چاندنی کا خوف

رات کے سکوت میں جب چاندنی نے اپنی نرم روشنی سے گلیوں کو چھوا، وہ معصوم بچی چھت پر کھیلنے نکلی۔ اس کی مسکراہٹ اتنی پُر اثر تھی کہ جیسے ساری دنیا کو جگا دے۔ کبھی وہ درختوں کے نیچے چھپ کر، کبھی چاندنی کے دائرے میں دوڑتے ہوئے خوشی سے جھومتی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بے خوفی تھی۔ وہ رات کے اندھیرے سے کبھی نہیں ڈرتی تھی، کیونکہ اس کے لیے رات کا یہ وقت ایک نیا کھیل تھا، ایک نئی مہم تھی۔

"چاندنی!" وہ کبھی ہنستے ہوئے کہتی، "آج پھر ہم دوستی کرنے آئے ہیں!" اور پھر وہ چھت کی ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑتی، جیسے کوئی پرندہ آزادی کی قید سے نکل کر آسمان پر پرواز کر رہا ہو۔

لیکن ایک رات، جیسے ہی چاندنی نے اپنی نرم چمک چھت پر ڈالی، وہ بچی جو کبھی رات کے اندھیرے میں بھی نہیں ڈرتی تھی، اچانک خاموش ہو گئی۔ کوئی تھا جو اس کی ہنسی چھیننے کے لیے چھپ کر آیا تھا۔ رات کا سکوت، جو کبھی سکون بھرا تھا، اب خوف کی گونج بن چکا تھا۔

اس کی ماں، جو دن بھر کام میں مصروف رہتی تھی، رات کے وقت اپنی بچی کے کمرے کے دروازے کے قریب آ کر رک گئی۔ وہ اکثر راتوں کو اپنے بیٹے کی نیند کے درمیان جاگتی رہتی تھی، مگر اس رات ایک الگ سا خوف تھا، دل میں گہری سنسناہٹ تھی۔ اس نے سوچا، "کہاں ہے میری بچی؟ وہ رات کا یہ وقت ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ گزارتی تھی، آج کیوں نہیں آئی؟"

یہ گلی، جو کبھی اس کی ہنسی سے گونجتی تھی، آج خوف کی خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایک پرانا لمحہ دوبارہ زندہ ہو گیا تھا، جب یہ بچی چھت پر کھیلتے ہوئے کبھی آوازیں نکال کر اپنی ماں کو پکارا کرتی تھی۔

اسی لمحے گلی کے در و دیوار پر ایک اور خاموشی چھا گئی۔ خوف کا ایک بادل ہر طرف پھیل گیا، جیسے وہ چاندنی جو کبھی سچائی اور سکون کا پیغام لاتی تھی، اب اپنی روشنی سے بھی دھندلا گئی ہو۔ وہ بچی، جس نے کبھی رات کے اندھیرے میں چھپنے کی بجائے چاندنی سے باتیں کیں، اب اس کا خوف کا سامنا کر رہی تھی۔

اور جب اس کی ماں نے اس کی آخری چیخ سنی، وہ چیخ جو کبھی نہیں سنی تھی، تو اس کا دل بھی رک گیا۔ وہ ماں، جو اپنے بچے کے ساتھ رات گزارتی تھی، اب اس کی گمشدگی کو کیسے برداشت کرتی؟ اس کی آنکھوں میں اس کی بچی کی ہنسی کی ایک آخری یاد کی طرح چمک تھی، جو اس کے دل کو کچل کر رہ گئی تھی۔

وہ بچی، جو کبھی چاندنی کی روشنی میں ڈوب کر سو جاتی تھی، آج اس کی یادیں اس گلی میں ہمیشہ کے لیے چھپ کر رہ گئیں۔