جنت کی موتی : زینب

گلی کی دیواروں پر اب بھی اس کے ننھے ہاتھوں کے نشانات باقی تھے، اور ایک دیوار پر اس کی اسکول کی کاپی سے پھاڑ کر چپکایا گیا ایک رنگین سٹیکر ابھی تک موجود تھا، جس پر لکھا تھا: "میری گڑیا سب سے خوبصورت ہے۔" وہی زینب، جو ہر صبح اسکول جاتے ہوئے کھڑکیوں میں کھڑی عورتوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا کرتی تھی، جو ہر گلی کے موڑ پر رک کر اپنی گڑیا کو سنوارتی تھی، جس کے ننھے پاؤں گلی کے ذروں کو محبت سے چھوتے تھے۔ آج وہ گلی، وہی موڑ، وہی دیواریں سب خاموش تھے۔
زینب کی ماں ایک ہفتے سے بے ہوشی اور ہوش کے درمیان کہیں معلق تھی۔ اس کے چہرے پر پژمردگی طاری تھی، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے گواہ تھے کہ نیند اس کی دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ کبھی وہ زینب کے بستر پر جا کر اس کی چادر سنوارتی، کبھی دروازے پر جا کر خاموشی سے باہر جھانکتی جیسے ابھی زینب بھاگتی ہوئی آئے گی اور ماں کے سینے سے لگ جائے گی۔ اس کی آنکھیں رو رو کر پتھر ہو چکی تھیں، اور زبان سے ایک ہی جملہ نکلتا تھا:

"میری بچی کہاں چلی گئی؟ وہ تو بس چند لمحوں کے لیے نکلی تھی، واپس کیوں نہیں آئی؟"
وہ دن، جب زینب لاپتہ ہوئی تھی، پورے محلے کے لیے قیامت کی گھڑی تھا۔ ہر دروازے پر دستک دی گئی، ہر گلی کی خاک چھانی گئی، مگر زینب کہیں نہ ملی۔ زینب کا باپ، جو ہمیشہ اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے رکھتا تھا، آج دربدر اس کی تلاش میں تھا۔ ایک باپ کی بے بسی، ایک ماں کی چیخیں اور ایک بہن کی سسکیاں… سب بے سود۔
پھر وہ خبر آئی، جس نے پورے پاکستان کے دل کو چیر کر رکھ دیا۔

"ایک بچی کی لاش ملی ہے۔ وہ زینب ہے۔"

لاش کو دیکھنے والا ہر شخص ساکت ہو گیا۔ زینب کا ننھا سا وجود بے جان تھا، مگر چہرے پر ایک سوال تھا، ایک احتجاج تھا۔ وہ ننھی آنکھیں جن میں کبھی خواب تیرتے تھے، آج سوال کر رہی تھیں: "یہ میرے ساتھ کیوں ہوا؟ میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟"
پوری قوم چیخ اٹھی۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے کونے کونے میں احتجاجی ریلیاں نکلیں۔ لوگوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر "زینب کو انصاف دو" اور "ہماری بچیوں کو بچاؤ" جیسے نعرے درج تھے۔ سوشل میڈیا پر مہم چلی، ہر چینل پر زینب کے لیے آواز بلند ہوئی۔ مگر انصاف… انصاف کہاں تھا؟

عدالتوں میں بحثیں ہوئیں، ٹی وی پر پروگرام چلے، سیاست دانوں نے بیانات دیے، مگر انصاف کی راہ میں روایتی قانونی پیچیدگیاں، تاخیری حربے، اور بے حسی حائل رہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ ٹھنڈا پڑتا گیا، اور مظلوم کی پکار فائلوں کے بوجھ تلے دبنے لگی۔ مگر زینب کی ماں کے لیے سب بے معنی تھا۔ اس کے کانوں میں آج بھی وہی الفاظ گونج رہے تھے:

"امی! میں تھوڑی دیر میں واپس آؤں گی۔"

زینب تو جنت کی موتی بن گئی، مگر اس کی چیخیں اس زمین پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئیں۔ اس کے خواب، اس کی ہنسی، اور اس کے ننھے قدموں کی گونج آج بھی اس کی کہانی سنانے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ شاید ایک دن، کوئی اور زینب اس دنیا میں مسکرا سکے، اگر ہم نے اس درد کو فراموش نہ کیا۔ اور وہ گلی، جو کبھی زینب کی ہنسی سے گونجتی تھی، آج ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں !