسی نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ہو: "بس کرو، اب آرام کر لو۔"
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگتے ہیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں گھر کی طلب اور سکون کی تمنا چھپی ہوتی ہے۔ جیسے کائنات ہمیں یاد دلا رہی ہو کہ زندگی صرف دوڑ کا نام نہیں، لوٹ آنے کا نام بھی ہے۔
شام میں ایک روحانی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ اذانِ مغرب کی صدا جب فضا میں گونجتی ہے، تو دل بے ساختہ جھک جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن، پریشانیاں، اُلجھنیں — سب ایک سجدے میں پگھلنے لگتی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی اصل فطرت، اپنی اصل منزل کو محسوس کرتا ہے۔
شام ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دن کا اختتام ہوتا ہے، لیکن یہ اختتام مایوسی نہیں — بلکہ تیاری ہے نئے آغاز کی۔ یہ وہ وقفہ ہے جو دن اور رات کے بیچ ایک پل بناتا ہے۔
اور یوں، شام کا دھندلکا صرف رات کی نوید نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں میں اترنے کا وقت ہے — وہ لمحہ جب دنیا تھمتی ہے اور انسان خود سے مخاطب ہوتا ہے۔
(احمد طیب)
یہ بھی پڑھیں !