فلسفہ، انسانی شعور کا وہ ارتقائی سفر ہے جو "کیا"، "کیوں"، اور "کیسے" کے سوالات سے جنم لیتا ہے۔ یہ سفر ازل سے جاری ہے، اور ہر دور نے اپنی مخصوص ذہنی ساخت، علمی تناظر اور تمدنی ضرورتوں کے مطابق فلسفے کی نئی جہات کو جنم دیا۔ اگر ہم قدیم فلسفے کو "وجود کے شعور" کا دور کہیں، تو جدید فلسفہ کو "شعور کے وجود" کا دور کہنا بے جا نہ ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں ہم قدیم اور جدید فلسفہ کے افکار، محرکات، طرزِ استدلال اور اہداف کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے۔
1. علم کا منبع: عقل یا تجربہ؟
قدیم فلسفہ بالخصوص سقراط، افلاطون اور ارسطو کے ہاں عقل ہی علم کا اصل منبع سمجھی جاتی تھی۔ افلاطون "عالمِ مثل" کا قائل تھا، جہاں سچی حقیقتیں ماورائے حواس موجود تھیں۔ ارسطو نے اگرچہ تجربے کو اہمیت دی، مگر اس کا مقصد "کلیات" تک پہنچنا تھا، نہ کہ صرف مشاہداتی سچائیوں پر قناعت۔
جبکہ جدید فلسفہ (خاص طور پر دکارٹ، ہیوم، کانٹ کے بعد) نے علم کی بنیاد پر شک، تجربہ، اور شعور کو مرکوز کر دیا۔ رینے دکارٹ نے "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں" کے ذریعے فلسفے کی بنیاد کو انا اور شک میں تبدیل کیا۔ ہیوم نے تجرباتی بنیاد کو مقدم جانا، اور کانٹ نے دونوں کے درمیان ایک "نقادانہ مصالحت" کی کوشش کی۔
2. وجود اور حقیقت کا تصور
قدیم فلسفہ میں وجود ایک کلی اور معروضی حقیقت تھا، جو ذہن سے باہر اپنی اصل میں موجود تھا۔ افلاطون کی مثالی دنیا ہو یا ارسطو کی علتِ غائی، حقیقت کا منبع انسانی شعور نہیں بلکہ ایک خارجی اور مابعد الطبیعیاتی ترتیب تھا۔
جدید فلسفہ نے وجود کو ذہن کی پیداوار سمجھنا شروع کیا۔ کانٹ کے ہاں "چیز بذاتِ خود" اور "چیز برائے شعور" کا فرق نمایاں ہوا۔ بعد میں ہگل، شپنہاور اور ہائیڈیگر نے وجود کی تعبیر کو اور بھی داخلی، جدلیاتی اور وجودیاتی رنگ دیا۔
3. اخلاقیات کا ماخذ
قدیم فلسفہ میں اخلاقیات کا دار و مدار ایک "مطلق خیر" پر تھا۔ سقراط کے مطابق اخلاقی خوبی عقل سے نکلتی ہے؛ افلاطون کے مطابق "نیکی کی مثال" ہر چیز کا ماخذ ہے؛ اور ارسطو کے ہاں "اعتدال" اصل نیکی ہے۔
جدید فلسفہ میں اخلاقیات کا تعلق انسانی آزادی، نیت، اور مقصدیت سے جڑ گیا۔ کانٹ نے "فرض کا اخلاق" پیش کیا، جہاں نیکی نیت سے جنم لیتی ہے، نہ کہ نتائج سے۔ اس کے برعکس نطشے نے اخلاق کو طاقت کے ارادے سے جوڑا اور "روایتی اخلاقیات" کو ایک غلامانہ ذہنیت قرار دیا۔
4. مذہب اور ماوراء فہم حقائق
قدیم فلسفہ اگرچہ دیومالائی اور مذہبی نظاموں سے متصادم رہا، مگر اس نے مابعد الطبیعیاتی سچائیوں کو تسلیم کیا۔ افلاطون اور ارسطو کے ہاں ایک اعلیٰ خیر، ایک اولین محرک، اور ایک غیرفانی روح کا تصور موجود تھا۔
جبکہ جدید فلسفہ نے مذہب کو عقل اور تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا۔ دکارٹ، اسپینوزا، کانٹ، اور خاص طور پر فیورباخ، ہیگل اور مارکس نے مذہب کو انسانی شعور، نفسیاتی ضرورت یا سماجی تشکیل کے طور پر دیکھا۔
5. انسان کا تصور
قدیم فلسفہ میں انسان ایک اخلاقی، سیاسی اور فطری مخلوق تھا، جسے ایک خاص ترتیب کے ساتھ معاشرے میں کردار ادا کرنا تھا۔
جدید فلسفہ میں انسان آزاد شعور کا حامل، خودمختار فیصلہ کرنے والا، اور دنیا کو معنی دینے والا مرکز بن گیا۔ جدیدیت کا انسان "سوچنے والا خود" ہے، جو کائنات کو اپنی نگاہ سے ترتیب دیتا ہے۔
قدیم فلسفہ کائنات میں انسان کی جگہ دریافت کرنا چاہتا تھا، جبکہ جدید فلسفہ کائنات کو انسان کی روشنی میں دیکھنے لگا۔ دونوں میں فرق زاویہ نظر کا ہے، مگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے: حقیقت کی تلاش، شعور کی گہرائی، اور انسانی زندگی کو معنی دینا۔
یونانی افلاطونی مکتب سے لے کر جرمن تنقیدی فلسفے تک، اور پھر مسلم مفکرین جیسے ابن سینا، الفارابی، الغزالی اور ابن رشد کے ذریعے یہ سفر ایک عظیم فکری تسلسل میں بدل گیا، جس نے بالآخر جدید سائنسی اور فکری دنیا کی بنیاد رکھی۔