تاریخ کے کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر ایک معاہدہ، ایک کانفرنس، یا ایک دستخط ہوتے ہیں، مگر درحقیقت وہ قوموں کی صدیوں پر محیط تقدیر بدل دیتے ہیں۔ سان ریمو کانفرنس (اپریل 1920) اسی نوعیت کا ایک سانحہ تھا۔ فرانس اور برطانیہ نے اٹلی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر مشرقِ وسطیٰ کی سلطنت عثمانیہ کو یوں چیر پھاڑ کر بانٹا گویا قصاب کسی بےجان شکار کو تقسیم کر رہا ہو۔
لبنان اور شام فرانس کے حوالے، عراق اور فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلے گئے۔ یوں مشرق وسطیٰ کے دل میں استعمار نے ایسی سیاسی و تہذیبی سرنگیں نصب کیں جن کے دھماکے آج بھی فلسطین، شام، عراق اور لبنان میں گونجتے ہیں۔
لیکن ظلم صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہ رہا۔ برصغیر بھی انہی سامراجی قوتوں کی چالاکیوں کا شکار ہوا۔ جس طرح فلسطین میں اسرائیل کا زہریلا پودا بویا گیا، اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی وحدت کو توڑ کر ایک ایسا دائمی زخم لگا دیا گیا جس کا نام آج بھی کشمیر ہے۔
استعمار جاتے جاتے دو "تھانیدار" مقرر کر گیا: مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل، اور برصغیر میں بھارت — جو ہر لمحہ اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں کو دبانے اور ان کی آزادی کی سانس کو گھونٹنے پر مامور ہیں۔
یہ وہ بیج ہیں جو سو سال قبل بوئے گئے تھے، اور آج ہم ان کی تلخ، زہریلی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آج بھی ان تقسیموں کو محض ماضی کا قصہ سمجھ کر بھولے بیٹھے ہیں، جبکہ دشمن آج بھی انی سازشوں کو اپنی تازہ حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔
کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم ماضی کی ان بندوق بردار تحریروں کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنی نئی راہیں خود تراشیں؟